نظمیں ۔۔۔ عارفہ شہزاد

 

تشنگی کی قسم!

­____________________________

 

یہاں دن رات کے عنصر کی یکجائی

کہاں دشوار ہے

بس ذائقے ترتیب دیتے ہاتھ

میری دسترس میں ہوں

ہوا کے پر لگاؤں

آسمانوں کے افق چھو لوں

ستارے ٹانک دوں چاہوں جہاں

سارے میں پھیلوں چاندنی بن کر

بھروں مٹھی میں سورج

اور آنچل کو دھنک سے رنگ لوں

گر ذائقے ترتیب دیتے ہاتھ

میری دسترس میں ہوں

انھیں تھاموں

قدیم اک آرزو کے رتھ میں بیٹھوں

اور فراموشی کے جنگل میں نکل جاؤں

میں ان پوروں کی خوشبو

جذب کر لوں

اور سنوں دھڑکن کا سازینہ

گھلا دوں لمس کے شیشے میں

صہبائے بدن

اور نشہ ہستی میں جھوموں میں

اگر وہ ذائقے ترتیب دیتے ہاتھ

میری دسترس میں ہوں!

٭٭٭

 

پہلی ملاقات کی پہلی نظم

­____________________________

 

پہلی ملاقات کی پہلی نظم

لکھی جاتی ہے

ڈائری کے پنے پر

آنکھیں لو دیتی ہیں

قلم پاؤں پاؤں چلتا ہے

اور کلکاریاں گونجنے لگتی ہیں

ان دیکھے جذبوں کی

 

پہلی ملاقات کی پہلی نظم

آکاس بیل ہوتی ہے

لپٹ جاتی ہے

محبت کے تنومند شجر سے

اور پھیلتی چلی جاتی ہے

 

پہلی ملاقات کی پہلی نظم

ماہ نیم ماہ کی طرح

طلوع ہوتی ہے

اور رات

حیرت سے

جھانکتی رہ جاتی ہے

 

پہلی ملاقات کی پہلی نظم

قطبی ستارہ ہوتی ہے

پیوست کر دیتی ہے

راستوں کے کنارے

اور لفظوں کے پاؤں

تھرکنے لگتے ہیں

 

پہلی ملاقات کی پہلی نظم

ہوتی ہے

ہرنی جیسی

اور دھڑکتا رہتا ہے

اس کا سراسیمہ دل

وہ نہیں جانتی

وہ چلتی ہے

تو کائنات تھم جاتی ہے

 

پہلی ملاقات کی پہلی نظم

آنکھ ہوتی ہے

جو تکتی رہتی ہے راستہ

ان گنت ملاقاتوں کا!

٭٭٭

 

 

 

 

تم آتے ہو!

­____________________________

 

 

تم بولتے ہو

اور

سانس کی ڈوری

ہموار ہونے لگتی ہے

ستارے

آسمان سے

جھانکتے ہیں

اور جلد کے مساموں تلے

سنہری دیے جل اٹھتے ہیں

 

تم ہنستے ہو

بھر جاتی ہیں پھولوں سے

کاسنی بیلیں

نکھرنے لگتا ہے

موتیے کا چمپئی رنگ

اور سماعت

کھل اٹھتی ہے

 

تم دیکھتے ہو

اور ہوا

کھڑکی کی اوٹ سے

مسکرانے لگتی ہے

آسمان کی آغوش میں

ہمکنے لگتے ہیں بادل

 

تم آتے ہو

سمٹ آتے ہیں

سارے نظارے

ایک ہی دائرے میں

اور لبریز ہو جاتا ہے

کائنات کا دل!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے