میراث ۔۔۔ اقبال مجید

جب ٹیپو سلطان کا گھوڑا ٹی ٹی نگر سے گزرا اور بان گنگا کے پل کے قریب پہنچا تو ایک جلیبی والے کو دیکھ کر گھوڑا مچل گیا۔ تھکے مارے گھوڑے نے بہت دنوں سے جلیبیوں کی شکل نہیں دیکھی تھی۔وہ بدکا اور دولتیاں اچھالنے لگا۔ ٹیپو اپنے گھوڑے کو بہت چاہتا تھا۔ پس اس نے جلیبی والے کو آواز دی اور آدھا کلو جلیبیاں اسی وقت خرید لیں۔ جلیبی والے نے ایک اخبار میں تول کر جلیبیاں دیں، ٹیپو اترا اور اپنے گھوڑے کو تازی تازی جلیبیاں کھلانے لگا۔ جلیبیاں ختم ہوئیں تو ٹیپو کی نظر اخبار کے ٹکڑے میں ایک خبر پر پڑی۔ ٹیپو کو خبر کی سرخی نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ وہ سرخی کچھ اس طرح تھی۔

’’ولایت سے شیوا جی کی تلوار بھوانی کی واپسی کا مطالبہ‘‘

ٹیپو نے شیوا جی کے چرچے مڈل اسکول میں سن رکھے تھے۔ اسے معلوم تھا کہ شیوا جی بے جگر انسان تھا اور اس کے توپ خانے میں مسلمان توپچیوں کو بڑے اچھے اچھے عہدے ملے ہوئے تھے جنہوں نے بہت سی جنگوں میں شیوا جی کے ساتھ میدان جنگ میں شجاعت کا ثبوت دیا تھا اور مغلوں کے دانت کھٹے کر دیے تھے لیکن جہاں تک اس کے علم میں تھا شیوا جی کی تلوار ایک اچھی تلوار ضرور تھی۔ لیکن اس میں ایسی کوئی خاص بات نہیں تھی جس کے کھو جانے پر افسوس کیا جائے۔ پھر یہ کہ شیوا جی ایک سردار تھا اس کے قبضے میں نہ جانے کتنی تلواریں رہی ہوں گی تو پھر یہ بھوانی کون سی تلوار تھی جس کی واپسی کے لیے۔۔۔

یکایک ٹیپو سلطان کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ ایک دم سے اسے ایک فلم یاد آ گئی جو بنارس کے گھاٹوں پر پوجا پاٹ کرانے والے کچھ پنڈوں پر بنائی گئی تھی اور اس میں ایک موٹا سا تگڑا سا آدمی ہاتھ میں ایک بھیانک سی تلوار لیے ایک مسافر کی گردن مارنے سے پہلے ’’جے بھوانی‘‘ کا ڈراؤنا نعرہ لگاتا ہے۔ قریب تھا کہ ٹیپو سنیما ہال سے اٹھ آتا کہ اس کے دوست نے اس کو سمجھایا کہ یہ حقیقت نہیں فلم ہے۔

اس دن بھی اس کو بھوانی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا زبردست تجسّس پیدا ہوا تھا اور رات کو وہ بدھوارے کے چوراہے پر یہی سوچ کر گیا تھا کہ بھوانی کے بارے میں معلومات حاصل کرے گا۔

’’کون خان۔۔۔؟ یہ بھوانی کیا شے ہے؟‘‘ آخر کو اس نے پہلی فرصت میں اپنے سب سے پہلے ملاقاتی سے جو ابھی ٹھیک سے تہمد سمیٹ کر پٹیا پر بیٹھ بھی نہیں پایا تھا یہ سوال داغ دیا۔

ٹیپو کا ملاقاتی ایک بروکاٹ پٹھان تھا۔ بڑھا ہوا شیو ایک آنکھ قدرے چھوٹی، وہ ہمیشہ بیڑی الٹی جلا کر پیتا تھا اور کثیر الاولاد ہونے کے سبب زیادہ تر گھر سے باہر ہی رہا کرتا تھا۔ اس کے کان میں لفظ بھوانی جیسے ہی پڑا تو اس نے تیور بدل کر ٹیپو کی طرف دیکھا اور سرد آہ کھینچ کر بولا۔

