غزلیں۔ ۔ ۔ سید انور جاوید ہاشمی

میں لاکھ کہوں بار ِ ا لَم اُٹھ نہیں سکتا

کَیا رب نے کیا جتنا رقَم اُٹھ نہیں سکتا!

 

ہاں!عشق جسے میرؔ نے پتھّر کہا بھاری

میں ڈھوتا رہا کھا کے قسَم اُٹھ نہیں سکتا

 

بیمار ہوا ایسے کہ مت پوچھیے جی کا

باقی رہی ہمّت نہ بھرَم اُٹھ نہیں سکتا

 

اشعار جو چھُپ چھپ کے لکھے چھاپ رہا ہوں

کہتا تھا زباں چُپ ہے قلَم اُٹھ نہیں سکتا

 

معیار سُخَن بر سرِ محفل رکھا قایم

جو رَب کی عطا ہے وہ کرَم اُٹھ نہیں سکتا

٭٭٭

 

 

 

کل میں اس بات پر اَڑا ہُوا تھا

’’ پیڑ اِک ر ا ہ میں کھڑا   ہُوا تھا ! ‘‘

 

زِندَگی کُچھ بدَل گئی ہُوئی تھی

جھونپڑَی جب سے جھونپَڑا ہُوا تھا

 

اُس گلی میں قدم کے دھرتے ہی

یوں لگا جیسے دو دھڑا ہُوا تھا

 

لکھ رہا تھا غزل میں رُومانی

قافیہ جس میں اک سڑَا ہُوا تھا

 

آئیے !، بیٹھیے، چلیں، جائیں؟

قول عجب کان میں پڑ َا ہو ُا تھا

 

میں نے خود کو سمجھ لیا بوڑھا

جب   سے  بیٹا   مِر ا   بڑَا   ہُوا   تھا

٭٭٭

 

 

وہ مل گیا تھا ہمیں اک سفر پہ چلتے ہُوئے

بِلا اِرادَہ کسی رِہگُزَر پہ چلتے ہُوئے

 

عجیب طور کی بخشی ہے رب نے بینائی

اُتَر گئے کئی منظَر نظر پہ چلتے ہُوئے

 

عجیب ہجر تھا ہجرت نژاد لوگوں کا

نگاہ ڈالی گئی بام و دَر پہ چلتے ہُوئے

 

پھر اُس کے بعد کوئی راستا نہ منزِل تھی

رہا گیا نہ کسی اِک ڈگر پہ چلتے ہُوئے

 

کسی کی یاد میں چھَلکے ضرور بہہ نہ سکے

وہ اشک جمتے گئے چشمِ تَر پہ چلتے ہُوئے

 

کسی خزانے پہ پھَن اپنا چھوڑ آیا کیا!

جو سانپ رینگتا دیکھا شجر پہ چلتے ہُوئے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے