طاہر مسعود: ڈاکٹر صاحب! آج آپ جس مقام پر ہیں، اس کے پیچھے آپ کا مطالعہ، محنت اور ڈسپلن کارفرما ہے۔ آپ اپنے بارے میں ہمیں تفصیل سے بتائیں۔ اپنے زمانۂ طالب علمی کے بارے میں، ان موضوعات اور ان ادیبوں کے بارے میں جنھیں آپ نے پڑھا۔ ان دوستوں اور شہروں کے متعلق جن کے ساتھ اور جہاں آپ رہے اور ہاں ان اساتذہ کے بارے میں بھی جنھوں نے آپ کی ذہنی تعمیر میں حصہ لیا؟
جمیل جالبی: آپ کے اس سوال کا جواب دینے کے لیے مجھے اپنے ماضی میں بہت دور تک جھانکنا پڑے گا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ ساری باتیں جو اب دھندلی پڑ چکی ہیں، اس وقت واپس آئیں گی یا نہیں، کیونکہ یادوں کو بھی بعض دفعہ واپس لانے کے لیے شعوری کوشش کرنی پڑتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اپنے رجحانات ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے اور وقت اور حالات سازگار ہوں تو یہ رجحانات پروان چڑھ جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں بہت چھوٹا تھا تو میری پٹائی اکثر اس بات پر ہوتی تھی کہ میں کاپیاں پھاڑ کر ان سے کتاب بناتا تھا اور دوپہر کو جب سب لوگ سوجاتے تھے غسل خانے میں چھپ کر کاپیوں کے ورق علیحدہ کر کے ان سے کتاب بناتا اور اپنے کورس کی کتاب اس پر نقل کر کے اپنا نام نمایاں طریقے سے لکھ دیتا: ’’محمد جمیل خان‘‘۔ اس سے اباجی بہت خوش ہوتے تھے لیکن ہمارے اسکول کے ہیڈ ماسٹر مسٹر فانسس جو عیسائی ہو گئے تھے، انھیں میری اس قسم کی سرگرمیوں سے سخت شکایت رہتی تھی اور وہ اباجی سے اکثر شکایت کرتے تھے کہ یہ کاپیاں پھاڑ دیتا ہے۔ گویا کتاب لکھنے یا مصنف بننے کا رجحان شعوری طور سے موجود تھا۔ اسی زمانے میں ہمارے ایک استاد تھے مولوی اسمٰعیل صاحب، پڑھے لکھے آدمی تھے، بہت ہی بوڑھے۔ مجھے یاد ہے لیکن بچوں کو تو ہر شخص بوڑھا لگتا ہے، ممکن ہے وہ اتنے بوڑھے نہ ہوں، لیکن وہ بہت بوڑھے تھے اور آنکھوں سے بھی بالکل معذور تھے۔ ان سے ہم نے اردو اور فارسی پڑھی۔ وہ اتنے اچھے طریقے سے پڑھاتے تھے کہ ان کی سنائی ہوئی کہانیاں ہمیں فوراً یاد ہو جاتی تھیں۔ وہ محبت بھی کرتے اور ناراض ہوتے تو مار بھی دیتے تھے۔ مارنا جو تھا وہ محبت کے اظہار کا ایک طریقہ تھا۔ وہ خود مولوی اسمٰعیل میرٹھی کے شاگرد تھے۔ ان ہی مولوی صاحب سے ہم نے صحتِ زبان و بیان اور اچھی عبارت لکھنے کا انداز سیکھا۔
طاہر مسعود: آپ کے بہت سے شاعر اور ادیب دوست، جن کے ساتھ آپ نے ادبی کیریئر کا آغاز کیا۔ ان میں سے بہت سے سفر کی ابتدا ء میں آپ سے آگے تھے لیکن آہستہ آہستہ وہ پیچھے جانے لگے۔ یہاں تک کہ آپ ان سے بہت آگے نکل گئے۔ گویا دیکھیں تو ایک طرح سے خرگوش اور کچھوے کی دوڑ تھی جس میں جیت بالآخر کچھوے کے حصے میں آئی؟
جمیل جالبی: ہاں پتہ نہیں، وہ پیچھے رہ گئے یا ہم جیت گئے لیکن مجھے یہ معلوم تھا کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ ٹھیک ہے۔ مجھ میں اور سلیم احمد میں ایک بات مشترک رہی کہ آدمی کو آدمی کی حیثیت سے نہیں اس کے کام کے حوالے سے پہچانا جانا چاہئے کہ وہ وہ آدمی ہے جس نے فلاں کتاب لکھی ہے، اب آپ اتنا کام کیوں کرتے ہیں؟ چھوڑیں!‘‘ میں نے انھیں جواب دیا کہ: ’جب ہم پچیس تیس برس بعد بوڑھے ہو جائیں گے تو نئی نسل ہم سے مل کر کہے گی۔ ہاں آپ کا نام تو بہت سنا ہے مگر آپ نے کام کیا ہے؟ لہٰذا نئی نسل سے ڈرتے رہنا چاہئے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آنے والی نسل آپ کو پہچانے تو آپ کو چاہئے کہ آپ ان کے ورثے میں شامل ہوں۔ ان کے لیے کوئی کام کر کے چھوڑ جائیں۔ میں نے ہمیشہ اپنے آپ کو اپ ٹوڈیٹ رکھنے کی کوشش کی ہے اور ہر اس چیز سے وابستگی اختیار کی ہے جس کا تعلق ادب سے رہا ہو اور یہ چیز میں نے عسکری صاحب سے سیکھی۔
طاہر مسعود:: تاریخ ادب اردو لکھنے کے لیے آپ نے کس نوعیت کی تیاری کی؟ اور اس کے لیے آپ کوکن دشواریوں سے گذرنا پڑا؟
جمیل جالبی: ادب کی تاریخ لکھنے کے لیے کئی چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں مثلاً آپ کا ادب کا مطالعہ وسیع ہونا چاہئے، جس ملک کے ادب کی تاریخ لکھ رہے ہیں، آپ کو اس ملک کی تاریخ سے واقف ہونا چاہئے، اس کی تہذیب سے، زبان کی میراث سے آگاہی ہونی چاہئے۔ لسانی نقطۂ نگاہ اور قواعد کے پہلوؤں پر بھی گرفت ہونی چاہئے۔ فلسفہ بھی آنا چاہئے، نثر بھی لکھنی آنی چاہئے، زمان ومکان کا شعور بھی ضروری ہے یعنی آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایک ادب پارے کی کس دور میں کیا اہمیت ہے؟ جب میں نے تاریخ ادب اردو کا کام شروع کیا تو مجھے کوئی دقت نہیں ہوئی۔ میں نے لسانیات کا بھی مطالعہ کیا اور تاریخ کو ادب سے اور ادب کو تاریخ سے ملادیا۔ میں نے ادیبوں اور شاعروں کا مطالعہ اس انداز سے کیا جس انداز سے ان کا مطالعہ کیا جانا چاہئے، مثلاً میرؔ کے دماغ کی ساخت، کس قسم کی شاعری وجود میں آئی۔ میر اثرؔ کے تنقیدی مطالعے کا انداز جدا ہے۔ سوداؔ اور قائمؔ کے مطالعے کی نوعیت جدا ہے۔ جب آپ پڑھیں گے تو دیکھیں گے کہ ہر ادیب و شاعر کی انفرادیت کے خدوخال سامنے آ جاتے ہیں۔
طاہر مسعود: اردو کے نئے ادب پر گذشتہ پندرہ برس سے پژمردگی، اضمحلال اور لاتعلقی کی کیفیت چھا گئی ہے اور ادبی سرگرمیوں سے قطع نظر ادب میں کوئی اہم اور قابلِ قدر کام ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ اس کے کیا اسباب ہیں؟
جمیل جالبی: اس کی ایک وجہ تو یہ ہے ہمارا ادیب اور تخلیقی ذہن بے سمتی اور بے جہتی کا شکار ہے۔ اس کے پاس تخلیقی سطح پر ایسا نظام خیال یا World View نہیں ہے جس سے تخلیقی قوتیں پرورش پاتی ہوں اور اپنا راستہ متعین کرتی ہوں۔ ہم ایک عبوری دور سے گذر رہے ہیں اور عبوری دور ہمیشہ تخلیقی سطح پر بحران کو جنم دیتا ہے اور بحران کے اظہار کی سطح پر بھی اور احساس کی سطح پر بھی تخلیقی قوتوں کو اپنی اصلی شکل میں نہیں آنے دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ 25سال سے ہم اچھی صلاحیتوں کے باوجود وہ ادب تخلیق کرنے میں کامیاب نہیں رہے جو ہمیں تخلیق کرنا چاہئے تھا۔ ہمارے یہاں ابھی بنیادی مسائل ہی طے نہیں ہوئے۔ ہمیں کہاں جانا ہے؟ ہماری منزل کون سی ہے؟ ابھی ہم اس میں الجھے ہوئے ہیں وہ نقطۂ نظر جو ادیبوں کو لکھنے پر اکساتا تھا۔ وہ شاید بے معنی ہو گیا ہے۔ ان سب مسائل نے ذہنی طور پر ادیبوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ ادب زندگی کی نئی اکائی تخلیق کرتا ہے۔ ہمارا ادب فی الحال اس وحدت اور اس اکائی کو تخلیق کرنے میں ناکام رہا ہے۔
طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ نیا ادیب معاشرے اور اس کے مسائل سے پورے طور پر ہم آہنگ نہیں ہے۔ وہ زندگی کے عمومی مسائل پر لکھنے کو سطحیت سے تعبیر کرتا ہے اور آفاقی باتیں کہنے ہی کو اپنے ادبی اور تخلیقی عمل کا حصہ سمجھتا ہے۔ کیا زندگی کی چھوٹی چھوٹی حقیقتیں، ارد گرد کا ماحول اور ان سب چیزوں کو نظر انداز کر کے کوئی اعلیٰ ادب پیدا کیا جا سکتا ہے؟
جمیل جالبی: جیسا میں نے عرض کیا تھا کہ معاشرہ عبوری اور تشکیلی دور سے گذر رہا ہے۔ اس وقت ادیب ان مسائل کو جو معاشرہ کے باطن میں موجود ہے، پورے طور سے گرفت میں نہیں لا سکا۔ عبوری دور بڑا سفاک ہوتا ہے۔ اس دور کو سمجھنے اور اسے ایک شکل دینے کے لیے بڑی پیغمبرانہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ یہ اتنے بڑے مسائل ہیں کہ ان کو سمجھنے کے لیے بہت بڑے تاریخی شعور کی ضرورت ہے اور جب میں تاریخی شعور کی بات کر رہا ہوں تو اس میں اپنی روایت، اپنی تاریخ اور اس روایت کا سارا ماضی شامل ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس تاریخی شعور کی مدد سے ہم عہدِ جدید کے تقاضوں کے مطابق ایک ایسا زندہ جیتا جاگتا نظامِ خیال اور تصور حقیقت تخلیق کر سکتے ہیں جس سے فکر کے نئے چشمے پھوٹیں گے اور تخلیقی قوتیں پھر سے بیدار ہو جائیں گی۔ یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں اس کے پیچھے یہ فلسفہ موجود ہے کہ جب تک تنقید تخلیق کے لیے راستہ ہموار نہیں کرے گی، اس وقت تک تخلیق اسی طرح راستہ ٹٹولتی رہے گی اور تنقید کے معنی کتابوں کی رونمائی میں مقالہ پڑھنا نہیں ہے بلکہ اس میں علم و فکر کے ساتھ نئے سرے سے نظامِ خیال کی تلاش یا اس کی تشکیل نو کرنے کے مسائل ہیں۔ اقبالؔ نے اس سمت میں قدم اٹھایا تھا ان سے پہلے سر سید احمد خاں نے اس تلاش میں اپنا نقطۂ نظر قائم کیا تھا۔ اس وقت ہمیں پھر سے ایک سر سید اور اقبالؔ کی ضرورت ہے۔
طاہر مسعود: آپ محقق بھی ہیں اور نقاد بھی۔ کیا آپ ان چند نقادوں کا ذکر کریں گے جن سے آپ متاثر ہوئے؟
جمیل جالبی: وہ نقاد جنھوں نے نظامِ خیال کی تشکیل کے سلسلے میں کام کیا ہے۔ ان میں سب سے بڑا نام محمد حسن عسکری کا ہے آپ ان سے اتفاق کریں یا اختلاف، لیکن انھوں نے اس سمت میں کام کیا ہے اور جو آئندہ یا ہمارے دور میں اس حوالے سے کام کرے گا وہ عسکری صاحب کو رد یا قبول کرتے ہوئے نظر انداز کرنے کی غلطی نہیں کر سکتا۔
طاہر مسعود: آپ نے حسن عسکری سے اختلاف کا ذکر کیا۔ کچھ عرصے سے عسکری صاحب کے خلاف ادبی محاذ پر چند افراد سر گرمِ عمل ہیں۔ اس سلسلے میں ایک ادبی رسالے میں ان کے نظریات کے خلاف ایک جارحانہ مضمون شائع ہوا ہے جس پر ایک اخبار میں کافی لے دے ہوئی۔ آپ کے خیال میں اس کا پس منظر کیا ہے اور کس حد تک ادب کے حق میں مفید ہے؟
جمیل جالبی: اصل میں عسکری صاحب کے خلاف جو مضامین لکھے گئے ہیں۔ ان میں بنیادی حوالہ اس کتاب کا تھا جو جدے دیت (مغربی گمراہیوں کا خاکہ) کے نام سے عسکری صاحب کی وفات کے ایک سال بعد شائع ہوئی۔ یہ کتاب عسکری صاحب نے اپنی وفات سے سات آٹھ سال پہلے لکھی تھی لیکن شائع نہیں کرائی تھی۔ یہ کتاب دار العلوم کراچی کے جدید نصاب کے اشارات کے طور پرلکھی گئی تھی تاکہ دار العلوم کے نئے طالب علم مغرب کی ان گمراہیوں سے اچھی طرح واقف ہو سکیں، جو جدے دیت کے نام سے پوری دنیا میں پھیلائے جا رہے ہیں۔ یہ صرف نوٹس تھے اور اساتذہ کو ان نوٹس کی مدد سے اپنا لکچر تیار کرنا ہوتا تھا۔ کچھ عرصہ عسکری صاحب خود بھی دار العلوم کے طلبہ کو یہ مضمون پڑھاتے رہے تھے۔ اگر عسکری صاحب زندہ ہوتے اور اس کتاب کو شائع کرتے تو یقین ہے ان باتوں کی جنھیں اشاروں میں بیان کیا گیا ہے، اپنے مخصوص انداز میں وضاحت کرتے۔ اس کے ساتھ وہ خطوط جو عسکری صاحب نے مدیر ’’ شب خون‘‘ الہ آباد کے نام لکھے جو بعد میں ’’شب خون‘‘ میں شائع کر دئیے گئے اگر اس کتاب کے ساتھ ان خطوط کو بھی شامل کر دیا جاتا تو بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جاتیں۔ عسکری صاحب نے اسلام کے حوالے سے تحقیق، غور و فکر اور وسیع مطالعے کے بعد ایک راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی تھی۔ ادب ہمیشہ ان کا بنیادی حوالہ رہا ہے اور مغربی ادب کے بارے میں نہ صرف ہم سب سے زیادہ جانتے تھے بلکہ خود بہت سے مغربی ادیبوں سے بھی زیادہ جانتے تھے۔ ان کے خلاف جو کچھ لکھا جا رہا ہے، وہ بہت اچھی علامت ہے۔ فکر و خیال کے گھنے اور خاردار جنگل میں راستہ بنانے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے اور عسکری صاحب کی تحریروں نے ہمیں موافقت یا مخالفت پر اکسا کر راستہ تلاش کرنے کے شعور کو ابھارا۔ خدا عسکری صاحب کی مغفرت فرمائے اور انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
طاہر مسعود: آپ حسن عسکری مرحوم اور اردو ادب کے دیگر نقادوں کی علمی، ادبی اور تخلیقی ایپروچ میں کون سا بنیادی فرق محسوس کرتے ہیں اور کن اسباب کی بنا پر انھیں دیگر نقادوں پر ترجیح دیتے ہیں؟
جمیل جالبی: عسکری صاحب ایک نظامِ خیال کی تشکیل نو کی کوشش کر رہے تھے اور یہ بنیادی کام تھا۔ دوسرے نقاد یا تو پہلے سے بنے بنائے فلسفہ یا نظامِ خیال کے حوالے سے ادب کا مطالعہ کرتے ہیں یا پھر اس نظریے کی وضاحت کرتے ہیں۔ عسکری صاحب توخود نظامِ خیال کی تشکیل نوکے عمل میں مصروف تھے۔ عسکری صاحب اور دوسرے نقادوں میں یہی بنیادی فرق ہے یعنی کوئی نفسیاتی تنقید لکھ رہا ہے یعنی نفسیات کے موجودہ علم کو بنیاد بنا کر ادب اور ادیب کا مطالعہ کر رہا ہے۔ کوئی جمالیاتی تنقید کو لے کر کروچے کے فلسفۂ حیات کو بنیاد بنا کر مطالعہ کر رہا ہے۔ کوئی سماجی تنقید میں مارکس اور اینگلز کے نظریۂ پیداوار اور مادی جدلیت کوبنیاد بنا کر ادب اور زندگی کا مطالعہ کر رہا ہے، لیکن ان میں سے کوئی نقاد ایسا نہیں ہے جو موجودہ دنیا کے حوالے سے اپنے معاشرے اور عالمِ انسانیت کے لیے کسی نئے نظامِ خیال کی تلاش یا تشکیل نو کے سلسلے میں سرگرداں ہو۔
طاہر مسعود: ہمارے یہاں شاعری کے مقابلے میں فکشن کو زیادہ فروغ حاصل نہیں ہو سکا اور ہماری زبان اور ادب نے جتنے بڑے شاعر پیدا کئے اتنے بڑے افسانہ نگار جنم نہیں لے سکے۔ آپ کے ذہن میں اس کا کیا تجزیہ ہے؟
جمیل جالبی: شاعری ہماری تہذیب کی روح اور باطن میں موجود ہے۔ یہ ہماری روایت کا حصہ ہے اس لئے شاعری پر تنقید کی ایک طویل روایت موجود ہے۔ انیسویں صدی کے وسط تک وہ موضوعات جن پر آج نثر کو ذریعۂ اظہار بنایا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں نظم میں بیان کئے جاتے تھے نثر ویسے بھی ہمارے یہاں کم لکھی گئی۔ شمال میں پہلی نثری تصنیف ’’کربل کتھا ‘‘ہے ورنہ عام طور پر قصے کہانیاں، داستانیں سب نظم میں لکھی جاتی تھیں اور مثنویوں میں بھی قصوں کو بیان کیا جاتا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نظم یا شاعری ہمارے مزاج سے قریب رہی ہے اور نثر کا ارتقا بعد کی بات ہے اور ہمارے یہاں دیر سے شروع ہوا۔ برخلاف اس کے ناول کی صنف ہمارے ادب میں انگریزوں کے اقتدار میں قابض ہونے کے بعد داخل ہوئی اور ظاہر ہے کہ یہ روایت ابھی نئی ہے۔ پھر ایک بات اور، مشرقی شاعری کی روایت کا تعلق ایک طرف اپنی روایت سے رہا ہے ساتھ ساتھ علم و فصاحت و بلاغت سے یہ سخن کی روایت ہے۔ برخلاف اس کے مغرب کے ادب کا تعلق ارسطو کی ’بوطیقا‘ سے ہے۔ ہم اب تک تہذیبی، تاریخی یا کسی اپنی وجہ سے روایت کو ترک کر کے بوطیقا سے اپنا معنوی یا روحانی رشتہ نہیں جوڑ سکے ہیں۔ ’’بوطیقا‘‘ سے مغرب میں فکشن کی روایت شروع ہوئی ہے اور ہم خوش قسمتی یا بدقسمتی سے یہ نہیں سمجھ پائے کہ بوطیقا سے ہمارا دودھیالی رشتہ ہے یاننھیالی۔
طاہر مسعود: آپ نے بدیسی ادب اور خصوصاً ً شاعری کے موضوع پر تنقیدی مضامین کے تراجم کئے ہیں اور مغرب میں فکشن پر لکھی جانے والی تنقید کو اردو زبان کا جامہ پہنانے کی جانب ذرا کم توجہ کی ہے حالانکہ یہ اس اعتبار سے زیادہ ضروری اور اہم کام تھا کہ شاعری کے موضوع پر ہمارے یہاں تراجم کا سلسلہ پہلے اور آج بھی جاری ہے کیا آپ کے آئندہ منصوبوں میں فکشن کے تنقیدی مضامین کے ترجمے کا منصوبہ شامل تھا؟
جمیل جالبی: فکشن کے سلسلے میں چند چیزیں ’’ارسطو سے ایلیٹ تک‘‘ میں شامل ہیں لیکن اس میں چونکہ مغرب کی ڈھائی ہزار سال کی فکر کا احاطہ کیا گیا تھا اس لئے اس کا بڑا حصہ انیسویں صدی تک کی فکر کا احاطہ کرتا ہے۔ بیسویں صدی کے سلسلے میں کتاب کی ضخامت کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ طے کیا بیسویں صدی کی تنقید ایک جلد میں شائع ہونی چاہئے۔ اس لئے فکشن اور ادبی فکر و مسائل کے تعلق کے سلسلے کی بہت سی اہم تحریریں میں نے دوسری جلد کے لئے مخصوص کر دیں۔ بیسویں صدی میں چونکہ فکشن کی تنقید بہت زیادہ لکھی گئی اور یہ جلد مکمل نہ ہو سکی، اس لئے آپ کو یہ کمی محسوس ہوتی ہے مثلاً اگر میں دوسری جلد کا منصوبہ نہ بناتا تو، ڈی ایچ لارنس کو اس جلد میں شامل کر لیتا۔ جس نے فکشن کے سلسلے میں ہنری جیمس کی طرح اعلیٰ درجے کی تنقید لکھی اسی لئے میں نے ورجینا وولف کے مضمون ’’ماڈرن ناول‘‘ کو بھی دوسری جلد کے لئے روک لیا تھا۔ یہ مضامین اور اس کی فہرست میرے پاس ہے اگر کوئی نوجوان ہمت کرے اور اس کام کو کر دے تو اردو ادب کی بڑی خدمت ہو گی میں اس کی مدد اور تعاون کے لئے تیار رہوں گا۔
طاہر مسعود: ’’ارسطو سے ایلیٹ تک‘‘ میں بعض ایسے مضامین کا بھی آپ نے ترجمہ کیا ہے جن کا پہلے ترجمہ ہو چکا تھا،ا س کا سبب کیا ہے؟
جمیل جالبی: ۔ مثلاً؟
طاہر مسعود: مثلاً ارسطو کی بوطیقا کا۔ اس کا ترجمہ عزیز احمد مرحوم کر چکے ہیں۔ اسی طرح غالباً چند ایک مضامین کا ترجمہ ہادی حسین مرحوم نے بھی پہلے کیا ہوا تھا۔؟
جمیل جالبی: ’’بوطیقا‘‘ بہت اہم کتاب ہے عزیز احمد کا ترجمہ مجھے پسند نہیں رہا۔ اس لئے میں نے اس کا اردو ترجمہ کیا۔ ہادی حسین نے جن مضامین کا ترجمہ کیا ہے وہ آزاد ترجمہ ہے انھوں نے مضامین اور کتابوں کا خلاصہ اپنے الفاظ میں پیش کر دیا ہے جبکہ میں نے ترجمہ کی کوشش کی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ بوطیقا کے دوبارہ ترجمہ کئے جانے کا جواز موجود تھا۔
طاہر مسعود: ہمارے یہاں غیر ملکی ادب کے ترجمے کی رفتار بہت سست ہے۔ انفرادی سطح پر ادیب اور نقاد تو ترجمہ کرتے رہتے ہیں لیکن سرکاری سطح پر اس اہم کام کو تیز کرنے کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ آپ اس سلسلے میں کسی ایسے قومی ادارے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جو صرف ترجمے کا کام انجام دے۔
جمیل جالبی: انگریزی میں دوسری زبانوں کی ہر اچھی کتاب کا ترجمہ عام طور پر جلدی ہو جاتا ہے اور انگریزی زبان کے ادیب دوسری زبانوں کے ادب سے باخبر رہ کر اپنے ذہنی تناظر کو وسیع سے وسیع تر کرتے رہتے ہیں۔ ایسے قومی ادارے کی فوری ضرورت ہے جو ترجمے کرائے اور ان کی اشاعت کا انتظام کرے۔ یہ نہایت ضروری اور فوری نوعیت کا مفید کام ہے۔
ماخذ: رسالہ’ اردو چینلُ ، ممبئی، انٹرویو نمبر
٭٭٭
بہت عمدہ