ساتھ جیتا رہا علی یاسر
اب اکیلا چلا علی یاسر
’’راہیوں کو نگل گئے رستے‘‘
کون رستہ چنا علی یاسر
’’
مجھے دنیا کی احتیاج نہیں‘‘
سچ ہی تم نے کہا علی یاسر
کیوں کہا ’’میں چلا گیا تو گیا‘‘
کیوں کہا کیوں کہا علی یاسر
جب تری ’’سر زمیں محبت ہے‘‘
ہے محبت تو آ! علی یاسر
سب ’’ارادہ‘‘ ’’غزل بتائے گی‘‘
شاعری کر گیا علی یاسر
’’موت کو محوِ خواب دیکھتا‘‘ تھا
جس کی تعبیر تھا علی یاسر
’’زندگی اجنبی حسینہ ہے‘‘
یار تھا موت کا علی یاسر
کون اتنا حبیب ہوتا ہے
’’جس قدر تو ہوا علی یاسر‘‘
رہ گئے ہیں بہت اکیلے ہم
روٹھ کر جا چکا علی یاسر
اب تمھیں کون پوچھے گا قندیلؔ
ایک ہی یار تھا علی یاسر
٭٭٭
میں حیران ہوں کہ آج اچانک ہی میری یہ غزل سامنے آگئی جو میں نے علی یاسر مرحوم کی یاد میں لکھی تھی، علی یاسر بہت پیارا دوست تھا ، اس کے اچانک بچھڑ جانے کا دکھ کم نہیں ہوتا۔ آپ کی محبت کہ آپ نے کہیں سے میری یہ غزل اس کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے زمرے میں پیش کی ۔