نظمیں۔ ۔ ۔ زرقا مفتی

 

________________________________________________

گُلاب

________________________________________________

 

برسوں کی رفاقت میں

حسرت ہی رہی مجھ کو

تم کام سے جب لوٹو

ہونٹوں پہ تبسم ہو

اک پھول ہو ہاتھوں میں

 

نہ تم نے کبھی ہمدم

وہ بات کہی مجھ سے

جس بات کو سننے کو

بے تاب میں رہتی تھی

 

معلوم تھا مجھ کو یہ

اظہار سے ڈرتے ہو

میں سوچتی رہتی تھی

برسوں کی مسافت میں

تھک جاتے ہیں کیا جذبے

مٹ جاتی ہے چاہت بھی

 

پر آج اچانک تم

دو پھول لیے آئے

حیران سی بیٹھی ہوں

یہ سوچ رہی ہوں میں

کیسا یہ کرشمہ ہے ؟

کیسی یہ محبت ہے ؟

٭٭٭

 

 

________________________________________________

محبت مر ہی جائے گی

________________________________________________

 

مجھے تم سے یہ کہنا ہے

مرے معصوم سے دل کو

لگا ہر دم یہ دھڑکا ہے

محبت مر ہی جائے گی

 

چلو یہ مان لیتی ہوں

کہ میں ہی اس کی مجرم ہوں

محبت میں نے ہی کی تھی

تمہیں اس کی ضرورت تھی

 

جلا کر اپنے خوابوں کو

تمہارا گھر کیا روشن

تمہاری ہر تمنا کو

بٹھایا دل کی مسند پر

 

تمہارے دل کے گلشن کو

سجایا خونِ دل دے کر

تمہاری راہ کے کانٹے

سبھی تو چُن لئے میں نے

بہاریں سونپ کر تم کو

کیا ویران اس دل کو

 

مگر پھر بھی یہ لگتا ہے

محبت مر ہی جائے گی

 

میں ہی نادان تھی مانا

اُمیدیں میں نے باندھی تھیں

تمہارے جو بھی وعدے تھے

اُنہیں سچ مان بیٹھی تھی

 

ہرا رکھوں بتا کیسے

وفا کے اس شجر کو میں

کہ ساری حسرتوں کا خوں

میں اس کو دان کر بیٹھی

 

صدا اس کی ذرا سُن لو

دلِ ناکام کہتا ہے

محبت جی نہیں سکتی

کسی ٹوٹے ہوئے دل میں

کسی بنجر سی کھیتی میں

کسی بے آب صحرا میں

کسی ویران گلشن میں

محبت مر ہی جائے گی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے