اب کب آؤ گے۔۔۔؟
لمبی چھٹی کے بعد گھر سے مدرسے گیا اور خیریت بتانے کے لیے گھر فون کیا، تو ماں جی نے پوچھا:
’’اب کب آؤ گے؟‘‘ میں نے کہا اب تو نہیں آؤں گا بس۔
فوراً بولیں ’’جب تک میں زندہ ہوں، تب تک آتے رہو اور جب میں چلی جاؤں گی پھر کون بلائے گا۔۔۔!‘‘
کتنی درد ناک کہانی ہے۔
’’کیا یہ صرف تمھاری کہانی ہے؟‘‘ اس نے اپنے دوست سے کہا اور خاموش ہو گیا۔
اس کی آنکھیں خود بھی بھیگ گئی تھیں، کتنی دیر تک وہ یونہی کھلے آسمان کو دیدے پھاڑے دیکھتا رہا تھا۔ عثمان نے اسے ٹہوکا دیا ’’ابے تو کہاں کھو گیا۔۔۔؟‘‘
’’کچھ نہیں یار، بس یونہی امی کی یاد آ رہی تھی۔‘‘
’’تو تم رو کیوں رہے ہو؟‘‘
دلاسہ دیتے سمے اس کی آواز بھی رندھ گئی۔ میں سوچنے لگا کہ ادیبوں اور شاعروں سے لے کر گیت نگاروں نے لڑکی کے بابل کے آنگن سے جانے پر کتنا کچھ لکھا ہے۔۔۔ لیکن ہاسٹل کے لیے گھر سے بچپن میں ہی دور کر دیے جانے والوں کے دلوں کا حال کیوں نہیں لکھا۔۔۔؟ وہ جن کے بچپن کو لڑکپن اور نوجوانی میں بدلتے ہوئے ان کی مائیں نہیں دیکھ پاتیں۔۔۔ اور وہ بچے جو اپنے گھروں سے اپنی ماؤں سے ملنے کو سال بھر میں فقط چند دن پاتے ہیں۔۔۔ وقت نکلا جاتا ہے، ہم پڑھ لکھ کر کچھ بن جاتے ہیں، لیکن ماؤں کے ساتھ نہ گزارے جانے والے وقت کا ازالہ کبھی نہیں ہو پاتا۔۔۔
٭٭
یا اللہ بارش روک دے۔۔۔!
اس دن صبح سے ہی پانی برس رہا تھا۔ ہم سارے بہن بھائی اپنے کچے مکان کے سب سے کم پانی ٹپکنے والے کمرے میں دبکے ہوئے تھے۔ دونوں بہنیں جو اکثر آپس میں جھگڑتی یا ادھم مچاتی رہتی تھیں، وہ آج ایک دوسرے سے لگی خاموش بیٹھی ہوئی تھیں۔ جیسے ہی بادل کی ذرا تیز گرج ہوتی دونوں کے چہروں پر پھیلی خوف کی لکیریں کچھ اور گہری ہو جاتیں۔ چھوٹے بھائیوں کو بھی خوف اور اندیشے کے ایسے ہی جذبات نے جکڑ رکھا تھا۔
عموماً یوں ہوتا تھا کہ امّاں کو کھانا پکانے میں ذرا دیری ہوتی، تو چھوٹے بہن بھائی آندھی کاٹ دیتے تھے۔ آج دوپہر سے شام ہو گئی تھی، لیکن دو وقت سے بھوکے ہونے کے باوجود انھوں نے کوئی شکوہ بھی نہ کیا تھا۔ شاید دیکھ چکے ہوں گے کہ مٹی کا چولھا پانی میں بھیگ کر تقریباً گارہ بن چکا ہے اور لکڑی اتنی گیلی ہو چکی ہے کہ اسے جلانا ممکن نہیں۔
امّاں اور ابو بارش کے اس جَھڑی میں صحن اور چھپر کے درمیان پاگلوں کی طرح بھاگا دوڑی میں مصروف تھے۔ امّاں کچی دیوار کے جڑوں کے سوراخوں سے پھوٹ کر گھر میں گھسنے والے گلی کے برساتی پانی کو روکنے کی جد و جہد میں لگی ہوئی تھیں۔ وہ کبھی ان میں پرانے کپڑے ٹھونسنے کی کوشش کرتیں، کبھی مٹی ڈالتیں اور کبھی اینٹ کے ٹکڑے ’فِٹ‘ کرنے کی کوشش کرتیں، لیکن پانی تھا کہ بار بار اپنا راستہ بنا لیتا تھا۔ ادھر ابو چھپر پر ’مورچہ‘ سنبھال رہے تھے۔ جہاں جہاں سے پانی کمرے میں ٹپک رہا تھا ان چھیدوں کو بند کرنے کے لیے وہ بھی وہی تدابیر اپنانے کی کوشش کر رہے تھے جو امّاں دیواروں پر آزما رہی تھیں۔
امّاں اور ابو بارش میں تر بتر تھے، لیکن نہ تو چھپر ٹپکنی بند ہوئی اور نہ ہی کچی دیوار کی جڑ سے جاری چشمے تھم سکے۔ امّاں بھیگی ہوئی کمرے میں آئیں اور پانی ٹپکنے والی جگہ رکھے لوہے کے بڑے صندوق کو پیچھے دھکیلنے لگیں۔ ہم بہن بھائی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کے ساتھ اماں کی مدد کو آگے بڑھے۔
ابو چھپر سے اتر آئے اور صحن میں آنے والے گلی کے برساتی پانی کو نکالنے کی ترکیب سوچنے لگے۔ بہت دیر تک تو وہ بھی کچی دیوار کی جڑ میں موجود سوراخ بند کرنے کی کوشش کرتے رہے، پھر انہوں نے پرانی بالٹی سنبھال لی اور کچے دالان تک آنے والے پانی کو بھر بھر کر باہر لے جا کر پھینکنا شروع کر دیا۔ اماں صندوق کھسکا کر باہر آئیں، تو ابا کے ساتھ لگ گئیں۔ اب وہ بالٹی بھر بھر کر دروازے تک لے جا کر ابو کو پکڑا دیتیں اور وہ اسے دور پھینک آتے۔ اس دن نہ جانے کتنی دیر تک اماں اور ابو پانی باہر پھینکتے رہے اور ہم بہن بھائی چھوٹے چھوٹے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے رہے کہ ’’یا اللہ بارش روک دے۔۔۔!‘‘
٭٭
ماں سے یوں ملتا، جیسے ’عمر قید‘ کا مجرم!
ہوش سنبھالتے ہی ایک عجیب ’غریب الوطنی‘ میرا مقدر بن گئی۔۔۔ یعنی بچپنا ٹھیک سے شروع بھی نہ ہوا تھا کہ تربیت اور تعلیم کے نام پر اٹھا کر گاؤں سے پرے ایک ’اسکول‘ میں پھینک دیا گیا۔۔۔ یہاں ہفتے کے سات میں سے چھے دن اِس انتظار میں گزرتے کہ جمعے کو ہم اپنے گھر جاؤں گا۔۔۔ بہت دیر تک امّاں سے لپٹا رہوں گا، پاس بیٹھ کر انھیں ہی دیکھتا رہوں گا۔۔۔
بہن بھائیوں سے ہفتے بھر کی جمع کی ہوئی ڈھیر ساری باتیں کروں گا، مگر ساتواں دن بھی اس عالَم میں گزرتا کہ اس کا ایک پہر تو گھر پہنچتے پہنچتے ہی بیت چکا ہوتا اور دوپہر تک یہ سارے ارمان آدھے بھی نہیں نکل پاتے کہ تیسرے پہر واپسی کا وقت ہو جاتا۔۔۔ اور ہمارے ابّا کسی جیلر کی طرح یہ حکم لے کر نازل ہوتے ’’جلدی چلو۔۔۔! تمھیں شام سے پہلے ہاسٹل چھوڑ کر آنا ہے۔۔۔!‘‘
اور میں خود کو ’عمر قید‘ کا ایسا قیدی سمجھتا، جسے اپنے اماں بابا اور بہن بھائیوں سے ملنے کے واسطے فقط کچھ گھڑیاں میسر آ گئی تھیں۔۔۔ یعنی جس ’دن‘ کے انتظار میں پورے چھے دن کاٹے تھے، وہ دن بھی پورا کہاں ملتا تھا، بس یہ چند گھنٹے ہی ہوتے تھے، باقی سارا وقت تو آنے اور جانے کی نذر ہو جاتا۔۔۔ اور سچ پوچھیے تو چُھٹی کی خوشی صرف تبھی تک رہتی، جب تک وہ رات ہوتی، جس کے بعد آنے والی صبح چھٹی ملنی ہوتی تھی یا پھر بس صبح کا وہ کچھ سمے، جب میں اپنے گھر کی چوکھٹ پار کرتا۔۔۔ اس کے بعد تو گھڑی کی ٹِک ٹِک گویا ہماری الٹی گنتی شروع کر دیتی تھی۔
اس لیے میں دوبارہ واپسی کی فکر میں ہلکان ہوا جاتا تھا۔ اس طرح مجھے ہر ہفتے اپنی ماں سے بچھڑنے کے کرب سے گزرنا ہوتا تھا۔ ابا تو ہاسٹل چھوڑ کر واپس چلے جاتے، لیکن میری آنکھیں اُس رات اِس قدر بھیگی رہتی تھیں کہ آٹھ فُٹ کی بلندی پر نصب چھپر کی کڑیاں تک بار بار دھندلائی جاتی تھیں۔ کبھی تو باہر رات بھیگتی اور اندر آنسوؤں سے میرا چہرہ۔۔۔ لیکن اس کے سوا کوئی راستہ بھی تو نہ تھا۔۔۔ پھر نہ جانے کب مولوی ہاسٹل کی راہ داری سے پکارا کرتا: ’’کیا میّتوں کی طرح پڑے ہو! اٹھو! نماز کا وقت ہو رہا ہے۔۔۔!‘‘
پھر مؤذن مائک پر دو چار پھونکیں مار کر چیک کرتا اور پھر صدائے فجر بلند ہوتی۔۔۔ آس پاس کے بستروں پر بکھرے ہوئے طلبا کچھ تو خوفِ خداوندی اور کچھ مولوی کی وحشیانہ مار کے خوف سے اللہ کے گھر کی طرف دوڑ لگا دیتے۔
میرا چہرہ تو پہلے ہی آنسوؤں سے ’با وضو‘ ہوتا، پھر بھی فریضے کی ادائی کے لیے کنویں سے نکلے یخ بستہ پانی کو چہرے اور ہاتھوں پر ڈالنے لگتا۔۔۔ سردی کے ٹھٹھر سے نکلی ہوئی ایک سسکی، کلیجے سے نکلی ہوئی غم کی سسکی میں مدغم ہو جاتی۔۔۔ اور میں خود کو حوصلہ دیتا کہ چلو، دوبارہ گھر جانے کے بیچ میں حائل سات راتوں میں سے ایک رات تو کم ہوئی!
٭٭٭