موجودہ عالمی اقتصادی بحران کا اُوس ہماری جیب پر بھی ایسی پڑی کہ خرچ کے کئی مدات کو منجمد کرنا پڑا۔ گرانی آسمان کو چھو رہی ہے تو ہماری قوتِ خرید زمین بوس ہونے لگی ہے۔ اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہہ اس عید پر ہمارے گھر کی مدیرۂ مالیہ اور بچوں کی "خان سی ماں” نے اخراجات میں تخفیف کا شاخسانہ کھڑا کرتے ہوئے تحکمانہ اعلان کیا کہ عید کے دن بریانی بنے گی تو صرف اور صرف مرغ ہی کی بنے گی۔ ہم مصر تھے کہ بریانی کا اصلی مزہ تو بکرے کے گوشت سے ہے۔ مرغ کی بریانی بھی کوئی بریانی ہے یہ تو بس مہمانوں کو ٹرخانے کے لیے پکائی جاتی ہے۔ لیکن محترمہ نے ایک ہی رٹ لے کر بیٹھ گئیں کہ بکرے کے گوشت کے دام فلک بوسی کر رہے ہیں چنانچہ اس بار بریانی مرغ کی ہی بنے گی۔ اب خواتین سے بحث کرو تو "مرغی کی ایک ہی ٹانگ” والا معاملہ ہوگا اس لئے چپ سادہ لی جبکہ ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ "بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست” اچھا کھاؤ اچھا پہنو اور چلتے بنو۔ اور جو خواتین شوہر کی کمائی پرفینانس کنٹرولر بنی بچت کی فکر میں لگی رہتی ہیں انہیں ہم وال اسٹریٹ کی ایجنٹ مانتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم نے بھی دل کوتسلی دے لی کہ کچھ ہی ہفتوں بعد بقرعید آنے والی ہے "بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی” احباب کی جانب سے ہر حال میں قربانی کا گوشت تحفتہًَ آئے گا تو خوب ڈٹ کر بڑے گوشت اور چھوٹے گوشت سے لطف اندوز ہوا جائے گا۔
در اصل ہم ہر شئے سے اُس کی پوری خصوصیات کے ساتھ متمتع ہونا چاہتے ہیں۔ مرغ ہو تو اس کے مرغن قورمہ اور بھنے ہوئے تکوں کی کیا بات ہے یا پھر ہو تو دم کا مرغ ہو جو ہمیں انتہائی مرغوب ہے۔ بریانی ہو تو پھر بکرے کے گوشت کی اور وہ بھی بڑی دیگ میں دم کی ہوئی۔ برا ہو سائینسی ترقی کا کہ ہر شئے کا مزہ خاک میں مل گیا۔ جب سے پولٹری فارموں میں مرغیوں کی افزائش ہونے لگی ہے مرغ بانی اور مرغ خوری کا مزہ ہی جاتا رہا بلکہ ایک دنیا مرغ بازی سے بھی محروم ہو گئی ہے۔ ہائے وہ بھی کیا دن تھے کہ گھر گھر مرغیوں کی افزائش ہوتی۔ ہر دم تازہ انڈے دستیاب رہتے۔ خصوصی مہمان کی ضیافت خصوصی مرغ سے کی جاتی۔ اگر مہمان کے لئے مرغ ذبح نہ کیا جاتا تو مہمان ناراض ہو کر چلا جاتا۔ دوبارہ کسی مہمان کی صورت نہ دیکھنی ہوتی تو چائے پان پر ہی اکتفاء کیا جاتا۔ مہمانوں کے خصوصی اور غیر خصوصی ہونے کی تمیز بھی مرغ سے ہی ہوتی ہے۔ پڑوسن کے ہاں مرغ ذبح ہوتا توہم سمجھ جاتے کہ مہمان ضرور مائکے کے لوگ ہیں۔ ہمارے دور شباب میں ہمارے اڑوس پڑوس مسلم غیر مسلم سب ہی مرغی ذبح کرنے کی خدمات ہم سے حاصل کیا کرتے تھے اور ہم بلا تخصیص مذہب و ملت یہ خدمت مفت انجام دیتے۔ بلکہ ہم نے اپنے گھر کے خستہ حال چوبی دروازہ پر کوئلے سے جلی حروف میں لکھ دیا تھا کہ "یہاں مرغ مفت ذبح کیا جاتا ہے ” ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایک روز ہمارے پڑوسی رامو نائی نے ہم سے مرغ ذبح کرنے کی درخواست کی اور ایک موٹا تڑنگا مرغِ رعنا پیش کیا جو کسی کے سنبھالے نہ سنبھلتا تھا۔ ہم نے ایک لڑکے کو مرغ کے پر مضبوطی سے پکڑنے کو کہا اور ذبح کرنے سے پہلے مرغ کو تین گھونٹ پانی پلایا اور "اللہ اکبر” کہہ کر گلے پر چھری پیر دی۔ بد قسمتی سے (مرغے کی یا ہماری) چھری اس قدر کند تھی کہ گلا کٹ کر نہ دیتا۔ ہم نے چھری کو دوبارہ ارشاد کیا لیکن مرغا تھا کہ جیسے زبان حال سے کہ رہا ہو۔
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے وہ پھر لہو کیا ہے
گلا ہے کہ کٹنے کا نام نہ لیتا بلکہ ہم نے چھری کو مکرر سہ کرر ارشاد کیا تب کہیں جا کر خون بہنا شروع ہوا تو مرغ کو بڑے سے جھانپ میں ڈال دیا کہ اندر ہی بسمل ہوتا رہے۔ لیکن مرغ اس قدر زور آور تھا کہ ایک ہی جھٹکے میں جھانپ کو لے اُڑا اور یہ بھاگ وہ بھاگ۔ ہاتھ میں خون آلود چھری لیے ہم بھی مرغ کے پیچھے پیچھے ہانتےھ کانتےہ بھاگتے رہے۔ کبھی دیوار پر کبھی منڈیر پرک بھی چھت پر اپنا زور ٹوٹنے تک مرغ بھاگتا رہا ہم بھی بھاگتے رہے ہانپتے رہے کانپتے رہے یہاں تک کہ تھک کر گرنے کو تھے کہ مرغ بھی ایک جھاڑی میں نڈھال ہو کر گر پڑا۔ اور ہم نے پوری بے دردی سے اُس پر جھپٹا اور گلے پر کند چھری کا ورد کریا اور مرغ کو مہمانوں کے واصل شکم ہونے کے لیے رستہ صاف کر دیا۔
اس خفت انگریز واقعہ کے بعد ہم خاص احتیاط برتنے لگے کہ چھری کی دھار ہمیشہ تیز رہے خواہ تیتر ہی ذبح کیوں نہ کرنا ہو۔ بلکہ کسی بھی پرند کو ذبح کرنے سے پہلے ہم پتھر پر اچھی طرح چھری گھس کر دھار تیز کر لیا کرتے۔ ایک دفعہ یہ ہوا کہ چچا ملا صاحب کسی مقدمے کے سلسلے میں کچہری گئے ہوئے تھے۔ اور اُن کے گھر چچی ملانی کے مائکے والے مہمان آ گئے۔ بلکہ چچی ملانی کے گھر مایئکے والے مہمان اُسی وقت آتے تھے جب چچا ملا گھرسے باہر ہوتے تھے۔ چاچی نے اپنے لڑکے کے ہمراہ ایک کالی کنواری مرغی بھجوائی اور کہلا بھیجا کہ ہم اسے ذبح کر دیں۔ لڑکا ساتھ میں چھری اور لوٹے میں پانی بھی لایا تھا۔ بلکہ وہ پوری طرح (Well equipped) تھا لیکن ہمیں اطمناسن نہ ہوا اورحسب عادت چھری کی دھار مزید تیز کر ڈالی۔ اللہ کا نام لیکر جیسے ہی ہم نے مرغی کے گلے پر چھری چلائی ایک لخت سر دھڑ سے جدا ہو گیا اور مونڈی ہمارے ہاتھ آ گئی۔ ہم نے بوکھلاہٹ میں خون آلود مونڈی پتلون کی جیب میں ڈال لی۔ چاچی ملانی چلانے لگیں کہ۔ "ہائے ہائے یہ کیا کیا مرغی مردار کر ڈالی۔ اب مہمانوں کے لیے کیا پکائیں”۔ ہم نے لاکھ سمجھایا کہ مرغی حلال ہوئی ہے اس پر اللہ کا نام لیا ہے بلکہ کلمہ طیبہ بھی پورا پڑھا ہے۔ لکنے وہ کہتیں کہ مرغی مردار ہو گئی۔ ہم نے ملانی سے پیچھا چڑھانے کے لیے سمجھایا کہ "چاچی آپ مرغی پکاتی رہنا۔ ہم ابھی فتوی لے کر آتے ہیں۔ ” اس کے بعد سے ہم آج تک چچی ملانی کو منہ نہ دکھایا بلکہ اُن کے گھر کے سامنے گزرنے سے بھی کتراتے رہے۔
پولٹری فارمنگ کی مہربانی سے آج ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے دسترخوان پر بھی مرغ و ماہی دستیاب ہے۔ شہر ہو یا قریہ قدم قدم پر مرغی کی دکانیں ملیں گی۔ جدید آلات سے آراستہ۔ نہ بے دردی سے سر کٹے نہ بسمل کہے کہ "حضور آہستہ آہستہ جناب آہستہ” بلکہ ادھر سرتن سے جدا ہوا اُدھر لاشے کو موت کے کنویں میں گھما دیا جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے "بے بال و پر” کا مرغ مسلم حاضر۔ اب فتوی لینے کے دن بھی گئے کہ اس طرح کی مرغی حلال ہے یا مردار۔ یہاں تو سعودی عرب کی ہائپر بازاروں میں اہل کتاب ہوں کہ اہل سنت سب ممالک کی مرغی "حلال ” کا لبلد لیے ہمہ وقت دستیاب ہے۔ بلکہ "حلال” مرغ کھانے کے لوگ ایسے عادی ہو گئے ہیں کہ گلف رٹرن چاند پاشا برانڈی شاپ میں ویٹر سے اس بات پر لڑ پڑے کہ آیا اُن کے آرڈر کا مرغ حلال طریقہ سے ذبح ہوا ہے یا حرام طریقہ سے۔
آج کل ہائپر مالوں میں تو مرغ کے مختلف اعضاء جسمانی جیسے ران، کولہے، پنکوٹھے اور سینہ و صدر یہاں تک کہ مرغ کے پائے، کلیجی، دل اور سنگ دانے بھی علیحدہ علیحدہ دستیاب ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کنزیومرزم کی وباء نے مرغ کھانے کا لطف ہی غارت کر دیا۔ بلکہ لگتا ہے ہم رفتہ رفتہ حلال کے نام پر مردار خور ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک وہ دور تھا کہ آزاد فضاء میں کسی رنگیلے خوبرو کلغی دارمسٹنڈے مرغ کے جلو میں چرتی چگتی مرغیوں کو دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا تھا۔ محلہ کی نوخیز مرغیاں اس میر محلہ مرغ کے تحفظ میں آنے کو اپنی شان سمجھتیں اور اتراتی پھرتیں۔ مرغیاں جب انڈے دے کر ایام کڑک گزارنے کے لیے کسی گوشہ عافیت میں خلوت گزیں ہو جاتیں تو لوگ انہیں چین سے بیٹھنے نہ دیتے بلکہ ایسے موقعہ پر ہماری بوّا اولین فرصت میں کسی نہ کسی مرغی کو جمع شدہ انڈوں پر بیٹھنے کی ڈیوٹی لگا دیتیں اور بیچاری مرغی انڈے سینے میں اس طرح دل و جان سے محو ہو جاتی کہ بیٹی ٗ بیوی کے بعد ماں بن جانا نسائیت کی معراج ہوتی ہے۔ تین ہفتوں تک بیچاری مرغی تخلیق کا کرب سہتی رہتی تب کہیں ایکسویں دن چھوٹے چھوٹے ریشمی چوزے اپنا خول توڑ کر عالم رنگ و بو میں چوں چوں کرتے اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں۔ چوزوں کے جوان ہونے کا انتظار بھی بڑا صبر آزما ہوتا ہے۔ اور دل یہی کہتا رہتا ہے کہ "چوزہ اور چوزے کی ماں کب تک خیر منائے گی”۔
ہمیں مرغ کی ایک ٹانگ کے محاورہ پر ایک واقعہ یاد آگیا۔ کہتے ہیں کسی تحصیلدار صاحب کے ہاں ایک بڑا کٹ حجت خانساماں تھا جو مرغ مسلم پکانے میں بہت ماہر تھا ایک روز اُس نے مرغ مسلم پکایا اورساتھ ہی ساتھ مرغ کی ایک ٹانگ چٹ کر گیا۔ دسترخوان پر جب تحصیلدار صاحب نے دیکھا کہ مرغ کی ایک ٹانگ ندارد ہے تو اُنہوں نے خانساماں سے پوچھا "حاجی صاحب مرغ کی ایک اور ٹانگ کہاں غائب ہو گئی”۔ خانسا ماں نے کہا کہ "سرکار یہ مرغ ایک ہی ٹانگ کا تھا۔ ” تحصیلدار صاحب نے حیرت سے کہا "بھئی ایک ٹانگ کا مرغ تو ہم نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ ” خانسا ماں نے کہا "سرکار آپ یقین کریں کسی دن میں آپ کو ایک ٹانگ کا مرغ دکھاؤں گا فی الحال مرغ مسلم کا مزہ لیں۔ ” ایک دن گھورے پر ایک مرغ ایک ٹانگ پروں میں چھپائے ایک ٹانگ پر اُداس کھڑا تھا۔ خانسا ماں نے تحصیلدار صاحب کو مرغ دکھاتے ہوے کہا "سرکار دیکھیے یہی ہے ایک ٹانگ کا مرغ”۔ یہ دیکھ کر تحصیلدار صاحب نے اپنی چھڑی سے مرغ کو ہشکال دیا اور مرغ بھاگنے لگا۔ خانسا ماں نے اپنا جھوٹ فاش ہوتا دیکھ کر برجستہ کہا "سرکار دراصل میں نے وہ مرغ یوں ہشکالنے سے پہلے ذبح کر دیا تھا۔ ”
ہمارے بچپن میں جب کبھی مہمان کی آمد پر جواں سال مرغ ذبح کیا جاتا تو لذیذ سالن کی خوشبو ساتھ گھروں تک مہکتی بلکہ خاندان کے سترہ افراد شکم سیر ہو کر کھاتے۔ اب تو مرغی ایسی کہ اُسے مرغی کہنے کو بھی شرم آتی ہے۔ انکوبیٹر کے ذریعہ چند منٹوں میں چوزے برآمد ہو جاتے ہیں مصنوعی انداز میں جوان بھی ہوتے ہیں اور کوئی مرغِ رنگین مزاج اُنہیں چھوتا بھی نہیں کہ انڈے چھوڑنے لگتی ہیں۔ مرغ خوروں کے مقدر میں تو اب برائلر ٹائپ کی بانجھ مرغیاں ہی ہیں۔ ورنہ پولٹری فارموں میں انڈے دینے والی مرغیوں کی ناز برداریاں ایسے کی جاتی ہیں کہ فی زمانہ نئی نویلی” اُمیدوار”بہووں کی بھی مدارت اس طرح نہیں کی جاتی۔
شہر ریاض میں جس زمانے میں یمنی نژاد تاجر مرغ ہوا کرتے تھے اُن کی دکانوں سے مرغ خرید لانا بھی کسی اڈونچر سے کم نہ ہوتا تھا۔ جمعہ چھٹی کا دن خصوصی پکوان کا دن مانا جاتا ہے۔ نماز ادا کرنے کے بعد کوشش یہی ہوتی کہ اولین فرصت میں دجاج کی دوکان پر پہنچ جائیں بلکہ نماز میں بھی یہی دھن سوار رہتی کہ دُکان پر پہلا نمبر اپنا ہی لگے۔ دُکان پر پہنچنے تک کئی لوگ ہم سے بازی لے جاتے جو بغیر سنتیں پڑھے ہی شاہراہ پر ہی فرض ادا کر کے دُکان پر جمع ہو جاتے۔ ہم بھی لائن میں جا کھڑے ہوتے اور جب باری آتی تو مرغی کا انتخاب بھی ہماری اپنی مرضی پر ہوتا (کاش یہ اختیار ہمیں ہماری زندگی کے اہم ترین انتخاب کے موقعہ پر دیا گیا ہوتا)۔ خیر ہم کسی تازہ توانا دوشیزہ مرغی پر ہاتھ ڈالتے تو وہ اُچھل کر ڈربے کے جنگلے کے دوسری جانب جائے پناہ تلاش کرتی۔ ہم اور ہاتھ بڑھاتے تو تعفن سے دم گھٹنے لگتا آستینوں کو گندگی لگ جاتی منہ پھیر کر پھر ہاتھ بڑھاتے تو کوئی ناتواں مرغی ہی ہاتھ آ جاتی پھر تھک ہار کر اسی پر قناعت کرتے کہ”چلو اللہ برکت دے گا”۔ پھر یمنی دُکاندار اُس نازک اندام کے گلے پر اس بے دردی سے چھری پھیرتا کہ سر دھڑ سے جدا ہو جاتا پوری چابک دستی سے کھال اُدھڑ دیتا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جسم کے ٹکڑے ٹکرے کر دیتا۔ جنھیں مزید رقص بسمل کا دردناک منظر دیکھنے کی آرزو ہوتی تو مرغ کی کھال نہ اُترواتے بلکہ موت کا کنواں نما مشین میں گھمانے کی فرمائش کرتے اور مرغ مسلم ہڑپ کر جاتے۔ اب یہ ہولناک منظر بے دردی سے دیکھ دیکھ کر ہم ایسے شقی القلب ہو گئے کہ عراق میں انسانوں کے چتھڑ ے بکھر تے رہے اور خون کی ندیاں بہ گئیں لیکن ہمارے دل میں نہ کبھی حول پیدا ہوئی نہ آنکھ سے ایک آنسو ہی ٹپکا۔ اب تو ہم پر ایسی بے حسی طاری ہو گئی ہے کہ ہم اس طرح کے دہشت ناک خونی مناظر سے لطف اندوز ہونے اور مردہ خوری کے عادی سے ہو گئے ہیں۔
ہمارے بچپن میں جہاں ہمیں جانوروں پر رحم کرنے کی نصیحت کی جاتی تھی وہیں مرغ ذبح کرنے کی تربیت بھی دی جاتی تھی کہ بچوں میں شجاعت پیدا ہو۔ اور نڈر بن کی ظلم کے مقابلہ میں مارنے اور مرنے پر تل جائیں لیکن آج کل کی لاپ ٹاپ کی خوگر نئی نسل تو چوہے سے بھی ڈر جاتی ہے بلکہ جدید شوہرانِ نامدار تو چیکل اور جھینگر سے ڈرنے والی صنف نازک سے بھی ڈرنے لگے ہیں۔
٭٭٭