مشہور مصنفہ محترمہ قرۃ العین حیدر اپنے ایک مضمون ‘‘ خدیجہ مستور ایک منفرد افسانہ نگار ’’ میں یوں رقمطراز ہیں۔
’’ایک وقت تھا جب افسانہ نگار خواتین کو خاص طور پر پُراسرار ہستیاں سمجھا جاتا تھا اور افسانوی ادب کی اس Mystique میں سر فہرست تھیں۔ یہاں تک کہ دو حضرات طاہری دیوی شیرازی اور آمنہ دیوی پریاگی کے مہمل فرضی ناموں کے ساتھ اپنے افسانے چھپواتے تھے۔
انھوں نے کسی خاتون کو خوب سجا بنا کے ان کی تصویر بھی بطور طاہرہ دیوی شیرازی کسی افسانے میں چھپوائی تھی۔ حالانکہ وہ خاتون کچھ جانکی بائی آف الہٰ آباد قسم کی معلوم ہوتی تھیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ غالباً اس خاتون کے پردے میں دراصل ڈاکٹر عندلیب شادانی پنہاں تھے۔
ڈاکٹر صاحب تقسیم کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اُردو تھے۔ ان سے ہماری آپا حمید جہاں کی شادی ہوئی تھی جو میری والدہ مرحومہ کی ایک سہیلی کی بیٹی اور علی گڑھ والی اعلیٰ بی یعنی عبداللہ بیگم کی بھانجی تھیں۔ ‘‘
ڈاکٹر عندلیب شادانی کے بارے میں جناب وفا راشدی اپنی کتاب ‘‘ بنگال میں اردو‘‘ مطبوعہ اردو پبلشنگ ھاؤس دہلی ۱۹۵۴ میں لکھتے ہیں
’’ایک مدت تک پریم پجاری کے روپ میں سچی کہانیاں لکھتے رہے جو ماہنامہ ساقی دہلی میں شائع ہوتی رہیں۔ اور بے حد پسند کی گئیں۔ سچی کہانیاں مجموعی شکل میں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ ‘‘
ڈاکٹر مرزا حامد بیگ اپنے مضمون ‘‘ اردو افسانے کا نسوانی لحن’’ میں لکھتے ہیں
’’رومانی افسانہ نگار خواتین میں طاہرہ دیوی شیرازی کا نام بھی شامل کیا جاتا رہا ہے۔ جس کا بارہ افسانوں پر مشتمل ایک افسانوی مجموعہ بھی 1935ءمیں شائع ہوا، لیکن درحقیقت طاہرہ دیوی شیرازی کا وجود نہ تھا۔ اس نام کے پردے میں چراغ حسن حسرت اور ضمیر جعفری تھے۔ ‘‘
روزنامہ دنیا کے ایک مضمون میں دعویٰ کیا گیا کہ نیاز فتح پوری نے طاہرہ دیوی شیرازی کے نام سے لکھا۔
کلکتہ گرلس کالج میں ۲۰ دسمبر ۲۰۱۱ء کو ایک دو روزہ سیمینار بعنوان ’’اردو کی معروف خواتین افسانہ نگار‘‘ منعقد کیا گیا جس میں نوشاد مومن، کلکتہ نے ’’بنگال کی ایک معتوب افسانہ نگار : طاہرہ دیوی شیرازی ‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔
مشفق خواجہ پاک و ہند کے اخباروں میں خامہ بگوش کے فرضی نام سے ادبی کالم لکھا کرتے تھے۔ جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ خود ہی یہ کالم لکھا کرتے تھے اور انہیں یہ قلمی نام اختیار کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی تو انہوں نے جواب دیا۔
’’ اصل میں کالم نگاری میرا میدان نہیں ہے۔ یہ میرا مقصد اور میری منزل نہیں ہے۔ یہ تو میرے راستے کے بہت سے منظروں میں سے ایک منظر ہے۔ میں قلمی نام سے اس لیے لکھتا ہوں کہ ہمارے ہاں فرضی ناموں سے لکھنے کی ایک طویل روایت ملتی ہے۔ احمد ندیم قاسمی صاحب سالہا سال تک "عنقا” کے نام سے لکھتے رہے، مولانا چراغ حسن حسرت نے سندباد جہازی کے نام سے کالم نویسی کی۔ ابن انشا نے کم از کم نو فرضی ناموں سے کالم لکھے اور پطرس بھی فرضی نام تھا جو بالآخر اصل نام کا حصہ بن گیا۔
قلمی نام اختیار کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ طنز و مزاح کے کالم میں بعض چیزوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اصلی نام سے لکھنے میں خرابی یہ ہے کہ لوگ اس پر غور نہیں کرتے کہ کیا لکھا گیا ہے بلکہ اس پر توجہ دینے لگتے ہیں کہ کس نے لکھا ہے ؟ چونکہ میرے پیش نظر مقصد اہم تھا اس لیے میں نے فرضی نام اختیار کر لیا۔ اب یہ میری بدقسمتی ہے کہ کالموں کی اشاعت کے بعد لوگ اس تحقیق میں پڑ گئے کہ لکھنے والا کون ہے ؟ ‘‘
اردو ادب کی ان پراسرار خواتین کی کھوج لگانے نکلے جن کے افسانے تو گزشتہ دور کے مشہور ادبی ماہناموں کی زینت بنتے رہے ہیں، لیکن خود ان کی شخصیات پردۂ راز میں رہیں، تو اندازہ ہوا کہ ان سب ناموں میں دو نام سب سے زیادہ مشہور ہوئے۔ ایک نام قمر زمانی بیگم جبکہ دوسرا نام طاہرہ دیوی شیرازی ہی کا تھا۔ اس گروہ میں فرخندہ جمال عالی، آمنہ دیوی پریاگی، ناہید، کہکشاں اور ثریا کے نام بھی شامل ہیں۔ قمر زمانی بیگم ماہنامہ نقاد کی جوائینٹ مدیر بھی رہیں اور طاہرہ دیوی شیرازی کے افسانوں کا مجموعہ ‘‘ سحرِ بنگال’’ ساقی بک ڈپو دہلی سے شائع کیا گیا۔
یہ خواتین کون تھیں۔ کیا یہ نام ان کے اصلی نام تھے یا یہ قلمی ناموں سے لکھ رہی تھیں۔ کیا وجہ ہے کہ ان خواتین میں یہ سے کوئی بھی منظرِ عام پر نہیں آئی۔ اردو ادب میں قلمی نام سے لکھنے کی روایت انوکھی نہیں۔ کئی لکھنے والوں نے قلمی ناموں سے بھی لکھا اور ان کی یہ قلمی شخصیت بھی منظرِ عام پر آئی۔ مضمون کے شروع میں دئیے گئے حوالوں سے ظاہر ہے کہ ان مذکورہ بالا خواتین کی شخصیات ابھی تک پردۂ راز میں ہیں اور وقتاً فوقتاً لوگ ان کی شخصیتوں کے بارے میں نت نئے انکشافات کرتے رہتے ہیں۔ ادھر روزِ اول سے ہی اردو رسالوں اور کتابوں کی تعدادِ اشاعت اس قدر کم رہی ہے کہ بہت سے راز افشاء ہونے کے با وصف راز ہی رہے ہیں۔ کیا یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خواتین قلمی ناموں سے لکھ رہی ہوں اور کچھ عرصہ بعد لکھنے سے کنارہ کش ہو کر دوبارہ گوشۂ عزلت میں جا بیٹھی ہوں۔ اتنا ضرور ہے کہ ان ناموں کے ساتھ نتھی پراسراریت نے اگر چہ ان کی شخصیات کی اصل کو پردۂ راز ہی میں رکھا لیکن ادب کے نقادوں نے انہیں سنجیدہ مصنفوں کی فہرست سے دور ہی رکھا۔ مثال کے طور پر جناب وفا راشدی نے اپنی کتاب ‘‘ بنگال میں اردو‘‘ مطبوعہ اردو پبلشنگ ھاؤس دہلی ۱۹۵۴ میں طاہرہ دیوی شیرازی کا کوئی تذکرہ نہ کیا حالانکہ ۱۹۳۵ میں ساقی بکڈپو سے طاہرہ کے افسانوں کا مجموعہ ’’سحرِ بنگال‘‘ کے نام سے چھپ کر انہیں مستند افسانہ نگار تسلیم کروا چکا تھا۔
اسی طرح بنگال ہی سے تعلق رکھنے والی شائستہ اختر بانو سہروردی نے اپنے پی ایچ ڈی مقالے ’’ اے کریٹیکل سروے آف دی ڈیولپمنٹ آف دی اردو ناول اینڈ شارٹ اسٹوری۔ ۱۹۴۵ ( جسے حال ہی میں ۲۰۰۶ میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی نے بھی چھاپا ) ‘‘ میں ’’ ویمن شارٹ اسٹوری رائٹرز‘‘ کے نام سے ایک باب باندھنے کے باوجود ان دونوں ہستیوں کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔
ماہنامہ نقوش کے مدیر محمد طفیل اپنے ایک شخصی خاکے بعنوان ‘‘ نیاز صاحب’’ میں رقمطراز ہیں۔
’’ نیاز صاحب کی یوں تو کئی تصانیف ہیں جو سب کے سامنے ہیں مگر میں ایک، غیر مطبوعہ تصنیف’ کا بھی ذکر کروں گا، شاہ دلگیر، جو نقاد کے ایڈیٹر تھے، ان کے لیے انہوں نے ایک قمر زمانی تراشی، صرف ان کے عاشقانہ ہمک سے لطف اندوز ہونے کے لیے۔ قمر زمانی کون تھیں، کیا تھیں، اسے جانے دیجیے۔
یہ وہی قمر زمانی ہیں جن کی وجہ سے دوبارہ نقاد جاری ہوا تھا اور اس میں قمر زمانی کے اپنے خط میں ان کے مضامین چھپا کرتے تھے۔ شاہ دلگیر کی پہلے تو قمر زمانی سے ملاقات، صرف خط و کتابت کی حد تک تھی۔ مگر یہ کب تک دور دور رہتے، انہوں نے دیدار کے لیے التجاؤں پہ التجائیں کیں، بالآخر ملاقات کے لیے دہلی کا کوئی ہوٹل مقرر ہوا۔ ۔ قمر زمانی آئیں۔ ۔ بصد طمطراق آئیں۔ ۔ برقع میں تھیں مگر ان کے چلنے کا انداز بڑا ہی کافرانہ تھا۔ آواز میں بھی لوچ تھا۔ پان بنانے میں بھی اک شانِ دلربائی تھی۔ سنا ہے کہ جب انہوں نے دو انگلیوں میں چمچی کو پکڑا تو دیکھنے والے دل پکڑ کر رہ گئے۔ کتھا لگانے کے لیے جب ہاتھ پان پر تیرتا تو چھنگلیا تھر تھراتی اور ایک پر کیف ارتعاش پیدا ہوتا۔
اس افسانے کی ہر ہر چول نیاز صاحب نے بٹھائی تھی۔ اور سارے ہی سبق انہوں نے ہی اپنی غیر مطبوعہ تصنیف کو پڑھائے تھے کہ چلنا یوں ہو گا، بیٹھنا یوں ہو گا۔ باتیں یوں کرنا ہوں گی۔ پان یوں لگانا ہو گا۔ ۔ دیکھ لیجیے کتنے مکمل انسان ہیں نیاز صاحب، کوئی کام بھی ایسا ہے، جس میں انہیں یدِ طولیٰ حاصل نہ ہو۔ مطلب یہ کہ نیاز صاحب نرے احمق کو برداشت نہیں کرتے، ذرا لوچ ہو تو خوب کھیلتے ہیں۔ ‘‘ ( نیاز صاحب از محمد طفیل نقوش)
نیاز صاحب جنھیں قمر زمانی بیگم سے نیاز حاصل ہونے کا دعوی ٰ تھا، انہوں نے کبھی اس سلسلے میں اپنے قلم کو جنبش نہ دی، گو اس سلسلے میں دیگر اصحاب کے مضامین اس بات کے گواہ ہیں کہ اپنے دوستوں سے وہ اس پر اسرار شخصیت کے بارے میں گفتگو کیا کرتے تھے۔ جناب مجنوں گورکھ پوری، جناب مالک رام اور جناب فضل حق قریشی کے مضامین اس بات کے گواہ ہیں، جس کی تفصیل آگے پیش کی جائے گی۔
فضل حق قریشی اردو افسانہ میں یکے از مقلدینِ منشی پریم چند کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں .جناب ڈاکٹر سید احمد قادری (انڈیا) اپنے مضمون ‘‘ پریم چند کی افسانوی عظمت ’’ میں یوں رقمطراز ہیں :
’’ بعد کے بیشتر افسانہ نگاروں نے پریم چند کی دکھائی ہوئی افسانوی ڈگر کو اپنایا۔ ان میں علی عباس حسینی، اعظم کریوی، سدرشن، حامد اﷲ افسر، فضل حق قریشی، شیدا کیوروی، اختر اورینوی، صادق الخیری اور سہیل عظیم آبادی وغیرہ کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ جنھوں نے پریم چند کی ڈگر پر چل کر اپنے فکری و فنّی اظہار خیال سے افسانوی ادب میں قابلِ قدر اضافہ کیا ہے۔ ‘‘
ایک اور تنقید نگار کے تبصرے کے مطابق:
’’فضل حق قریشی:پریم چند کے مقلدین میں فضل حق قریشی کا نام بھی لیا جاتا ہے، انہوں نے عام طور پر مسلم گھرانوں کے درمیانی درجے کے لوگوں کے جذبات کی عکاسی کی ہے، انہوں نے اپنے افسانوں میں ذاتی مشاہدات کو جگہ دی ہے، اس لئے ان کے افسانے میں صداقت ہے مسلم گھرانوں کی عکاسی کے ساتھ ان کے یہاں عیسائیوں کی خانقاہوں کے تذکرے بھی ملتے ہیں۔ ‘‘
فضل حق جنوری ۱۹۳۵ کے ایک واقعے کا تذکرہ کرتے ہیں جب وہ پہلی بار نیاز فتحپوری سے ملنے نگار کے دفتر پہنچے۔ دورانِ گفتگو نیاز نے انہیں اپنے عہدِ جوانی کے ایک عملی مذاق کا قصہ بھی سنایا کہ کس طرح انہوں نے اپنے دوستوں کے گروپ ‘‘ یارانِ نجد’’ کے ہمراہ ایک فرضی عورت کی شخصیت تراشی اور اس کے نام سے شاہ نظام الدین دلگیر مدیرِ نقاد جن کا پچھلے سال یعنی ۱۹۳۴ ہی میں انتقال ہوا تھا، کو بیوقوف بنایا تھا۔ نیاز یہ کبھی نہ جان سکے کہ وہ خود بھی ایسے ہی ایک عملی مذاق کا نشانہ بننے والوں میں سے ایک ہیں اور اس مذاق کا خالق خود ان کے سامنے بیٹھا ان سے ٹھٹھول کر رہا ہے۔ قمر زمانی کے نام سے کئی افسانے، مضامین نظمیں اور خطوط لکھے گئے جنہیں تحریر نیاز صاحب کرتے، اور ل احمد اپنے ہاتھ سے اسے کاغذ پر نقل کرنے کا فریضہ انجام دیتے۔ فضل حق نے یہ بھانڈا ۱۹۶۷ میں اردو ڈائجسٹ میں پھوڑا لیکن اس سے پہلے جون ۱۹۶۳ میں مجنوں گورکھ پوری ‘‘ ہماری زبان ( علیگڑھ) ’’ میں ‘‘ قمر زمانی ایک یاد’’ کے عنوان سے ایک مضمون لکھ چکے تھے ۔ انہیں بھی بقول ان کے یہ داستان نیاز ہی نے سنائی تھی۔
ڈاکٹر فرمان فتحپوری اس مضمون کے بارے میں ہماری زبان علیگڑھ کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
’’ یکم جون ۱۹۶۳ ء کے ’ ہماری زبان، میں جناب مجنوں گورکھپوری نے ’ قمر زمانی : ایک یاد، کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ اس میں انہوں نے بھی قمر زمانی کی شاہ دلگیر سے دلی والی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ مگر گفتگو کے متعلق کچھ نہیں لکھا۔ بس لکھا ہے کہ پردے کے پیچھے سے، دستِ نگاریں ’ کی ایک جھلک دکھائی گئی تھی۔ جناب مجنوں گورکھپوری نے یہ بھی لکھا ہے کہ، شاہ دلگیر کو قمر زمانی کے عورت ہونے کا یقین ایمان بالغیب کی حد تک تھا۔ اس کے ثبوت میں انہوں نے لکھا ہے کہ، شاہ دلگیر نے مہدی افادی کو کچھ یوں لکھا تھا، ۔
’’ قمر زمانی کے وجود کا مجھے اس طرح یقین ہے جس طرح کود اپنے وجود کا۔ ‘‘
اپنے مضمون کے آخر میں انہوں نے لکھا۔
’’نیاز صاحب ابھی زندہ ہیں۔ خدا ان کو زندہ رکھے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ خود اپنی زبان سے لوگوں کو مفصل بتادیں کہ قمر زمانی کی اصلیت کیا تھی اور شاہ دلگیر کو پردے کی آڑ سے کس نے ہاتھ دکھایا تھا۔ یہ داستان اردو ادب کے مورخین اور محققین کے لیے صحت بخش ہو گی۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اہلِ تحقیق قمر زمانی کے شجرۂ نسب، ان کے سوانحِ حیات، ان کی سیرت و صورت، ان کی پیدائش اور وفات کے سن اور اولاد کے متعلق اپنے اپنے شواہد فراہم کریں۔ نیاز صاحب اردو ادب کی تاریخ کو اس خطرے سے بچا سکتے ہیں۔ ‘‘
جناب مجنوں گورکھپوری نے قمر زمانی بیگم کے دو شعر بھی نقل کیے
دل ہو ہی چکا ان کا، پھر کیسی وفا کیشی
اب درسِ تغافل دے اے مصلحت اندیشی
کیا پوچھتے ہو کس کو ہے شکوہ دلریشی
فرماتے رہو تم تو تجدیدِ ستم کیشی
اسی طرح کا ایک مضمون جناب مالک رام نے آج کل ( دہلی۔ جولائی ۱۹۶۶) میں لکھا۔ مالک رام کا مضمون نگار کراچی ( ستمبر ۱۹۶۶) میں بھی شائع ہوا۔ انہوں نے بھی مجنوں گورکھپوری کی طرح نیاز فتحپوری اور ان کے دوستوں سے قمر زمانی بیگم کے بارے میں جو کچھ سنا تھا اسے اپنے مضمون میں بیان کرنے کی کوشش کی، لیکن بقول فرمان فتح پوری چونکہ ان میں سے کسی کو اصل واقعے کی پوری خبر نہ تھی اس لیے یہ مضامین ایک سرسری اطلاع کے سوا اصل داستان کے بارے میں زیادہ تفصیل نہ بہم پہنچا سکے۔
ان دونوں مضامین کی صدائے بازگشت ایس نور الحسن انور ادیب صاحب کے مراسلے کی شکل میں استفسار مطبوعہ ہماری زبان ( علیگڑھ) میں بھی سنائی دی۔ بعد میں یہی استفسار ’’ قمر زمانی بیگم: علامہ نیاز فتحپوری کی انوکھی داستانِ معاشقہ از ڈاکٹر فرمان فتح پوری‘‘ کے لکھنے کا باعث بنا جس میں پہلی مرتبہ قمر زمانی بیگم کی پراسرار شخصیت کی نقاب کشائی کی گئی۔
گو اس کتاب کے لکھنے کا ارادہ ۱۹۶۶ میں کیا گیا اور ماہنامہ نگار میں اس سلسلے میں ایک سنسنی خیز اشتہار بھی شائع کیا گیا، لیکن اس خیال نے بالآخر ۱۹۷۹ میں حقیقت کا روپ دھارا جب نیاز فتحپوری کی انتقال کے کئی سال بعد ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے لکھا اور اردو اکیڈمی سندھ نے شائع کیا۔ اس کتاب کے اشتہار کی تحریر کچھ یوں تھی۔
پچاس سال کا ایک سربستہ راز
قمر زمانی
کی
نقاب کشائی
یعنی
نیاز کی زندگی کا ایک پوشیدہ ورق
خود حضرت نیاز کے قلم سے ؎
غالب کا شعر ہے
عشق پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش غالبؔ
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے
لیکن یہ کتاب اصلاح ہے اس شعر کی اور اس طرح کہ
عشق پر زور ہے اور ہے یہ وہ آتش غالبؔ
کہ لگائے بھی لگے اور بجھائے بھی بنے
تاریخ ادب میں اپنی نوعیت کا پہلا رومان
جس کا تقاضا پچاس برس سے ہو رہا تھا اور اب پورا ہوا
نہایت نفیس کاغذ پر مجلد مع تصاویر زیر ترتیب ہے
( ماہنامہ نگار اکتوبر ۱۹۶۶ صفحہ نمبر ۱۸)
۱۹۱۳ اور ۱۹۲۰ کے درمیانی عرصے میں نیاز صاحب کی شہرت کا ڈنکا بج رہا تھا۔ ان کی اسی انشاء پردازی کا نتیجہ تھا کہ ماہنامہ نقاد جس میں ان کی تحریریں شائع ہوتی تھیں، تھوڑے ہی دنوں میں بقول ڈاکٹر فرمان فتح پوری، انشائے لطیف کا نمائندہ اور معاصر ادبی ماہناموں کا حریف بن کر سامنے آیا، لیکن جنوری ۱۹۱۳ سے دوسال چند مہینے جاری رہنے کے بعد حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ بند ہو گیا۔ یارانِ نجد نے نقاد کے مدیر شاہ دلگیر کو بہت اکسایا کہ وہ اس پرچے کو دوبارہ نکالنے کے لیے راضی ہو جائیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ پھر کیا ہوا یہ ڈاکٹر فرمان فتحپوری کے تحریر کردہ اس انتہائی دلچسپ مکالمے میں ملاحظہ کیجیے۔
’’آخر کار خلیقی دہلوی، نیاز فتحپوری اور ضیاء عباس ہاشمی نے ایک دن بڑی سنجیدگی سے اس مسئلے پر تبادلۂ خیال کیا۔
نیاز: ضیائی (ضیاء عباس ہاشمی) نقاد کے دوبارہ اجراء کی کوئی صورت نکلنی چاہییے۔
ضیائی: میں خود بھی یہی چاہتا ہوں لیکن دلگیر نقاد کے سلسلے میں اتنا نقصان اٹھا چکے ہیں کہ اب ان کی مت نہیں پڑتی۔
خلیقی: یہ کیوں نہ کیا جائے کہ ہم سب مل کر اپنی اپنی جیبوں سے ان کی کچھ مدد کریں اور نقاد کے خریداروں سے پیشگی سالانہ چندہ وصول کرنے کی مہم چلائیں۔
ضیائی: میں نے یہ تجویز بھی ان کے سامنے رکھ کر دیکھ لی ہے۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اندر ہی سے کچھ بجھ سے گئے ہیں تبھی تو حرکت میں نہیں آتے۔
نیاز: یہ اندر سے بجھے بجھے رہنے کی علامت تو خطرناک ہے۔ اس سے ان کی تخلیقی قوتوں کو نقصان پہنچے گا۔
ضیائی: اسی لیے تو نقاد سے پہلے دلگیر کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
نیاز: یہ تو صحیح ہے لیکن زندہ کیونکر کیا جائے۔
خلیقی: آپ کو دلگیر کے مزاج اور ان کی نفسیات کا خوب اندازہ ہے۔ آپ ہی کوئی ترکیب نکال سکتے ہیں۔
نیاز: ترکیب تو ہے اور بہت دلچسپ و مؤثر لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ اس پر عمل کیسے کیا جائے۔
ضیائی: بتائیے تو سہی۔ میں عمل میں لانے کی کوئی صورت نکال لوں گا۔
نیاز: بھائی سنو! فلسفۂ حسن و عشق کے پردے میں جس طرح عورت سارے شاعروں، سارے ادیبوں اور میری آپ کی کمزوری ہے، اسی طرح دلگیر کی بھی، بلکہ مجھ سے، آپ سے زیادہ، ۔ لہٰذا کیوں نہ کسی لڑکی سے نقاد کو زندہ کرنے کے سلسلے میں دلگیر کے نام پر ایک رومان پرور خط لکھوایا جائے۔ ممکن ہے اس خط سے ان میں کچھ جھرجھری پیدا ہو۔
خلیقی: ترکیب تو بہت اچھی ہے لیکن ایسی لڑکی یا عورت کہاں ملے گی جو اس کام کو انجام دے سکے۔ اپنے دوستوں اور عزیزوں میں تو کوئی ہے نہیں اور اگر کوئی تعلیم یافتہ لڑکی مل بھی جائے تو وہ اس چکر میں کہاں پڑے گی کہ وہ اپنے ہاتھ سے رومان پرور خط لکھے، اپنا نام خط میں ظاہر کرے اور اس طرح خود کو اور اپنے خاندان کو رسوا کرنے پر آمادہ کیوں کر ہو گی؟
نیاز: یہی تو اصل مشکل ہے۔ کوئی عورت اس قسم کی مل جاتی تو میں اب تک اس کام کو کر گزرتا۔ ضیائی: بھائی آپ خود کیوں نا کچھ دن کے لیے لڑکی بن جائیں۔ یوں بھی آپ کے افسانوں میں طبقۂ نسواں کے جذبات کی بھرپور ترجمانی ہوتی ہے۔ کوئی شبہہ تک نہ کرسکے گا کہ یہ کسی مرد کی تحریر ہے۔ یقین ہے کہ آپ کی انشاء پردازی کا جادو پورا کام کرے گا۔ اور دلگیر و نقاد دونوں زندہ ہو جائیں گے۔
نیاز: میں اس کے لیے تیار ہوں۔ کسی لڑکی کی ضرورت نہیں۔ میں خود بائیں ہاتھ سے ’’قمر زمانی‘‘ کے نام سے خط لکھوں گا۔ آپ صرف اس کا انتظام کر دیجیے کہ خطوط کے جوابات رازدارانہ منگائے جا سکیں۔
ضیائی: یہ کام آپ مجھ پر چھوڑ دیجیے۔ گوالیار، بھوپال، بریلی، لکھنؤ اور دہلی، جہاں کہیں سے آپ چاہیں گے، میں اس کا انتظام کروا دوں گا۔
نیاز: اچھا تو یہ بات چند مخصوص دوستوں کے سوا کسی کو معلوم نہ ہو، میں آج ہی دلگیر کو قمر زمانی بیگم کے نام سے ایک خط لکھتا ہوں۔ ‘‘
( قمر زمانی بیگم از ڈاکٹر فرمان فتحپوری)
پھر کیا تھا۔ خط لکھا گیا اور اس کے بعد تو خطوں کا تانتا بندھ گیا۔ شاہ دلگیر قمر زمانی بیگم پر ایسے ریجھے کہ نہ صرف نقاد دوبارہ نکلا بلکہ قمر زمانی بیگم نے جوائینٹ مدیر کے فرائض بھی سنبھال لیے اور نقاد کے لیے لکھنا بھی شروع کر دیا۔
قمر زمانی بیگم کے جو مضامین نقاد میں شائع ہوئے ان کی مختصر فہرست مندرجہ ذیل ہے۔
۱۔ نقاد کی زندگی کا دوسرا دور اور میں۔ (نثر) اپریل ۱۹۱۷
۲۔ ایک جاندار پتی (نثر)۔ اپریل ۱۹۱۷
۳۔ اے کلی (نثر)۔ مئی ۱۹۱۷
۴۔ افکارِ جمیلہ ( غزل)۔ مئی ۱۹۱۷
۵۔ کچھ اپنی نسبت (نثر)۔ جون ۱۹۱۷
۶۔ ساون کی ایک رات ( نثر)۔ جولائی ۱۹۱۷
۷۔ افکارِ جمیلہ (غزل)۔ اگست ۱۹۱۷
۸۔ خیالاتِ پریشان (نثر)۔ جولائی ۱۹۱۸
طاہرہ دیوی شیرازی کا افسانوں کا پہلا مجموعہ ۱۹۳۵ میں ساقی دہلی نے چھاپا، جسے طاہرہ نے نیاز فتحپوری کے نام معنون کیا۔ اس مجموعے کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۴۶ میں چھپا۔ اس مجموعے میں مندرجہ ذیل افسانے شامل کیے گئے جو اس سے پہلے مختلف رسالوں میں چھپتے رہے تھے۔
دُختر کفش دوز ( نگار۔ لکھنؤ)
سنجوگ ( ساقی دہلی)
خواب رنگیں ( ادبی دنیا۔ لاہور)
افسانہائے عشق ( نیرنگ خیال۔ لاہور)
غلط فہمی( عصمت۔ دہلی)
بازی گر( نگار۔ لکھنؤ۔ شاہجہاں۔ دہلی)
سکون کی جستجو( نگار۔ لکھنؤ)
مقدس معصیت ( رومان۔ لاہور۔ ساقی۔ دہلی)
جھوٹ( ساقی۔ دہلی)
بنگالی ادب اور ایک گمنام شاعرہ( ہمایوں۔ لاہور)
سوتیلے بچے ( شاہجہاں۔ دہلی)
بازیچۂ اطفال( لیلے ٰ۔ لاہور)
کیا عورت ناقص العقل ہے ؟ (تہذیبِ نسواں۔ لاہور)
بنت البحر( ساقی۔ دہلی)
شیطان( ساقی۔ دہلی)
جولائی ۱۹۳۴ میں طاہرہ کا ایک افسانہ شائع کرتے ہوئے علامہ نیاز فتحپوری نے ابتدائیے کے طور مندرجہ ذیل سطریں تحریر فرمائیں۔
’’ طاہرہ دیوی شیرازی کا یہ دوسرا افسانہ ہے جو نگار میں شائع ہو رہا ہے۔ آپ نسباً ہندو اور ازدواجاً مسلمان ہیں۔ لیکن اعتقاد کے لحاظ سے بالکل میرے خیالات کی ہمنوا ہیں۔ یہ افسانہ فن کے لحاظ سے اردو میں اس ارتقائی درجے کی چیز ہے جہاں مردوں کا دماغ بھی مشکل ہی سے پہنچ سکتا ہے۔ چہ جائیکہ عورتیں۔ طاہرہ دیوی نہ صرف فارسی بلکہ فرانسیسی زبان کی بھی ماہر ہیں۔ اور غالباً یہیں سے یہ معمہ حل ہوتا ہے کہ ان کی افسانہ نگاری میں یہ رنگ کہاں سے آیا۔ زبان کی صفائی و شگفتگی کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بنگال کی ایک ہندو خاتون اتنی صاف اور صحیح اردو لکھنے میں کیونکر کامیاب ہوسکیں۔ ‘‘
اسی طرح ماہنامہ ادبی دنیا نے اپنے سالنامے میں ان کا افسانہ ’’ خوابِ رنگیں ‘‘ کا تعارف ان الفاظ میں کروایا۔
’’ جنابہ طاہرہ دیوی صاحبہ کے ’’ خوابِ رنگیں ‘‘ کے متعلق یہ عرض کر دینا کافی ہے کہ اگر آج موپساں زندہ ہوتا تو یہ فیصلہ نہ کرسکتا کہ ترجمہ کونسا ہے اور اصل کونسا۔ ‘‘
طاہرہ دیوی شیرازی نے اپنے افسانوں کے مجموعے ’’ سحرِ بنگال‘‘ کے دیباچے میں خود اپنی زندگی کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’ اردو میں لکھنے سے قبل ہندی، بنگالی یا انگریزی میں خصوصاً اور فارسی یا فرانسیسی میں محض تذکرتاً میں نے جو کچھ تحریر کیا وہ خارج از بحث ہے تاہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتی کہ ان زبانوں کے ذریعے میں نے قلم پر قدرت حاصل کر لی تو صحافتِ اردو میں شہرت پانا میرے لیے بہت آسان ہو گیا۔ چنانچہ ادیب فاضل کے امتحان سے فارغ ہوتے ہی میں نے تہیہ کر لیا کہ اس بساطِ ادب پر بھی کچھ مہرے چلنے چاہئیں۔ اور خدا کے فضل سے میں ایک حد تک آرزوؤں کی تکمیل میں کامیاب ہو گئی۔ میں فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ اس وقت ہندوستان کے تمام بلند پایہ جرائد میں بالواسطہ یا بلا واسطہ میرے افسانے شائع ہو چکے ہیں۔
اکثر اصحاب جن کو میرے افسانے پسند ہیں خطوط کے ذریعے میری شخصیت کے متعلق استفسار کرتے ہیں۔ مگر میں مفصل حالات قلمبند کرنے سے اجتناب کرتی رہی۔، اور یہی مناسب بھی تھا۔ کیونکہ میری زندگی بجائے خود ایک افسانی ہے۔ اس وقت مختصراً صرف اتنا عرض کروں گی کہ ارضِ بنگال میرا عزیز وطن ہے اور جیسا کہ علامہ نیاز نے لکھا ہے، میں نسباً ہندو ہوں۔ زندگی کی ابتدائی منزلیں جس جس المناک ماحول میں گزریں اس کے تصور ہی سے انقباضِ روح ہونے لگتا ہے۔ بعد ازاں اگر شانتی نکتین میرے لیے گہوارۂ تربیت نہ بنتا تو نہ مجھے نگار خانۂ ادب میں اپنے نقوش کی نمائش کا موقع ملتا اور نہ میری روح مسرت اور شادمانی کی فضاء میں سانس لیتی۔ فارغ التحصیل ہونے اور منزلِ شباب میں قدم رکھنے کے بعد سب سے پہلا دل جس نے میرے نغمۂ محبت کے جواب میں محبت کا گیت گایا ایک مسلمان دل تھا۔ اور اسی لیے میں ’’ازدواجاً‘‘ مسلمان ہوں۔ شادی کے تھوڑے ہی عرصے بعد عہدۂ سفارت پر فائز ہو کر جب میرے عزیز شوہر کو ایران جانا پڑا تو میں بھی ساتھ گئی۔ چنانچہ وہاں فارسی اور فرانسیسی کا کافی مطالعہ کرنے کا موقع مل گیا۔ اور اس وقت بھی شاید اسی زرین فضاء میں سانس لیتی ہوتی جو صدیاں گزر جانے کے باوجود ابھی تک بادۂ حافظ کی سرمستیوں سے معمور ہے۔ لیکن رفیقِ زندگی کی بے وقت موت نے مجھے واپس وطن بھیج دیا۔ یہی المِ حیات مستقل طور پر میرے لیے سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ اگر ادبی انہماک ایک حد تک باعثِ تسکین نہ ہوتا تو یقیناً پیمانۂ زیست کبھی کا چھلک چکا ہوتا‘‘
طاہرہ دیوی شیرازی کون تھیں ؟ مدتوں ادبی حلقے اس فکر مین غلطاں رہے کہ ماہانہ ادبی رسالوں میں بیسیوں افسانے لکھنے اور ایک عدد افسانوں کا مجموعہ شائع کرنے والی اردو کی مایۂ ناز افسانہ نگار کون تھی اور اچانک کہاں گئی۔ طاہرہ نے نگار اور دیگر دسیوں اردو رسائل کے لیے لکھنا شروع کیا تو اس کی شخصیت بھی ادبی حلقوں میں بحث کا موضوع بنی۔ بہت سے ادیبوں نے اس کے ساتھ خط و کتابت بھی رکھی۔ کچھ تو اس کی پراسرار شخصیت میں ایسے ڈوبے کہ اس کے سحر سے نکلنے میں انہیں بھی زمانے لگے۔
’’ سحرِ بنگال ‘‘ کی اشاعت نے زیادہ وسیع پیمانے پر ایک ادبی ہنگامہ برپا کردیا۔ عقیدت مندوں کے خطوط کا ایک نیا سیلاب امڈ آیا۔ تعریف و توصیف کے انبار لگائے جانے لگے۔ رسالوں میں اس پر شاندار الفاظ میں تقریظیں لکھی گئیں۔ مدیرانِ رسائل کے مطالبات بڑھنے لگے کہ مزید افسانے لکھے اور ارسال کیے جائیں۔ ‘‘
(پردہ اٹھتا ہے از فضل حق قریشی۔ اردو ڈائجسٹ جنوری ۱۹۶۷)
لیکن شک کرنے والوں کی بھی کمی نہ تھی۔ مرزا عظیم بیگ چغتائی نے ماہنامہ ادب لطیف میں ایک طویل مضمون لکھا جس میں ایک طرف تو طاہرہ کے اندازِ تحریر کی خوب تعریف کی تو دوسری جانب اس کی شخصیت پر کھلم کھلا شک کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ طاہرہ دیوی کوئی ہستی نہیں ہے بلکہ یہ کسی طاہر دیو کا کام ہے۔ انہیں شک تھا کہ طاہرہ کے اندازِ بیان کی رنگینی اور الفاظ کی دلکشی ظاہر کرتی ہے کہ یہ یا نیاز فتحپوری کا اپنا کارنامہ ہے یا پھر فضل حق قریشی کا کام ہے جو اپنے ادبی چہرے پر نقاب ڈال کر سامنے آئے ہیں۔
اگرچہ بعد میں چغتائی صاحب نے اپنے رویے کی معافی مانگ لی لیکن در حقیقت جناب فضل حق قریشی ہی اس پردے کے پیچھے سے کارروائی کرتے تھے جیسا کہ انہوں نے خود اردو ڈائجسٹ کے جنوری ۱۹۶۷ کے سالنامے میں اس راز سے پہلی مرتبہ پردہ اٹھایا اور ساری رام کہانی کہہ سنائی۔ اس کے بعد کے تین شماروں میں انہوں نے چیدہ چیدہ مشہور مصنفوں کے طاہرہ کے نام لکھے گئے خطوط سے اقتباسات بھی پیش کیے۔
بیسویں صدی کا نصف اول اردو ادب کے زریں دور میں شمار ہوتا ہے۔ یہی وہ دور تھا جب اس قسم کے رومانوی قصے پنپ سکتے تھے۔ انتہائی سخت ماحول کے باعث گنتی کی چند خواتین ہی لکھنے لکھانے کی جانب مائل نظر آتی تھیں اور اس ماحول میں خواتین کی تحریر کو انتہائی رومانوی انداز میں دیکھا جاتا۔ نیاز فتحپوری سمیت اکثر لکھنے والے انتہائی رومانوی انداز کی انشاء پردازی میں مشہور تھے۔ اور ان کی ایسی تحریریں بہت دلچسپی کے ساتھ پڑھی جاتی تھیں۔ اس پس منظر میں ایسی خواتین کا وجود لازمی اور اس رومان پرور ماحول کا جزوِ لاینفک تھا۔ قرۃ العین حیدر کے انہیں الفاظ پر اس مضمون کا اختتام بھی کیا جانا چاہیے کہ یہ وہ وقت تھا ’’جب افسانہ نگار خواتین کو خاص طور پر پُراسرار ہستیاں سمجھا جاتا تھا‘‘۔ آج اکیسویں صدی کے ماحول میں اس رومان پسندی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ داستان اپنے تمام تر رومانوی ماحول سمیت اب قصۂ پارینہ بن چکی۔
٭٭٭