غزلیں ۔۔۔ سلیم انصاری

جو ترے دیکھنے سے نکلے ہیں

وہ بھی دن کیا مزے سے نکلے ہیں

 

وہ کہاں نذر جاں کریں اپنی

جو پتنگے دئیے سے نکلے ہیں

 

جو کسی سمت بھی نہیں جاتے

ہم اسی راستے سے نکلے ہیں

 

زیست کو پڑھ کے یہ کھلا ہم پر

متن سب حاشیے سے نکلے ہیں

 

سارے ارمان آندھیوں کے سلیم

میرے پر ٹوٹنے سے نکلے ہیں

٭٭٭

 

 

جنہیں طلب ہے انہیں مال و زر عطا کر دے

مجھے سلیقۂ عرضِ ہنر عطا کر دے

 

میں اور کتنا کسی دوسرے بدن میں رہوں

مرے وجود کو اب کوئی گھر عطا کر دے

 

جو گھر میں ہیں انہیں توفیق دے مسافت کی

جو چل پڑے ہیں انہیں ہمسفر عطا کر دے

 

کوئی تو ہو مرے لہجے کی سرکشی کا علاج

چراغِ جاں کو ہواؤں کا ڈر عطا کر دے

 

کیا جس نے مرے خاکدانِ جسم کو سرد

اسی کے لمسِ بدن کا شرر عطا کر دے

 

اڑان میں ہیں جو طائر انہیں زمین پہ بھیج

جو قید میں ہیں انہیں بال و پر عطا کر دے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے