محبت عام کرتے ہیں
دُکھ اپنے نام کرتے ہیں
ابھی کچھ وقت باقی ہے
چلو کچھ کام کرتے ہیں
بچے ہیں عمر کے جو پل
وہ تیرے نام کرتے ہیں
وہیں ڈوبے گا سورج بھی
جہاں وہ شام کرتے ہیں
سُنا نا ہے جنہیں مشکل
وہ قصے عام کر تے ہیں
٭٭٭
ہوا جب گرم ہو اُس پار، تو اِس پار ہو جاؤ
جہاں تم در نہ بن پاؤ، وہاں دیوار ہو جاؤ
تمہارے قتل کا الزام دشمن پر لگانا ہے
مرے پیارے وفادارو ! بس اب تیار ہو جاؤ
نہیں کوئی ضرورت اب کسی کردار سازی کی
بنا کر خاص حلیہ، صاحب کردارہو جاؤ
پتہ چلتا نہیں اس شہر کے موسم بدلنے کا
کبھی سرکار ہو جاؤ، کبھی غدار ہو جاؤ
وہ جس کے دائرے میں صرف تم ہی تم سماتے ہو
کہیں تم بھی نہ حیدر ایسی ہی پرکار ہو جاؤ
٭٭٭