نپولین نے آسٹریا فتح کیا ہی تھا کہ پھر اپنی فوجوں کو تیاری کا حکم دے دیا۔ اُس کے جرنیل نے کہا کہ ’ ابھی تو لڑائی ختم ہوئی ہے اور آپ نے فوراً ہی اگلی لڑائی کے لیے تیاری کا حکم دے دیا!‘ نپولین نے جواب دیا کہ ’اگر تھوڑی دیر ہو جائے گی تو لوگ نپولین کو بھول جائیں گے۔‘ اردو کے شاعر و ادیب بھی کہیں بھلا نہ دیے جائیں اِس ڈر سے اپنی نظم و نثر کے مجموعوں کا انبار لگاتے رہتے ہیں۔ ایسی کتابوں کے لیے یوسفی کا ایک فقرہ یاد آتا ہے کہ ’بعض کتابوں کے رسومِ اجرا ہی پر آخری رسوم کا گمان ہونے لگتا ہے اور تقریب رونمائی آخری دیدار ثابت ہوتی ہے۔‘
اگرچہ کوئی کتاب لکھنا ہمارے مصنفین کے بائیں ہاتھ کا کھیل سہی۔ کتاب کی طباعت اور (فروخت کو چھوڑیے) تقسیم کی کھکھیڑ بھی کچھ کم اذیت رساں نہیں۔ مولانا شبلی تک نے نامی پریس کے مالک منشی رحمت اللہ رعدؔ کے حیلوں بہانوں سے تنگ آ کر کہہ دیا تھا کہ ’وہ آیندہ کبھی کتاب چھپوانے سے باز آئے۔‘ لیکن اگلے ہی سال ایک نئی کتاب لے کر حاضر ہو گئے۔ اُن کے دستِ راست مولانا عبدالرزاق نے اُنھیں اُن کا عہد یاد دلایا تو بولے: ’’میری حالت اُس حاملہ عورت کے مشابہ ہے جو دردِ زہ کی تکلیف سے مجبور ہو کر عہد کرتی ہے کہ اب وہ کام نہ کرے گی جو اس کی تکلیف کا باعث ہوا، لیکن وضعِ حمل کے بعد وہ اپنے عہد پر قائم نہیں رہتی۔‘‘ ہمارے آج کل کے مصنفین کا بھی وہی حال ہے کہ ایک گود میں ایک پیٹ میں۔ جب کہ اس دور کے معیار کے اعتبار سے آج کا مصنف کھجور سے اُتر کر اِملی لیے بیٹھا ہے۔
روسی ادیب شولوخوف نے ایک بار کہا تھا کہ ’اُن کے یہاں ادیب چھوٹے چھوٹے قصبوں میں اپنے ماحول اور تجربوں سے کام لے کر اچھی اچھی تخلیقات پیش کرتے تھے، لیکن جب اُنھیں سرکار نے نوازا اور ماسکو بُلا کر مادّی آسایشوں کے ساتھ ادیبوں کی کالونی میں بسادیا تو پھر اپنے فطری ماحول اور عملی زندگی کی کشاکش سے چھوٹ کر اُن کے فن کا معیار برقرار نہ رہا۔‘ ہمارا معاملہ بھی بہت مختلف نہیں۔ یہاں اردو تعلیم و تعلّم کی حالتِ زار سدھارے بِنا جب سے ریاستی اردو اکاڈ میوں کا جال پھیلایا گیا ہے اور اُن کے ذریعے ہر ضلع، قصبے کے ہر قماش کے اُمیدواروں کی سیاسی پرورش عہدے، انعام اور امداد کی ریوڑیاں بانٹ کر کی جا رہی ہے، امتیازِ ناقص و کامل جاتا رہا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ متقدمین بھی نوابوں اور راجاؤں سے وظیفے پاتے تھے، لیکن تب صحت مند مسابقت اور خوب سے خوب تر کی جستجو رہا کرتی تھی، اب گروہ بندی، سیاست اور سفارش گردی ہے۔ تب داد و دہش کا میل تھا، اب داد و ستد کا کھیل ہے۔
یوسفی کی دوسری اور تیسری کتاب (’خاکم بدہن‘ اور ’زرگزشت‘) نے کوئی آٹھ آٹھ برس انتظار کرایا تھا۔ ’آبِ گم‘ تقریباً تیرہ برس کے بعد شائع ہوئی تھی اور اب ’شامِ شعرِ یاراں‘ پچیس برس کے انتظار کے بعد یُوں منظرِ عام پر آئی ہے کہ برہا کے مارے کہہ رہے ہیں: ’روپا ہو گئے کیس‘۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں یوسفی کی کامیاب معاشی زندگی کی سرگذشت دراصل زرگزشت (بینکاری) کی رہین رہی ہے اور اُن کی مثالی ادبی تصانیف اُن کے ٹھالی وقتوں یا زمانۂ سبک دوشی کی تخلیق ہیں۔ مولانا نذیر احمد نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے کوئی مناسب کتاب نہ پاکر 146سال قبل ’مراۃ العروس‘ ’منتخب الحکایات‘ اور اُس کے بعد چند اور ناول تصنیف کر دیے تھے جو ہماری کئی نسلوں کے تعلیمی نصاب کا حصّہ بنے رہے۔ یوسفی نے اپنی پہلی کتاب کے دیباچے میں ، ڈزرائیلی کے ایک مقولے کے پردے میں اپنے مقصدِ تحریر کا اظہار کر دیا تھا کہ ’جب میرا جی عمدہ تحریر پڑھنے کو چاہتا ہے تو ایک کتاب لکھ ڈالتا ہوں۔‘ اور یہ واقعہ ہے کہ اُنھوں نے اپنے خاص طرز میں چند ایسی کتابیں اردو ادب کو سونپیں، جن میں ہمارے آج ہی کے نہیں آیندہ کے نصاب کا حصّہ بننے کی بھی ساری خوبیاں موجود ہیں۔ اُن کی نئی کتاب ’شامِ شعرِ یاراں‘ کے مارکیٹ میں آتے ہی گِرہ کٹوں نے حسبِ سابق اس کے بھی جعلی اڈیشن شائع کر دیے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے نام کا سکّہ آج بھی رواں ہے۔ دوسری طرف اُن کی کتاب کے آتے ہی منفی رایوں کا سیلاب آ گیا۔ ناطقہ سربگریباں ہے اِسے کیا کہیے!
کل کے انداز بھی دل کش تھے یہ تسلیم مگر
آج بھی شہرِ نگاراں میں نکل کر دیکھو!
BBCکے ظفر سیّد نے اسے الّم غلّم چیزوں سے بھرے بھان متی کے کنبے سے نسبت دی ہے تو ’بُکس اینڈ آتھرز‘ (ڈان) کے حمیر اشتیاق نے لکھا ہے کہ یوسفی کا سفرِ ظرافت ’آبِ گم‘ میں ختم ہو گیا۔ خرّم سہیل کی رائے میں آرٹس کونسل آف پاکستان (کراچی) نے یوسفی کے اہلِ خانہ کی مدد سے ان کی اسٹڈی ٹیبل اور ڈسٹ بن کے اوراق افگندہ سے یہ کتاب بنا ڈالی ہے۔ انھوں نے یوسفی سے ہوئی اپنی مبیّنہ بات چیت کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ یوسفی نے اس کتاب کا مسوّدہ دیکھا تھا نہ اشاعت کی منظوری دی تھی۔ یہ ادبی ڈاکا ہے، جس نے یوسفی کی ساکھ کو نقصان اور ناشرین کو فائدہ پہنچایا ہے۔ عدنان یوسفی نے لکھا ہے کہ یہ کتاب یوسفی کا اپنا مرثیہ ہے۔ ’شگوفہ‘ کے ستم ظریف نے بھی اسے مایوس کُن اور پُرانا مال بتایا ہے۔ کچھ دنوں کی بات ہے، لوگ دیکھیں گے کہ یہ ہنگامی رائیں کسی شہسوار کے گرد و غبار کی طرح بیٹھ جائیں گی۔یوں بھی ہمارے یہاں ایوانِ سیاست میں قانون کو سمجھے بنا شور مچانے والے سیاست کاروں، فلم دیکھے بِنا banکا نعرہ لگانے والے تماش بینوں اور کتاب پڑھے بنا رائے زنی کرنے والے مبصّروں کی کمی کبھی نہیں رہی۔ سب اسی میں کوشاں ہیں کہ قد نہ بڑھ پائے تو سایہ ہی بڑا ہو، کچھ تو ہو!
ایسے مبصّروں پر تو یوسفی اپنے دل کو یہ کہہ کر سمجھا سکتے ہیں کہ زیرِ دیوار کھڑے ہیں، تِرا کیا لیتے ہیں! لیکن سنجیدہ ادبی حلقے کی سرد مہری کے اسباب کیا ہیں؟ کیا اسے جاننے کی ضرور ت نہیں!
یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ کسی چیز کا زیادہ طویل انتظار زیادہ تکلیف دہ ہوا کرتا ہے اور اس تکلیف کے مداوے کے لیے زیادہ توقعات بھی وابستہ کر لی جاتی ہیں۔ جب وہ پوری نہ ہوں تو ردِّ عمل شدید منفی ہوتا ہے۔ لوگوں نے پچیس برس بعد آئی یوسفی کی اس کتاب کو اُن کی سابقہ کتابوں سے کم تر پایا، یہ اسی کا شاخسانہ ہے۔
دوسرے یہ کہ اردو والوں کا مزاج حال کے استقبال سے زیادہ ماضی کی محویت کو پسند کرتا ہے۔ انھیں اپنے باکمالوں کی قربت کی قدر کم اور تربت کی مجاوری زیادہ عزیز ہے۔ وہ ماضی بعید، بعید تر بلکہ اس سے بھی زیادہ ماضی تمنّائی میں جینا پسند کرتے ہیں۔ یوسفی نے ’زرگزشت‘ اور ’آبِ گم‘ میں سارے ہی کردار افسانوی رنگ میں پیش کیے تھے، زمانی فاصلہ بھی حائل تھا۔ایسے میں چھبیلی بھٹیاری کو بھی نیلم پری بناکر پیش کرنا ممکن ہوتا ہے۔
’شامِ شعرِ یاراں‘ میں شامل دوست محمد فیضی، شان الحق حقّی، الطاف گوہر، افتخار عارف، بشریٰ رحمان، ابن حسن برنی، قدرت اللہ شہاب، ضمیر جعفری، شفیع عقیل، شاہدہ حسن، نظر امروہوی، شاہد رسّام اور روبینہ شاہین جیسے ہم عصروں کے تذکرے جب اُنھوں نے لکھے تھے تو اُن میں سے دو ایک ہی مرحوم ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کہ زندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ ان شخصیتوں پر افسانہ و فسوں کے سائے گہرائے ہیں نہ ہی اور لوگوں کے صنم کدے میں ان مورتیوں کا ایسا ہی سندر اور سجیلا ہونا ضروری ہے۔
قائد اعظم اور فیض پر مضامین اسی لیے زیادہ پسند کیے گئے ہیں کہ اُنھیں اپنی زندگی ہی میں افسانوی شہرت حاصل ہو گئی تھی۔
ایک خرابی یہ ہوئی کہ ہر مضمون کے ساتھ کسی کتاب کی رسمِ اجرا، کسی نمائش کے افتتاح، کسی سمپوزیم یا سیمی نار سے خطاب، کسی ادارے یا کلچرل سینٹر یا پریس کی دعوت، کسی جلسۂ تقسیمِ اسناد یا کسی مشاعرے کی صدارت جیسی کوئی نہ کوئی تختی جَڑی ہوئی ہے۔ یار لوگوں نے ان مضامین کو صدارتی، تہنیتی، اِجرائی، تعزیتی اور اسی نوعیت کی روایتی تقریروں پر محمول کیا اور ماہِ کنعاں کے حسن کے گہنائے جانے کا اعلان کر دیا۔
تقریباً نصف درجن مضامین جو کتابوں کی رسم اجرا پر لکھے گئے ہیں، یوں اور دل چسپ بن گئے ہیں کہ ان میں کتاب کا ذکر ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے۔ یا پھر وہ قلاوہ در گردنِ شتر کی طرح ہے۔ جہاں شفیع عقیل، شاہدہ حسن اور دوست محمد فیضی جیسے لکھنے والے سوت کی انٹی لے کر یوسف کی خریداری کو چلے آئیں، وہاں یہ تو ہونا ہی تھا۔ اسی پر قارئین مینجمنٹ سائنس، آرٹ اور آرکی ٹیکچر کے اداروں سے ان کے خطاب کو قیاس کر لیں! بقول شخصے یوسفی موضوع کو محض کھونٹی کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ یوسفی نے ان سارے وسیلوں سے اپنی کہی ہے اور خوب کہی ہے ؎
فرط خود بینی سے دنیا بن گئی آئینہ زار
ایک ہی صورت نظر آتی ہے ہر تصویر میں
(مسعود حسین رضوی ادیبؔ)
’شامِ شعرِ یاراں‘ میں ’زرگزشت‘ کے دو بقیہ ابواب ’قائد اعظم فوج داری عدالت میں‘ اور ’یادِ یارِ طرح دار‘ اور لغت و زبان سے اُن کے اَزلی عشق کا شاہد مقالہ ’نیرنگِ فرہنگ‘ ، نیز ’قصّہ خوانی بازار سے کوچۂ ماضی گیراں تک‘ شاہ کار مضامین ہیں۔ اس کے علاوہ یوسفی نے ابن حسن برنی، شان الحق حقّی، ضمیر جعفری، روبینہ شاہین ، ممریز خان اور ایسی کئی شخصیتوں کی عام سی باتوں، عادتوں کو اپنے حسن بیان سے پیش کر کے اُنھیں خاص اور دل کش خدوخال بخش دیے ہیں۔
اُن کا قلم ابرِ بے پروا خرام کی مثل ہے۔اپنی پریشاں قلمی (Digression) کا انھیں احساس بھی ہے بہر طور اُنھوں نے بات میں بات پیدا کرنے اور اپنی شگفتہ بیانی کا جادو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس کتاب میں اُن کی انتخابیت اور اختصار پسندی بہ الفاظِ دگر ایجاز میں اطناب سمونے کا آرٹ ماند پڑ گیا ہے۔ اُنھوں نے کئی مضامین میں اعتراف کیا ہے کہ ’مختصر لکھنے کی کوشش میں تحریر طویل ہو گئی۔‘ اگرچہ شاعر نے کہا ہے ع طول دینا ہی مزہ ہے قصّۂ کوتاہ کا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہاں اُن کی طول کلامی نے کہیں کہیں تحریر کا مزہ کم کر دیا ہے۔
کسے کہ خندہ نشد از قبیلۂ مانیست
اپنی ابتدائی دو کتابوں’ چراغ تلے‘ اور ’خاکم بدہن‘ میں اُنھوں نے جب طنز و ظرافت کی کمان سنبھال کر دنیائے ادب میں یورش کی تھی تو تازگیِ فکر اوروسعتِ مطالعہ میمنہ اور میسرہ کی طرح ہم رکاب تھے۔ نکتہ آفرینی، رعایت لفظی، قولِ محال، اشعار و اقوال کا برجستہ استعمال، ندرتِ خیال ’تحریفِ لفظی اور لطیفہ طراز ی کا ہر حربہ پوری توانائی کے ساتھ اُن کی دسترس میں تھا۔ وہ اپنی ساری شگفتہ سامانیوں کے ساتھ محفل ادب پر یوں نعرہ زن ہوئے کہ کسے کہ خندہ نشد از قبیلۂ مانیست! اور لوگ پکار اُٹھے: ’وہ آیا، نگاہ کی اور چھا گیا۔‘
اس کے بعد اُنھوں نے ’زرگزشت‘ میں اپنے بینکاری کے کرئیر اور ’آبِ گم‘ کے پس منظر میں برّصغیر کے تہذیبی المیے کو سمیٹنے کی کوشش کی۔ برّصغیر کا تاریخی و تہذیبی اُتار چڑھاؤ، ادب و سیاست و معاشرت کا خوب و زشت اور ان سب کے ریلے میں زندگی کی تگ و تاز سے جوجھتے لوگوں کی نفسیات اور اُن کے مزاج و کردار کو یوسفی نے پوری درد مندی کے ساتھ اپنے اعجازِ قلم اور زبان پر عبور کے ساتھ اپنی کتابوں کے اوراقِ مصّور میں محفوظ کر دیا ہے۔ اُن کی ہزار سالہ ماضی کی تہذیبی وراثت کہیں بھی اُن کا پیچھا نہیں چھوڑتی ع ہم کسی سمت بھی نکلے ہوں وہیں جا پہنچے۔
لوگو ں کی رائے اس بارے میں بٹی ہوئی ہے کہ یوسفی کی بہترین تصنیف ’زرگزشت‘ ہے یا ’آبِ گم‘! میری نظر میں ’زرگزشت‘ یوسفی کا گُلِ سرسبد اِس بنا پر ہے کہ بینکاری کے خشک پیشے ؍مشغلے کے پس منظر بلکہ پیش منظر کو اپنے فکری موضوعات، رجحانات اور نشیب و فرازِ حیات کے مراحل سے آمیخت کر کے ایسی ظرافت بار کتاب کا لکھا جانا کسی ادبی کارنامے سے کم نہیں۔ ’آبِ گم‘ اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود ایک الم انگیزی کی فضا سے نکل نہیں پاتی۔ تقسیم ملک کے تہذیبی المیے سے جڑے چند مرکزی کرداروں کے جلو میں متعدد ضمنی کرداروں کا جلوس بھی موجود ہے۔ اس سے پہلے کہ مصنف کی شگفتگیِ تحریر سے قاری کے لبوں پر تبسم رقص کناں ہوں، کوئی نہ کوئی کردار نمیدہ نمودار ہو کر زبانِ حال سے گویا ہوتا ہے، ہم نہ روئے تھے تمھارے مسکرانے کے لیے!
بہرحال ’زرگزشت‘ کو یوسفی کی بہترین کتاب مانا جائے یا ’آبِ گم‘ کو۔ چت بھی اپنی ہے پٹ بھی اپنی ہے۔ ’شامِ شعرِ یاراں‘ یوسفی ظرافت کی میزان پر پانچویں نمبر پر سہی، کیا اردو کے فکاہیہ ادب میں اس سے بہتر تو کُجا، اس کے پاسنگ ہی کوئی کتاب پچھلے پچیس برسوں میں آئی ہے؟
کوئی بیس برس قبل چھپے خامہ بگوش کے کالموں کے انتخاب کے مجموعے ضرور ہاتھوں ہاتھ لیے گئے، لیکن تمام شوخیِ تحریر کے باوجود خامہ بگوش کی قلمروئے سخن درسخن اردو کے مصنفین اور اُن کی تصانیف کے ارد گرد ہی محدود رہی ہے۔ یوسفی آج بھی اپنے contentکی ہمہ گیری کے سبب فائق ہیں۔ اُن کی کتاب مسابقت میں پچھڑی ہے تو اپنی ہی کتابوں سے۔
لانا پڑا تمھیں کو تمھاری مثال میں
شرح اِس طور سے اِس ڈھنگ سے تفسیر ہوئی
یوسفی کی ظرافت میں مواد و متن کی پیش کش میں ایک بانکپن ملتا ہے، لیکن اُن کے اندازِ تحریر میں کوئی ابہام یا ژولیدگی نہیں پائی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے مطائبات سے محظوظ ہونے کے لیے ایک با شعور قاری کوئی رُکاوٹ محسوس نہیں کرتا، لیکن جیسا کہ ہم لوگوں کا مزاج ہے، ہم مذہب اور ادب کے مطالعے اور استفادے سے زیادہ مذہب اور ادب کی تشریح و تفسیر کے مباحثے اور مناقشے میں طبعی دل چسپی محسوس کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے فرموداتِ یوسفی کی مضحکہ خیز تشریح پیش کی ہے۔ جب کہ ؎
بات پیچیدہ نہ تھی اتنی کبھی
جس قدر تفسیر ہم کرتے رہے
’’چراغ تلے ‘ کے مقدمے ’پہلا پتھر‘ میں یوسفی نے اپنے حلیے کے بیان میں اپنے جثّے، سینے اور پانْو کے ناپ وغیرہ کی تفصیل پیش کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ
’’اپنے آپ پر گیا ہوں۔ پیشانی اور سر کی حدِّ فاصل اُڑ چکی ہے، لہذا منہ دھوتے وقت یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کروں۔ ناک میں بذاتہ قطعی کوئی نقص نہیں ہے، مگر بعض دوستوں کا خیال ہے کہ بہت چھوٹے چہرے پر لگی ہوئی ہے۔‘‘ (ص: 15، مطبوعہ ادبی دنیا، دہلی)
یوسفی پر لکھے اپنے خاکے (مشمولہ: دیارِ خوش نفساں) میں غلام رضوی گردش کو مغالطہ ہوا ہے کہ ’پہلے یوسفی کو اپنی ناک صحیح سلامت معلوم ہوتی تھی، بعد میں۔۔۔۔‘ دراصل یوسفی کو اپنی ناک پہلے اچھی لگی تھی نہ بعد میں۔ یہ یوسفی کے اسلوب کا الٹ پھیر ہے جو سیدھے سادے پیرائے میں نا ک کی غیر متناسبیت کا اظہار نہیں کرنا چاہتا بلکہ اپنے چہرے کو ہدف بنا کر مزاح کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔
اپنے اِسی مقدمے میں آگے چل کر اُنھوں نے لکھا ہے:
’’بعض تنگ نظر اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان کتوں سے بلاوجہ چڑتے ہیں۔ حالاں کہ اس کی ایک نہایت معقول اور منطقی وجہ موجود ہے۔ مسلمان ہمیشہ سے ایک عملی قوم رہے ہیں اور وہ کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کر کے کھا نہ سکیں۔‘‘ (ص: 16، ایضاً)
یوسفی پر لکھے ایک مضمون میں ڈاکٹر مجیب الاسلام کے ظلامِ ذہنی کا یہ عالم ہے کہ یوسفی کی واضح صراحت کے باوجود اُنھوں نے لکھا ہے:
’’یہاں اشارہ اُس جانور کی طرف ہے، جو اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے، یعنی سور۔‘‘
(ص: 119، مشمولہ ’مشتاق احمد یوسفی -ایک مطالعہ‘، مرتبہ: مظہر احمد، اڈیشن 2004ء)
مجیب کی الاسلامی تشریح دیکھ کر ہمیں کسی شاعر کا یہ مصرعہ یاد آ گیا کہ ’جدھر وہ چاہتے ہیں پھیر دیتے ہیں ضمیروں کو۔‘لیکن حاشا وکلّا اُن کے بیان سے کوئی یہ مطلب نہ نکالے کہ وہ کتوں کی جان بخشی کے قائل نہیں ہیں۔
________________________________________________
جو رہ نما تھے بکے اور شہریار ہوئے
________________________________________________
سیاست کا لفظ اب دنیا بھر کے سیاست کاروں کے تقریباً یکساں سے کرتوتوں کی بنا پر ویسے ہی وصفی معنوں کا ترجمان بن گیا ہے اور پاکستان کی سیاست تو اپنے قعرِ مذلت میں پڑی نظر آتی ہے۔ بقول یوسفی وہاں قحط الرجال تو نہیں رہا، قہر الرجال ضرور برپا رہا اور حالات ہمیشہ ہی شکیب و صبرِ اہلِ انجمن کی آزمائش بنے رہے، پھر بھی با ضمیر فنکار جنوں کی حکایتِ خوں چکاں بیان کرتے رہے۔ یوسفی نے بھی ’خیالِ خاطر و خوفِ اربابِ سیاست‘ کے باوجود جہاں تہاں پاکستان کے آمرانِ وقت : ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف کی ’شربراہی‘ کو ہدفِ قلم بنایا ہے۔جن کے عہد میں بقول اُن کے بے حساب کشتوں کے پشتے لگ گئے تھے۔ ایک بار یوسفی کسی تقریب میں اسلام آباد بلائے گئے تو اُنھوں نے کہا تھا : ’’اِس سیاسی دارالخون خرابہ میں آنے میں مجھے کافی تامّل ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسلام آباد درحقیقت جنت کا نمونہ ہے۔ اس اعتبار سے یہاں جو بھی آتا ہے حضرتِ آدم کی طرح نکالا جاتا ہے۔‘‘ اُنھوں نے خود بھی جنرل ضیا الحق کے دور میں اپنا طوقِ ملازمت اُتار کر رکھ دیا تھا۔ کچھ اس بنا پر بھی ضیا کے دور کے ظلم و جور کے بیان میں اُنھوں نے کہیں تکلف نگاری سے کام نہیں لیا۔ مثلاً:
’’وہ دن لد گئے جب شکر خورے کو خدا شکر دیتا تھا۔ اب اس کے ساتھ شکر خور ے کو ذیابیطس بھی ملتی ہے اور خدا کسی قوم سے خفا ہو جائے تو پوری قوم جمہوریت سے محروم ہو کر ضیا بیطس میں مبتلا ہو جاتی ہے۔‘‘ (ص: 388)
اُنھوں نے چار بار منسٹر رہ چکے محمد فیضی اور سابق بیوروکریٹ الطاف گوہر کی ایک ایک کتاب کی تقریب سے دو مضمون (’فرموداتِ فیضی‘ اور ’الطافِ گوہر اور گڑ کی ڈلی‘ ) لکھے ہیں، لیکن جیسا کہ اُن کی آوارہ قلمی مشہور ہے ماوراءے سخن کہیں زیادہ لکھا ہے۔ اگرچہ الطاف گوہر پر لکھے اپنے مضمون میں اُنھوں نے حفظ ماتقدم کے طور پر اعلان کیا ہے کہ ’مجھے شہاب صاحب (قدرت اللہ شہاب) کے دفاع میں کچھ کہنا ہے نہ الطاف گوہر کی صفائی پیش کرنی ہے‘ (ص: 310)۔ ساتھ ہی اُنھیں اعتراف ہے کہ دونوں ہی کو تقربِ الوالامر و آمر رہا ہے اور وہ ایوب خان کے نفسِ ناطقہ بھی رہے ہیں۔ اب رموز مملکتِ خویش خسرواں جانیں، ہمیں تو سارے مضمون میں یوسفی، الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب جیسے بیورو کریٹس کے وکیل صفائی کا کردار ہی نبھاتے نظر آئے۔ پروین شاکر کا ایک شعر بہ ادنا تغیرّ یہاں موزوں لگتا ہے:
مری گلی میں کوئی شہریار آتا ہے
یہ تقاضا ہے کہ لہجے کو محترم کر لوں
قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر شاہ نہ تھے پر اُنھیں شاہ گر ضرور کہا گیا۔ اُن دونوں کے ممنون اور معتوب دونوں ہی طرح کے لوگ اپنی اپنی کہانیاں سناتے ہیں، لیکن بیشتر پاکستانی مصنفین (مثلاً: طاہر مسعود وغیرہ) کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دونوں ہی اپنے اپنے عہدہ ہائے جلیلہ پر طویل مدّت تک فائز رہ کر بغیر کسی رنج و افسوس کے ساتھ آمرانہ نظام کو توانا بنانے میں لگے رہے تھے۔ یوسفی نے الطاف گوہر کی کتاب ’تحریریں چند‘ کے مضامین کی بھی دل کھول کر داد دی ہے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ پاکستانی ادیبوں میں الطاف گوہر کتنے اہم مقام کے حامل ہیں! جہاں تک قدرت اللہ شہاب کی بات ہے، اُن کے ’یا خدا‘ اور ’ماں جی‘ جیسے افسانو ں کی شہرت سرحد پار بھی پہنچی تھی اور اب تو ’شہاب نامہ‘ اُن کی شناخت بن چکا ہے۔
بہرحال خار زارِ سیاست میں اُلجھی اِن ہمہ صفت موصوف شخصیتوں کی ادب پسندی اور ادیب نوازی بھی ایک اہم اور مشترک وجہ رہی ہو گی جس کی وجہ سے یوسفی کے موئے قلم نے اُن کے دل کش خدوخال صفحۂ قرطاس پر کھینچ کر رکھ دیے ہیں۔ ایک اعتبار سے وہ بھی جان ایف کینیڈی کے اس مسلک کے حامی نظر آتے ہیں کہ ’اگر کچھ اور سیاست کار سخن فہم اور کچھ اور شعرا سیاست آشنا ہوتے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ دنیا بسر کرنے کے لیے زیادہ بہتر جگہ ہوتی۔‘
________________________________________________
قومی جوتے کی گُم شدگی
________________________________________________
مجھے محمد احسن فاروقی اور شاہد عشقی کے یوسفی صاحب پر لکھے تنقیدی مضامین میں اُن کے ایک مضمون ’قومی جوتے‘ کا ذکر ملا تھا، جو کہ یوسفی کی کسی کتاب میں شامل نہیں ہے۔ بیان کیا گیا ہے کہ اس مضمون میں قومیت پر تنقید کی گئی تھی۔
یوسفی نے ’شامِ شعرِ یاراں‘ کے اولین مضمون ’’قائدِ اعظم فوج داری عدالت میں‘‘ میں اُنھیں اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔ ایک جگہ اُن کے بارے میں رقم طراز ہیں۔
’’جس نے پانچ عددی اکثریت کی شدید اور مدّت مدید تک کی مخالفت کے باوجود ایک وسیع و عریض نظریاتی ملک کی بنیاد ڈالی اور ایک خواب کو سچ کر دکھایا۔‘‘ (ص: 31)
جناب نے پاکستان کو ایک سیکولر اور جمہوری ملک بنانے کے قائد اعظم کے خواب کے پاش پاش ہونے کا کوئی ذکر نہ کیا۔اور یہ بھی کہ قومیت خراب سہی، لیکن مذہب کی بنیاد پر بنے پاکستان کا بد سے بدتر حال کیوں ہے! ع زباں تک حالِ دل آیا تو ہوتا! جرمن شاعر شِلر (Schiller) نے کہا تھا : ’دنیا کی تاریخ ہی دنیا کا ایوانِ عدالت ہے۔‘
________________________________________________
طوافِ کوچۂ ملامت
________________________________________________
الطاف گوہر کے مضامین کے تذکرے میں اُن کی منٹو شناسی اور میراجی کے تجزیے کو سراہتے ہوئے اُنھوں نے لکھا ہے کہ ’جس کا جنسی تجربہ جتنا کم ہو گا اور جنسی محرومی اور ناآسودگی جتنی زیادہ ہو گی وہ فحش نگاری میں انتہا ہی زیادہ کھل کھیلے گا۔‘ (ص: 339)۔ منٹو کی رنڈی بازی کا یوسفی کو یقین نہیں ہے، اِس کا اظہار اُنھو ں نے ’آبِ گم‘ میں بھی کیا ہے:
’’منٹو تو خیر الکحلک بھی تھا۔ کوے ملامت کے طواف کی اس غریب کو نہ فرصت تھی نہ استطاعت اور ہوش۔ اسے اس کوچے کا اتنا ہی تجربہ تھا، جتنا ریاض خیرآبادی کو شراب خانے کا۔ ہمارے یہاں شاید یہ اتنا ضروری بھی نہیں۔‘‘
(آبِ گم‘ ، حاشیہ ص: 382، ’کتاب والا‘ ، دہلی، 1991ء)
اس کے برعکس منٹو پر عصمت کے لکھے ہوئے خاکے میں ہم دیکھتے ہیں کہ عصمت کے روبرو منٹو نے کسی کارنامے کی طرح اپنی رنڈی بازی کا ذکر کیا تھا۔ جب عصمت نے بے یقینی کے عالم میں اُس سے کہا تھا کہ تم یوں ہی گانا سننے کے لیے کوٹھے پر جاتے ہو گے تو منٹو نے زور دے کر کہا تھا کہ وہ وہاں جس کام کے لیے گیا ہے اُسی کے دام وصول کر کے آیا ہے۔ وہ اپنے دعوے پر خدا سے لے کر اپنے مرحوم بچے تک کی قسم کھانے سے باز نہ آیا تھا۔ یہ تو ہوئی داخلی شہادت یعنی مصنف کی خود اعترافی۔ کئی خارجی شہادتیں بھی مَیں اپنے ایک مضمون ’ملے جلے ہیں عذاب و ثواب کے مفہوم‘ میں پیش ک رچکا ہوں۔ اگر اڈیٹر صاحب نے مناسب سمجھا تو قارئین خاتمۂ مضمون پر دیکھ لیں گے۔*
یوسفی جیسے دیدہ ور سے مخفی نہ ہو گا کہ ہماری ادبی تاریخ میں کتنے ہی ادبا و شعرا کے طوائفوں سے تعلقات کے کیسے کیسے قصے مشہور ہیں اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ یوسفی ہی کی تحریفِ لفظی میں اُن کی ’شہوانحِ عمری‘ کے اُن رنگین ابواب کو قلم انداز کر دیا جائے۔
ممتاز مفتی نے شخصیت شناسی کی ایک کلید یہ بنائی تھی کہ ہر شخص کے باطن میں ایک طوائف ہوتی ہے اور وہ اُس کا سراغ لگانے میں بڑی کاوش کیا کرتے تھے۔ دھیان کیجیے تو کتنے ظاہر ہی میں طوائف بکنار مل جائیں گے۔ غالب نے اگر ایک ڈومنی کو مار رکھا تھا تو داغ کو اپنی منظورانِ نظر میں سے منّی جان حجاب سے خاص قربت رہی تھی۔ انشا کی رکھیل یاسمین المتخلص بہ چنبیلی تھی اور شیفتہ رمجو نامی طوائف پر فریفتہ تھے۔ خواجہ حسن نظامی بخشی نامی رنڈی پر مر مٹے تھے۔ وحید الہ آبادی پچیس برس کی عمر میں پندرہ برس کے اکبر کو لیے لیے الہ آباد اور نواح کی بدنام بستیوں میں یوسفی کے الفاظ مستعار لوں تو ’کوچہ بہ کوچہ زن بہ زن‘ پھرا کرتے تھے۔ گویا اکبر نے اُستاد کے آگے زانوئے تلمذ ہی نہیں’ زانوئے تلذّذ‘ بھی تہ کر رکھا تھا۔ اکبر کا بوٹا جان سے دو بول پڑھوا کر اسے گھر میں بٹھا لینا تو خیر اُن کے سوانح نگاروں نے بھی لکھا ہے۔ حمام والی طوائف ’چوہا‘ اور امامن جان کی بائی سے اُن کے لگاؤ کے قصّے بھی اِدھر اُدھر موجود ہیں۔
________________________________________________
کبابِ نوبہار اندر تنورِ لالہ می سوزد
________________________________________________
یوسفی کے دل پسند موضوعات میں سے ایک افسانۂ آب و ناں، بلکہ تکلف برطرف طعام ہائے لذیذہ مع نعمت خانہ اپنی پوری اشتہا انگیزی کے ساتھ اکثر نوک بہ قلم رہا ہے۔ اُنھوں نے جب کبھی لذتِ کام و دہن کا ذکر چھیڑا ہے ع ’کبابِ نو بہار اندر تنورِ لالہ می سوزد‘ کا سماں دکھایا ہے۔ اگر چہ پیٹ کی پسندیدگیوں نے اُنھیں برسوں تک اسہال سے لے کے سوے ہضم تک میں مبتلا رکھا اور آخر کار سبزی خور بنا کر چھوڑا، لیکن اُنھوں نے سید محمد جعفری کی طرح خدا سے شکوہ نہیں کیا کہ خوگرِ گوشت سے سبزی کا گلہ بھی سُن لے۔ تقریباً دو دہائیوں تک لندن میں رہ کر بھی یوسفی کیک کو چکھ کے سویّوں کا مزہ بھولے نہ شیرمال کا ؎
بیٹھے تنورِ طبع کو جب گرم کر کے میرؔ
کچھ شیرمال سامنے، کچھ نان، کچھ پنیر
اُن کی تازہ کتاب کے اوراق میں بھی اُن کے مطبخِ قلم نے خوب ذائقے گھول رکھے ہیں۔ بالخصوص ’قصّہ خوانی بازار۔۔۔‘‘ میں روبینہ (شاہین) کی رکاب داری کی تفصیل کافی چٹپٹی ہے۔ میں نے ’بارہ مسالے‘ کا مطبخی نام ہی سُن رکھا تھا۔ اس مضمون میں اُن کی مکمل فہرست دیکھ کر آنکھیں مِرچرا گئیں۔ میری ایک مراٹھی پڑوسن کی طباخی سارے کامپلیکس میں مشہور ہے۔ مَیں نے جب کبھی اُن کی بنائی ہوئی ڈش چکھی ہے تو اُنگلیاں چاٹتا (اُس کی نہیں، اپنی) رہ گیا ہوں۔ اُسے بلا کر بارہ مسالوں کے نام پوچھے تو وہ سات آٹھ ہی پر گڑبڑا کر رہ گئی۔ جب میں نے کتاب اُٹھا کر فرفرسارے نام سُنادیے تو اُس کا منہ طباق سا کھُلا رہ گیا۔ اُس ادب ناآشنا نے کفگیر کی طرح ہاتھ نچا کر کہا، ’’آپ کے کُک نے اِس کُک بُک میں کچھ کھانوں کی رے سیپی بھی تو دی ہو گی!‘‘
یوسفی نے واجد علی شاہ کے چھوٹے بھائی عالم شاہ زادہ مرزا سلیمان قدر۔۔۔ کی دریا دلی اور قدر افزائی کی دل چسپ حکایت اُس کے مصاحب کی زبانی، اُس کے خاصے میں ’تقلیلِ فیض رسانی‘ کے حوالے سے (ص: 426پر) بیان کی ہے۔ ’یادِ ایّام‘ میں عبدالرزاق مرحوم نے لکھا ہے کہ ’لکھنؤ کے باورچیوں کو یہ کمال حاصل تھا کہ پانچ سیر غذا کا جوہر پاؤ بھر میں نکال لیتے تھے اور چوبیس سیر گوشت کی مقطّر یخنی میں ایک سیر پلاؤ دَم ہوتا تھا۔ یہی نواب آصف الدولہ یحیٰ خاں کی غذا تھی۔ چنانچہ خاصے کے پلاؤ کا ایک نوالہ دوسروں کے لیے جمال گوٹے کا حکم رکھتا تھا۔ دراصل ان مقوی غذاؤں کو ہضم کرنے کے لیے آبدار خانے میں طبّی اُصول سے پانی بھی تیار ہوتا تھا، ورنہ معمولی پانی دل و جگر میں آگ پھونک دیتا تھا۔‘
________________________________________________
ہم سے بھولی ہے رہِ کوچۂ جاناں کوئی!
________________________________________________
ہالی ووڈ کے مشہور مزاحیہ اداکار ہربرٹ لاہر نے ایک بار اپنے دور کی نام ور اداکارہ شرلے میکلن سے کہا تھا کہ ’میری یہ شدید خواہش ہے کہ میں کسی عشقیہ فلم میں تمھارے مقابل ہیرو کا پارٹ ادا کروں۔ شرلے میکلن نے حیران ہوکر جواب دیا تھا: ’’لیکن ہربرٹ! تمھارے سر کے بال تو سفید ہو رہے ہیں!‘‘ اس پر ہربرٹ نے کہا تھا: ’’اگر مکان کی چھت برف سے ڈھک جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں آگ بھی نہیں جل رہی ہو گی!‘‘ عمر کی آٹھ دہائیاں پار کرنے کے بعد بھی یوسفی کو پشاور کی سڑکو ںپر گھومتے ہوئے ماضی کے ’Dean’s Hotel‘ کی تلاش ہے اور وہ اُس کے کیبرے کو پھر سے دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔ بجھی ہے آگ تو لیکن شرار باقی ہے۔
گرچہ پیرم تو شبے تنگ در آغوشم گیر
تا سحر گاہ زکنارِ تو جواں بر خیزم
گرچہ اُنھوں نے ’زرگزشت‘ کی رنگین بیانی کے جلوہ ہائے فراواں کی بہ نسبت یہاں کچھ نَفسی کسر سے کام لیا ہے۔ گویا ع جی میں لہر آوے ہے لیکن رکھتا ہوں من مار اپنا، پھر بھی یادوں کے جھروکے سے اپنی بساطِ نشاطِ دل پر کہیں نیبھا مکرجی اور مس مارجری بالڈ کو براجمان کر رکھا ہے۔ کہیں مس بلبل کو غزل سرا اور ناہید صدیقی کو نوا پرداز۔ اُڑیسی نرتکی کے فن کی داد دی ہے تو شیما کرمانی کے رقصاں بدن کے لوچ بھی دکھا دیے ہیں۔ کتاب کے آخری صفحات پر شاہدہ منی کے گانوں اور غمزوں سے نظر ہٹا کر مادھوری ڈکشت کے رقص کی DVD پر لہلوٹ ہونے کا ماجرا اپنی ایک خیر خواہ کی دعائے نامستجاب کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔ اس سب پر مستزاد ایک کرسچین لڑکی سے اپنے بُرے بھلے یارانے کا راز بھی افشا کر دیا ہے۔ (ص: 422) ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں ماہ و شاں اور۔
عاقلوں کا کہنا ہے کہ برہنہ حرف نگفتن کمال گویائیست۔ اس ہدایت کو لفظوں کی صنعت گری کے ذریعے ایک شاعر نے یوں نبھایا ہے ؎
لڑائی آنکھ آئینے نے، مسّی نے لیا بوسہ
اِدھر ہتھ پھیریاں شانے نے کیں زلفِ پریشاں پر
(قدرؔ)
یوسفی نے بھی عموماً یہی اہتمام روا رکھنے کی کوشش کی ہے۔ بس کہیں کہیں دزدیدہ دزدیدہ طلبیدہ طلبیدہ جذبات اُمڈ آتے ہیں۔ ایک جگہ مس بلبل کے تعلق سے رقم طراز ہیں:
’ملکۂ اقلیم سخن کی طبع آزاد عروض کی غلام نہ تھی۔ غزل میں دو رنگی نہیں پائی جاتی تھی۔ مطلب یہ کہ مطلع سے مقطع تک ہر شعر وزن اور بحر سے یکساں خارج ہوتا تھا۔ پڑھتے وقت ہاتھ، آنکھ اور دیگر اعضا سے ایسے اشارے کرتیں کہ شعر تہذیب سے بھی خارج ہو جاتا۔ ان اشاروں سے شعر کا مطلب تو خاک سمجھ میں آتا، شاعرہ کا مطلب ہم جیسے کند ذہنوں کی سمجھ میں بھی آ جاتا تھا۔ بے پناہ داد ملتی۔۔۔ بقول مرزا عبدالودود بیگ سامعین بے تمکین کے مردانہ جذبات کے فی البدیہ اخراج کو وہ عفیفہ خراجِ عقیدت سمجھتی تھی۔ لوگ اُنھیں مصرعہ طرح کی طرح اُٹھائے اُٹھائے پھرتے تھے۔‘‘ (ص: 349)
اپنے اس رنگِ طبیعت اور روشِ نگارش پر یوسفی اپنے قلم کے الفاظ روبینہ شاہین کی زبان پر رکھ کر فرماتے ہیں:
’’آپ کا قلم بلکہ پنسل حیا کا گھونگٹ نکال کے ناچتی ہے، مگر چھمچھماتے گھنگھرو مرزا عبدالودود بیگ کے پیروں میں باندھ دیتی ہے اور جب پبلک کے اصرار پر گھونگٹ الٹتی ہے تو ڈارک گلاسیز لگا کر آنکھ مارتی ہے۔‘‘ (ص: 382)
اِس کتاب میں چند ایسے مقامات بھی دیکھے جا سکتے ہیں جہاں اُن کی بلاغتِ زبان، بلوغتِ زنان کے حسن و خوبی میں اشرف المعلقات کی تحسین کرتی ہوئی گل چینیِ گلزارِ گریبان میں بھی مصروف نظر آتی ہے۔ میں ایسے مضمون شباب آور کے اقتباس یہاں دہرانے سے اس لیے گریزاں ہوں کہ ہمارے ادبا کے پاس ایسے موقع کے لیے ڈاکٹر جانسن کا وہ رٹا رٹایا کلاسیکی جواب موجود ہے جو اُنھوں نے اپنی بے مثل ڈکشنری میں فحش الفاظ کی نشان دہی کرنے والی خاتون کو دیا تھا۔ نمونتاً ص: 240 دیکھا جا سکتا ہے۔جہاں نظیرؔ کا ایک شعر ہے۔ آگا بھی کھُل رہا ہے، پیچھا بھی کھُل رہا ہے۔
اُن ہی بیگم روبینہ نے یوسفی کے ’ خاکم بدہن‘ اور ’زرگزشت‘ کے ایسے گستاخ اور واشگاف صفحات کے کان مروڑ مروڑ کر انھیں گلدستۂ گوشمالی بنا کر رکھ دیا تھا۔ بات اتنی سی ہے کہ یوسفی نے اس ہزار شیوہ و رنگ زندگی کے ہر روپ کو رَج کے پیار کیا ہے اور ان کی تصنیفات کا نگار خانہ اسی حقیقت کا آئینہ دار ہے۔ بقول فیض ؎
غمِ جہاں ہو، رُخِ یار ہو کہ دستِ عدو
سُلوک جس سے کِیا ہم نے عاشقانہ کِیا
________________________________________________
یوسفی کا گھڑا
________________________________________________
ایک جگہ یوسفی کی شوخ مزاجی نے اُن کی اسکولی ڈرائنگ کے اَن گڑھے گھڑے کو پنیا بھرن کو جا رہی کنواری کنیا کے سر پر دھری رنگین اینڈوی پر رکھا ہے اور من چلوں کے غلیل، کنکر اور ’تنگ دھڑنگ بڈھوں کی نظروں‘ سے بیچ راہ ہی میں کرچی کِرچی کرا دیا ہے۔ (ص: 71) راقم دبی زبان سے عرض گزار ہے کہ اول تو ایسے گھڑے کا کسی کنیا کنواری کی رنگین اینڈوی پر ٹکنا ہی محال ہے، جس کی شناخت کے لیے یوسفی کو اپنی خوب صورت lettering سے ’گھڑا‘ لکھنا پڑتا تھا۔ بالفرضِ محال اگر وہ ٹِک بھی گیا تو مجھے شک ہے کہ وہ گھڑا لونڈوں، من چلوں اور بڈھوں کے لیے مرکزِ کشش بنا ہو گا۔ دیکھیے شاعر کیا کہتا ہے ؎
سوہنی ڈوبنے کو آئی ہے
کون کچّے گھڑے کو دیکھتا ہے
یہاں بھی سارا زور ’سوہنی۔۔۔ آئی ہے‘ پر ہے۔ ڈوبنے سے بچانے کی کسی کو نہیں پڑی ہے۔ اگر یوسفی کی کنواری کنیا اپنی گگری ٹوٹنے پر پنیا بھرن سے چھوٹی تو کسی کو کیا! لوگوں کی نظریں تو چاہتی ہیں کہ اُن سے وہ گوری نہ چھوٹے۔
________________________________________________
نیرنگِ فرہنگ
________________________________________________
اختر حسین رائے پوری نے ’گردِ راہ‘ میں لکھا ہے کہ اپنی نوجوانی کے دور میں جب وہ کلکتے میں وادیِ صحافت کی جادہ پیمائی کر رہے تھے تو اُن کی بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ انھیں دو ڈھائی سال تک بازار سے ایک تکیہ تک خریدنے کا خیال نہ آیا تھا۔ آخر ایک دن اُن کے بھائی اُن کے سرہانے سے اپنا لغت کھینچ کر سامان میں باندھ کر لے گئے تو اُنھیں احساس ہوا کہ اتنے عرصے سے اُن کے سر کے درد کا باعث کیا تھا! اِس کے برعکس یوسفی کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ وہی سودا کیا ہم نے کہ جس میں دردِ سر دیکھا۔خیر، یہ تو محض سخن گسترانہ بات تھی۔ دراصل اِسی سودے میں اُنھوں نے سب سے سوا سُرور پایا۔
اُنھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’اگر مجھ سے یہ سوال کیا جائے کہ اگر تمھیں کسی غیر آباد سنسان اور بے چراغ جزیرے میں خراب مزاح لکھنے کی پاداش میں چھوڑ دیا جائے تو تم قران مجید کے علاوہ اور کون سی کتاب لے جانا پسند کرو گے تو میں ایک لمحہ تامّل کیے بنا کہوں گا کہ ایک جامع اور مستند ڈکشنری۔۔۔۔‘ (ص: 133) قارئین سے مخفی نہ ہو گا کہ یوسفی نے تقریباً چار دہائی قبل (’زرگزشت‘ میں) بھی تنہا ڈکشنری ہی کو اپنی تنہائی کی رفیق کی حیثیت سے منتخب کیا تھا۔ اس بار سائل نے ایک کتاب کا بار اپنی طرف بڑھا دیا ہے، ورنہ مجیب کی ’۔۔۔ حیرت و محویت، دل بستگی اور سرشاری کا سامان ‘تو وہی ڈکشنری ہے۔
اپنے مضمون ’نیرنگِ فرہنگ‘ میں یوسفی ایک جگہ رقم طراز ہیں:
’’لُغت دیکھنے کی عادت آج کل کلیتاً ترک نہیں ہوئی تو کم سے کم تر اور نا مطبوع ضرور ہوتی جا رہی ہے۔ نتیجہ یہ کہ vocabularyیعنی زیرِ استعمال ذخیرۂ الفاظ بڑی تیزی سے سکڑتا جا رہا ہے۔ لکھنے والے نے اب خود کو پڑھنے والے کی مبتدیانہ ادبی سطح کا تابع اور اُس کی انتہائی محدود اور بس کام چلاؤ لفظیات کا پابند کر لیا ہے۔ اس باہمی مجبوری کو سادگی، سلاستِ بیان، فصاحت اور عام فہم کا بھلا سا نام دیا جاتا ہے۔ قاری کی سہل انگاری اور لفظی کم مائیگی کو اس سے پہلے کسی بھی دور میں شرطِ نگارش اور معیارِ ابلاغ کا درجہ نہیں دیا گیا۔‘‘ (ص: 131)
لفظ و لغت کی اہمیت پر یوسفی کی اس تحریر میں اُن پر مشکل نویسی کے الزام کا جواب بھی ہے اور ہمارے ادیبو ں اور ماہرینِ زبان کے لیے غور و فکر کا پیغام بھی۔
آ ل احمد سرور نے لکھا ہے کہ ’پلیٹس کی ڈکشنری میں انھیں یوسفی کے وہ سارے محاورے مل گئے جن کو متروک سمجھ کر یار لوگوں نے ٹاٹ باہر کر دیا تھا۔‘ دراصل یوسفی جس دھڑلّے سے نادر، ادق، اور متروک لفظوں کو استعمال کرتے ہیں اور دل چسپ و عجیب تراکیب وضع کرتے چلے جاتے ہیں، اس کثرت سے تو کرنل محمد خان نے دھڑلّے کا استعمال کیا تھا نہ لولیانِ فرنگ کا۔
یوسفی نے اپنی اس افتادِ طبع کو نشانہ بنا کر خوش ظرفی کے ساتھ اپنے ہمزاد کی زبان سے کبھی ’محافظ و متولّیِ متروکات‘ کی پدوی سویکارلی ہے اور کبھی ’خبط اللغات و نفخِ فرہنگ یعنی ثقیل الفاظ کے اپھارے میں مبتلا قاموسیا‘ کی پھبتی سہہ لی ہے، مگر اُنھوں نے اردو کے سیکڑوں کلاسیکی لفظوں کو غفلت و تغافل کیشی کے دھندلکوں سے نکال کر اپنی تحریروں میں حیاتِ نو بخشنے کا غیر متزلزل سفر جاری رکھا ہے۔ اُن کا بس چلے تو وہ ہر ادیب و شاعر یا لکھاری کو قلم کی قسم کھلوا کر اس حلف کا پابند بنانا چاہتے ہیں کہ وہ کسی بھی جاندار اور کارآمد لفظ کو کبھی مرنے نہ دے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ لفظ و معنی کا اُن کا سا عاقل و عاشق شاید ہی کوئی ہوا ہو گا۔
________________________________________________
اے شاہ سخن ور کہ بہ احیائے معنی
________________________________________________
یوسفی کی ذہانتِ طبع اور خلّاقیِ ذہن نے اپنے مضامین میں جس کثرت سے حسبِ ضرورت لفظیات و مرکبّات کی تشکیل کی ہے اس کی مثال بہت کم ادیبوں کے یہاں ملے گی۔ سچ پوچھیے تو لفظ سازی میں یوسفی کا قلم طلائے دست افشار کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ بڑی صناعی کے ساتھ الفاظ و تراکیب کو بہ ادنا تغیّر و تصرّف اپنے مقصود و مفہوم کے زیب تن کر دیتے ہیں۔ طلائے دست افشار ایسے سونے کو کہتے ہیں جسے ہاتھ میں لے کر موم کی طرح دبایا اور من چاہی شکل میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ خسرو پرویز کے پاس ایک ایسا ہی کندن تھا جسے اُس نے لیمو کی شکل دے دی تھی اور اپنے دسترخوان پر رکھا کرتا تھا۔ اگر اسے علمِ غیب سے غالب کی پسند معلوم ہو جاتی تو وہ ضرور اُسے آم کی شکل دے دیتا اور غالب کو اسے یہ نہ کہنا پڑتا ؎
آم کو دیکھتا اگر ایک بار
پھینک دیتا طلائے دست افشار
یوسفی کی سابقہ کتابو ں کی طرح موجودہ تصنیف میں بھی اُن کی وضع کردہ رنگا رنگ لفظیاتِ عجیبہ، اور مرکّباتِ لطیفہ کی ظرافت باری جاری ہے، مثلاً: منسوبہ بندی، غنا بالجبر، غلو کاروں، جبر جنگ، شدّت العمر، مصببّ المصائب، ناکتخدا ترس، شرحدیں، رین بکھیڑا، ناخفتہ بہ ، سترناک، چشم ناک، زاویۂ نکاح، کثیر المفاسد ، سترگشتی اور شادی کے لیے ’محبت با مشقت‘ وغیرہ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اُن کی مخترعہ لفظیات و مرکّبات کی اپنے متن و مواد سے ایسی پیوستگی رہی ہے گویا وہ اسی محل و مقام کے لیے خلق ہوئے ہوں۔ ایک طرح سے اوروں کے لیے یوسفی کی سی الفاظ سازی تو دور کی بات ہے، اُن کے الفاظ و مرکبات کو استعمال کرنا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں۔ اردو کے غبی قاریوں کو یہ مشکل الگ در پیش ہے کہ یوسفی کے نوادر الالفاظ کے معانی فراہم کرنے میں اردو کی ساری فرہنگیں عاجز نظر آتی ہیں۔
لفظ و خیال سے مری وابستگی تمام
جیسے کسی کمھار کی مٹّی سے، چاک سے
شمیم عباس
________________________________________________
کتنی مشکل پیش آتی ہے اپنا حال بتانے میں
________________________________________________
اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے چیل گاڑی، نپوتا، اِتراؤنا، لیجیو، کیجیو، دیجیو، موٹیار کونی تھارے ناواں لاگے چھے، نچنت، اپنے بھانویں، پگ، ٹھالی، بوسانہ جیسے لفظوں نے مجھے یاد دِلایا کہ واں کے نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں!
راقمِ تحریر بمبئی میں پیدا ہوا ،پر آبا و اجداد جے پور کے نواح میں پِلانی (بِرلا کی وجہ سے مشہور) ضلع جھنجھنو کے رہنے والے تھے۔ بھاگڑ (1947ئ) کے خون خرابے میں بسکہ فعّال مایرید تھا تب، والد محترم بمبئی چلے آئے تھے اور پھر یہیں کے ہو رہے تھے۔
’رانڈ کڑھی‘ کھانے میں تو آتی رہی پر اس کا صحیح نام جان کر طبیعت پھڑک گئی۔ ’رولا مچانے‘ پر تو بچپن میں جو ڈانٹیں کھائی تھیں وہ بھی یاد آ گئیں۔ بیگم نے کھنڈئی بنانے کی چند بار کوشش کی، ہر بار وہ کھِنڈ گئی اور ٹھیک سے نہ بنی۔ اگرچہ وہ شیخاواٹی کے اُسی جھنجھنو کی ہیں جہاں پر یوسفی 1948ء میں ڈپٹی کمشنر اور سب ڈیویژنل مجسٹریٹ ہو کر متعین ہوئے تھے۔ والدہ اسے ’کھنڈلی‘ کہتی تھیں اور اکثر بنا کر کھلاتی تھیں۔ زمانہ بیت گیا لیکن ہونٹوں پر سواد اب تک دھرا ہے۔ لوہار زادہ ہوں پر ’جلیری‘ کا لفظ(پانی کی ناند، ص: 437) بھی بھول بیٹھا تھا۔ اگرچہ معصومیت کے دور میں کچھ مدّت تک والدِ محترم کو بھٹی کے الاؤ میں سے دہکتے لوہے کو سنسی کے منہ سے پکڑ، اہرن پر پیٖٹ پیٖٹ کر جلیری میں ڈُباتے دیکھ چکا ہوں۔ وہ اُن کا آنکڑی سے بھٹّی کے کوئلوں کو اُلٹنا پلٹنا اور دھونکنی چلا کر شعلوں کو دہکانا، مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا۔
جلیری میں سُرخ دہکتے لوہے کو بجھانے سے اُٹھتی سنن سنن کی سی آواز اب بھی سماعت میں موجود ہے۔ کیا اس کے لیے بھی کوئی لفظ ہے یوسفی صاحب! غالب نے بھی اس صدا کو ایک شعر میں سمویا ہے ؎
آگ سے پانی میں بجھتے وقت اُٹھتی ہے صدا
ہر کوئی درماندگی میں نالے سے ناچار ہے
میں جب کبھی جے پور گیا ہوں۔ اندرون سانگا نیری گیٹ، محلّہ شکاریان سے لے کر گردو پیش کے گلی کوچوں کی اس بنا پر خاک نوردی کر آیا ہوں کہ یہیں سے اِس عہد کے میرِ ادب کے کارواں نے دور دیار کو کو چ کیا تھا، گو زمانہ ہوا، پر کیا پتا گردِ کارواں ہی مس ہو جائے! وہاں کی فضاؤں سے یہ کہتا ہوا لوٹا ہوں کہ ع سلامِ ما برسانید ہر کجا ہستند!
________________________________________________
فرہنگِ تلفّظ
________________________________________________
اُنھوں نے شان الحق حقّی کی مرتبہ ’فرہنگِ تلفظ‘ کی جم کر تعریف کی ہے اور اُن کی اعراب نگاری کے انہماک و استغراق کا دل چسپ اور تفصیلی حال لکھا ہے۔ محبّانِ اردو نے خود یوسفی کی ہر تصنیف کو نک سک سے بن اور نوک پلک سے سنور کر بہ صد اہتمام جلوہ آرا ہوتے دیکھا ہے۔ اُن کی کتابوں کے صفحے صفحے پر اُن کی نگارشِ فکر کے ساتھ ساتھ تراوشِ لغت کے بھی جلوے جا بجا بکھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی لیے اُن کی کتابوں کے جعلی اڈیشن چھاپنے والوں تک نے عکسی اڈیشن چھاپنے ہی میں عافیت جانی اور کتابت یا ٹائپنگ سے باز آئے کہ کہیں اُنھیں بھی کچھ ایسی صورت کا سامنا نہ کرنا پڑے ؎
ہر ورق پر ہے میر کی اِصلاح
لوگ کہتے ہیں سہوِ کاتب ہے
(سوداؔ)
یہی روایت موجودہ کتاب میں بھی برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یوسفی نے لکھا ہے:
’’اس میں تعلّی، تفنّن یا مبالغے کو ذرا دخل نہیں۔ صحیح جگہ صفائی، صحت، نفاست اور باریکی سے اعراب یعنی زیر، زبر، پیش لگانا چشم و قلم جوکھم کا کام ہے۔ اسے بجا طور پر کسی ماہر بیوٹیشین کے کام سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔‘‘ (ص: 140)
’چشم و قلم جو کھم‘ کی بات چوکھی کہی، پر پیرایہ مجھے نہیں سُہایا۔ اس بات سے قطعی انکار نہیں کہ ایک حسن کار کا اپنے فن میں ماہر ہونا ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر ایسے موقع پر یوسفی ہی کے بیان کردہ ایک لطیفے کی رو سے کسی کے رُخِ زیبا کو مرزا عبدالودود بیگ کے اس فقرے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کہ ’۔۔۔ معلوم ہوتا ہے، ابھی ماہ رُخ بیوٹی پارلر سے صحیح جگہ پر غلط اعراب لگوا کر سیدھی چلی آ رہی ہیں!‘ (ص: 140) اس سے پہلے کہ قارئین اس فقرے کی معنوی گہرائیوں میں گُم ہو جائیں، میں بصد ادب یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یوسفی کے حُسن کار (ٹائپسٹ) نے اس کتاب میں کہیں کہیں افزائشِ حسن کے کچھ زیادہ ہی اسباب ؍اعراب فراہم کر دیے ہیں۔ سہ حرفی بِنَاء کو پوری طرح مرصّع دیکھ کر تو خیر چوں چرا کی گنجائش ہی نہیں رہی، لیکن دئیے، کر دئیے، دیجیئے، کہیئے، جانئیے، کَمالٔو اور اَکل کھرئی جیسے لفظوں کی اعراب زدگی (ص: 419,156,213,130,211,254,192 وغیرہ پر) یہاں تک کہ کُلاہ کے سر پر تشدید کا طُرّۂ طرار (کُلّاہ، ص: 158) دیکھ کر بے اختیار مرزا عبدالودود بیگ کا وہی فقرہ سامنے آ جاتا ہے۔
میری نظر میں سُور کا تلفظ سُ وَر گزرا ہے۔ یوسفی کی کتاب میں آیا اِملا سُؤر (سُ ؤ ر) کیا وہاں کے کسی مقامی لہجے کی ترجمانی کرتا ہے! ویسے کچھ بعید نہیں کہ یوسفی نے اس جانور کی کراہیتِ شرعی کا دف مارنے کے لیے یہ املا اپنایا ہو، جیسا کہ برِ صغیر کے اردو اخبارات مسلمانوں کے پرسنل لا کی فضیلتِ شرعی کا اظہار انگریزی کے lawکو ’لائ‘ لکھ کر کرتے ہیں۔ پاکستان میں تو اسلامی اعراب سے مزّین ہو کر مارشل لاء بھی خدائی فرمان کی طرح نازل ہوتا رہا ہے۔ تعجب ہے کہ اس کتاب میں بھی وہ (ص: 308اور 313پر) اسی علّتِ املائی کا حکم چلا رہا ہے۔
تحریر میں اعراب یا املے کی گڑبڑی کبھی کبھی نفسِ مضمون تک کو غارت کر دیا کرتی ہے۔ یوسفی کے یہاں اپنے ایک سہو اِملا کو بڑی چترائی سے سنبھال لیے جانے کی مثال بھی مل جاتی ہے۔ ’زرگزشت‘ میں اُنھوں نے ہندی کا ایک مشہور دوہا یُوں تحریر کیا تھا: ’’سونا لاوَن پی گئے۔۔۔ رویا ہو گئے کیس‘۔ اور فٹ نوٹ میں تشریح کی تھی کہ ’پیا سونا لینے گئے اور دیس سُونا کر گئے۔ ہمیں سونا ملا، نہ پی ملے اور بال روئی کے گالے ہو گئے۔‘ ’شامِ شعرِ یاراں‘ میں یہی دوہا اپنی اصل صورت میں ’۔۔۔روپا ہو گئے کیس۔‘ کے ساتھ ملتا ہے، اور اِن لفظوں کی تشریح یوں کی گئی ہے کہ ’بالوں پر چاندی بکھر گئی۔‘ یہی موزوں ہے اور صنعت گری کی حامل بھی۔ یوسفی نے ’زرگزشت‘ میں درج اس دوہے کی غلطی کو یہاں واضح کرنا شاید اس لیے ضرور ی نہیں سمجھا کہ وہ وہاں بھی اس کی تفہیم میں کامیاب رہے تھے۔
انھوں نے من و عن کے تلفظ کے سلسلے میں اپنی تلاش و تحقیق اور ’نور اللغات‘ کی مثالِ سند کو حقّی مرحوم کے ذریعے مسترد کرنے کا پُر لطف قصّہ بھی بیان کیا ہے۔ ’نور اللغات‘ سے منقول تعشقؔ کا شعر یوں ہے ؎
اندھا بھی دیکھ لے کہ یہ صورت ہے فوت کی
شکل ان میں من و عن نظر آتی ہے موت کی
یہاں پر مجھے مشہور شاعر قاضی سلیم پر چسپاں کیا گیا ایک شعر یاد آ گیا، وہ 2005ء میں فوت ہوئے تھے۔ اُنھیں سرجھکائے بیٹھے رہنے کی عادت تھی، راجا غضنفر علی نے اسی کو نشانہ بنایا تھا ؎
اردو کے قاعدے میں جو صورت ہے میم کی
بس ہو بہو وہ شکل ہے قاضی سلیم کی
________________________________________________
مترادفات
________________________________________________
تھومس جیفرسن نے کہا تھا کہ ایک ادیب کی سب سے قیمتی صلاحیت یہ ہے کہ جہاں ایک لفظ موزوں ہو، وہاں دو لفظ استعمال نہ کرے۔
"The most valuable of all talents is that of never using two words, when one will do.”
اس کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر لفظ اپنے خاص معنی و محل کے لیے بنا ہے اور کسی ایک زبان میں ایک معنی کے لیے دو لفظ نہیں ہوسکتے۔ یوسفی بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ہر لفظ اپنے معانی ، مزاج، تہ داری اور رسائی کے لحاظ سے یکتا اور بے مثل ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی اِسی کتاب میں مترادفات کی بحث میں لکھا ہے کہ
’’صحیح معنوں میں لفظ کا کوئی متبادل یا مترادف نہیں ہوتا۔ البتہ لفظوں کی برادری میں بھی عوضی کام کرنے والی نفری، سوانگ بھرنے والے بہروپیے اور نقّال ضرور ہوتے ہیں! دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا۔‘‘ (ص: 132)
اہلِ زبان کا کہنا ہے کہ کسی زبان میں بظاہر مترادف نظر آنے والے الفاظ میں بھی کچھ نہ کچھ فرق، کسی درجے ہی کا سہی ضرور ہوتا ہے۔ اپنے ایک مضمون ’قائد اعظم فوج داری عدالت میں‘ میں یوسفی نے اپنی گرانیِ طبع اور پریشانیِ خاطر کے درجات قائم کرنے والے لفظوں کی ایک لڑی بھی پیش کر دی ہے:
مُتحیّر، مبہوت، مکدّر، مُنغّض، منقبض، مُتردّد، مشوّس، متوحِّش، مضطرب، محزوں، متالّم اور متحجّر۔ (ص: 10)
شان الحق حقّی مترادفات کے سلسلے میں غالباً کوئی مختلف رائے رکھتے تھے۔ انھوں نے مترادفات کی ایک لغت بھی مرتب کی تھی۔ مجھے تجسّس رہا کہ حقّی کی شان و ستایش میں رواں یوسفی کا قلم اُن کی لغتِ مترادفات کی شین و شکایت میں کیا لکھے گا! لیکن یوسفی کے قصیدے نے اخیر تک تشبیب سے گریز کا رُخ اختیار نہ کیا۔ دیکھنے ہم بھی گئے پر یہ تماشا نہ ہوا۔
________________________________________________
گھُڑ دوڑ
________________________________________________
یوسفی نے اپنی پسندیدہ ’علمی اردو لغت‘ میں درج شیر کے معنی بیان کرتے ہوئے شیر اور گدھے کے قد کاٹھی میں مؤلفِ لغت کے التباس پر مزے لے لے کر دو پُر لطف صفحے (ص: 135,134) تحریر کر دیے ہیں۔ مؤلفِ لغت وارث سر ہندی سے اُن کی عقیدت کا یہ عالم ہے کہ خود اُنھوں نے اپنے مضمون ’سدِّ سکندری‘ میں کتے اور گھوڑے کے قد کاٹھی میں کوئی فرق کرنا ضروری نہیں سمجھا! ابھی اگلی عقیدت کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ ذکر تو کتوں کا چھیڑ رکھا تھا، لیکن جیسا کہ یوسفی کے البیلے قلم کا وصف ہے، بحرِ ہزج میں ڈال کے بحرِ رمل چلے اور کتوں کو گھوڑوں کی چال سے نہ صرف دوڑا دیا بلکہ خدا جھوٹ نہ بلوائے خود بھی اُن کے ساتھ دوڑنے لگے۔ وہ بھی کبھی دُلکی، کبھی سرپٹ اور کبھی شہ گام (ص: 243)۔ میں نے کتابوں میں کھنگالا، انٹرنیٹ پر ڈھونڈا، سیانوں سے پوچھا، یہی پتا چلا کہ انسان تا دمِ تحریر دو پیروں ہی پر کھڑا ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ یوسفی نے حاشیے میں تشریح بھی کر دی ہے کہ دُلکی میں گھوڑا (اور کتّا!) اُچھل اُچھل کر چلتا ہے۔ ایک وقت میں تین پانْو اُٹھتے ہیں(!) ’سرپٹ‘ کے سلسلے میں مَیں بتائے دیتا ہوں کہ یہی گھُڑ دوڑ کی چال ہوتی ہے اور اس میں گھوڑا چاروں پانْو ایک ساتھ اُٹھا کر دوڑتا ہے۔ مَیں نے چشمِ تصور میں یوسفی صاحب کو دلکی، سرپٹ اور شہ گام میں دوڑانا چاہا لیکن تارِ نظر میں اُلجھ اُلجھ کر خود گر گر پڑا۔ کوئی ریس کا رسیانہ سمجھ بیٹھے تو اپنے کشکول سے گھوڑے کی چال کے مدارج بھی درج کر دوں:
(1) نرم (walk): گھوڑے کا آہستہ آہستہ چلنا۔
(2) دُلکی (Trot): یہ چال ذرا تیز ہوتی ہے، جس میں گھوڑا ٹانگیں باری باری اُٹھاتا ہے۔ سواری کی حالت میں سوار کو اوپر نیچے ہونا پڑتا ہے۔
(3) پویہ (Canter) : یہ دُلکی سے تیز چال ہے اور سرپٹ سے کم۔
(4) روال (Amble): یہ عجیب و غریب چال ہے، جس میں گھوڑا ایک طرف کی دو اور دوسری طرف کی ایک ٹانگ اُٹھاتا ہے۔
(5) سرپٹ (Gallop): تفصیل اوپر آ چکی ہے۔
(6) چھلانگ (Jump): گھوڑا زمین پر سے اُچھلتا ہے اور پھلانگتا ہے۔
________________________________________________
ریڑھ مارنا
________________________________________________
جملۂ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ پیروڈی کا متبادل اردو میں موجود نہیں۔ حتّا کہ ایسی تحریفِ لفظی جو کہ مسخلفظی (مسخ +لفظی) کی حامل ہو، کے لیے بھی پیروڈی مستعمل ہے۔ ’بارِ خاطر‘ میں شوکت تھانوی نے اس کا متبادل ’ریڑھ مارنا‘ سیّد محمد جعفری سے منسوب کیا تھا، جب کہ جعفری نے اس کا کریڈٹ عبدالماجد دریا بادی کو دے دیا۔ مولانا ماجد کے یہاں زبان کا رچاؤ دیکھتے ہوئے اُن کی بات قابلِ قیاس معلوم ہوتی ہے۔ یوں بھی جو ادیب و صحافی اپنے مزاج و رجحان کے آتنک سے نیاز، یگانہ، سجّاد انصاری، مولانا ملیح آبادی، جوش اور منٹو جیسے مشاہیر ادب کو اپنے قلم کی نوک سے توپ دم کرتا رہا ہو، ’ریڑھ مارنا‘ کی ایجاد تو اُس کی بائیں ہاتھ کی چھنگلیا کی بات رہی ہو گی۔
________________________________________________
اینٹنی اور کلیوپترا
________________________________________________
یوسفی نے لکھا ہے کہ ’زبان کے بھی کٹم قبیلے، خاندان، حسب نسب ہوتے ہیں‘ (ص: 144)۔ اور ایک زبان کے انگ، آہنگ، ٹھاٹ، ذائقے، روایات اور تلمیحات کے متبادلات دوسری زبانوں میں نہیں ملتے، اس لیے اس کا پوری طرح ترجمہ کرنا محال ہوتا ہے۔ ان کی بات سے انکار ممکن نہیں۔ کسی زبان کے لفظوں ہی پر موقوف نہیں، ایک ملک کی کوّا کہار تک کا مفہوم دوسرے ملک و ماحول میں بدل جاتا ہے۔ اسے آسٹریلیا میں موت کی خبر، نیوزی لینڈ میں شادی کا پیغام اور بھارت میں مہمان کی آمد کی اطلاع سمجھا جاتا ہے۔
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے، جب اُس زبان کے متبادلات ہی اپنی زبان میں نہیں مِل پاتے! یہی وجہ رہی تھی کہ شیکسپئیر کے مشہور ڈرامے ’اینٹنی اور کلیوپترا‘ کو شان الحق حقّی نے دلّی کی مقامی بولی ٹھولی میں ڈھالنا پسند کیا تھا۔ وہ بھی اس کامیابی کے ساتھ کے بقول یوسفی اگر ملکۂ کلیوپترا دلّی کے لال قلعے میں رونق افروز ہوتی تو شیکسپئیر بلی ماروں میں گلی قاسم جان کی کسی بوسیدہ حویلی کی ٹپکتی چھت کے نیچے بیٹھا نیزے کے قلم سے وہاں کی کنیزوں اور لونڈیوں کی بول چال، مروجّہ روز مرے اور slang کا ایسا ہی برجستہ استعمال کرتا۔ حقّی نے علی الاعلان اپنے ترجمے کی زبان کو شیکسپئیر کی اپنے محل و ماحول کے لحاظ سے لکھی ہوئی انگریزی پر فائق قرار د یا تھا۔ یوسفی نے بھی اُن کی سی کہی ہے کہ ’وہ ترجمہ حقّی کے مختلف النوع ادبی کارناموں میں شاہ کار کی حیثیت کا حامل ہے۔‘ (ص: 141)
یوسفی نے شیکسپئیر کا ایک اقتباس بھی نمونتاً پیش کیا ہے، جس کی لطافتیں اور بلاغتیں اُن کی نظر میں ناقابلِ ترجمہ ہیں۔ (ص: 143) میری ناچیز رائے میں اس انگریزی عبارت کا لفظی ترجمہ نہ سہی، لیکن مفہوم بڑی حد تک منیب الرحمان نے ’اینٹنی اور کلیوپترا‘ کے اپنے ترجمے میں (ص: 41پر) پیش کر دیا ہے۔ اُن کا ترجمہ مکتبہ جامعہ دہلی سے 1979ء میں شائع ہوا تھا۔
جب رومی کلچر کو مغل کلچر میں بدل دیا جائے اور اسکندریہ کی جگہ دلّی کے بلّی ماراں کی فضا پیش کی جائے اور کرداروں کی جون بھی بدل دی جائے، تو پھر اسے ترجمہ کہنا مناسب نہیں۔ بہتر ہو گا کہ کرداروں کے نام بھی بدل کر اُسے adoptionیا transcreationکے طور پر پیش کیا جائے۔
یوسفی صاحب کو یاد ہو گا کہ اختر حسین رائے پوری نے ’شکنتلا‘ کا سنسکرت سے اردو ؍ہندی میں اچھا بھلا ترجمہ کرتے کرتے کِس طرح ٹھوکر کھائی تھی۔ وہ کہیں کہیں سہل انگاری سے چند ایسے الفاظ استعمال کر بیٹھے تھے، جن کے متبادل اُنھیں آسانی سے مل سکتے تھے، مثلاً : امّی جان، مغلانی، بہشتی، حاجب، عرض بیگن اور جنّات۔ غضب تو یہ ہوا کہ اُنھوں نے چند ایسے الفاظ بھی استعمال کر ڈالے تھے جن کی وہاں کوئی گنجایش ہی نہیں تھی، مثلاً: لللّٰہ، معراج، کفن چور، لاحول ولا اور راجا دشینت کے منہ سے ’میرے بعد میری فاتحہ کون پڑھے گا!‘ بڑی بھد اُڑی تھی۔
________________________________________________
چائے اور کافی
________________________________________________
یوسفی نے ’مہذّب اللغات‘ کے حوالے سے کافی (coffee) کے معنی aphrodisiacاور حقّی کی لغت ’اوکسفرڈ انگلش اردو ڈکشنری‘ کے حوالے سے aphrodisiac کے معنی ’جنسی خواہش کو اُبھارنے والی دوا‘ کے بتائے ہیں۔ بس اتنی سی کسر رہ گئی کہ ان مرحومین نے اس ’دوا‘ کے لینے کے بعد کے اثرات و فیوض کی تفصیل سے تشنگانِ شوق کو محروم رکھا۔ مجھے یاد آیا کہ یوپی کے ایک ہندی اخبار کے مضمون نگار نے چائے (Tea) کے معنی کچھ اس طرح بیان کیے تھے کہ قاری نے خود کو نہ صرف چائے کی چُسکیاں لیتا ہوا پایا تھا بلکہ اس کے اجزائے ترکیبی اور مقامِ کاشت کا سُراغ بھی پا لیا تھا:
’’دودھ، شکر، اُبلے ہوئے پانی اور ایک ایسی چیز سے بنا ہوا مزے دار مشروب، جو پہاڑ پر پیدا ہوتی ہے۔‘‘ (بحوالہ : حیدرآباد کے اردو روزناموں کی ادبی خدمات، ص: 128)
ظاہر ہے کہ چائے کے مقابلے میں کافی کے معانی میں تشنگی پائی جاتی ہے۔
________________________________________________
گُڑ سے پرہیز تھا اور گلگلوں سے بھی
________________________________________________
کتاب کا ص 346 پر آزاد کا قول درج ہے کہ ’جس نے بچپن میں گُڑ کھا لیا، پھر زندگی بھر کوئی مٹھاس اُس کے کام و دہن کو نہیں بھائے گی۔‘ میں حیران ہوں کہ کون سے آزاد ؟ مولانا ابوالکلام آزاد کو تو گُڑ سے پرہیز تھا اور گُلگُلوں سے بھی۔ صاف ستھری شکر پسند تھی۔ اس پر بھی کہا کرتے تھے کہ مقدار کم ہونے کے خدشے سے اسے مزید صفائی کے مراحل سے نہیں گزارا جاتا، ورنہ اور شفاف ہو جاتی۔
یہ سطریں لکھ کر یوں ہی ’غبارِ خاطر‘ کے اوراق پلٹ رہا تھا۔ اس میں اُن کی انشائے چائے نوشی کے تذکرے میں گُڑ اور شکر کے متعلق یہ قول نکل آیا:
’’شکر اور گُڑ کی دنیائیں اس درجہ ایک دوسرے سے مختلف واقع ہوئی ہیں کہ آدمی ایک کا ہو کر پھر دوسرے کے قابل نہیں رہتا۔‘‘ (ص: 161، ساہتیہ اکاڈمی، دوسرا اڈیشن)
________________________________________________
اساڑھ کے ڈونگڑے، ساون کی جھڑیاں، اور بھادوں کے دڑیڑے
________________________________________________
’ٹپکے کا ڈر‘ کی کہاوت کا قصّہ تو لوگ جانتے ہیں، لیکن اپنے ایک مضمون ’مسندِ صدارت پر اولتی کی ٹپاٹپ‘ میں یوسفی نے زہرا بیگم کی ٹپکے کی نڈرتا کی جو دل چسپ کہانی لکھی ہے، ممکن ہے وہ اگلے دور کی کہاوت بن جائے! _______ اس مضمون میں اُنھوں نے ہمیں بوندا باندی، پھوار، بوچھار سے ہوتے ہوئے جھڑ، جھالے، رم جھم، دھواں دھار، دھوں دھوں کار اور چھاجوں مینہ برسنے کا سماں دِکھایا ہے، پھر اُن کا رُخ اپنے ہمزاد کی طرف نہ پھر گیا ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ اُن کا لکۂ خیال اُنھیں اساڑھ کے ڈونگڑوں، ساون کی جھڑیوں اور بھادوں کے دڑیڑوں کی طرف بھی لے جاتا۔
یوسفی نے بجا فرمایا کہ ’نیاز فتح پوری کے زمانے میں بوندا باندی کو تقاطِرِ امطار کہا جاتا تھا اور لوگ لغت دیکھنے کی بجائے چھتری نکال لیتے اور پائیچے چڑھا لیتے تھے۔‘ (ص: 137) اس کے ساتھ یہی نیاز تھے جنھوں نے اردو والوں کو ہندی شاعری کی لطافت سے آشنا کرنے کے لیے ’جذباتِ بھاشا‘ لکھی تھی اور ’نگار‘ کا 1936ء کا خاص نمبر ہندی شاعری کے لیے مخصوص کیا تھا۔ ایک بار کسی قاری نے استفسار کیا تھا کہ کیا ہندی کے ’باورے نین‘ ہی کی طرح رنگین اور برجستہ کوئی ترکیب اردو یا فارسی میں موجود ہے؟ تو نیاز نے اردو اور فارسی کے متعدّد متبادلات پیش کر دیے تھے لیکن اس بحث سے یہی نکل کر آیا تھا کہ باورے نین سے بہتر ترکیب کوئی نہیں۔ راقم یہ ایزاد اور کرتا ہے کہ اگر باورے نین پاس ہوں تِس پر بدریا بھی گھمڑ گھمڑ چھائی ہو تو شاعر کہتا ہے ع یہ وہ نین ہیں جن سے کہ جنگل ہرے ہوئے۔
________________________________________________
عقدِ نکاح
________________________________________________
یوسفی کی یہ ہدایت کہ لفظ نکاح، عقد کے بنا تنہا استعمال نہیں کرنا چاہیے، اس بنا پر بھی سمجھ میں آ گئی کہ اُنھوں نے جو معانی بتائے ہیں: مجامعت، مباشرت (ص: 217) وہ بھی تنہا قابلِ عمل نہیں ہیں۔ دل میں کھٹکا پیدا ہوا کہ کہیں ’عقد‘ کو تنہا استعمال کرنا بھی تو غلط نہیں! لیکن ایک برمحل شعر یاد آ گیا اور گتھّی سلجھ گئی ؎
جس مولوی کو آ کے پڑھانا تھا میرا عقد
ٹھہرا ہے اُن کا عقد اُسی مولوی کے ساتھ
________________________________________________
جوش اور یوسفی
________________________________________________
یوسفی کا یہ فرمانا سر آنکھوں پر کہ ’انیس کے سوا جوش جیساقادرالکلام شاعر اردو نے نہیں دیکھا۔‘ (ص: 283 ) جوش کی عقلیت پسندی اور بے باکیِ فکر کے بھی لوگ قائل ہیں۔ لیکن انگریزی حکومت کے خلاف جوش کی جرأت و جوش سے بھری نظموں کی یوسفی کی داد محض سخن گسترانہ بات کہلائے گی۔ بیشتر نقادوں نے اُن نظموں میں جوش و جذبے کی صداقت کو معدوم اور الفاظ کی گھن گرج کو حاوی پایا ہے۔ جوش کا انگریز دشمنی میں اپنے نام کا ایک گولہ بکنگھم پیلس پر پھنکوانے کا خواہش مند ہونا اور ہٹلر کی بارگاہ میں یہ عرض کرنا کہ ع سلام، اے تاجدار جرمنی، اے ہٹلر اعظم اور تقسیمِ ہند کے بعد میں ادھر جاؤں یا میں اُدھر جاؤں کا ڈھلمل رویہ ظاہر کرتا ہے وہ کسی پختہِ سیاسی فکر کے حامل نہ تھے۔ پھر بھی یوسفی صاحب اپنی رائے میں آزاد ہیں ؎
تم جسے چاہو چڑھاؤ سر پر
ورنہ یوں دوش پہ کاکل ٹھہرے!
برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ جوش کے bete noireشاہد احمد دہلوی کے بقول صدر اسکندر مرزا کو چیف کمشنر نقوی نے یہ باور کرایا تھا کہ جوش اردو کا سب سے بڑا شاعر ہے۔ ایک بار کوئی وزیر قسم کا انگریز پاکستان آیا ہوا تھا۔ ایوانِ صدر میں اُس کے اعزاز میں ایک ڈنر تھا۔ مدعو مہمانوں میں جوش بھی شامل تھے۔ اسکندر مرزا ٹہلتے ہوئے جوش کے قریب آئے، نام تو اُنھیں یاد نہ آیا۔ تعارف کراتے ہوئے بولے، ’’Meet, the greatest poet of Urdu.‘‘ وہ انگریز بھی ایک بوجھ بجھکڑ تھا، ہاتھ بڑھا کر کہا، ’’Oh, I see you are Mr. Ghalib‘‘
اپنے مضمون ’یادِ یارِ طرحدار‘ میں یوسفی نے ضمناً جوش اور اُن کی راحتِ جاں سمن کا قصّہ اپنے دل کش اسلوب میں لکھا ہے۔ جوش اور یوسفی کا قارورے سے قارورہ اس لیے بھی ملتا ہے کہ دونو ں ہی ہمیشہ لفظوں کے لاؤ لشکر سے لیس بلکہ لدے پھندے رہے ہیں۔ جوش کے سلسلے میں تو مجاز کا قول مشہور ہی ہے کہ وہ ڈکشن کی بجائے ڈکشنری کے شاعر تھے اور جیسا کہ قارئین جانتے ہیں کہ ڈکشنری وہ واحد کتاب ہے جسے یوسفی اپنے سے جُدا کرنا نہیں چاہتے۔ اِس پیرا (Para) میں قارورے والا محاورہ میں نے پہلی بار استعمال کیا ہے، وہ بھی ناک پر ہاتھ رکھ کر۔ اسے یوسفی کے یہاں دیکھا تو ہیاؤ کھُلا۔ دبی زبان سے عرض ہے کہ ہیاؤ کھُلنا بھی یوسفی کے یہاں سے اُڑایا ہے۔ وہ بھی اس سے قبل نہیں کھُلا تھا۔
یوسفی اور جوش میں ایک مماثلت اُن کی پیشانی کی بھی ہے۔ جس طرح یوسفی کی پیشانی اور سر کی حدِّ فاصل اُڑ چکی ہے، وہی حال جوش کا تھا۔ یہ مسئلہ دونوں ہی کے لیے پریشان کُن رہا کہ منہ دھونا شروع کریں تو اُسے ختم کہاں پہ کریں!
ماہر القادری کے ’فاران‘ میں گرفتارانِ سہوِ قلم کی فہرست میں نامی گرمی مصنفین شامل ہیں، جب کہ ماہر مرحوم کے اکثر فیصلے تنگ نظری پر مبنی اور متنازعہ رہے ہیں۔ اُنھوں نے جوش اور یوسفی کو بھی نہیں بخشا تھا۔ ایسے میں اُنھیں یوسفی کا دیا ہوا خطاب ماہر القادر الاغلاطی مزہ دے گیا۔
________________________________________________
خوگرِ مدح سے تھوڑا سا گلہ بھی سُن لے
________________________________________________
ایک ہمارے یارِ غار ہیں عاشق علی۔ اُن کا عشقِ یوسفی، زلیخا سے کم نہیں۔ اُنھیں یوسفی پر تنقید کا ایک لفظ سننا گوارا نہیں ہے۔ میں نے انھیں دیکھتے ہی چھیڑا: ’’نظیر صدیقی کا قول ہے کہ ’طنز و مزاح، ادب کی اصناف نہیں، تحریر کی صفات ہیں اور مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں پر انشائیے کا اطلاق ہوتا ہے۔‘‘
اُنھوں نے وار خالی دیا، مسکرا کر بولے: ’’یہ کہہ کر تو اُنھوں نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے، نظیر صدیقی کی شہرت کا قطب مینار ’شہرت کی خاطر‘ کے انشائیوں پر ٹِکا ہے، اگر ’چراغ تلے‘ اور ’خاکم بدہن‘ کو انشائیوں کے مجموعے قرار دیا جائے تو وہ زمین بوس ہو جائے گا اور نظیر صدیقی کی تاج داری جاتی رہے گی۔‘‘
میں نے کہا، ’’نظیر صدیقی نے یہ بھی لکھا ہے کہ یوسفی سب سے زیادہ رشید احمد صدیقی سے متاثر ہیں، لیکن یوسفی کے یہاں مشاہدے کی تازگی اور گہرائی کے باوجود رشید احمد صدیقی کے مزاح کی گہرائی نہیں ملتی۔‘‘
جواب ملا، ’’آج یہ امر رشید احمد صدیقی کی روح کے لیے باعثِ فخر ہو گا کہ یوسفی نے اُن کا اثر قبول کیا، اس لیے کہ یوسفی نے رشید مرحوم کے مواد و موضوعات کی جوئے کم آب کو بحرِ ذخّار کی صورت دے دی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ رشید کے یہاں کنوئیں کی سی گہرائی ہو، لیکن اس بحرِ ذخّار میں گہرائی بھی ہے وسعت بھی۔‘‘
میں نے اُنھیں پھر چھیڑا: ’’کچھ نقادوں نے یوسفی کے تجزیۂ فن میں فقرے باز ی کا پہلو بھی پایا ہے۔‘‘
تِلملا کر بولے: ’’سخن شناس نۂ دلبرا خطا ایں جاست! تم بھی کن کم نظروں کی بات لے بیٹھے۔ ’پیازی اردو‘ والے ابو ظفر زین کو آج کتنے لوگ جانتے ہیں! اُن کا کُل آرٹ ہی خوش گپّی اور فقرے بازی پر ٹکا تھا۔ جب کہ یوسفی کا مرتبہ یہ ہے کہ سخن مشتاق ہے عالم ہمارا۔‘‘
میں نے اپنا ترکش سنبھال کر اُن سے کہا: ’’’شامِ شعرِ یاراں‘‘ کے ص: 371اور 387پر ’ممنون و مشکور‘ نظر سے گزرا ہے!
چمک کر بولے: ’’تم تو سدا سے خطائے بزرگاں نگرفتن خطاست پر عامل رہے ہو۔ کیا تمھیں پتا نہیں کہ مولانا شبلی نے ممنون و مشکور کے استعمال کی طرح ڈالی تھی۔ ان ہی کی سند سے اب یہ رائجِ عام ہے۔‘‘
میں نے بات آگے بڑھائی کہ ص: 190 پر ’اعتقادات‘ کی بجائے ’معتقدات‘ غلط استعمال کیا گیا ہے، وہ بھی دو بار! ‘‘ اب اُن کی بھنوئیں تن گئیں، بولے: ’’تم ٹھہرے غیر معتقد، اعتقادات سے تمھیں کیا! محتسب را درون خانہ چہ کار!‘‘
میں نے کہا، ’’مانا کہ یوسفی غالب کی مشکل پسندی، ندرتِ تراکیب اور معنی آفرینی کے مدّاح بھی رہے ہیں اور متّبع بھی اور سابقہ کتابوں کی طرح اِ س کتاب کے بھی ہر باب میں غالب اگر اُن پر سوار نہیں ہیں تو پیچھا بھی نہیں چھوڑتے، لیکن اُنھوں نے ص: 250پر فانی کا یہ شعر غالب کے کھاتے میں ڈال کر اچھا نہیں کیا ؎
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تِری جوانی تک
اور ہاں ص: 233 پر درج غالب کے ایک شعر کا دوسرا مصرعہ بھی غلط نقل ہوا ہے۔ درست مصرعہ یوں ہے :
ع تُو ویزداں نتواں گفت کہ الہامے نیست
بولے: ’’بندۂ خدا! آج کے ٹائپسٹ ، کاتبوں ہی کی تو اُمّت ہیں۔ دیکھو، غالب کاتبوں کے کتنے شاکی رہے تھے ؎
ٹکڑے ہوا ہے دیکھ کے تحریر کا جگر
کاتب کی آستیں ہے مگر تیغِ بے نیام
میں کتاب کے ص: 258 پر درج’ اندازِ کھٹکھٹاہٹ‘ رام پھل اور سیتا پھل کے ایک قسم کے ہونے کے مغالطے اور چند دوسری باتوں کو پوچھنا ہی چاہتا تھا کہ وہ کھٹک گئے۔
کھٹاک سے بولے: ’’مجھے یاد ہے کہ یوسفی کی ’چراغ تلے‘ پہلی بار تمھارے ہاتھ میں آئی تھی تو صفحات پلٹتے ہی تمھارا ماتھا ٹھنکا تھا اور تُم نے یہ کہہ کر سُرخ پنسل اُٹھا لی تھی کہ اس میں تو صفحے صفحے پر غلطیوں کی افراط ہے، لیکن چند لمحے غور کرنے کے بعد تُم ہی نے اُن کی اختراعاتِ لفظی کی مدح و ستایش شروع کر دی تھی اور آج تک سردھُن رہے ہو۔‘‘
میں سمجھ گیا کہ اُن کا عشقِ زلیخائی حسنِ یوسف میں کوئی عیب دیکھنے کا روادار نہ ہو گا چاہے اُنھیں مکائدِ زلیخائی ہی سے کیوں نہ کام لینا پڑے ؎
صد آفرین سہیلؔ کے جانِ ادب ہے آج
تیرے قلم کی لغزشِ مستانہ وار تک
(اقبال سہیلؔ)
________________________________________________
ہوائے تند بھی مَیں، برگِ بے نوا بھی مَیں
________________________________________________
یوسفی نے قاضی عبدالقدوس اور مرزا عبدالودود بیگ جیسے دو عجیب و غریب کردار تراش رکھے ہیں جو کہ اُنھیں تنہا کم ہی چھوڑتے ہیں۔ وہ ایک اعتبار سے منکر نکیر سے بھی بڑھ کر ہیں کہ دخل در معقولات سے بھی باز نہیں آتے۔ یوسفی جب بھی اُنھیں صفحۂ قرطاس پر نمودار کرتے ہیں، اُن کے ذریعے اپنے ہی قلم و کردار یا موضوع و ماجرے کے کسی رُخ یا پہلو کو، کسی کمی یا کجی کو بڑی بے تکلفی بلکہ بے دردی سے نشانہ بناتے ہیں بلکہ اُنھیں ستم آزمائی کے مواقع فراہم کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ خود اُٹھا لاتے ہیں گر تیر خطا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کے ان ہمزادوں کی بذلہ سنجیاں، موشگافیاں، پھبتیاں، ماجرے کو رنگین ہی نہیں بناتیں بلکہ اکثر قولِ محال سے رنگ ہی بدل دیتی ہیں۔ اس طرح یوسفی خود ہی اپنے افکار و خیالات کے مختلف و متضاد پہلوؤں کا ایک نادر نگار خانہ سجالیتے ہیں۔
ان ہمزادوں نے یوسفی کے تقریباً ہر مضمون میں اپنے نقد و تبصرے، زجر و توبیخ، طنز و تمسخر یا نقل و مذاق کے ذریعے ہر ہر پہلو سے وہ وہ نشتر زنی کی ہے کہ میری نظر میں مشتاق احمد یوسفی اردو کے غالباً واحد ایسے ادیب ہیں جنھوں نے اردو کے نقادوں کے ہر حربے کو کام میں لا کر خود اپنی ذات کو اس قدر نشانہ بنایا ہے کہ اِس باب میں اُن کے کرنے کے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔ دراصل یوسفی خود ہی گنج ہیں خود ہی کلید۔ خود ہی ہدف ہیں خود ہی تیٖر۔
کس طرح جمع کیجیے اب اپنے آپ کو
کاغذ بکھر رہے ہیں پُرانی کتاب کے (عادل منصوری)
یوسفی نے ’شامِ شعر یاراں‘ کے آخری صفحات پر ’نقشہ میرے کمرے کا‘ کی ذیلی سُرخی کے تحت اپنے باتھ روم اٹیچڈ اسٹڈی کا بڑا دل چسپ سراپا لکھا ہے۔ باتھ روم کو تقدّم یوں حاصل ہے کہ اُن کے دانش کدے میں وہی سب سے کشادہ اور آرام دہ جگہ بچی ہے۔ ورنہ اسٹڈی کی چاروں دیواروں کو فرش سے لے کر چھت تک سٹے racks میں قطار اندر قطار دھنسی کتابوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔ فرش پر کتابوں اور رسالوں کے کہیں اہرام تو کہیں کتب مینار اس طرح ایستادہ ہیں کہ جھاڑو بہارو کی جگہ تک نہیں بچی۔ اُن کے بقول یہی کمرہ اُن کا عشرت کدہ بھی ہے اور کلبۂ احزاں بھی۔ گوشۂ اعتکاف بھی ہے اور دیوارِ قہقہہ بھی، یعنی خلوت کدہ بھی ہے اور TV لاؤنج بھی۔
اُن کے آرام و استراحت اور نقل و حرکت کے مرکز باتھ روم، ایک ‘6×3’ کا بیڈ اور ایک آرم چئیر تک محدود ہیں۔ یہ آرم چئیر اُن کی مرگ چھالا بھی ہے، را ج سنگھاسن بھی۔ انھوں نے تو اسے گوشۂ گیان سے لے کر بوریائے فلاکت تک سے تعبیر کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس نقشے کے کمرے میں جو اُن کی یاد نگری بھی ہے اور دیار فکری بھی، انھیں بڑے حزم و احتیاط سے بسر کرنا پڑتی ہو گی، پھر بھی کبھی ایسا اتفاق پیش آ جاتا ہو گا کہ ؎
بستر سے کروٹ کا رشتہ ٹوٹ گیا اک یاد کے ساتھ
خواب سرہانے سے اُٹھ بیٹھا، تکیے کو سرکانے میں
(عزم بہزاد)
اور ہاں ! چونکہ اس کمرے میں کوئی ایکسٹرا کرسی یا اسٹول رکھنے کی جگہ نہیں بچی، انھوں نے اپنی ناپسندیدہ کتابوں، نثری نظموں اور علامتی افسانوں کے مجموعوں کے ڈھیر پر چادر ڈال کر ایک چھوٹا سا چبوترا بنالیا ہے۔
اُن کی اسٹڈی سے چند فٹ کے فاصلے پر ایک پوری طرح خالی کمرہ اپنے مکین کے استقبال کے لیے دامن اور بانہیں پھیلائے چشم براہ ہے، لیکن یوسفی اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ وہ کسی دن صبح آنکھیں کھولیں تو اپنے ارد گرد جنم جنم کی ساتھی کتابوں اور اپنی شریک زندگی کی تصویر کو نہ دیکھ پائیں۔ دراصل یہی تو زندگی بھر ان کی مونس و غم خوار رہی ہیں۔ دافعِ رنج و راحت بھی، تسکین دہِ اضطراب بھی اور کفیلِ اُمید و نشاط بھی۔ اسی کمرے کی چار دیواری تو اُن کی فکر و خیال کی بزم آرائی اور رزم آزمایِ حیات کی محفل بھی بنی ہے اور میدان بھی۔ غالبؔ کا بھی یہی رنگ تھا ع نفس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ اور میرؔ کا بھی یہی ڈھنگ کہ درد و غم کو جمع کر کے دیوان کرتے اور باغِ معنی کی بہار یو ں دکھاتے رہے تھے کہ پات ہرے ہیں، پھول کھلے ہیں، کم کم باد و باراں ہے، لیکن برسوں تک کبھی خیال تک نہیں آیا کہ کمرے کی وہ کھڑکی بھی کھول کر دیکھ لیں جس کے پہلو میں سچ مچ کا لہلہاتا ہوا چمن موجود ہے۔
ہمارے بعد بھی رودادِ دل بیاں ہو گی
زباں تو ہو گی پر ایسی زباں کہاں ہو گی
(شمیم عباس)
________________________________________________
(نوٹ: اس مضمون کے سلسلے میں میرے پیشِ نظر ’شامِ شعرِ یاراں‘ کا عرشیہ پبلی کیشنز،دہلی ، کا 2014ء میں چھپا اڈیشن رہا ہے۔)
________________________________________________
یوسفی نے لکھا ہے کہ منٹو کو طوافِ کوئے ملامت کی استطاعت تھی نہ ہوش۔۔۔۔!
* ہوش کی بات بھی خوب رہی! کیوں کہ ان کوچوں میں تو مدہوش ہو کر جانے کے اِمکان بڑھ جایا کرتے ہیں۔ جہاں تک استطاعت کا سوال ہے تو خود منٹو ہی نہیں، اس کے کئی ہم عصر ادیب، صحافی اور اقربا اپنی تحریروں میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ بمبئی میں فلم اور صحافت سے اُس کی وابستگی کا 1946ء تک کا دور منٹو کی زندگی کا بہترین زمانہ رہا تھا۔ وہ لاہور کے اسپتال کے بسترِ مرگ پر بھی اپنے آپ کو بمبئی کی بانہوں میں تصور کیا کرتا تھا۔ لاہور میں اُس کے شناسا ادیبوں میں سے قتیل شفائی نے لکھا ہے کہ ’منٹو صاحب جب تک بمبئی میں رہے فلم اور صحافت میں اُن کا نام رہا۔۔۔۔ اچھی خاصی آمدن تھی، چنانچہ اُن کی زندگی میں اُن کی نظر میں جو رنگینیاں ضروری تھیں وہ اُن کی دست رس میں تھیں۔‘ (1) اشکؔ نے لکھا ہے کہ ’منٹو نے کٹرہ گھونیاں (امرت سر)، ہیرا منڈی (لاہور) اور فارس روڈ (بمبئی) جیسے بازاروں کی خوب سیر کی تھی، دہلی کے جی بی روڈ (شردھا نند مارگ) اور پونا کی ایسی ہی گلیوں کا حال بھی اس کی نگارشات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک بار کرشن چندر اور منٹو جب پونا سے لوٹتے ہوئے ٹرین میں ملے تھے تو اُن کے درمیان کسی شناسا لڑکی کا ذکر چھڑ گیا تھا ( منٹو کی ایک دو تحریروں میں ’ثمینہ‘ کے نام سے اُس کا ذکر آیا ہے۔ اسیم) اور کرشن نے معنی خیز انداز میں منٹو سے پوچھا تھا ’’تم نے تو اُس (لڑکی) کا مطالعہ کیا ہو گا!‘‘ منٹو نے جواب میں کہا تھا: ’’لاحول ولا قوۃ۔۔۔ میں تو صرف طوائفوں کا مطالعہ کرتا ہوں۔ شریف لڑکیوں کے نزدیک نہیں پھٹکتا۔ (2) بلونت گار گی ، بازار حسن کے ماحول سے کچھ خائف سا تھا، لیکن جب وہ منٹو او رباری کے ساتھ لاہور کی ہیرا منڈی میں پہلی بار گیا تو بالکل نہیں گھبرایا۔ منٹو کے ساتھ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے ’کوئی مگرمچھ کی پیٹھ پر دریا کی سیر کرے۔‘ تینوں نے ایک کوٹھے پر نای و نوش کی محفل تو گرم کی، لیکن وہاں کی طوائفیں پسند نہ آنے پر بلونت اور باری لوٹ آئے تھے۔ منٹو کو نائیکا بھا گئی تھی اور وہ اُس کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔‘ (3) وہ باری کی صحبت میں امرت سر اور لاہور کے ان کوچوں کا لذت چشیدہ تھا، اور بمبئی میں قدم رکھتے ہی اُس نے جس علاقے (پیر خاں اسٹریٹ؍کلیر روڈ) میں بود و باش اختیار کی تھی، وہاں سے سیدھی راہ ان کوچہ ہاے ملامت (کھیت واڑی، فارس روڈ، پون پل اور گرانٹ روڈ) ہی کی طرف جاتی تھی؍ ہے۔ منٹو کے دفتر کی راہ میں ناگپاڑہ بغیچے کے مقابل وہ ایرانی ہوٹل (موجودہ ’رولیکس!‘) تھا، جس کی فٹ پاتھ پر بجلی کے کھمبے سے ٹیک لگائے ’ڈھونڈو‘ کو اُس نے نجانے کتنے ہی طلب گاروں کے کسبیوں سے تا ر ملاتے ہوئے دیکھا تھا۔
قیاس کہتا ہے کہ یوسفی کی منٹو سے ذاتی طور پر واقفیت نہ رہی ہو گی۔ یُوں بھی جب منٹو کی زندگی کا آفتاب لبِ بام تھا، اُفق ادب پر ماہِ کنعاں طلوع بھی نہ ہوا تھا، لیکن اسے کیا کہیے کہ یوسفی نے منٹو کو بہ نظر تعمق پڑھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ منٹو کو ناآشنائے کوئے ملامت قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے کہ ’درمیانِ قعرِ دریا‘ ایک تختہ بند کو خشک دامنی کی سند دینا۔ منٹو کو اس بات کا بھی قلق تھا کہ ’بیدی لکھے گا کیا خاک، جب کہ شادی سے پرے اُسے کسی بات کا تجربہ ہی نہیں ہے۔ اس پر طرفہ وہ نہ صرف بھینس کا دودھ پیتا ہے بلکہ اُسے پال بھی رکھا۔‘(4) (اسیم)
٭٭
حواشی:
1) ’گھنگھرو ٹوٹ گئے‘، از : قتیل شفائی، ص : 521
2) نئے ادب کے معمار: ’سعادت حسن منٹو‘، از : کرشن چندر
3) ’سعادت حسن منٹو‘، از : بلونت گارگی
4) ’مکتی بودھ‘ از : راجندر سنگھ بیدی
٭٭٭