غزلیں ۔۔۔۔ ادا جعفری

نہ غبار میں نہ گلاب میں مجھے دیکھنا

مرے درد کی تب و تاب میں مجھے دیکھنا

 

کسی وقت شام ملال میں مجھے سوچنا

کبھی اپنے دل کی کتاب میں مجھے دیکھنا

 

اسی دل سے ہو کے گزر گئے کئی کارواں

کئی ہجرتوں کے عذاب میں مجھے دیکھنا

 

میں نہ مل سکوں بھی تو کیا ہوا کہ فسانہ ہوں

نئی داستاں نئے باب میں مجھے دیکھنا

 

وہی ایک لمحۂ دید تھا کہ رکا رہا

مرے روز و شب کے حساب میں مجھے دیکھنا

 

جو تڑپ تمہیں کسی آئینے میں نہ مل سکے

تو پھر آئینے کے جواب میں مجھے دیکھنا

٭٭٭

 

 

 

 

یہی نہیں کہ زخمِ جاں کو چارہ جُو ملا نہیں

یہ حال تھا کہ دل کو اسمِ آرزو ملا نہیں

 

ابھی تلک جو خواب تھے چراغ تھے گلاب تھے

وہ رہگزر کوئی نہ تھی کہ جس پہ تو ملا نہیں

 

تمام عمر کی مسافتوں کے بعد ہی کھلا

کبھی کبھی وہ پاس تھا جو چار سو ملا نہیں

 

وہ جیسے اک خیال تھا جو زندگی پہ چھا گیا

رفاقتیں تھیں اور یوں کہ روبرو ملا نہیں

 

تمام آئینوں میں عکس تھے مری نگاہ کے

بھری نگر میں ایک بھی مجھے عدو ملا نہیں

 

وارثوں کے ہاتھ میں جو اک کتاب تھی ملی

کتاب میں جو حرف ہے ستارہ خُو ملا نہیں

 

وہ کیسی آس تھی ادا جو کو بکو لیے پھری

وہ کچھ تو تھا جو دل کو آج تک کبھو ملا نہیں

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے