یادِ مدینہ جب آ جائے، وہ بھی اتنی رات گئے
دل کیا کیا تڑپے تڑپائے، وہ بھی اتنی رات گئے
نعت نبی کے جھونکے آئے، وہ بھی اتنی رات گئے
سانسوں کے سرگم لہرائے، وہ بھی اتنی رات گئے
رات کی اِس ڈھلتی بیلا میں کس نے چھیرا ذکرِ رسول
کس نے آئینے دکھلائے، وہ بھی اتنی رات گئے
سورۂ نجم کا ساغر چھلکا، تاروں کی برسات ہوئی
اصحابِ آقا یاد آئے، وہ بھی اتنی رات گئے
تاروں کی مصری کی ڈلیاں، گھول رہی شربتِ نور
جو پی لے روشن ہو جائے، وہ بھی اتنی رات گئے
صل علیٰ کا گجرا گَمکے، سہرے کے پھولوں کا سلام
عرشِ بریں کے دولھا آئے، وہ بھی اتنی رات گئے
آنکھ میں آنسو، لب پہ تبسم، ہجر کا غم، ملنے کی امید
شبنم روئے، پپیہا گائے، وہ بھی اتنی رات گئے
٭٭٭