غزل ۔۔۔ شاہین فصیح ربانی

میں دیکھتا ہوں کہ اس کی اڑان اونچی ہے

میں جانتا ہوں کہ میری بساط کتنی ہے

 

خیالِ نو بھی کوئی بے قرار تتلی ہے

یہ مشکلوں سے تخیل کے ہاتھ آتی ہے

 

جوابی وار میں اس کو نہ ہو پریشانی

اسے بتا کے مجھے اگلی چال چلنی ہے

 

چڑھے تو کیا شجرِ دل مرا چڑھے پروان

ہر ایک شاخ سے حسرت کی بیل لپٹی ہے

 

وہ جانے کیسے مرے دل کا حال جان گیا

خبر نہ تھی کہ خموشی کلام کرتی ہے

 

اٹھائے پھرتے ہو ہاتھوں میں آئنہ لیکن

تمھاری بات حقیقت سے دور ہوتی ہے

 

وفور کیا مری تنہائیوں کا ہو گا فصیح

کہ اپنی بھیڑ میں دنیا اگر اکیلی ہے

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے