عبد الاحد ساز عہد حاضر کے اہم غزل گو شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز سنہ 70ء کے آس پاس شروع کیا۔ 1970ء کے بعد کی ادبی نسل نے اردو غزل کو نیا رنگ و آہنگ دینے کی کوشش کی۔ان شعرا کے یہاں اپنی ادبی روایت سے تعلق بھی ہے اور اسے نئی زندگی کی حقیقتوں کا ترجمان بنانے کا شوق بھی۔ اردو غزل میں نئی تازگی اور توانائی کا احساس ان شعرا کے یہاں ملتا ہے۔ ان شعراکی تخلیقات کے مطالعہ سے نمایاں طور پر ایک خوش گوار تبدیلی کا احساس ہوتا ہے۔ا ن غزل گو شعرا نے کسی عقیدے کو بنیاد بنا کر شاعری نہیں کی بلکہ آزادانہ طور پر اپنے تخلیقی عمل کو جاری رکھا۔ ان غزل گو شعرا نے شدت پسندی سے اپنا دامن بچائے رکھا، جو ان کے قریبی پیش رو شعرا میں بعض کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو 70ء کے بعد اردو غزل میںایک خوشگوار تبدیلی نظر آتی ہے۔ یہ تبدیلی موضوعات کے ساتھ ساتھ زبان و بیان میں دیکھی جاسکتی ہے۔
عبد الاحد ساز کے یہاں وہ خلوص اور انہماک موجود ہے جو کسی اچھے فنکار کے لیے ضروری ہے۔ ساز کی شاعری پر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کے مختلف رنگوں کو سمیٹنے کی سعی ان کی پوری شاعری میں موجود ہے۔ ان کے یہاں زندگی کی خوش نمائیاں بھی ہیں اور بدنمائیاں بھی۔ آج کی زندگی کے تضادات اور نئے نئے مسائل کو نہایت موثراندازمیں پیش کیا ہے۔ ساز کی شاعری میں اس عہد کی زندگی کا کرب موجود ہے:
یہ آسماں سے رگ جاں تک ایک سرگوشی
سکوت شب کا یہ انداز گفتگو کیا ہے
آج کا شاعر جس کرب سے گزر رہاہے اس کا اظہار ساز کی غزلوںمیں بڑی خوبصورتی سے ملتا ہے، جس تیز رفتاری سے زندگی بدل رہی ہے، وسائل کی فراوانی کے باوجود جس طرح زندگی میں پیچیدگی پیدا ہوتی جارہی ہے اور بھاگ دوڑ کے اس عہد میں جیسی زندگی لوگ بسرکررہے ہیں اس کا اظہار دیکھیے:
آنکھ آئینے پہ دل دشت میں سر دفتر میں
گھر میں رہتے ہوئے آساں نہیں گھر میں رہنا
سانس کی ہر آمد لوٹانی پڑتی ہے
جینا بھی محصول چکانا لگتا ہے
ساز نے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے آنکھیں نہیں چرائیں اور نہ ہی خیال و خواب کی کسی دنیا میں پناہ تلاش کی۔ ان کا مشاہدۂ حیات ملاحظہ کیجیے:
جذبوں کے دو گھونٹ عقیدوں کے دو لقمے
آگے سوچ کا صحرا ہے کچھ کھاپی لینا
سڑک سڑک شمشان کا منظر دفتر دفتر کریا کرم
گھر سے نکلیں زندہ مردہ گھر کو لوٹیں مردہ زندے
عبد الاحد ساز نے اس سچائی کو نظرانداز نہیں کیا کہ روایت سے کٹ کر اپنے وجود کو قائم رکھنا ناممکن ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ عہدحاضر کے سیاسی، سماجی مسائل زندگی کی تلخ و شیریں سچائیوں کو نظراندازکرکے اچھی شاعری نہیں کی جاسکتی، روایت سے رشتہ قائم کرکے زندگی کی اجتماعی اور انفرادی سچائیوں کو پیش کرنا ضروری ہے، ’’خموشی بول اٹھی ہے‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
’’روایت اگر محض کہنگی اور قدامت پرستی پر محمول نہ کرلیا جائے تو ایک زندہ اور جاری و ساری حقیقت ہے، جو عہد بہ عہد عمودی اور افقی جہتوں میں بڑھتی اورپھلتی رہتی ہے۔ اجتہاد رد عمل یا انحراف خود اس توسیع کی توانا شکلیں ہیں ہاں مگر بے بنیاد انعطاف یا انکار بالکل منفی طریقۂ کار ہے، جو کائنات، زندگی اور آرٹ کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے مترادف ہے۔‘‘
عبد الاحد ساز کلاسیکی روایت سے جڑے بھی رہے اور عصری زندگی سے الگ بھی نہیں ہوئے۔ عہد حاضر کی بے چینی، تنہائی، تہذیبی قدریں،شکست و ریخت، شہری زندگی اور اس میں شخصیت کی گم شدگی وغیرہ عصری زندگی کے مسائل کو انھوں نے شاعری میں پیش کیا ہے:
جذبوں کی گرمیوں سے جو پھوٹے تھے زمزمے
وہ سوچ کی اداس نواؤں میں کھوگئے
ڈھلتے جھڑتے روپ شکستہ قبروں سے
اجڑے چہرے دھندلے دھندلے کتبوں سے
موت نے رات مرے دل کو تھپک کر یہ کہا
آج کے بعد مرے دام اثر میں رہنا
ساز کی نظر زندگی کی کڑوی کسیلی سچائیوں پر ہے، اور حسن و عشق کے معاملات پر بھی،گویاشاعر کے لیے زندگی صرف جبر ہی نہیں زلف و رخسار کی جنت بھی ہے۔ ساز کے یہاں زندگی کے دونوں رخ نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان کے لیے زندگی نہ تو زہر کا جام ہے اور نہ ہی امرت کا پیالہ، بلکہ دونوں کی گردش زندگی میں موجود ہے۔ اشعار:
وہ تو ایسا بھی ہے ویسا بھی ہے کیسا ہے مگر
کیا غضب ہے کوئی اس شوخ کے جیسا بھی نہیں
کھلے ہیں پھول کی صورت ترے وصال کے دن
ترے جمال کی راتیں ترے خیال کے دن
نیند بھری پلکوں میں جاگے تیری یاد کے سائے
سناٹے نے دیر تلک ماضی کے گیت سنائے
اردو غزل کی روایت میں کچھ خاص لفظیات و تراکیب و استعارات کے استعمال کی کثرت د یکھی جاسکتی ہے۔ ایک مخصوص مزاج کا ڈکشن پوری اردو غزل میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ نئی غزل کے حوالے سے نئے میلانات اور نئے موضوعات کے لیے شاعروں نے لفظیات و تراکیب کو اپنے اظہار کے لیے غزل میں استعمال کیا۔آج کا غزل گو جن حالات و واقعات سے دوچار ہے، خارجی اور داخلی سطح پر جس کرب کو محسوس کررہا ہے اس کے لیے اسے روایتی لفظیات ناکافی معلوم ہوئے۔ ساز نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے نئے نئے لفاظ کاا ستعمال نہایت خوبصورتی سے کیا ہے۔ اپنے تخلیقی تجربوں کے اظہار کے لیے انھیں ایسا کرنا ضروری تھا:
بیچ نگروں چڑھتے وحشت بڑھتی ہے
شام تلک ہر سو ویرانہ لگتا ہے
نوشادر گندھک کی زباں میں شعر کہیں اس یُگ کے
سچ کے نیلے زہر کو لہجے کے شراب میں گھولیں
جلتے بجھتے بلب انا کے پھیلتے گھٹتے سوچ کے رنگ
دنیا کا ڈسکو لمحوں کے تھاپ تھرکتے سازندے
اجتہاد کا یہ رویہ نئے غزل گو شعرا کے یہاں عام طور پر نظر آتا ہے۔ اس کی اس سعی سے اردو غزل میں موضوعات اور زبان و بیان کے امکانات روشن نظر آتے ہیں۔ ساز کی غزل گوئی اس سفر میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب نظر آتی ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ساز کی شاعری زندگی کی تلخی اور شیرینی، اس کی خوش نمائی اور بدنمائی اور اس کی روشنی اور تاریکی، الغرض تمام پہلوؤں سے علاقہ رکھتی ہے۔ انھوں نے اپنے تجربوں اور مشاہدوں کی پیش کش کے لیے نہایت موثر طریقہ اختیار کیا ہے۔ ساز نے نئے نئے تجربات اور مشاہدات کے لیے نئی لفظیات اور نئے اسالیب کی طرف قدم بڑھایا ہے، ان کی غزلوں کے مطالعے سے لب و لہجہ اور اسلوب کے نئے پن کا احساس ہوتا ہے لیکن زبان و بیان کے نئے پن میں انھوں ے افراط و تفریط سے دامن بچائے رکھا ہے۔ ان کے یہاں ایک منجھا ہوا انداز نظر آتا ہے۔ ان کے کلام میں ایک طرح کی گہرائی نظر آتی ہے جو فکری سطح پر ان کا مقام بلند کرتی ہے۔
ماخذ:
اردو ریسرچ جرنل، دہلی، شمارہ ۲
٭٭٭