’’سلطان کوئی اور بات کرو پٹھان، آپن کو اس لفظ سے ڈر لگتا ہے‘‘۔

’’ڈر تو مجھے بھی لگتا ہے‘‘۔ سلطان نے بھی اپنے دل کی بات کہہ دی۔۔۔

’’پر دادا تجھے کیوں ڈر لگتا ہے؟‘‘

سلطان کا ملاقاتی کوئی پچاس پچپن کے پیٹے میں تھا۔ اس کا کل اثاثہ ایک کرائے کا مکان، ایک دبلی پتلی گھوڑی اور ایک ٹوٹا پھوٹا تانگہ تھا۔ ریاست کے نوبت نقاروں کے درمیان اس نے آنکھ کھولی تھی، اپنے شہر کی وہ چڑھائیاں جن پر وہ کسی زمانے میں پڑکھیرا سے ریلوے اسٹیشن تک ٹرین کے ساتھ ساتھ اپنا تانگہ دوڑاتا تھا اور ہمیشہ ریل گاڑی سے آگے نکلتا تھا، اپنے وطن کی وہی گھاٹیاں اب اسے ڈراتی تھیں اور وہ ان گھاٹیوں کو کھلے بندوں کو سا کرتا تھا۔

’’برا کیا خان‘‘۔۔۔وہ بدبدایا۔ ’’قسم قرآن کی پان کی دکان رکھ لے پر تانگہ نہ چلائے‘‘۔۔۔ اس نے ایک آہ کھینچی۔۔۔ ’’کتنے دن چلے گی گھوڑی‘‘۔

سلطان سب سنتا رہا۔

’’کتنے دن چلے گی گھوڑی؟۔۔۔ ارے خان چماروں سے بدتر ہیں، انہیں بینک لون دے دیتا ہے آٹو رکشا خرید لیتے ہیں‘‘۔

سلطان سب سنتا رہا اور سوچتا رہا بھوانی کے بارے میں کہ اس کا ساتھی پھر گویا ہوا۔

’’دن بھر اڈے پر کھڑا جانور اونگھتا رہتا ہے۔ شام کو گھر کیا لے جاتے ہو؟ بولو کیا لے جاتے ہو؟‘‘

سلطان کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔

’’دادا میں نے پوچھا تھا کہ تجھے بھوانی سے ڈر کیوں لگتا ہے؟‘‘ سلطان نے اس کو ٹوک دیا۔

’’وہی تو بتا رہا ہوں خان۔۔۔ ارے خان پٹھان جیسے دل لرز گیا۔۔۔ سڑک پر مزے مزے چلا رہا تھا تانگہ، حرامی سڑے گھوڑی کے تھوتھن پر سپاٹا مارتا ہوا نکل گیا دھواں اڑاتا‘‘۔

’’کون ؟‘‘ سلطان نے سوال کیا۔

’’ایک آٹو‘‘۔ جواب ملا۔ نگاہ پڑی تو اس کی پیٹھ پر لکھا تھا۔۔۔’’جے بھوانی‘‘ قسم قرآن کی ایسی طبیعت بگڑی کہ تانگہ اسی وقت گھر واپس لے گیا اور جانور کھول کر پڑ ریا‘‘۔

’’پر میں تو شیوا جی کی ایک تلوار کی بات کر ریا ہوں۔ اس کا نام ہے بھوانی‘‘۔

’’ہوگی‘‘۔ سلطان کا ساتھی برا سا منہ بنا کر بولا۔

’’ولایت میں ہے۔ انگریز لے گئے تھے‘‘۔ سلطان نے اطلاع دی اور بولا۔ ’’اس تلوار کو ولایت سے واپس مانگا جا رہا ہے‘‘۔

’’ہاں تو دے دیں گے وہ، ان کے کس کام کی‘‘۔

’’اس تلوار میں کیا خاص بات تھی دادا۔ اسے واپس کیوں مانگا جا رہا ہے‘‘۔

سلطان کے ساتھی کے چہرے پر ایک شریر مسکراہٹ دوڑ گئی۔۔۔’’تیری مقعد میں اتارنے کے لیے مانگ رہے ہیں‘‘۔

پھر اس نے انگڑائی لی اور بولا۔۔۔‘‘چلوں، جانور مالش بوت لے ریا ہے ان دنوں‘‘۔

سلطان صبر و قناعت کی زندگی گزارنے والا ایک معمولی تانگے والا تھا۔ بچپن میں مڈل کے امتحان میں فیل ہوا۔ جوانی میں اکھاڑے میں ایک کشتی مارنے پر ٹیپو کا لقب پایا۔ بچپن اور جوانی کے بیچ کسی دن بس چپکے سے اس کے ہاتھ میں گھوڑے کی راس پکڑا دی گئی۔

سلطان کے حافظے میں سب کچھ تر و تازہ تھا۔ ابھی کچھ ہی سال پہلے کی بات ہے جب شہر میں آٹو رکشا نہیں چلتے تھے۔ جب سڑکیں اتنی چوڑی نہ تھیں، جب گھاٹیاں اتنی اونچی نہ تھیں، جب فاصلے اتنے زیادہ نہ تھے۔ جب پیرا گوٹھ میں نئے نئے سندھی آئے تھے، جب پٹیاں ٹوٹی نہیں تھیں۔ جب خوف اتنا پاس نہیں تھا اور جب وسوسے اتنے دلیر بھی نہیں ہوئے تھے، جب بیا لوگ اتنی گھٹیا سگریٹ نہیں پیا کرتے تھے اور جب سیٹھ ساہوکار خسارہ دکھانے کے لیے اور شریفوں کی پگڑی اچھالنے کے لیے اردو کا اخبار نہیں نکالا کرتے تھے۔ انہیں دنوں کی بات ہے کہ وہ اپنے گھوڑے کے سموں پر مکھن ملتا تھا اور چاند رات میں دوسو روپے اپنے ہاتھوں سے خرچ کرتا تھا۔

سلطان شہر کے بہت سے سمجھدار اور شریف لوگوں کو جانتا تھا۔ ایک دن وہ ابراہیم پورہ سے گزرا تو گھرو میاں کی دکان پر اسے شہر کے کچھ مہذب اور خوش فکر لوگوں کا جراؤ دکھائی دیا۔ سلطان ان میں سے اکثر چہروں کو پہچانتا تھا۔ پہنچا سلام کر کے ایک سے بولا۔

’’میاں معاف کرنا ایک بات بتاؤ گے؟‘‘

’’ہاں ہاں‘‘۔۔۔ سلطان کو جواب ملا۔

’’بوت دنوں سے سوچ رہا ہوں یہ بھوانی کیا چیز ہے‘‘۔

’’بھوانی‘‘ ایک نے کہا۔

’’بھوانی ‘‘ دوسرے نے کہا۔

سلطان نے جن صاحب سے سوال کیا تھا انہوں نے سوال کو دوسرے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

’’لو خان ان کے سوال کا جواب دو۔ پوچھتے ہیں بھوانی کیا چیز ہے؟‘‘ ایک خوش فکر نے چٹکی لی ’’ارے خان بھوانی نہیں جانتے۔ یہ ایک طرح کی بیماری ہے، پیٹ میں اتر جاتی ہے تو آدمی زیادہ کھانے لگتا ہے‘‘۔

یہ سن کر سب نے زور سے قہقہہ لگایا۔ سلطان وہاں سے کھسیانا ہو کر چل پڑا اور کچھ دور تک اس جرگے میں بیٹھے ہوئے کرخندار خاں، بابو خاں، شاعر خاں، بے روزگار خاں، صحافی خاں اور مدرس میاں کے چھوڑے ہوئے قہقہے سلطان کا پیچھا کرتے رہے۔

یہ بازار کے لوگ کہ نہ تو یہ سفاک لوگ تھے، نہ چالاک لوگ تھے، نہ بے بس لوگ تھے، نہ تو انہیں بھولا ہی کہا جا سکتا تھا اور نہ موقع شناس تو پھر ان بازار کے سیدھے سادھے لوگوں میں یہ وصف کہاں سے پیدا ہو گیا تھا کہ جس بات کو جب چاہتے ہنسی میں اڑا دیتے۔ یکایک سلطان کو لگا کہ انہوں نے اس کی بے عزتی کی ہے۔ وہ جھنجھلایا ہوا پلٹا اور ان لوگوں کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ وہ لوگ خاموشی سے سلطان کی طرف دیکھنے لگے تو وہ اداس ہو کر بولا۔

’’آپ لوگ ہنس کیوں رہے ہیں‘‘۔ انہیں سلطان کا یہ سوال اچھا نہیں لگا لیکن چونکہ سلطان پر بلا کی سنجید گی طاری تھی اس لیے ایک نے کہا۔

’’کیوں بھائی کیا اب ہنسیں بھی نہیں۔۔۔۔‘‘

’’پر میں نے تو بس ایک سوال ہی کیا تھا‘‘۔

سلطان کو سنجیدہ دیکھ کر ایک صاحب جن کے کان میں آلہ لگا تھا قدرے سنجیدگی سے بولے۔

’’بھائی سلطان تمہارے پاس تو ایک ہی سوال تھا نا‘‘۔

’’جی ہاں‘‘ ۔

’’لیکن ہمارے پاس سینکڑوں سوال ہیں‘‘۔

’’لیکن آپ لوگ ہنس کیوں دئیے؟‘‘

’’ہنس اس لیے دئیے سلطان بھائی کہ تمہارے سوال کا جواب تو ہم سے مل گیا لیکن ہمارے سوالوں کا تو کوئی الٹا سیدھا جواب بھی نہیں دیتا اور سلطان بھائی تم ہی انصاف کرو (کہ انصاف تمہارے بس میں نہیں) انصاف کرو کہ جس کے سینہ میں سینکڑوں سوال ہوں اور اس کو ایک سوال کا بھی جواب نہ ملے اور ہر پل، ہر گھڑی وہ نر اور مادہ سوالات آپس میں صحبت کر کے ہزاروں کی تعداد میں بچے جنتے چلے جائیں اور سینہ پھٹنے لگے اور سانس رکنے لگے اور دم گھٹنے لگے اور گھر بھی اچھا نہ لگے اور بیوی بچے کاٹنے کو دوڑیں اور سفید پوشی لازمی ہو اور کلاہ کو کج رکھنا بھی ضروری ہو اور ہر دستر خوان کے ایک ایک لقمے کا حساب رکھتے رکھتے آنکھیں ڈبڈبا آئیں تو سلطان میاں آدمی کو ہر وقت ہنستے رہنا چاہیے۔ جب کوئی سوال کرے تب بھی ہنس دینا چاہیے اور جب کوئی جواب دے تب بھی ہنس دینا چاہیے‘‘

یہ آدمی جو بہت بول رہا تھا بہت خاموش رہنے والا آدمی تھا۔ جو لوگ وہاں بیٹھے تھے انہوں نے محسوس کیا کہ اس آدمی کا چہرہ سرخ ہو گیا ہے عینک کے پیچھے چمکتی ہوئی دو آنکھیں نم دیدہ ہو گئی ہیں۔ ان میں سے ایک نے اس کو جلد ی سے پانی پلایا اور اس کی پیٹھ سہلانے لگا جیسے کہہ رہا ہو۔

ٹیک اٹ ایزی۔

ٹیک اٹ ایزی۔

سلطان کھڑا اس بہت زیادہ بولنے والے کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ ہی رہا تھا کہ وہ آدمی سلطان کی آنکھوں میں نفرت سے دیکھتے ہوئے بولا۔

’’سیدھی بات یہ ہے کہ تم بھی خائف ہو اور سیدھی بات یہ ہے کہ خوف ہم کو بھی ہے اور سلطان بھائی اچھا یہ ہے کہ تمہارے پاس تمہارے خوف لفظ نہیں رکھتے اور برا یہ ہے کہ ہمارے پاس اس خوف کے لیے اتنے الفاظ موجود ہیں کہ ہم نے گھبرا کر ہنسنا شروع کر دیا ہے۔ تم بھولے اور ناسمجھ ہو اس لیے مارے جاؤ گے، ہم حرامزادے اور کمینے ہیں اس لیے مارے جائیں گے۔ نجات دونوں طرف نہیں ہے۔ اس لیے سلطان بھائی جب بھی موقع ملے بھینسے کے کباب کھاؤ، اپنی عورت کے ساتھ برا کام کرو، پھر ایک بیڑی جلاؤ اور ہنستے ہوئے چلے جاؤ۔ تمہیں قسم ہے اپنے اکلوتے لڑکے کی اس کے علاوہ اگر کچھ کیا تم نے تو سمجھنا اپنی ماں کے ساتھ برا کام کیا تم نے۔۔۔ سالے۔۔۔ حرامی۔ ہم سے پوچھتا ہے کہ بھوانی کیا چیز ہے‘‘۔

ٹیک اٹ ایزی۔

ٹیک اٹ ایزی۔

اس روز سلطان بار بار جیسے چونک پڑتا۔ چوک میں سٹے کا نمبر لگاتے وقت اس نے اپنی میلی سی قمیص میں جب ہاتھ ڈالا تو ہر بار ایک روپے کے نوٹ کے بجائے کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کا کوئی بلہ یا الیکشن میں کھڑے ہونے والے کسی نمائندے کا پمفلٹ یا کسی اپیل کا پھٹا پراناپرچہ نکلا۔ اس نے سب کو خوب خوب گالیاں دیں۔ پھر اس نے دوسری جیب میں ہاتھ ڈال کر گھوڑے کے دانے کے پیسوں میں سے سٹے کا نمبر لگایا۔ دو گرم گرم سموسے کھائے اور بدھوارے کے چوراہے پر پہنچ کر سولہ گٹی کھیلنے لگا کہ عشاء کی نماز کی اذان مائکروفون پر سنائی دی۔ اسے جیسے جھٹکا سا لگا اور وہ بے چین بے چین سا چالیں چلنے لگا۔ آخر کو اس سے نہیں رہا گیا تو وہ اپنے مقابل سے پوچھ بیٹھا۔

’’بھائی میں یہ بھوانی کیا چیز ہوتی ہے‘‘۔

’’بھوانی تو ہندو ہوتی ہے‘‘۔ اس کے مقابل نے جواب دیا۔

’’یہ تو اپن کو بھی پتہ ہے کہ یہ ایک دیوی کا نام ہے‘‘۔

’’عید کے روز میں مراد آباد میں تھا‘‘۔ اس کا مقابل بولا۔ ’’وہاں میں نے راتوں میں کئی بار یہی نام سنا تھا۔۔۔ ایسا لگتا تھا خان جیسے کلیجہ باہر آ جائے گا۔ بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ 47ء میں بھی ایسے نعرے کبھی نہیں لگے۔

’’کیا کہتے تھے وہ لوگ؟‘‘ سلطان نے دھڑکتے ہوئے دل سے پوچھا۔ جواب ملا۔

’’وہ کہتے تھے جے بھوانی‘‘۔

’’کون خان؟ ایسا کیوں کہتے تھے؟‘‘

’’اس لیے کہ ہم ڈر جائیں ، اور ہم ڈرتے تھے۔ قسم قرآن کی میاں حاملہ عورتوں کے حمل ساقط ہو گئے۔ اللہ کی پناہ کیسی راتیں تھیں، کیسے دن تھے‘‘۔

سلطان کی طبیعت اچٹ گئی۔ وہ بچے کھچے پیسوں سے گھوڑے کے لیے دانہ لے کر گھر چلا گیا۔

دوسرے روز جمعہ تھا اور سلطان زندگی میں شاید تیسری یا چوتھی بار جمعہ کی نماز پڑھنے مسجد گیا۔ وہاں اس نے وعظ میں کچھ اس طرح کی باتیں سنیں کہ انسان کو خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے، کسی کے آگے سر نہ جھکانا چاہیے۔ او ر اپنے دل سے سارے خوف نکال دینا چاہیے۔ نماز ختم ہونے پر اس نے راستے میں ہی امام صاحب کو جا لیا اور ان سے بولا۔

’’میاں میں کیا کروں؟‘‘

’’کیا بات ہے؟‘‘

’’پتہ نہیں پر بیٹھے بیٹھے چونک پڑتا ہوں۔ پتہ نہیں کیوں بس ایک ڈر سا لگا رہتا ہے ہر وخت‘‘۔

’’کیا کام کرتے ہو؟‘‘

’’تانگہ چلاتا ہوں‘‘۔

’’کتنے بچے ہیں؟‘‘

’’بس ایک لڑکا ہے‘‘۔

’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

’’سلطان‘‘۔

’’ماشاء اللہ۔ کتنا اچھا نام ہے تمہارا۔جس کا نام سلطان ہو وہ کبھی ڈر سکتا ہے بھلا۔ تم اپنے گلے میں علیؓ شیر خدا کا نام ہر وقت پہنے رہا کرو۔ سارے ڈر ختم ہو جائیں گے۔ وہ تم کو ہر آفت سے بچائیں گے‘‘۔ یہ کہہ کر امام صاحب آگے بڑھ گئے۔

سلطان نے بعد میں پتہ لگایا کہ یہ نام کہاں ملے گا تو اس کو معلوم ہوا کہ جمعراتی بازار میں پھول متی نام کی ایک بیوہ کی چھوٹی سی طغروں کی دکان ہے وہاں یہ نام مل جائے گا۔ ایک دن سلطان اتفاق سے پھول متی کی دکان کے سامنے سے گزرا تو ٹھہر گیا۔ بوڑھی بیوہ کسی گاہک سے روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔

’’حاجی صاحب! مجھ بیوہ کو اور تھوڑی کاٹنی ہے۔ تم سب کا ہی سہارا ہے۔ دکان کا کرایہ پائی پائی ادا کر دوں گی۔ چار دن کا سمے اور دے دو‘‘۔

سلطان نے سوچا پھر موقع ملے یا نہ ملے طغرہ لیتا ہی چلے۔ یہ سوچ کر وہ پھول متی کی دکان پر گیا۔ دکان پر اس وقت پھول متی کا لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے ننگے سینے کی پسلیاں صاف نظر آرہی تھیں اور چہرے پر سوجن تھی۔ وہ بار بار دمے کے مریض کی طرح سانس لے رہا تھا۔ یکایک سلطان کی نظر لڑکے کے گلے میں لٹکی ہوئی کسی چیز پر پڑی۔ اس نے غور سے دیکھا وہ ایک طغرہ تھا جس پر خوبصورت حروف میں لکھا تھا۔ ’’جے بھوانی‘‘ ۔ سلطان نے وہاں طرح طرح کے طغرے دیکھے۔ سب میں ایک ہی طرح کی کاریگری تھی، ایک ہی طرح کا مال تھا۔ ’’یا علیؓ‘‘ سلطان کی نظر یکایک ایک طغرے پر پڑی جسے سلطان نے آنکھوں سے لگا کر خرید لیا۔

رات اپنے بستر پر سلطان طغرے کی ڈوری کے سرے پکڑے۔ اسے کچھ دیر دیکھتا رہا اور چاہتا تھا کہ اسے اپنے گلے میں پہن لے کر اس کی نظر اپنے بڑے لڑکے پر پڑی جو پاس ہی زمین پر ایک پھٹی دری بچھائے سورہا تھا۔ سلطان چپکے سے اپنی چارپائی سے اٹھا اور اس نے وہ طغرا اپنے بچے کے گلے میں باندھ دیا۔ اور اس پیار سے اپنے بچے کو دیکھنے لگا جیسے اس نے دوسری بار اپنے باپ ہونے کا حق ادا کیا ہو۔ پہلی بار اس کو یہ احساس تب ہوا تھا جب اس نے بچے کی نازک ہتھیلیوں میں اول اول گھوڑے کی لگام تھمائی تھی۔

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے