غالب نامہ: غالب شناسی کا ایک معتبر حوالہ۔ ۔ ۔ احمد علی جوہر

مرزا غالب اردو زبان و ادب کے ایک عظیم شاعر ہیں۔ عالمی ادبیات میں بھی ان کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ مرزا غالب نے جب اردو شاعری شروع کی تو ان پر مشکل پسندی کا الزام عائد کیا گیا۔ غالب نے اپنے معترضین پر خفگی کا اظہار یوں کیا۔
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
ہوتے ہیں ملول اس کو سن کے سخنورانِ کامل
آساں کہنے کی کرتے ہںک فرمائش
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پرواہ
نہ سہی گر مِرے اشعار میں معنیٰ نہ سہی
غالب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی زندگی میں ان کی شاعری کی شایانِ شان پذیرائی نہیں ہوئی، مگر غالبؔ اپنے اشعار کی خوبیوں سے واقف تھے اور وہ اس کے پہلے بڑے قدردان تھے۔ اس لئے انھوں نے یہ پیشین گوئی کی تھی۔
شہرتِ شعرم بگیتی بعدِ من خواہد شُدن
غالبؔ کی وفات کے بعد ان کی یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔ ان کی شاعری کی شہرت روزبروز بڑھتی گئی اور وہ ایک مشہور و معروف شاعر کے روپ میں سامنے آئے۔ آج بھی غالبؔ عظیم اور محبوب شاعر ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ صدیوں بعد بھی وہ مقبول رہیں گے۔ اس کی بڑی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ غالبؔ نے اپنی شاعری میں عام انسانی آرزوؤں، امنگوں اور خواہشوں کی ایسی مرقع کشی کی ہے اور اپنی شعری کائنات میں ایسا آئہن خانہ سجایا ہے جس میں ہر عہد، ہر سماج اور ہر خطہ کے اہل دل کو اپنی تصویر نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری میں ایسی کشش ہے کہ جو بھی اس کی طرف جھانکتا ہے، وہ اس پر فریفتہ ہو جاتا ہے۔ ان کی شاعری عام انسانی جذبات واحساسات کے بے حد قریب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا مطالعہ کرتے ہوئے غالبؔ ہی کی زبان میں کہنا پڑتا ہے۔
’’میں نے یہ مانا کہ گویا یہ بھی مِرے دل میں ہے ‘‘
غالبؔ کی شاعری انسانی ذہن و دل کو بے حد متاثر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج صرف اُردو ہی میں نہیں بلکہ ہندی، انگریزی، فرانسیسی، ترکی، فارسی اور دیگر ہندوستانی علاقائی زبانوں میں غالبؔ مطالعہ کی توانا روایت نظر آتی ہے۔ اُردو میں غالبؔ شناسی کی ایک لمبی روایت ہے۔ اس کا باضابطہ آغاز ۱۸۹۷ء میں حالیؔ کی ’’یادگارِ غالبؔ‘‘ سے ہوا اور تا ہنوز اس کا سلسلہ جاری ہے۔ غالبؔ شناسی کی اس طویل روایت میں چند کتابیں ایسی ہیں جو آج بھی معتبر حوالہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ شیخ محمد اکرام کی کتاب ’’غالبؔ نامہ‘‘ کا شمار ایسی ہی کتابوں میں ہوتا ہے۔
یہ کتاب صرف مرزا غالبؔ کے سوانح حیات کا خلاصہ اور ان کی تصانیف پر تبصرہ نہیں ہے، بلکہ اس میں مسلسل کو شش کی گئی ہے کہ مرزا کی شخصی خصوصیات، ان کا مافی الضمیر، ان کے ذہنی ارتقا کی نشو ونما، ان کی اُفتادِ طبع اور ان کے اخلاق و عادات کی تصویر نگاہوں کے سامنے آ جائے اور ان کے کلام کی منفرد خصوصیات کو اُجاگر کیا جائے۔
مرزا غالبؔ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جتنا تنوّع ان کی شاعری میں ہے، اسی طرح ان کی شخصیت میں تنوّع ہے۔ غالبؔ کی شخصیت کی تشکیل اتنے موافق و متضاد عناصر سے مل کر ہوئی ہے اور ان کی شخصیت میں اتنے رنگ ہیں کہ صرف ایک دریچہ سے اس کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔ غالبؔ کی رنگارنگ شخصیت کو دیکھنے کے لئے ان کے کلام کے ساتھ ساتھ، ان کے عہد، ماحول، ان کے احباب و تلامذہ، ان کے معاصر موافقین و مخالفین کی تحریروں اور خود غالبؔ کے مختلف بیانات پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ تبھی ہم پورے غالبؔ کو دیکھ سکتے ہیں۔ شیخ اکرام اس فریضہ سے بڑی خوبی سے عہدہ برآ ہوئے ہیں۔ انھوں نے غالبؔ کی زندگی اور ان کے کلام پر ان کی تحریروں اور جلوۂ خضر، آبِ حیات، یادگارِ غالبؔ اور دوسری معتبر تحریروں کے حوالے سے بھرپور روشنی ڈالی ہے۔
شیخ اکرام کی یہ کتاب دو حصّوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصّے کا عنوان ’’حیاتِ غالب‘‘ ہے۔ اس میں غالبؔ کی زندگی، اس کے نشیب و فراز اور ان کی زندگی سے وابستہ اہم واقعات و حالات کو تاریخی تسلسل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ کتاب کے اس حصّے کی ترتیب میں شیخ اکرام نے سب سے زیادہ مدد غالبؔ کے ان فارسی خطوط سے لی ہے جو ’’پنج آہنگ‘‘ میں ہیں۔ ان خطوط کے متعلق شیخ اکرام لکھتے ہیں :
’’ یہ خطوط غالب کے سوانح نگار کے لے ایک بیش بہا خزانہ ہیں۔ اور کسی کتاب سے مرزا کی ان ستائیس سالوں کی کوششوں، مصیبتوں اور ان کے ماحول کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکتا جتنا ان خطوط کے مطالعہ سے۔ ہم نے ’غالب نامہ‘ میں دوسرے تذکروں سے زیادہ مفصّل اور صحیح حالات لکےنا کی کوشش کی ہے۔ اور اگر ہم اس کوشش میں کامیاب ہوئے ہیں تو یہ بیشتر اسی محنت کا صلہ ہے جو ہم نے ان خطوط کے مطالعہ میں صرف کی ہے۔ ‘‘ (۱)
کتاب کا یہ حصّہ تحقیقی نقطۂ نظر سے بڑا اہم ہے۔ اب تک مرزا کے سوانح کو بیان کرنے میں یا تو عقیدت سے کام لیا گیا تھا یا اس کی خامیاں ہی خامیاں گنائی گئی تھیں۔ اس کے برعکس یہاں مرزا کے سوانح کے اچھے، بُرے دونوں پہلوؤں پر تحقیقی حوالوں سے روشنی ڈالنے کی سعی کی گئی ہے۔ کتاب کا دوسرا حصّہ ’’غالب نما‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں مرزا کی ادبی زندگی کو شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ شیخ اکرام نے مرزا غالبؔ کی ادبی زندگی کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ دورِ اوّل ۱۷۹۷ء۔ ۱۸۲۱ء۔ دورِ دوم ۱۸۲۱ء۔ ۱۸۲۷ء۔ دورِ سوم ۱۸۲۷ء۔ ۱۸۴۷ء۔ دورِ چہارم ۱۸۴۷ء۔ ۱۸۵۷ء۔ دورِ پنجم ۱۸۵۷ء۔ ۱۸۶۹ء۔ (۲)
مرزا کے ابتدائی دور کے کلام میں شیخ اکرام نے فارسی الفاظ و تراکیب کی کثرت، زبان کی ثقالت، مضامین و خیالات کی غرابت، شاعرانہ حسن کے فقدان، آمد کی کمی، آورد اور تصنّع کی شکایت کی ہے۔ (۳) اور مثال میں درج ذیل اشعار کو پیش کیا ہے۔
پاؤں میں جب وہ حنا باندھتے ہیں میرے ہاتھوں کو جُدا باندھتے ہیں
شاید کہ مرگیا تِرا رُخسار دیکھ کر پیمانہ رات ماہ کا لبریزِ نُور تھا (۴)
یہاں شیخ اکرام نے ’’غالبؔ کی تشبیہیں اور استعارے ‘‘ کے عنوان کے تحت اس بات کی وضاحت بھی کی ہے کہ غالبؔ کے اس دور کے کلام میں تشبیہوں کی افراط تھی۔ یہ تشبیہیں نئی ضرور تھیں مگر ان میں غرابت تھی۔ شیخ اکرام نے یہاں اس حقیقت سے بھی پردہ اُٹھایا ہے کہ دہلی آمد کے بعد غالبؔ کے کلام میں بڑی تیزی سے تبدیلی رُو نما ہو رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی دور میں بھی ان کے یہاں کئی خوبصورت غزلیں ملتی ہیں۔
حُسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد
درد سے میرے ہے تجھکو بیقراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے
مرزا غالبؔ کے دوسرے دَور کی شاعری کی نسبت شیخ اکرام لکھتے ہیں :
’’دوسرے دور میں آئینہ طبیعت کا رنگ صاف ہو گیا ہے۔ فارسی ترکیبیں کم ہیں۔ اور خیالات بھی صاف اور خوشگوار ہیں۔ کلام میں بیدلؔ اور صائبؔ کے بجائے عرفیؔ اور نظیریؔ کا رنگ غالب ہے۔ تشبیہیں نیچرل اور موزوں ہیں۔ مضامین خیالی کے بجائے حالی ہیں۔ اور اظہارِ خیالات مں خلوص نمایاں ہے۔ مضامین کے نقطۂ نظر سے اس دور کی اہم ترین خصوصیت نفسیات انسانی کے متعلق شاعر کی معلومات ہیں۔ ‘‘ (۵)
اس دور کا رنگِ شاعری ملاحظہ ہو۔
مُدّت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
جوشِ قدح سے بزمِ چراغاں کئے ہوئے
ہاں وہ نہیں خداپرست جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
اس دور میں مرزا غالبؔ نے اپنے بہت سے اشعار میں الفاظ وتراکیب میں ترمیم کی۔ اس حک واضافہ سے ان کے کئی اشعار بے حد دلچسپ ہو گئے۔ مثلاً:
بُوئے گُل، نالۂ دل، دُودِ چراغ محفل جو تری بزم سے نکلا سو پریشان نکلا
اس کا پہلا مصرعہ یوں تھا۔ ’’عشرت ایجاد چہ بُوئے گُل وکُو دودِ چراغ‘‘
مرزا کے تیسرے دور کو شیخ اکرام نے عام طور پر فارسی شاعری کا دور بتایا ہے۔ اور لکھا ہے۔
’’قیام کلکتہ کے زمانے میں اور اس کے بعد ایک عرصے تک مرزا نے فارسی اشعار زیادہ لکھے۔ اور اُردو اشعار کم۔ اس لئے ۱۸۲۷ء یا اس سے کچھ عرصہ بعد سے لے کر ۱۸۴۷ء تک مرزا کی اصل ادبی زبان فارسی سمجھی جاتی ہے۔ ‘‘ (۶)
چوتھے دور کو شیخ اکرام نے درباری شاعری کا دور بتایا ہے۔ اس دور میں مرزا نے چند قصائد اور زیادہ تر غزلیں کہیں۔ غزلوں کی زبان سادہ اور آسان ہے اور تشبیہیں اور فارسی ترکیبیں کم ہیں۔ اس دور میں غالبؔ کے یہاں کئی ایسی غزلیں ملتی ہیں جو ان کے عام معیارِ شاعری پر پوری نہیں اترتیں۔
واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شرابِ طہُور کی
آمد بہار کی ہے جو بُلبل ہے نغمہ سنج
اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیوُر کی
اس دور میں مرزا کے یہاں صرف عام سی غزلیں نہیں ملتیں، بلکہ بہت اچھی غزلیں بھی نظر آتی ہیں۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، دردسے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
اس دور کی شاعری کی امتیازی صفت زبان کی سلاست اور خیالات کی سادگی کے علاوہ شوخی اور ظرافت ہے۔
حُسن میں حُور سے بڑھ کر نہیں ہونے کے کبھی
آپ کا شیوہ و انداز و ادا اور سہی
مرزا غالبؔ کی ادبی زندگی کا پانچواں دور شیخ اکرام کے مطابق غدر کے بعد کا دور ہے۔ اس دور میں مرزا نے اُردو کی بہ نسبت فارسی اشعار زیادہ کہے ہیں۔ شیخ اکرام نے مرزا کے پانچویں دور کی ’’بہترین یادگار ان کے اردو خطوط‘‘ کو بتایا ہے۔
یہاں شیخ اکرام نے غالبؔ کی ادبی زندگی کو مختلف ادوار میں تقسیم کر کے، ان مختلف دوروں کی ادبی خصوصیات پر جس تنقدنی انداز سے روشنی ڈالی ہے، اس سے ان کے معروضی انداز اور تجزیاتی ذہن کا ثبوت ملتا ہے۔ اس کی بھرپور جھلک موازنہ میں بھی نظر آتی ہے۔ ’’غالب اور مشاہیر اُردو شعرا کا موازنہ‘‘ کے عنوان کے تحت شیخ اکرام نے غالبؔ کا موازنہ خسروؔ، فیضیؔ اور اقبالؔ سے کیا ہے۔ عام طور پر موازنہ میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ دو شاعروں کے درمیان سطحی مشابہتوں پر نظر ڈال کر موازنہ کر دیا جاتا ہے۔ شیخ اکرام کے یہاں یہ رویّہ نظر نہں آتا۔ وہ دو شاعروں کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے پہلے شاعر کے عہد، ماحول اور ادبی روایات کا جائزہ لےتی ہیں۔ پھر فکر و خیال، زبان و بیان اور اسلوب کی سطح پر دونوں شاعروں کے درمیان افتراق و مماثلت کے پہلوؤں کو تلاش کرتے ہیں۔ اس طرح سے وہ موازنہ کا ایک خوبصورت معیار قائم کرتے ہیں۔ دیکھئے درج ذیل اقتباس میں شیخ اکرام نے غالبؔ کا موازنہ خسروؔ سے کیا ہے۔
’’غالبؔ اور خسروؔ کے طرز الگ الگ تھے۔ خسروؔ سادہ اور پُر اثر اشعار پسند کرتے تھے۔ اور مرزا اس زمانے میں پیدا ہوئے جب مشکل گوئی کا رواج ہو گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خسروؔ نے کئی بلند پایہ مثنویاں لکھی ہیں۔ اور مثنوی نگاری میں ان کا مرتبہ غالبؔ سے بلند ہے۔ لیکن قصیدہ نویسی میں شاید مرزا امیر خسرو سے آگے نکل گئے ہیں۔ خسروؔ کے کئی قصیدے با اثر ہیں۔ اور طرح طرح کی صنعتوں سے مرصّع ہیں، لیکن ان میں وہ رفعتِ تخیّل اور حکیمانہ خیالات نہیں جو مرزا کے قصائد میں ہیں۔ ‘‘ (۷)
کتاب کے اس حصّے میں شیخ اکرام نے ’غالبؔ کے اُردو خطوط‘ کا فکری و فنی جائزہ لےتہ ہوئے اردو نثر میں اس کے مقام و مرتبہ کے تعین کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ ’عام تبصرہ‘ کے ذیلی عنوانات ’غالبؔ کی مقبولیت کے اسباب‘، ’اعتراضات‘، ’نیچرل شاعری‘، ’غالبؔ کی عشقیہ شاعری‘، ’غالبؔ کا فلسفہ‘، ’مرزا غالبؔ کا مذہب‘، ’غالبؔ اور وطنیت‘، ’مغلیہ تہذیب و تمدّن کا ترجمان‘ اور مرزا غالبؔ کی شخصیت‘ کے تحت انھوں نے بڑی معنی خیز گفتگو کی ہے اور اپنی تنقیدی مہارت کا ثبوت پیش کیا ہے۔ ان کے یہاں عموماً جو تنقیدی رویّہ نظر آتا ہے، اسے نفسیاتی تنقید سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان کے یہاں مشرقی اور مغربی اندازِ نقد بھی پایا جاتا ہے۔ کہیں کہیں تاثراتی تنقید کے نقوش بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ذیل کا اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’شاہجہاں کا تاج محل اور غالبؔ کی شاعری، فن کی دو مختلف اصناف کے شاہکار ہیں۔ لیکن دونوں کی تہہ میں ایک ہی رُوح کارفرما ہے۔ تخیل کی سربلندی و لطافت، تلاشِ حسن اور فنی پختگی دونوں میں معراج کمال پر ہے۔ ‘‘ (۸)
شیخ اکرام کی تنقید عیوب سے پاک نہیں کہی جا سکتی لیکن اس کے باوجود ان کا غیر جانبدارانہ نقطۂ نظر، ان کا محتاط رویّہ اور متوازن انداز ان کی تنقید کو معیار و وقار عطا کرتا ہے اور انہیں ایک اہم ناقد کی شکل میں سامنے لاتا ہے۔ شیخ اکرام کی اس کتاب میں بیک وقت کئی فن جمع ہو گئے ہیں۔ اس میں فن سوانح بھی ہے اور تحقیق و تنقید، تجزیہ و تبصرہ بھی۔ اس کتاب میں شیخ محمد اکرام مرزا غالبؔ کے سوانح نگار، محقق اور ناقد کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔ غالبؔ مطالعہ میں اس کتاب کی اس اعتبار سے بڑی اہمّیت ہے کہ پہلی بار اس کتاب نے بے جا مدح و تنقیص سے گُریز کرتے ہوئے منطقی واستدلالی بنیادوں پر غالبؔ کے افہام و تفہیم کی راہ ہموار کی۔ اس کتاب کے بارے میں علی جواد زیدی کی رائے ہے۔
’’حالیؔ کی یادگار (۱۸۹۷ء) کے بعد ’غالب نامہ‘ پہیس کتاب ہے جو حیاتِ غالب کو نئے بسط و شرح کے ساتھ موضوعِ گفتگو بناتی ہے۔ جہاں تک تنقید کا تعلق ہے، بجنوری کی عقیدت مندانہ افراط کے بعد یہ متوازن نقطۂ نظر اپنانے کی کوشش کرتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تنقیدی سطح پر حالیؔ کے علاوہ عبدالرحمٰن بجنوری کی عقیدت کے جوش و وفورِ جذبات کا سامنا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے برعکس مغربی معیاروں ہی کی ڈھال تیار کر کے عبد الطیف نے ایک غیر متوازن منفیانہ رجحان اپنا لیا تھا۔ اکرام نے ان دونوں کے مقابلے میں فکر غالب کی تفہیم و تشریح کے لےو کچھ نئے زاویے اپنائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کی تنقید ایک تہذیب یافتہ ذہن کی پروردہ ہے اور شاعر کے فکر و فن کو خارجی اور داخلی عوامل کے پس منظر میں پرکھتی ہے۔ ‘‘ (۹)
گیان چند جین نے اس کتاب کو ’یادگارِ غالب‘ کے بعد غالب کے سوانح کی تحقیق اور ان کی تصانیف کی تنقید کے لئے بڑی اہم کتاب بتایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’انھوں نے غالبؔ کی شاعری پر عام تبصرہ کیا، جو کتاب کا سب سے اہم حصہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غالبؔ اور وطنیت کی بحث میں اکرام کی متوازن رائے ہے کہ غالبؔ جدید مفہوم میں وطن پرست نہ تھے۔ آخری اہم چیز جس کی طرف انھوں نے توجہ دلائی غالبؔ اور مغلیہ ذہنیت کی ترجمانی ہے۔ اکرام کے نزدیک مغل نفاست پسندی، خوش معاشی، عیش کوشی اور ہموار طبعی کے قائل ہوتے ہیں اور غالبؔ ان اقدار کے بہترین ترجمان تھے۔ اسی طرح اکرام نے غالبؔ کی شخصیت اور نفسیات کا وسیع پیمانے پر جائزہ لیا۔ بحیثیت مجموعی اکرام کے جائزے سے ہر جگہ تشفی ہوتی ہے۔ ‘‘ (۱۰)
آج اگرچہ غالبؔ مطالعہ کی نئی نئی جہتیں سامنے آ چکی ہیں اور نئے زاویوں سے کلامِ غالبؔ کے معنوی ابعاد کو اُجاگر کرنے کی سعی کی جا رہی ہے، اس کے باوجود ’غالب نامہ‘ کی اہمّیت کم نہیں ہوتی۔ غالبؔ اور ان کے کلام سے متعلق بہت سے نکات و جہات کو سامنے لانے میں ’غالب نامہ‘ کو امیاتزی حیثیت حاصل ہے۔ آج بھی غالب شناسی میں یہ کتاب معتبر اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔
٭٭

حواشی

(۱) شیخ محم داکرام، غالب نامہ، ص، ۹۲۔
(۲) ایضاً، ص، ۲۱۰۔
(۳) ایضاً، ص، ۲۱۱۔
(۴) ایضاً
(۵) ایضاً، ص، ۲۱۹۔
(۶) ایضاً، ص، ۲۳۲۔
(۷) ایضاً، ص، ۴۵، ۳۴۴۔
(۸) ایضاً، ص، ۱۷۔
(۹) علی جواد زیدی: شیخ محمد اکرام کا دائرۂ تحقیق، مشمولہ غالب نامہ ۱۹۸۹ء دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ص۱۷ تا۱۹۔
(۱۰) گیان چند جین: غالب کے نقاد، رموزِ غالب فروری ۱۹۶۷ء دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، ص۳۱۹، ۳۲۰۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے