عزیز جہاں ادا جعفری کے نہ ہونے کی ہونی سُن کر آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ علم و ادب کی وہ شمع فروزاں جس نے بائیس اگست ۱۹۲۴کو بدایوں (اُتر پردیش۔ بھارت)سے زندگی کے سفر کا آغاز کیا تھا۔ کسے معلوم تھا کہ اُن کی والدہ نے اپنی جس ہو نہار بچی کا نام عزیز جہاں رکھا تھا، اُسے دنیا بھر کی خواتین اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھیں گی۔ عزیز جہاں ادا جعفری نے نو سال کی عمر میں پہلا شعر کہہ کر اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا۔ عزیز جہاں ادا جعفری کی ذات سفاک ظلمتوں میں ماہتاب کے مانند تھی۔ حیف صد حیف نوے سال چھے ماہ اور گیارہ دِن اپنی تابانیوں سے اکنافِ عالم کا گوشہ گوشہ بُقعۂ نُور کرنے کے بعد بارہ مارچ ۲۰۱۵کو یہ ماہتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ ان کی وفات کی خبر سنتے ہی پوری دنیا کے علمی و ادبی حلقوں میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ وہ کچھ عرصہ سے علیل تھیں اور کراچی کے ایک شفا خانے میں زیرِ علاج تھیں۔ ان کی نمازِ جنازہ الہلال مسجد کراچی میں ادا کی گئی۔ ان کی نمازِ جنازہ میں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ادیب اور دانش ور اس جان لیوا صدمے پر فرطِ غم سے نڈھال تھے۔ ان کی وفات پر ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار تھی۔ تیرہ مارچ ۲۰۱۵ کوPECHS جام شورو ٹاؤن، کراچی کے شہرِ خموشاں میں ادا جعفری کو سپردِ خاک کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اردو شاعری میں تانیثیت کا ایک درخشاں عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس سانحہ پر شہر کا شہر ہی سوگوار دکھائی دے رہا تھا۔ جدید اُردو شاعری میں تانیثیت کی اولین دبنگ آواز اجل کے ہاتھوں مہیب سناٹوں میں گُم ہو گئی۔ انسانیت کے وقار اور سر بُلندی کو نصب العین بنا کر حقوق نسواں کے لیے انتھک جد و جہد کرنے والی حریتِ فکر کی عظیم مجاہدہ دائمی مفارقت دے گئی۔ گُزشتہ سات عشروں میں حق گوئی و بے باکی کو شعار بنا کر حریت ضمیر سے جینے کے لیے اُسوہ ء شبیر ؓ کو پیشِ نظر رکھنے والی زیرک، فعال اور مستعد ادیبہ ہماری بزمِ ادب کو اس طرح سوگوار کر گئی کہ اب طلوع صبحِ بہاراں کے امکانات خیال و خواب محسوس ہوتے ہیں۔ فرشتۂ اجل نے اس ذہین، مخلص، جری اور دردمند تخلیق کار کے ہاتھوں سے قلم چھین لیا جس نے وطن، اہلِ وطن اور پُوری انسانیت کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کو شعار بنایا۔ معاشرتی زندگی میں خواتین کے ساتھ روا رکھی جانے والی شقاوت آمیز نا انصافیوں کے خلاف ایک قلم بہ کف مجا ہدہ کی حیثیت سے ادا جعفری نے جس طرح تخلیقی سفر جاری رکھا وہ اُن کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز ہے۔ تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کا جو اسلوب انھوں نے پیشِ نظر رکھا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ معاشرے کے پسے ہوئے مظلوم طبقات کے ساتھ بالعموم اور خواتین کے ساتھ بالخصوص اُنھوں نے ایثار، خلوص، اخلاق و مروّت اور دردمندی کی اساس پر جو قلبی تعلق استوار کیا، ہر عہد میں اس کی باز گشت سنائی دے گی۔ جدید اُردو شاعری کی وہ پہلی خاتون شاعرہ تھیں جنھوں نے تانیثیت کے موضوع پر پہلی بار کھُل کر اپنا ما فی الضمیر پیش کیا۔ اپنے عہد کے ممتاز ادبی مُجلے ’’رومان‘‘سے اپنے تخلیقی ادبی سفرکا آغاز کرنے والی اِس نابغۂ روزگار شاعرہ نے عالمی سطح پر خواتین کے مسائل کو اپنے افکار کی اساس بنا کر لوحِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کر دیا۔ اپنے دور کے مایہ ناز شعرا اثر لکھنوی اور اختر شیرانی سے اکتساب فیض کرنے والی منفرد اسلوب کی حامل اُردو زبان کی اس یگانۂ روزگار ادیبہ نے حمد، نعت، غزل، آزاد نظم، ہائیکو، مختصر مضمون نگاری اور متنوع تخلیقی تجربات سے مزین اپنے منفرد اسلوب کی دھاک بٹھا دی۔ جدید اُردو شاعری تانیثیت کے موضوع پر ادا جعفری نے اپنے منفرد اسلوب میں جس فقید المثال طرزِ فغاں کو اپنایا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسی کو خواتین تخلیق کاروں نے طرزِ ادا اور تخلیقِ ادب کے سفر میں زادِ راہ قرار دیا۔ تخلیقِ ادب کو مقاصد کی رفعت کے لحاظ سے ہم دوشِ ثریا کر دینے والی اس با کمال شاعرہ نے چاندنی کے مانند اُردو زبان و ادب کی کہکشاں کو اپنے افکار کی ضیا پاشیوں سے منور کر دیا اور اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر اہتمام کیا۔ یہ چاند چہرہ بزمِ ادب کو سوگوار چھوڑ کر عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو گیا ہے۔ اب دِل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے۔ اس دل نواز ادا کی رحلت پر بزمِ ادب مدتوں سوگوار رہے گی اور اردو زبان و ادب کو قیامت تک ایسی عظیم شخصیت نصیب نہیں ہو سکتی۔
ادا جعفری کی شادی لکھنو میں اُنتیس جنوری ۱۹۴۷کو نور الحسن جعفری سے ہوئی جواس وقت متحدہ ہندوستان کی سول سروس(ICS) میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ قیام پاکستان کے وقت ادا جعفری کا خاندان کراچی پہنچا۔ ادا جعفری کے شوہر نور الحسن جعفری ایک وسیع المطالعہ ادیب تھے۔ اُردو اور انگریزی زبان پر اُنھیں عبور حاصل تھا۔ معاشرتی زندگی کے مسائل اور علمی و ادبی موضوعات پر ان کی اردو اور انگریزی زبان میں تحریریں اور کالم اخبارات اور جرائد میں شائع ہوتے رہتے تھے۔ وہ انجمن ترقی اُردو کے صدر کے منصبِ جلیلہ پر بھی فائز رہے۔ اس عرصے میں پاکستان کے ممتاز ادیبوں سے ان کے قریبی تعلقات مسلسل پروان چڑھتے رہے۔ اُ ن کے حسن اخلاق کی وجہ سے ان کا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا۔ تین دسمبر ۱۹۹۵کو نو ر الحسن جعفری نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ ادا جعفری نے تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کے رگِ سنگ میں اُترنے کی جو سعی کی اس کے اعجاز سے اُن کی شاعری قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہو گئی۔ ان کی موضوعاتی نظمیں بہت مقبول ہوئیں ان میں بیت المقدس میں نہتے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے صیہونی مظالم پر ان کی صدائے احتجاج ’’مسجد اقصیٰ‘‘جیسی معرکہ آرا نظم کی صورت میں سامنے آئے تو قارئینِ ادب میں حالات کے بارے میں مثبت شعورو آگہی پروان چڑھانے میں مدد ملی۔ عجز و انکسار ان کی فطرت ثانیہ تھی اس لیے اپنے عہد کی عظیم شاعرہ اور با کمال ادیبہ کی حیثیت سے ستاروں کو چھُو لینے کے باوجود اُنھوں نے احساسِ تفاخر سے اپنا دامن کبھی آلودہ نہ ہونے دیا۔ سب احباب کے ساتھ اخلاق و اخلاص کے ساتھ پیش آنا زندگی بھر اُن کا شیوہ رہا۔ اُردو ادب میں خواتین نے روشنی کے جس سفر کا آغاز کیا اس کے ابتدائی نقوش ماہ لقا بائی چندا کی تخلیقات میں ملتے ہیں۔ اس کے بعد جن ممتاز خواتین نے اس سمت میں اپنا تخلیقی سفر جاری رکھا ان میں زاہدہ خاتون، شروانیہ، نجمہ تصدق حسین، آمنہ عفت، رابعہ نہاں، دراب بانو وفا، قرۃالعین حیدر، حجاب امتیاز علی، فضل بانو، عصمت چغتائی، رضیہ بٹ، بانوقدسیہ، پروین شاکر، فاطمہ حسن، زاہدہ حنا، ممتاز شیریں، انیتا غلام علی، نیلو فر عباسی، شاہین زیدی، صدیقہ بیگم، کشور ناہید، اختر ریاض الدین، فہمیدہ ریاض، صفیہ اختر اور امرتا پریتم کے نام کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ادا جعفری کی شاعری طلوعِ صبح بہاراں کے وقت تازہ ہوا کے اولین جھونکے کے مانند ہے جس سے قریۂ جاں معطر ہو جاتا ہے :
ہونٹوں پہ کبھی اُن کے، میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی، بر سرِ الزام ہی آئے
لمحاتِ مسرت ہیں تصور سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
یادوں کے، وفاؤں کے، عقیدوں کے، غموں کے
کام آئے جو دنیا میں تو اصنام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ اد ا دشتِ جنوں کی
دِل میں اگر اندیشۂ انجام ہی آئے
ادا جعفری کی یہ غزل پاکستان کے نامور گُلوکاراُستاد امانت علی خان کی آواز میں قومی نشریاتی اداروں پر پیش کی گئی۔ آج بھی یہ غزل بہت مقبول ہے اِسے سُن کر اُردو زبان و ادب کے شیدائیوں کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتی ہیں۔ ادا جعفری کی شاعری بلا شبہ ساحری کی حیثیت رکھتی ہے اس کے ساتھ ہی اُستاد امانت علی خان کی آواز سُن کر دِل کے تار بھی بجنے لگتے ہیں۔
وہ خواب جیسے لوگ تھے جو
حسن و عشق کی کتاب لکھتے لکھتے سو گئے
ادا جعفری نے دنیا بھر کی خواتین کو معاصر ادب میں اپنا اہم کردار ادا کرنے کی طرف مائل کیا۔ انھوں نے خواتین کی تخلیقی فعالیت کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ اُردو کی پہلی خاتون نقاد اور زیرک تخلیق کار ممتاز شیریں (پیدائش:12-9-1924، وفات:11-03-1973)کی تنقیدی بصیرت، وسیع مطالعہ، عالمی ادبیات پر کامل دسترس اور وسیع النظری کی وہ بہت بڑی مداح تھیں۔ ممتاز شیریں کے ساتھ ان کا معتبر ربط زندگی بھر برقرار رہا۔ ممتاز شیریں کا پہلا افسانہ ’’انگڑائی‘‘ جب مجلہ ساقی دہلی میں ۱۹۴۴ میں شائع ہوا تو ادا جعفری نے اُسے بہت پسند کیا اور اس افسانے کو فرائڈ کے نظریہ تحلیل نفسی کو تخلیقی ادب کی اساس بنانے کی عمدہ کاوش سے تعبیر کیا۔ ممتاز شیریں کی تصانیف اپنی نگریا، میگھ ملھار، معیار، دُر شہوار اور امریکی کہانیاں ان کے ذاتی کتب خانے میں موجود تھیں اور ان کا مطالعہ وہ بہت توجہ سے کرتی تھیں۔ وہ ممتاز شیریں کی تر جمہ نگاری کو دو تہذیبوں کو قریب لانے کی ایک عمدہ کاوش سے تعبیر کرتی تھیں۔ اردو کی پہلی خاتون نقاد کی حیثیت سے ممتاز شیریں نے تخلیقی عمل اور اس کے پس پردہ کارفرما لا شعوری محرکات کو بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیا۔ ادا جعفری نے ممتاز شیریں کی تنقیدی آرا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ہمیشہ ان کے جان دار اسلوب کو اقتضائے وقت کے عین مطابق قرار دیا۔ وہ نئی نسل کو ان تصانیف سے استفادہ کرنے کا مشورہ دیتی تھیں۔ ممتاز شیریں کے سانحۂ ارتحال پر اپنی نظم ’’ بُلاوا‘‘ میں ادا جعفری نے اپنے جذبات حزیں کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے :
وہ جو چُپ چاپ بھری بزم سے اُٹھ کر چل دیں
یوں دبے پاؤں کہ جیسے کہیں آئیں نہ گئیں
زندگی کو کئی راہوں سے گُزرتے دیکھا
فِکرِ اِنساں کی صداقت کو نہ مرتے دیکھا
موت پہلے بھی تو اِن جیسوں کا مقسوم نہ تھی
جانے کِس دیس پہنچنے کی ہوئی تھی جلدی
جانے کِس دیس سے آیا تھا بُلاوا اب کے ؟
دنیا بھر میں ادا جعفری کے اسلوب کے لاکھوں مداح موجود ہیں۔ انھوں نے پُوری دنیا کی خواتین کے ساتھ بالعموم اور پاکستانی خواتین کے ساتھ بالخصوص خلوص و مروّت اور ایثار و دردمندی کی اساس پر جو عہدِ وفا استوار کیا، اُسے علاجِ گردشِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ نبھایا۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں بے حسی کا عفریت معاشرتی زندگی کے اُفق پر منڈلا رہا ہے۔ جوہرِ قابل کا کوئی پُرسانِ حال نہیں اس کے بر عکس انجمن ستائش باہمی کی صورت میں تحسین نا شناس کی روش نے زندگی کی تمام رُتیں ہی بے ثمر کر دی ہیں۔ آج لوگوں کی زبانوں کو مصلحت کی چاٹ سی لگ گئی ہے۔ یہ ایک لرزہ خیز اعصاب شکن المیہ ہے کہ فسطائی جبر کی مسموم فضا میں جان لیوا صدمات اور سمے کے سم کا ثمر دیکھنے کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابن الوقت لوگوں کی زبان پر آبلے پڑ گئے ہیں اور جبر کے سامنے کلمۂ حق کہنے میں اُنھیں تامل ہے۔ ادا جعفری کو اس بات کا قلق رہا کہ ہماری سماجی زندگی میں اقدار و روایات کی زبوں حالی نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے۔ خو ف اور دہشت کی فضا میں آبادیاں پُر خطر، کلیاں شرر، زندگیاں مختصر اور آہیں بے اثر کر دی گئی ہیں۔ اب دلِ شکستہ کا حال پُوچھنے والا کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ حالات اس قدر تلخ ہو گئے ہیں کہ یاس و ہراس کی فضا میں روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو گیا ہے۔ قسمت سے محروم لوگ شکستہ آرزوؤں کے ٹکڑے چُن چُن کر دامن میں سجائے بیٹھے ہیں لیکن شیشوں کا مسیحا نا پید ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ معاشرتی زندگی میں حقیقی انصاف عنقا ہے۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ میر تقی میر کو یہ کہنا پڑا کہ میر جیسے شاعر خوار پھرتے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال ہی نہیں۔ اسی طرح اسداللہ خان غالب نے یہ بات بر ملا کہی کہ ان کے اشعار اب بے حس لوگوں کی دل لگی کے لیے رہ گئے ہیں اور عرض ہنر کا اب کوئی فائدہ ہی نہیں۔ ادا جعفری کے اسلوب میں خواتین کے مسائل کو ابتدا ہی سے تزکیہ نفس کے ایک موثر وسیلے کی حیثیت حاصل رہی۔ وہ زندگی بھر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورشِ لوح و قلم میں مصرف رہیں اور ان کے دِل پہ جو گزری اُسے زیبِ قرطاس کرنے میں انھوں نے کبھی تامل نہ کیا۔ وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ تانیثیت کا موقر اور معتبر حوالہ ان کے منفرد اسلوب میں اس طرح رچ بس گیا کہ اسے ان کی زندگی کے محور کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ معاشرتی زندگی میں خواتین کو جن کٹھن مسائل اور صبر آزما حالات کا سامناہے، ان کی لفظی مرقع نگاری وہ اس فنی مہارت اور تپاکِ جاں سے کرتی رہیں کہ قاری ان کے تجربات و مشاہدات کو اپنی قلبی اور روحا نی کیفیات سے ہم آہنگ محسوس کرتا ہے۔ اپنے جذبات اور احساسات کو پورے خلوص اور دردمندی کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھال کر وہ قلبی اور روحا نی راحت کے احساس سے سرشار ہوتیں۔ ان کی شاعری دشتِ زندگی میں ثبوتِ نمو اور پیہم سفرکی درخشاں مثال ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ زندگی جوئے شیر وتیشہ وسنگ گراں کی ایک صورت ہے، خانہ ء فرہاد میں اُجالا شررِ تیشہ کا مر ہون، منت ہے۔ زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم پر ادا جعفری نے اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ زندگی کا سفر بھی ایک حیران کُن سفر ہے جس کا نہ تو کوئی بدرقہ ہے اور نہ ہی کوئی شریک سفر ملتا ہے۔ زندگی کے سفر میں محنت، لگن اور انتھک جد و جہد ہی کامیابی کا وسیلہ ہے۔
احوال ایک سفر کا
اجنبی سبزہ زاروں میں
حدِ نظر تک بنفشہ کے پھُول
اجنبی تو نہیں تھے، نہ ہیں
وہ تو راہِ سفر کے اُجالے بھی تھے
ہم سفر بھی لگے
داستانیں سُناتے بھی تھے
اور سُنتے بھی تھے
اب کے موسم تمھیں یاد کرتے ر ہے
اور میں چُپ رہی!!
ادا جعفری ایک کثیر التصانیف ادیبہ تھیں اُن کی تصانیف درج ذیل ہیں :
میں ساز ڈھونڈتی رہی (۱۹۵۰)، شہر در شہر (۱۹۶۷)، غزالاں تم تو واقف ہو (۱۹۷۲)، سازِ سخن بہانہ ہے (۱۹۸۲)، موسم موسم(کلیات ۲۰۰۲)، جو رہی سو بے خبری رہی(خود نوشت)، سفر باقی ہے (زندگی کے آخری دنوں کی شاعری)۔ اس کے علاوہ ادا جعفری نے مشفق خواجہ اور جمیل الدین عالی کی تحریک پر اُردو زبان کے کلاسیکی شعرا کے کلام کا انتخاب ’’غزل نما‘‘ (۱۹۸۷)میں مرتب کیا جو اُن کے ذوقِ سلیم کا مظہر ہے۔ اس انتخاب کو دنیا بھر میں زبردست پذیرائی نصیب ہوئی۔
ادا جعفری کی شاعری میں تہذیبی و ثقافتی اقدارو روایات کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے موجودہ زمانے میں اُنھوں نے یہ محسو س کیا کہ فرسودہ اور پامال اسالیب کی کورانہ تقلید کے بجائے جدیددور کے تقاضوں کے مطابق اظہار و ابلاغ کے لیے نئے اسالیب کی جستجو نا گزیر ہے۔ ان کی شاعری میں احساس اور اظہار کی دھنک رنگ کیفیت قاری کے لیے ایک دل کش تجربہ ہے۔ اُن کے منفرد اسلوب میں خُوب سے خُوب تر کی جستجو کی آئینہ دار ایک ارتقائی کیفیت کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے۔ گزشتہ سات عشروں میں ہماری سماجی اور معاشرتی زندگی میں جو نشیب و فراز آئے ہیں، اُن کے باعث زندگی کی اقدار و روایات کی کایا پلٹ گئی ہے۔ ادا جعفری کے اسلوب میں بھی اس کے اثرات نمایاں ہیں اُنھوں نے ادبی روایات کو ایک پیہم رواں عمل سے تعبیر کیا جو اقتضائے وقت کے مطابق تیزی سے بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ ہو کر فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ہے۔ ادا جعفری نے سماجی زندگی میں خواتین کے موثر اور فعال کردار کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے، اس کا معاشیات اور اخلاقیات کے ساتھ انسلاک کر کے فکر و نظر کے نئے دریچے وا کر دئیے۔ اُنھوں نے واضح کیا کہ خواتین کے شعور کا اپنے گرد و نواح کے حالات اور تہذیب و معاشرت سے جو گہرا تعلق ہے وہ انہی عوامل کے مدار میں گھُومتا ہے۔ ادا جعفری نے دنیا بھرکی خواتین پر زور دیا کہ وہ مثبت اور تعمیری کاموں پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں اورکسی قسم کی تخریب سے کوئی تعلق نہ رکھیں۔ اس نوعیت کے مثبت اندازِ فکر کے اعجاز سے نار کو بھی گلزار بنایا جا سکتاہے۔ اپنے خدا دا د ذہن و ذکاوت، بصیرت اور دِل و نگاہ کے سوز سے ادا جعفری نے اپنی شاعری کو سوزِ دروں سے مزین کیا۔ ان کی شاعری میں تانیثیت کے حوالے سے سوزِ غم کا دل نشیں انداز قاری کو ایک نئی دُنیا میں پہنچا دیتا ہے۔ سوزِ غم، سوزِ دروں اور خلوص و دردمندی سے متمتع ان کا اسلوب اپنی ابد آشنا اثر آفرینی کی بنا پر سنگلاخ چٹانوں اور جامد وساکت پتھروں کو بھی موم کر دیتا ہے۔ یہ بات بِلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ادا جعفری نے خواتین کے حالات کی جو لفظی مرقع نگاری کی ہے اس کی قلب اور روح کی گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی ہر دور کی شاعری میں اپنا رنگ جمائے گی۔
صاف گوئی بڑا قہر تھی، جُرم تھی
استعاروں میں اُن کو جِتاتے رہے
رنگ و بُو کی جگہ دھُول ہے خاک ہے
پھُول گُلزار سے خار کھاتے رہے
یہ فخر تو حاصل ہے، بُرے ہیں کہ بھلے ہیں
دو چار قدم ہم بھی ترے ساتھ چلے ہیں
تھے کتنے ستارے کہ سرِ شام ہی ڈُوبے
ہنگامِ سحر کتنے ہی خورشید ڈھلے ہیں
اک شمع بُجھائی تو کئی اور جلا لیں
ہم گردشِ دوراں سے بڑی چال چلے ہیں
شکوہ بھی کیجیے تو کہاں ہے روا ہمیں
سب کچھ مِلا ہے ایک خوشی کے سوا ہمیں
پانی میں ڈوب کر بھی چٹانیں وہیں رہیں
اور ہم کہ جذبِ دِل پہ بھروسا رہا ہمیں
دِل داغ داغ ہے تو بہاروں کا کیا قصور
دھوکا فصیلِ رنگ پہ خو دہو گیا ہمیں
ہو نٹوں کو مُسکرانے کی عادت سی پڑ گئی
دِل بھی کہے میں ہوتا تو کیا تھا بُرا ہمیں
ادا جعفری کی علمی، ادبی اور قومی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔ انھیں جن اعزازات اور ایوارڈز سے نوازا گیا ان کی تفصیل درج ذیل ہے :
۱۔ محترمہ ادا جعفری کو ان کے مقبول شعری مجموعہ ’’شہرِ درد‘‘ پر ۱۹۶۷ میں ’’آدم جی ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔
۲۔ حکومت پاکستان نے ادا جعفری کو ان کی علمی، ادبی اور قومی خدمات پر ۱۹۸۱ میں ’’ تمغۂ امتیاز‘‘ سے نوازا۔
۳۔ اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد نے ۱۹۹۴میں ادا جعفری کو ’’بابائے اُردو ایوارڈ‘‘ عطا کیا۔
۴۔ ادا جعفری کو ’’ قائد اعظم ادبی ایوارڈ‘‘۱۹۹۴ میں ملا۔
۵۔ ہمدرد فاؤنڈیشن، کراچی کی طرف سے اُنھیں ’’ سر ٹیفکٹ آف میرٹ‘‘سے نوازا گیا۔
۶۔ حکومت پاکستان نے محترمہ ادا جعفری کی سات عشروں پر محیط ادبی خدمات کے اعتراف میں ۲۰۰۲ میں اُنھیں ’’ پرائڈ آف پر فارمنس‘‘ سے نوازا۔
۷۔ اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد کی طرف سے محترمہ ادا جعفری کو ۲۰۰۳ میں ’’ کمالِ فن‘‘ ایوارڈ عطا کیا گیا۔
اردو ادب میں خواتین نے ہر صنف ادب میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ مردوں کی بالادستی اور غلبے والے بے حس معاشرے میں انھوں نے ہوائے جوروستم میں بھی شمع وفا کو فروزاں رکھا ہے۔ ادا جعفری نے مظلوم، محروم اور مجبور خواتین سے جو پیمانِ وفا باندھا، زندگی بھر اُسے استوار رکھا۔ ادا جعفری کے منفرد اسلوب کی ہم زباں ممتاز خواتین میں بانو قدسیہ، قرۃالعین حیدر، خالدہ حسین، زاہدہ حنا، پروین ملک، پروین شاکر، بلقیس قمرسبز واری، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، عصمت چغتائی، جمیلہ ہاشمی، رضیہ مشکور، فاطمہ حسن، فرزانہ اعجاز، رضیہ بٹ، شبنم شکیل، کشور ناہید اور ممتاز شیریں شامل ہیں۔ ہر عہد کے ادب میں ان نابغہ روزگار خواتین کے منفرد اسلوب کے اثرات موجود ہیں گے، تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی۔ ادا جعفری کی نظم ’’ شہر آشوب‘‘ عصری آگہی اور مثبت اندازِ فکر کو پروان چڑھانے میں بے حد ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت حالات نے جو رُخ اختیار کر لیا ہے اس کے تناظر میں یہ نظم اُردو شاعری میں تانیثیت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔
شہر آشوب
ابھی تک یاد ہے مجھ کو
مرے آنگن میں خیمے تھے دعاؤں کے
یقیں آئے نہ آئے میرے بچوں کو
گئے وقتوں کا قصہ ہے
کہ برگِ گل کبھی قدموں تلے روندا نہ جاتا تھا
ہوا برگشتہ گام آتی نہ تھی پہلے
یقیں اغوا نہ ہوتا تھا
مرے آنگن میں نقشِ پاسجے تھے
خون کے دھبے نہ ہوتے تھے
دھوئیں کے ناگ کا پہرا نہ ہوتا تھا
گئے وقتوں کی باتیں ہیں
مرے بچوں کو شاید ہی یقیں آئے
در و دیوار کے اوپر
کسی آسیب کا سایا نہ ہوتا تھا
سبھی تنہا تھے لیکن یوں کوئی تنہا نہ ہوتا تھا
ابھی تک یاد ہے مجھ کو
ادا جعفری کی شاعری میں یہ واضح پیغام ہے کہ آج ہمیں ہوا کی دستک کو سن لینا چاہیے۔ ہمیں فطرت کی سخت تعزیروں سے غافل نہیں رہنا چاہیے، آنے والی رُت بہت کڑی ہے۔ خواتین کے لیے اُن کا پیغام یہ ہے کہ حصارِ جبر کی اندھی فصیل کو منہدم کرنے کے لیے کُو بہ کُو بیداری کا پیغام پہنچانا ہوگا۔ بے چہرہ لوگوں اور بے در گھروں میں حوصلے اور اُمید کی شمع فروزاں کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اس وقت پاکستانی معاشرے میں خواتین میں احساس ذمہ داری اور بیداری کی جو لہر پیدا ہو گئی ہے وہ ہر اعتبار سے قابل قدر ہے۔ اس کے بنیاد گزاروں میں ادا جعفری کا نام کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ ادا جعفری کی شاعری کا مطالعہ کرتے وقت قاری متعدد علامات، نشانات، تشبیہات، ، استعارات اور تلمیحات کے بارے میں آگاہی حاصل کرتا ہے۔ ادا جعفری کی شاعری میں دیوار، برگِ گل، غنچہ، منصور، کانٹے، کلی، کرن، زہر، تیرگی، زندگی، موت، گلیاں، شہر، روح، بدن، تقدیر، سایہ، چراغ، دھُوپ، دھُول، خوشبو، بہار، خزاں، نگاہ، خواب، تعبیر، زخم، گھنگھور گھٹا، ایسے الفاظ ہیں جن کا اردو غزل کی رمزیت اور ایمائیت کی روایت سے گہرا تعلق ہے۔ ایک زیرک، فعال اور مستعد ادیبہ کی حیثیت سے ادا جعفری نے حق گوئی، بے باکی اور حریت فکر کی روایت کو پروان چڑھانے کی مقدور بھر سعی کی۔ ان کی شاعری میں زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کا جذبہ قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔ انسانیت کا وقار اور سر بلندی انھیں بہت عزیز ہے۔ انسانیت کی توہین، تذلیل اور تضحیک کرنے والے درندوں کے خلاف انھوں نے کھل کر لکھا۔ اور فصیل جبر کو منہدم کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ تقدیر کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں کچھ عرصے سے اُردو زبان کی بزمِ ادب کو نہایت کٹھن حالات کا سامنا ہے۔ بزمِ ادب کے مایہ ناز محفل آرا نہایت خاموشی سے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئے ہیں۔ علم و ادب کی کہکشاں سے کیسے کیسے آفتاب و ماہتاب گزشتہ مختصر سے عرصے میں غروب ہو گئے، ہم نفس، ہم زباں اور ہم داستاں ان ناگہا نی صدمات پر سکتے کے عالم میں ہیں۔ آرزوؤں اور امنگوں کی حسین وادیاں خزاں کی مسموم رتوں کی زد میں آ گئی ہیں۔ مُسرت سے سرشار دلوں کے مدھر گیت مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ اسی کا نام تو تقدیر ہے جو ہر لحظہ ہر گام انسانی اختیار پر پہرے بٹھا کر ہر انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے۔ ادا جعفری نے جس دردمندی سے فروغِ گلشن اور طلوع صبحِ بہاراں کی امید رکھی اور ہوائے جورو ستم میں بھی شمع وفا کو فروزاں رکھا وہ اس با ت کا ثبوت ہے کہ وہ رجائیت کی علم بردار تھیں اور بے یقینی کے مسموم اثرات سے نجات حاصل کرنے کی آرزو مند تھیں۔
میراثِ آدم
وہ جو انسان ہیں
اک کلی کے لیے، اک کرن کے لیے
زہر پیتے رہے، جی گنواتے رہے
غم رسیدہ نہ ہو، دِ ل گرفتہ نہ ہو
آج کی موت بس آج کی موت ہے
زندگی موت سے کب خجل ہو سکی
تیرگی قِسمتِ آب و گِل ہو سکی
معاشرتی زندگی میں خزاں کے سیکڑوں مناظر ہیں، سرابوں کے اندیشے مدام ہیں، سو رنگ کے منجدھار ہیں اور ہر موج میں حلقۂ صد کام نہنگ کے دام ہیں۔ ان حالات میں سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں میں انسان شکستہ پتوار تھامے کشتیِ زیست کی سلامتی کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا ہے مگر اس کی کوئی اُمید بر نہیں آتی اور نہ ہی اصلاحِ احوال کی کوئی مثبت صورت نظر آتی ہے۔ ادا جعفری نے زندگی کی حیات آفرین اقدار کو اپنے اسلوب میں جگہ دی ہے۔ ان کی دلی تمنا رہی کہ زندگی کی حیات آفرین اقدار کی نمو اور استحکام کو اوّلیت حاصل ہو اور مرگ آفریں قوتوں کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی جائے۔ استحصالی معاشرے میں دکھی انسانیت پر جو کوہ ستم توڑا جاتاہے اس کے نتیجے میں فکرو خیال کی دنیا ا داس، روّیوں میں یاس، آنکھوں میں درد کی چبھن اور تمام قویٰ کی تھکن، دل کے ارمانوں کا انہدام اور اب اظہار پر لگے تالے، یہ لرزہ خیز منظر دکھاتے ہیں کہ ہر طرف درد انگیز نالے سنائی دیتے ہیں۔ ادا جعفری نے ہمیشہ حریتِ ضمیر اور حریت فکر کا علم بلند رکھا، جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حرفِ صداقت لکھنا اپنا نصب العین بنا یا، حقیقت نگاری کی شمع فروزاں رکھی اور کسی مصلحت کے تحت جبر کے سامنے سپر انداز ہونے کا تصور بھی نہ کیا۔ انھوں نے فرد کی انفرادی اور معاشرے کی اجتماعی زندگی کے بارے میں حقائق بیان کرتے وقت الفاظ کو کبھی فرغلوں میں لپیٹنے کی کوشش نہیں کی بل کہ نہایت واشگاف الفاظ میں کلمۂ حق ادا کیا۔ ان کے اسلوب میں زندگی کے بارے میں اجتماعی شعور کی جو برق رفتار، قوی اور مسحور کُن کیفیت ہے وہ اُن کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ معاشرتی اور سماجی زندگی میں خواتین کی زندگی کے ہر پہلو پر اُن کی گہری نظر رہی۔ دنیا بھر کی خواتین سے اُن کا یہی تقاضا رہا کہ وہ گلزار ہست و بُود کو اپنائیت کی نگاہ سے دیکھنے کی روش اپنائیں اور ہجوم غم میں بھی دل کو سنبھال کر جہد و عمل کو شعار بنائیں۔
ماں
گرد صدیوں کے سفر کی مرے بالوں میں اٹی
پاؤں چھلنی ہیں، نگہ زخمی ہے، دِل ہے خالی
کہیں کُچلے ہوئے سر ہیں، کہیں بے روح بدن
ہے اِدھر بھوک، اُدھر ہے فقط آسائشِ تن
اورسرگوشیاں کرتا ہے یہ ممتا کا جنوں
کٹ ہی جائے گا شبِ تار کا اک روز فسوں
دیکھو نادان ہے، نادان سے مایوس نہ ہو
آخر اِنسان ہے، انسان سے مایوس نہ ہو
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ریا کی غم گُساری، غرض کی آشنائی، ملمع کی فدا کاری اور بگلا بھگت مسخرہ پن نے یقین اور اعتماد کی دنیا ویران کر دی ہے۔ گردشِ حالات سے بے خبر معاشرہ دُکھی انسانیت کے مسائل سے اس قدر بے خبر اور بے تعلق ہو چکا ہے کہ سیل حوادث کے جان لیوا خطر ات، زندگی کے تکلیف دہ مسائل اور ان کے مضمرات کے بارے میں جان کر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ مُردوں سے شر ط باندھ کر سونے والے چلتے پھرتے ہوئے مُردوں نے تو لُٹیا ہی ڈبو دی ہے۔ ہر کوئی اپنی انا کے خول میں محبوس ہے اور اس شہر نا پرساں میں دُکھی انسانیت کے درد کا درماں تلاش کرنے کی کسی کو فکر نہیں۔ ادا جعفری نے گُزشتہ سات عشروں میں معاشرتی زندگی کو درپیش مسائل کی ترجمانی کا حق ادا کیا ہے۔ تخلیقِ فن کے لمحوں میں اُنھوں نے جس والہانہ انداز میں بے لوث محبت کے جذبات کو قوت متخیلہ کی اساس بنایا ہے وہ دلوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کرتا ہے۔ ادا جعفری کے اسلوب میں فکر و خیال کی رفعت، جذبوں کی صداقت، زبان و بیان کی نُدرت اور اظہار کی شائستگی اور پاکیزگی کا معیار اس قدر ارفع ہے کہ قاری اُن کی شاعری کے مطالعہ سے قلبی اور روحانی سکون محسوس کرتا ہے اور اس کے اعجاز سے دِلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ تانیثیت کے ہمہ گیر موضوع پر افکارِ تازہ کی نقیب ادا جعفری کی شاعری قاری کو ایک جہانِ تازہ کی سیر کراتی ہے، جس کے معجز نما اثر سے قاری پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ معاشرتی زندگی کے تلخ تجربات، مشاہدات، تضادات، ارتعاشات اور تاثرات جب ادا جعفری کے فکر پرور اور بصیرت افروز اسلوب کے سانچے میں ڈھلتے ہیں تو قاری پر فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان کا موثر، دل کش اور منفرد اسلوب انسانی فطرت سے ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے اور قاری اس کے سِحر میں کھو جاتا ہے۔ ادا جعفری کی تخلیقی فعالیت جہد و عمل کی مظہر ہے۔ ان کے اسلوب میں سچے جذبات کا سیلِ رواں بے یقینی، جمود، بے عملی، مصلحت اندیشی اور کاہلی کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے اور قاری کو اعتماد سے سوئے منزل رواں دواں رہنے پر مائل کرتا ہے۔ ان کی شاعری قاری کے جذبات و احساسات کی اس قدر موثر انداز میں تنظیم کرتی ہے کہ امروز کی شورش میں اندیشہ ء فردا کی نمو کے امکانات روشن تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
غمِ عشرت سے ترساں، عشرتِ غم لے کے آئے ہیں
گدایانِ تہی کاسہ، دو عالم لے کے آئے ہیں
اسی در پر ستارے تھے، شگوفے تھے، بہاریں تھیں
بڑا ہی ظرف تھا اُن کاجو شبنم لے کے آئے ہیں
ہمیں تو برہمیِ نکہتِ گُل بھی قیامت ہے
قیامت ہے کہ خود تقدیرِ برہم لے کے آئے ہیں
جو تھے خدائے عزم و یقیں آج کیوں اُنھیں
بے چارگیِ دستِ دعا راس آ گئی
ہر خواب دل فریب سے آنکھیں چُر ا گئے
بیگانگیِ اہلِ وفا راس آ گئی
طے کر سکے نہ آپ تمنا کے مرحلے
اہلِ جنوں کو لغزشِ پا یاد آ گئی
دل کو اندازِ تغافل کے بھی سائے تھے بہت
پھر بھی ناداں ترا سایۂ در مانگے ہے
دِ ل بدل جاتے ہیں، انسان بدل جاتے ہیں
کوئی دیوانہ وہی شام و سحر مانگے ہے
آپ سے دِل کو توقع تھی پذیرائی کی
ہائے نادان کہ پھُولوں سے شرر مانگے ہے
تخلیقِ ادب کے وسیلے سے ادا جعفری نے قارئینِ ادب کو اپنی زندگی کے حالات اور تجربات سے آگا ہ کر نے کی کوشش کی ہے۔ ان کے اسلوب میں ان کی ذات ایک ارفع مقام پر فائز دکھائی دیتی ہے۔ انھوں نے اپنے اسلوب میں اپنی ذات کو الگ اور جدا گانہ حیثیت دی ہے۔ اپنے اسلوب میں اپنی ذات کے بجائے انھوں نے حیات و کائنات کے مسائل کو اوّلیت دی۔ اپنی شاعری کے وسیلے سے اُنھوں نے خواتین پر زور دیا کہ وہ اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنی دنیا آپ پید ا کریں اور اپنی حقیقت سے آ شنا ہو کر پورے اعتمادسے تعمیرِ وطن کے کاموں میں شامل ہو جائیں۔
ہماری محفل کے وہ آفتاب و ماہتاب جن کی ضیا پاشیوں سے ہمارے دل کی انجمن منور رہتی ہے جب اچانک غروب ہو جاتے ہیں تو دل پر قیامت سی گزر جاتی ہے۔ ان کی دائمی مفارقت پر کلیجہ منہ کو آتا ہے اور ان ناقابلِ اندمال جان لیوا صدمات کے مسموم اثرات سے ہماری زندگی خزاں کے سیکڑوں مسموم مناظر میں اُلجھ کر رہ جاتی ہے۔ تقدیر کے ستم مسلسل سہہ کر شدت غم سے نڈھال ہم صدائے جرس کی جستجو میں تاریک راہوں میں ٹامک ٹوئیے مارتے مارتے سکوت کے صحرا کے سرابوں میں جا نکلتے ہیں۔ یہ لمبی جُدائی ہمیں مہیب سناٹوں، اعصاب شکن تاریکیوں، لرزہ خیز محرومیوں اور غیر مختتم مایوسیوں کی بھینٹ چڑھا دیتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ موت سے کسی کو رستگاری نہیں۔ رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے، ہر شخص بے بسی کے عالم میں زندگی کے کٹھن اور صبر آزماسفر میں کیسے اپنی باری بھر رہا ہے یہ راز کسی کو معلوم نہیں۔ کیسے کیسے نابغۂ روزگار لوگ اس راہِ جہاں سے گزرے، جی چاہتا ہے کہ اُن کے نقش قدم دیکھ کر اپنی حقیقی منزل کی جستجو کی جائے۔ زندگی کے اسرار و رموز کی گرہ کشائی ممکن ہی نہیں۔ تقدیر کے چاک کو سوزنِ تدبیر سے کسی طور بھی رفو نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ جن عظیم ہستیوں کو ہم دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں جب وہ مستقل طور پر ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہیں تو دل پر جو صدمے گزرتے ہیں ان کا تریاق کیسے ہو؟اس دائمی مفارقت سے قلب اور روح پر جو زخم لگتے ہیں وقت ہی ان کا مرہم ثابت ہوتا ہے۔ یہی انسان کی الم نصیبی ہے کہ وہ تقدیر کے اٹل فیصلے کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے پر مجبور ہے۔ ادا جعفری نے عدم کے کُوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیا لیکن وہ قارئینِ ادب کے دل میں تا ابد موجود رہیں گی۔ ان کی عظیم الشان علمی، ادبی اور قومی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ تاریخ ہر دور میں ان کی فقید المثال ادبی کامرانیوں، اشہبِ قلم کی جو لانیوں اورمستحکم شخصیت کی اعجاز بیانیوں کی بنا پر اُن کے نام کی تعظیم کرے گی۔ ان کے بعد بھی ہر بزمِ وفا میں ان کی عظمتِ خیال ہی کو موضوع گفتگو کی حیثیت حاصل رہے گی۔ ان کے زندہ الفاظ اُ ن کے منفرد اسلوب اور ابد آشنا تخلیقی وجود کا اثبات کریں گے۔ یہ سچ ہے کہ زندگی ایک فریب نظر کے سوا کچھ بھی نہیں لیکن اردو زبان و ادب کے قارئین اپنے دلوں کو ان کی یاد سے آباد رکھنا ا پنا مطمح نظر بنائیں گے اور یوں اپنی انجمنِ خیال سجائیں گے۔ زندگی اور اس کی حقیقت کے بارے میں ادا جعفری کے یہ اشعار میرے جذبات حزیں کی ترجمانی کرتے ہیں :
سب سے بڑا فریب ہے خود زندگی ادا
اس حیلہ جُو کے ساتھ ہیں ہم بھی بہانہ ساز
سانس کی بات ہو کہ آس ادا
سب کھلونے ہیں ٹُوٹ جانے کو
حجلہ ء ناز سے آتے ہیں بُلاوے اب کے
آخری بار چلو۔ آخری دیدار کرو
شاید اِدھر سے قافلۂ رنگ و بُو گیا
خوشبو کی سسکیاں ہیں ابھی تک ہواؤں میں
پُوچھے گی کس سے اب کے صبا گھر کا راستہ
ہم نے تو اپنا نقشِ قدم تک مٹا دیا
آرزو صبا جیسی، پیرہن گلوں سا تھا
زندگی امانت تھی، درد خود مسیحا تھا
٭٭٭