الوداعی بوسہ
…………………………
پیاری امی جان کے نام
سلگتے صحرا کے جب سفر پر
میں گھر سے نکلا
تو میری ماں نے
یوں میرے ماتھے پہ ہونٹ رکھے تھے
اُس نے ایسے دیا تھا بوسہ
کہ میرے سارے بدن میں جس نے
مہک میں ڈوبا
دھنک سا رنگین پیار۔۔ ۔۔ امرت سا بھر دیا تھا
مجھے جو سرشار کر گیا تھا
فضا میں خاموش سی دعا سے
عجیب سا رنگ بھر دیا تھا
عجب خوشی تھی عجیب دکھ تھا
کہ تپتے صحرا کی ریت جیسے تھے ہونٹ اس کے
اور اس کی آنکھیں سلگ رہی تھیں
لبوں پہ چپ اور کلام کرتی سی گفتگو تھی
مجھے تھا معلوم اور اسے بھی
کہ دور ہوتے ہی ٹوٹ جائیں گے بند سارے
کہ ضبط کے یہ کرے سہارے
نہ روک پائیں گے خشک آنکھوں کی بارشوں کو
وہ بات بے بات رو پڑے گی
میری ماں
٭٭٭
دیوی اور دیوتا
……………………………
درشن کرنے اک دیوی کے ایک پجاری آیا
سیس نوائے، دیا جلایا اور چرنوں میں بیٹھ گیا
بپتا اپنی کہی نہ اُس نے، کوئی بھی فریاد نہ کی
تکتے تکتے پھر دیوی کو کتنے ہی یگ بیت گئے
درشن کرنے اس دیوی کے
جو بھی آتا سر کو جھکاتا، پوجا کرتا
اور دنیا کی لوبھ میں لوبھی
دنیا مانگتا رہ جاتا
سادھو سنت فقیر سبھی یہ اُس سے کہتے
اے دیوانے کچھ تو مانگو تم دیوی سے
وہ ہنستا اور کہتا اُن سے
پاپ اور پُن کے چکر میں مت ڈالو مجھ کو
جال ہیں یہ سب دنیا کے
دنیا بس اک چھایا ہے
اک استھان پہ رہنا اُسے گوارا کب ہے
گیتا اپنے پاس ہی رکھ لو
امرت پیالہ تم ہی چکھّو
میں دیوانہ ہوں دیوی کا، دیوی میری دیوانی ہے
٭٭٭