شموئل احمد کے ناول ’’گرداب‘‘ پر ایک نظر ۔۔۔ سلیم انصاری

’’گرداب‘‘ شموئل احمد کا نیا ناول ہے اس سے قبل ان کے تین ناول ’’ندی‘‘ ، ’’مہاماری‘‘ اور ’’اے دلِ آوارہ‘‘ منصہ شہود پر آ کر ناقدینِ ادب سے خراج حاصل کر چکے ہیں۔ شموئل احمد ایک ایسے versatile تخلیق کار ہیں جو بیک وقت کئی سطحوں پر فکر و عمل اور تخلیق میں مصروف رہتے ہیں اور چونکہ وہ پیشے کے اعتبار سے ایک سول انجینئر ہیں لہٰذا ان کی تخلیقات میں ایجاز و اختصار کے ساتھ اظہار میں precision اور accuracy کو بھی واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔

اپنے مطالعے، مشاہدے، تجربات اور محسوسات کو بنیاد بنا کر اپنی زند گی رنگ تخلیقی کائنات کو منور کرنے والے شموئل احمد کے یہاں مرد اور عورت کے درمیان جسمانی اور روحانی رشتوں کی سچائی اور تقدس کے اظہار کی خوش سلیقگی اور ہنر مندی ہی ان کا تخلیقی وصف ہے۔ میں نے ان کے پہلے تینوں ناول نہیں پڑھے ہیں مگر ان پر ہونے والے مباحث سے میرے اس خیال کو تقویت ملی کہ ان کا سیاسی، سماجی اور تہذیبی شعور اور بصیرت ان کی تخلیقات میں زندگی کی علامت بن جاتے ہیں، اس کے علاوہ عورت کے اندر ایک نئی عورت کی تلاش انہیں صنف نازک کی جنسی نفسیات اور پیچیدگیوں کی تفہیم اور ترسیل پر آمادہ کرتی ہے، یوں تو شموئل احمد کے افسانے ایک عرصہ سے ادب کے سنجیدہ قارئین کے مطالعے کا حصہ بنتے رہے ہیں مگر سنگھاردان کی اشاعت کے بعد ان کے افسانوں کی تفہیم کا نیا رویہ سامنے آیا ہے، اور پھر اونٹ نے تو کمال ہی کر دیا، ان پر جنسی موضوعات کو شدت سے برتنے کا الزام ہی عائد کر دیا، مگر اس حقیقت کا کیا کیا جائے کہ مردو عورت کے درمیان جنسی رشتہ فطری ضرورت اور عالمگیر تہذیبی صداقت ہے، شرط ہے اس موضوع کو سلیقے اور ہنر مندی سے برتنے کی۔

زیر نظر ناول گرداب بھی عورت اور مرد کے درمیان نا معلوم جنسی رشتوں کی ضرورت اور اس کی نفسیات پر مبنی ہے، جو جسم سے شروع ہو کر ذہن اور پھر روح تک پھیلتا چلا جاتا ہے، مگر اپنی تمام تر پیچیدگیوں اور الجھنوں کے ساتھ۔ یہاں اس بات کا ذکر مناسب ہو گا کہ شموئل احمد ایک ماہر نجومی (پامسٹ) اور ٹیرو کارڈ ریڈر (reader) ہیں لہٰذا اپنے افسانوں اور ناولوں میں اپنی اس علمی لیاقت اور مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے کرداروں کی کنڈلی یا زائچہ بنا کر اس کے ستاروں کی چال اور ان کی پوزیشن کے اعتبار سے رنگ بھرنے میں ماہر ہیں جس سے ان کی تخلیقات کے نئے مظاہر سامنے آتے ہیں اور ان کی کہانیوں کا کینوس کئی دشاؤں میں روشن ہو جا تا ہے۔

زیر نظر ناول گرداب کی کہانی بھی مرد و عورت کے درمیان جنسی ضرورت اور اس کی نفسیات کے سہارے ہی آگے بڑھتی ہے، اپنے اس ناول میں بھی انہوں نے پامسٹری کے علم کا استعمال نہایت عمدگی اور ہنر مندی سے کیا ہے، بلکہ گرداب کے سب سے زیادہ مضبوط کردار ساجی سے ان کی ملاقات اور رشتہ کا ذریعہ بھی ان کا یہی علم ہے۔ در اصل ناول کا مرکزی کردار جو واحد متکلم ہے، جو ناول نگار بھی ہو سکتا ہے، صوبائی حکومت میں ملازم ہے اور اس کا تبادلہ اکثر بہار کے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں ہوتا رہتا ہے لہٰذا وہ اپنی بیوی اور بچوں کو پٹنہ میں ہی رکھ کر خود آنا جانا کرتا ہے، اس بار اس کا تبادلہ لال گنج میں ہو جاتا ہے جہاں کرائے کے مکان لیتے ہوئے اس کی ملاقات ساجی سے ہو جاتی ہے جو مالک مکان کی بیوی ہے۔ ساجی ناول کا ایک ایسا ضروری کردار ہے جو کہانی کا لازمی حصہ ہے اور اس ساتھ ساتھ آخر تک سفر کرتا ہے اور جس کے بغیر کہانی کا تصور بھی ممکن نہیں، شموئل احمد کا کمالِ فن یہ ہے کہ انہوں نے ساجی کے کردار کو نہایت ہنر مندی اور چابکدستی سے تراشا ہے،

ناول میں ساجی کو ایک کم پڑھی لکھی عورت کے طور پر پیش کیا گیا ہے اس کے پیچھے ناول نگار کی کیا سوچ ہے اس کا اندازہ ناول کو پورا پڑھنے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ کہانی کے مطابق ساجی کی شادی ایک ایسے گھر میں ہوئی ہے جہاں سارے لوگ مڈل فیل ہیں مگر شادی سے پہلے خود کو تعلیم یافتہ ظاہر کرتے ہیں خود اس کا شوہر یعنی درجات بھی کم پڑھا لکھا ہے اور ساجی سے یہ جھوٹ بھی بولتا ہے کہ اس کے پاس کتابوں سے بھری الماری ہے، لیکن سچائی یہ ہے کہ ایک اخبار تک گھر میں نہیں آتا شاید اسی لئے درجات کے کردار کو احمق، بیوقوف، گاؤدی اور کم آئی کیو والے شخص کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

ناول کے مرکزی کردار سے ساجی کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنی کنڈلی میں ستاروں کا حال جاننے کے لئے آئی تھی مگر ناول نگار کچھ حال بتا کر اس کی کنڈلی کے نامکمل ہونے کی بات کہتا ہے اور خود صحیح کنڈلی بنانے کا وعدہ بھی کرتا ہے، اور یہ تعجب بھی کرتا ہے کہ اسے ناول نگار کے نجومی ہونے کی بات کیسے معلوم ہوئی؟ ۔ درجات نے انکشاف کرتا ہے اسے ناول نگار کے آفس کے ہیڈ کلرک نے یہ جانکاری دی، مگر درجات سے ہیڈ کلرک کی ملاقات کہاں، کب اور کیسے ہوئی یہ پتہ نہیں چلتا؟۔ پھر ساجی سے دوسری اور باقاعدہ ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ اپنی بیٹی رینو کی کنڈلی دکھانے آتی ہے اور اس بار اس کا شوہر ساتھ نہیں ہوتا، اور یہیں سے ساجی اور ناول کے مرکزی کردار کے درمیان ایک بے نام سی قربت کا آغاز ہوتا ہے، ساجی کے ساتھ تنہائی میں کچھ وقت گذار کرا سے احساس ہوتا ہے کہ پانچ بچے جننے کے بعد بھی ساجی کے اندر کی عورت مری نہیں تھی، وہ سادہ لوح اور معصوم تھی، وہ ساجی کو چھونا چاہتا ہے اور یہیں سے ساجی کی زندگی میں موجود ادھورے پن اور خالی پن کے اندھیروں کو بھرنے کیلئے جسمانی رشتوں اور ضرورت کے لئے ناول میں سازگار ماحول بنانے لگتا ہے۔ ناول کے صفحہ ۱۴ سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔

’’مجھے یقین ہو چلا تھا کہ میرے لئے اس عورت کو چھونا آسان ہے۔ ہر عورت اپنے لاشعور کے نہاں خانوں میں ایک مثالی مرد کی تصویر سجائے رکھتی ہے۔ وہ اس شخص سے قربت محسوس کرتی ہے جس میں مثالی شبیہ نظر آتی ہے، ظاہر ہے درجات میں یہ خوبیاں برائے نام بھی نہیں تھیں اور مجھ میں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔؟ میرے پاس کتابوں سے بھری شیلف تھی۔ میں اس کی نظر میں ہیرو تھا۔۔ ۔۔ ۔ اعلا درجے کا رئیس۔۔ ۔۔ ایک ہاتھ میں کتاب۔۔ ۔۔ ۔ انگلیوں میں سگریٹ۔۔ ۔۔ ۔۔ خدمت گذار پاؤں دباتے ہوئے اور جالیوں سے تکتی وہ۔۔ ۔۔ ۔!‘‘

ناول کے مرکزی کردار اور ساجی کے درمیان قائم ہوتے رشتوں نے کئی آسانیاں بھی فراہم کر دی ہیں، اب اس کے لئے چائے، ناشتہ اور کھانا وغیرہ بھی گاہے بگاہے ساجی کے یہاں سے آنے لگا ہے، اور اس کے کپڑے وغیرہ بھی ساجی کے یہاں دھلنے لگے ہیں۔

ناول کا مرکزی خیال عورت اور مرد کے درمیان گمشدہ رشتوں کی تلاش اور اس کی بازیافت پر مبنی ہے اور یہ رشتہ ناول میں کئی سطحوں پر نمودار ہوتا ہے، ناول نگار اپنی بیوی نصیب سے بھی بہت محبت کرتا ہے، جو پٹنہ میں اپنے دو بچوں سیفی اور کیفی کے ساتھ رہتی ہے۔ مگر ساجی سے اس کے رشتوں کی نوعیت کیا ہے؟ کیا یہ محض جنسی اور جبلی خواہشوں کی تکمیل کی کوشش ہے؟ کیا یہ رشتہ ناول نگار کی اپنی ذاتی زندگی میں کسی کمی یا نا آسودگی کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتا ہے، یا پھر اس رشتے میں کوئی دوسرا پہلو بھی تلاش کیا جا سکتا ہے، اس کا جواب ناول کے مطالعے سے واضح طور پر مل جاتا ہے۔ چند جملے ملاحظہ فرمائیں۔

میں صرف دوستی چاہتی ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ اور بس۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔! صفحہ ۲۷

ایک دیا آپ کے نام کا بھی جلاؤں گی۔ صفحہ ۳۸

میں جانتی ہوں آپ میرے دوست نہیں ہو سکتے صفحہ ۴۸

میں صرف دوستی چاہتی ہوں۔ صفحہ ۴۹

آپ حد سے گذرنا چاہتے ہیں مگر میں شادی شدہ ہوں صفحہ ۴۹

ان جملوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ساجی اپنی زندگی کے خالی پن اور ادھورے پن کو تو بھرنا چاہتی ہے مگر جسم کی قیمت پر نہیں مگر کمار جو ساجی کا نہ صرف مجازی ہیرو ہے بلکہ اس کا آدرش بھی ہے، اس کے ذہن میں کچھ اور ہی چل رہا ہوتا ہے وہ ساجی کو یہ اطمینان دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ دوستی اگر دل سے ہو تو اس میں جسم بھی شامل ہو جاتا ہے، یہی نہیں اس کے مطابق ’’اصل میں عورت سے تعلق استوار ہوتا ہے تو بیچ میں لچھمن ریکھا بھی ہوتی ہے جو فوراً عبور نہیں ہوئی تو وقت کے ساتھ گہری ہونے لگتی ہے اور عمر بھر قائم رہتی ہے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے اس لکیر کو مٹا دینا تھا ورنہ یہ تعلق محض دوستی تک محدود رہتا۔‘‘ یہ ایک ایسا مفروضہ ہے جس سے ناول نگار آخر تک خود کو الگ نہیں کر پاتا بلکہ اس کو زندگی کا سچ ثابت کرنے کے لئے شعوری کوششیں بھی کرتا ہے۔

ناول میں جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی جاتی ہے سارے منظر اپنے آپ صاف اور واضح ہوتے چلے جاتے ہیں، یہاں ناول نگار کی تعریف اس لئے بھی لازم ہے کہ اس نے نہایت ایمانداری اور صاف گوئی سے ساجی کے دل میں روشن اس بے نام رشتے کی نوعیت واضح کر دی کہ وہ اس رشتے کو محض دوستی تک محدود رکھنا چاہتی ہے، ورنہ اس کا اپنا یقین تو یہی ہے کہ جسم کے خلوص سے بڑھ کر کوئی خلوص نہیں اور وہ اپنے اس مشن پر ہی آگے بڑھتا ہے حالانکہ وہ کہیں نہ کہیں اس انجانے خوف سے بھی دو چار ہے کہ ’’عمر کے اس حصے میں اس قسم کے تعلقات۔۔۔۔۔؟ بات کبھی تو طشت از بام ہو گی۔ نصیب پر کیا اثر ہو گا؟۔‘‘

ان سب خوف اور تذبذب کے باوجود ناول نگار ساجی کے جسم کے خلوص کا منتظر ہے، وہ ہر رات اس کا انتظار کرتا ہے مگر کیا عورت اپنا جسم اتنی آسانی سے پیش کر دیتی ہے؟ جتنی آسانی سے مرد خود کو اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لئے کے لئے پیش کر دیتا ہے۔ ایک رات جب ساجی اس سے ملنے آتی ہے اور یہ شرط رکھتی ہے کہ

’’مجھے سیندور لگاؤ‘‘

’’سیندور؟؟؟‘‘

میں مسکرایا۔ اتنی سی بات؟

’’اتنی سی بات۔۔ ۔۔ ۔۔؟ تم اسے اتنی سی بات کہتے ہو؟‘‘ وہ تقریباً رو پڑی۔

میں نے آسمان کی طرف دونوں ہاتھ پھیلائے۔ ’’اے چاند! تو گواہ ہے۔ میں اس عورت کو اپناتا ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔! اور میں نے چٹکی بھر سیندور اس کی مانگ میں بھر دی۔ اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔

میں تو دروپدی ہو گئی اس نے اپنا سر میرے سینے پر رکھ دیا۔‘‘

ناول میں یہاں سے ایک نیا زاویہ روشن ہوتا ہے، ساجی جو ایک کم پڑھی لکھی اور سادہ سی عورت ہے اسے ایک طرح کے تحفظ کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ بقول ناول نگار اپنے جسم کا خلوص دینے کو راضی ہو جاتی ہے اور اب ناول کا مرکزی کردار ساجی میں اپنی بیوی سے الگ ایک نئی عورت دیکھنے لگتا ہے، ایک ایسی عورت جو مرد کی جنسی تسکین کو نقطۂ عروج تک پہنچا کر خود بھی جنسی تسکین حاصل کرتی ہے، وہ ساجی کے ساتھ اپنی نا آسودہ جنسی خواہشات پوری کرنا چاہتا ہے، وہ سازی کو مکمل طور پر برہنہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کی تمام تر منت و سماجت کے باوجود، اس کے اس اعتراف اور انکشاف کے باوجود کہ وہ برہنہ ہو کر کولڈ ہو جاتی ہے، ناول کا مرکزی کردار اسے برہنہ کر کے ہی سیکس کرنے پر آمادہ رہتا ہے، اور اس کے لئے دلائل بھی دیتا رہتا ہے۔

میں نے اسے کپڑوں سے بے نیاز کرنا چاہا۔ وہ مزاحمت کرنے لگی۔۔ ۔۔ ۔۔ پلیز مجھے اور عریاں مت کرو۔ میں پوری طرح برہنہ نہیں ہو سکتی۔۔ ۔۔ ۔۔ کمار۔۔ ۔۔ ۔۔ کمار۔۔ ۔۔ ۔۔ مجھے ننگا مت کرو۔۔ ۔۔ ۔۔!

آخر کار ناول نگار ساجی کو یہ اطمینان دلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ عورت ہمیشہ اسی طرح ننگی کی گئی ہے۔ اب اسے اپنی بیوی نصیب اور سازی میں ایک واضح فرق نظر آنے لگا تھا، وہ نصیب کے سامنے سگریٹ اور شراب کا شغل نہیں کر سکتا تھا، جبکہ ساجی اسے خود اپنے ہاتھوں سے سگریٹ کیا شراب کے پیمانے بنا کر پیش کرنے پر راضی رہتی ہے۔

ناول کا مرکزی خیال عورت اور مرد کے درمیان جسمانی اور جنسی رشتوں کے گرد ہی گھومتا ہے، مگر کیا یہ رشتہ پوری کہانی کے درمیان کبھی جسم سے روح کی طرف بھی سفر کرتا ہے، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ناول نگار کے اس دعوے کے باوجود بھی نہیں ملتا کہ محبت ہمیشہ روحانی ہوتی ہے۔ جسم وسیلہ ہوتا ہے۔ جسم سے گذرے بغیر کوئی روح تک نہیں پہنچ سکتا۔ اور کئی بار یہ احساس قوی ہوتا چلا جاتا ہے کہ ساجی اور کمار دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کسی اور ہی ضرورت کے سبب ہم رشتہ ہیں اور اپنے آپ سے بھی جھوٹ بول رہے ہیں۔ جن کا اندازہ ان چند اقتباسات سے ہو سکتا ہے۔

’’میں سوچ رہا تھا کہ ساجی مجھ تک میری محبت میں نہیں پہنچی ہے۔ عدم تحفظ کا احساس اسے میری بانہوں تک کھینچ لایا ہے۔ میری بازوؤں میں وہ محفوظ ہے لیکن کیا میں بھی اس کے پہلو میں محفوظ ہوں؟‘‘ ۔۔ ۔۔ ۔۔ صفحہ ۷۰

’’مجھے درجات سے نفرت ہو رہی تھی، اس شخص کا سینہ ناکام آرزوؤں کا مسکن ہے۔ ایک ناکام آدمی، کہیں سے ساجی مل گئی۔ جو اس کے جھوٹ کو جی رہی ہے اور خود بھی جھوٹ ہو گئی۔ ایک نمبر کی ہائپو کریٹ۔۔ ۔۔ ۔۔ پتی۔۔ ۔۔ ۔۔ پتی۔۔ ۔۔ ۔۔ پتی۔۔ ۔۔ ۔۔ اور خود پرائے مرد سے ہم بستر ہوتی ہے۔‘‘

’’میں مسکرایا لیکن خاموش رہا۔ مجھے یاد ہے میں نے ایسا کیا تھا لیکن یہ میری محبت نہیں تھی یہ میری اداکاری تھی میرے دل نے نہیں کہا تھا اسے سینے سے لگا لو۔‘‘

’’خود تو میری بانہوں میں عیش کرے گی۔۔ ساجی کی حیثیت ایک داشتہ سے زیادہ کیا ہو گی۔۔ ۔۔ ۔۔؟ ایک بیوی کسی کی داشتہ ہو گئی۔۔ ۔۔ ۔۔ عورت کی تنزلی کی انتہا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ محبت عورت کو ڈیگریڈ کرتی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔؟

میں کیا کروں ۔۔ ۔۔ ۔۔؟ عورت کا جسم ایک گرداب ہے، جس میں میں اتر چکا ہوں۔

’’ساجی مجھے دل سے چاہتی ہے لیکن میں اسے دماغ سے چاہتا ہوں‘‘

محولہ بالا اقتباسات سے یہ نتیجہ نکالنا کوئی مشکل نہیں کہ ناول کے مرکزی کردار یعنی ساجی کے کمار کے ذہن میں محبت کا جو تصور ہے وہ روحانی بالکل نہیں، بلکہ وہ جسمانی ضرورتوں اور جنسی ضرورتوں کی تکمیل کا خواہش مند ہے اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا جھکاؤ سازی کی طرف محض نوکری میں اکیلے رہنے کے سبب ہوا ہے یا پھر اس کا تعلق کسی گہری نفسیاتی الجھن سے ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ ساجی اور کمار کے درمیان قائم ہوئے رشتے میں شدت اور intimacyضرور تھی۔ اور یہ رشتہ اس سطح پر تھا کہ ایک دونوں ایک دوسرے کے لئے ناگزیر اور لازم و ملزوم ہو گئے تھے۔ اس حقیقت سے قطعِ نظر کہ شادی شدہ مرد اور عورت کے درمیان اس طرح کے رشتے بہت دنوں تک برقرار نہیں رہتے اور جسموں کی ضرورت ختم ہوتے ہی جذباتی سطح پر بھی مر جاتے ہیں اور پھر مرد اور عورت دونوں اپنی اصل زندگی میں واپس چلے جاتے ہیں۔

ناول میں ایک نیا اور گمبھیر موڑ اس وقت آیا جب ساجی نے اپنی بیٹیوں کو اچھی تعلیم دینے کی غرض سے پٹنہ شفٹ ہونے کا پروپوزل رکھا اور منطق یہ دی کہ پٹنہ میں رہ کر وہ اپنے کمار سے ہمیشہ مل سکے گی اور اپنی بیٹیوں کو بھی اچھے اسکول میں تعلیم دلا سکے گی۔ ظاہر ہے ساجی کی مالی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ اپنے بل بوتے پٹنہ میں مکان، تعلیم اور گھریلو اخراجات کا بوجھ برداشت کر سکے۔ لہٰذا یہ سارا بوجھ ناول کے مرکزی کردار کو ہی برداشت کرنا تھا اور یہ سب کچھ understoodتھا۔ مکان کا انتظام، بیٹیوں کے داخلے اور گھر کے اخراجات تک بات محدود رہتی تو الگ بات تھی، ساجی کی شرط اور خواہش یہ تھی کہ اس کا کمار جب بھی پٹنہ آئے تو اپنی بیوی نصیب سے ملنے سے پہلے ایک دو دن اس سے مل کر جائے اور پٹنہ سے لال گنج واپس جاتے ہوئے بھی اس سے ملے۔ شروع میں یہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چلتا رہا، پٹنہ آ کر پہلے ساجی یعنی اپنی داشتہ کے گھر آنا، گھر میں ضروری سامان مہیا کرنا، ساجی اور بچوں کو گھمانا، ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا۔۔ ۔۔ ۔۔ پھر اپنے گھر یعنی نصیب اور اپنے بچوں سے ملنا، ظاہر ہے اب ناول کے مرکزی کردار کی مصروفیات بہت بڑھ گئی تھیں اور وہ جسم کا خلوص حاصل کرتے کرتے خود دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا، جس کے سبب ذہنی پریشانی ناگزیر تھی۔ جس کا اظہار ناول کے آخری حصہ میں کئی بار کیا گیا ہے۔

’’اب ساجی پوری طرح میری دسترس میں تھی تو میں اس کی قربت میں ایک طرح کی الجھن محسوس کر رہا تھا‘‘

’’ساجی میری دسترس میں تھی یا میں اس کے قبضے میں تھا۔‘‘

’’دس دنوں کا راشن خریدا۔ اپنے لئے وہسکی لی۔ گھر آیا تو ایک نا معلوم سا غصہ میرے اندر دھوئیں کی طرح پھیل رہا تھا گویا سارے کنبے کا بوجھ۔۔ ۔۔ ۔۔؟ مجھے زنجیر صاف نظر آ رہی تھی جس کا سرا ساجی کے ہاتھوں میں تھا۔‘‘

ناول نگار کی الجھنیں اور ساجی سے اکتاہٹ کا سبب محض مالی بوجھ نہیں تھا بلکہ اس کے لا شعور میں ایک طرح کا احساسِ شرمندگی بھی تھا کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ نا انصافی کر رہا ہے اور یہ احساسِ جرم ایک ایسی نفسیاتی الجھن تھا جو کمار کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہا تھا کہ ’’کیا میں اس عورت سے محبت کرتا ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔؟ یا ہمارے درمیان محض سیکس ہے۔۔ ۔۔ ۔۔؟ سیکس نے مرد کو بھی ادھورا رکھا ہے اور عورت کو بھی۔۔ ۔۔ ۔۔ ہم دونوں ادھورے ہیں اور ہمیں ملانے والی کڑی سیکس ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ شاید ہم کسی اور طرح ایک نہیں ہو سکتے۔۔ ۔۔ ۔۔ ہماری روح میں سناٹا ہے۔‘‘

اور حقیقت یہ ہے کہ روح کا سناٹا پرائے جسم کی روشنی سے پُر نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اپنے آپ کو بہت دن تک اس دھوکے میں رکھا جا سکتا ہے کہ روح تک پہنچنے کا راستہ محض جسم سے ہو کر گزرتا ہے۔ ساجی جو اس ناول میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور اس نے اپنی زندگی کے ادھورے پن کو مکمل کرنے کے لئے ایک پرائے مرد کا سہارا لیا۔ ساجی کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا، مطالعے کا شوق تھا، اچھی زندگی گزارنے کی خواہش تھی، ایک پڑھے لکھے شوہر کا خواب دیکھا تھا اس نے، مگر یہ سب کچھ وہ اپنی زندگی میں حاصل نہ کرسی، کمسنی میں اس کی شادی ایک کم پڑھے لکھے اور معمولی آدمی سے ہو گئی، اور پانچ بیٹیوں کی ماں بھی بنی، اپنی تمام تر نا آسودگیوں اور خالی پن کے باوجود اس نے اپنے ادھورے خوابوں کی تعبیر اپنی بیٹیوں کی آنکھوں میں روشن کر دی اور انہیں اچھی تعلیم دلانے کا منصوبہ بنایا جس کے لئے اسے کمار کی صورت میں ایک سہارا مل گیا۔

ناول کا کلائمکس بہت کنونسنگ (convincing) نہیں ہے اور مصنوعی لگتا ہے۔ چونکہ ناول کا ہیرو، ساجی سے اکتا چکا ہے، اور دو کشتیوں میں سوار ہونے کے سبب بہت ساری ذہنی پریشانیوں اور نفسیاتی دباؤ کا شکار بھی ہے لہٰذا ساجی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے، جس کے لئے ساجی کے گاؤں میں ایک شادی میں پہاڑی پر اپنی بیوی نصیب، درجات اور دیگر لوگوں کی موجودگی میں ساجی کے ذریعہ تصویریں لینے کے دوران میسمرزم کے ذریعہ suggestion بھیج کر خودکشی پر آمادہ کرنے کا عمل قابلِ ستائش نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ ایک طرح کا فرار ہی ہے۔ ناول نگار کے میسمرزم کے علم کی اطلاع پورے ناول میں کہیں نہیں دی گئی ہے، خیر یہ ایسا ضروری جز بھی نہیں کہ ناول کی کہانی پر اثر انداز ہو سکے۔ اس طرح کے اختتام کو ناول نگار کی مجبوری ہی سمجھنا چاہئے ورنہ ناول کو انجام تک پہچانے کے لئے کئی اور گھماؤ سے گزارنا پڑتا مگر اچھی بات یہ ہے کہ ناول نگار نے ساجی کے شوہر درجات کے سامنے ایمانداری سے یہ قبول بھی کر لیا کہ ’’آتم ہتّیا نہیں تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ ہتّیا تھی ہتّیا۔۔ ۔۔ ۔۔ میں نے اس کی ہتّیا کی احمق آدمی۔‘‘ ناول نگار کا یہ اعتراف بھی کم نہیں۔

شموئل احمد کے اس ناول گرداب کا بیانیہ دلچسپ ہے اور قاری کو پورا پڑھنے پر مجبور کرتا ہے، اور اس ناول کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں واقعات کی کڑیاں قاری کو نہیں جوڑنا پڑتیں، بلکہ کہانی اپنے آپ ہی قاری کے ذہن میں سفر کرنے لگتی ہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے