سکینڈے نیویا میں اردو کے حوالے سے یہ موضوع نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ حیران کن بھی ہے
سویڈن میں مقیم اردو زبان سے محبت نہیں بلکہ مجنونانہ عشق کرنے والے ایک نوجوان امجد شیخ نے نئی صدی کے اوائل میں اردو لائف ڈاٹ کوم کی بنیاد رکھی اور اردو ای میل کو ترویج دیا۔
لندن کے اخبار’’ عالمی اخبار‘‘، نے آن لائن اردو صحافت کو معتبر انداز میں دنیا سے متعارف کروایا۔ صفدر ہمدانی صاحب نے صاحبِ علم ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ فراست ہونے کا ثبوت بھی دیا آئینِ نو سے ڈرنے کی بجائے نگاہیں چار کر کے اسے اپنی دسترس میں کیا اور یونیکوڈ کے ذریعے اردو دنیا کو ایک جامع اخبار پیش کیا۔
برطانیہ ہی کے ایک نوجوان عرفان نواز نے ۲۰۰۴ میں اردو سائٹ اردو پیجز بنا کر اردو زبان میں کمپیوٹر کی تعلیم دینے کا آغاز کیا جس سے ہر خاص و عام مستفید ہوا۔ خود مجھے کئی مرتبہ جب اردو لکھنے کے مسائل پیش آتے تو ہر وقت آن لائن رہنمائی دستیاب ہوتی۔
آج بھی تیز رفتار ترقی میں جدید سافٹ وئرز اور جدید تکنیکی معلومات کے مضامین اس سائٹ پر فورا پیش کیے جاتے ہیں۔ بے شمار لوگوں نے یہاں سے گرافک سیکھا اور اردو لکھنا اور اس کو فوٹو شاپ میں ڈیزائن کرنا سکھانے کی باقاعدہ ابتدائی تدریسی پروگرام یہاں پیش کیے گئے۔
یورپ میں ہونے والی اس برقی ترقی کو ہندوستان کی ’’قومی کونسل برائے فروغِ اردو‘‘ کا تعاون بھی حاصل رہا۔ دیارِ غیر میں رہنے والے ہمیشہ مڑ کر ان شہروں کی طرف دیکھتے رہے جس کے گلی کوچوں میں وہ اپنی زبان و لب و لہجے کو چلتے پھرتے محسوس کر سکتے تھے۔
سکینڈے نیویا میں بھی اردو کی بڑی بستی یعنی برطانیہ کی طرح اردو کی وسعت اور تشہیر بہت ہوئی اگرچہ آبادی کے تناسب کی وجہ سے برطانیہ کے برابر نہ ہو سکی۔
ڈنمارک کی تعلیمی حکمت عملی نے ہمیشہ اردو زبان کے فروغ اور ترویج و تشہیر کے لیے سہولیات بہم پہنچائی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں اردو جماعتوں کا انتظام ہوتا رہا اور اردو پڑھنے کے خواہشمند طالب علموں کے پہلی تا دسویں مفت تعلیم حاصل کرنے کے مواقع دیے گئے۔
ڈینش تہذیب و ثقافت نے ہمیشہ دوسری تہذیبوں کے ساتھ وسطی پل کی تعمیر میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔
اس کی ایک روشن مثال ڈنمارک میں تقریباً پندرہ برس سے اردو پروگرام پیش کرنے کے لیے ٹی وی لنک اور تین برس تک صرف غیر ملکی خواتین کے مسائل پر گفت و شنید کے لیے ’’ ٹی وی نساء‘‘، کی سرپرستی کی گئی تھی جسے اس سال نئی حکمت اور پالیسیوں کے تحت عارضی طور پر ملتوی کر دیا گیا تا ہم ویب ٹی وی کی صورت میں وہ آج بھی قائم ہیں اور ان پر کام کرنے والوں کو صحافی کارڈ فراہم کیا جاتا ہے۔
ان ممالک میں جدید سہولیات اور اور ترجمانوں کو مہیا کی جانے والی رعایتوں سے اردو زبان کا مستقبل تابناک مشکل نہیں ہے۔ موبائل پر اردو کی سہولت اور ریکارڈنگ نے تدریس کو بے حد آسان اور سہل دسترس میں رکھا ہے۔
یہ صدی اپنی محیر العقول ترقی اور آسائشوں کی بنیاد پر لسانی ترقی کے امکانات سے بھر پور ہے جس میں جستجو کرنے والوں کے لیے شش جہات کھلی ہیں۔
٭٭٭
خیراندیش، نصر ملک ، کوپن ہیگن ۔ ڈنمارک….
محوِ حیرت ہوں…. کہ اپنے ذاتی عناد، بغض اور کینہ کی وجہ سے آخر
کہاں کہاں آپ صدف مرزا کے خلاف لکھے چلے جا رہے ہیں.
قابلِ رحم. آپ کی حالت
دو دہائیاں ہو گئیں…. لیکن حسد کی آگ میں کوئلہ ہو کر بھی آپ کالک ہی پھیلائے جا رہے ہیں.
صد افسوس
اور
آپ کے ممد و معاون… اور دوست و احباب
کو بھی خدائے بزرگ و برتر ہی صبر عطا کر سکتا ہے
اعجاز عبید صاحب، اب کے میرا تبصرہ مت مٹائیے گا.
پہلے ہی میری کتاب صحرا میں آبجُو کو آپ
مسخ کر کے، زخمِ وفا، کے نام سے نیٹ پر پھیلا چکے، نجانے کس نے آپ کو مسودہ مہیا کیا
سلامت رہیے
اور علمی و ادبی دیانت داری کے اصولوں کو بھی یاد رکھیے
صدف مرزا
ڈنمارک
محترمہ صدف، تسلیم
میں نے پہلے بھی آپ کا کوئی تبصرہ نہیں مٹایا۔ فی الحال میں ’زخمِ وفا‘ کے بارے میں تشریح کر رہا ہوں۔ اگرچہ یہ ’سَمت‘ ہے، لائبریری نہیں۔
’اردو کی برقی کتابیں‘ کی لائبریری جو ۲۰۰۶ء تا ۲۰۱۳ء تھ فعال رہی، اس میں ’’میں‘‘ نے ایک برقی کتاب مرتب کی تھی جو آپ کی شاعری پر مبنی تھی۔ مجھے تو یہ بھی اب معلوم ہوا کہ آپ کا کوئی مجموعہ بھی چھپ چکا ہے۔ جب وہ کتاب میری دسترس میں ہی نہیں تھی تو اسے ’مسخ‘ کرنا چہ معنی دارد؟؟؟
برقی کتابوں کی ذیل میں میں اکثر یہ وضاحت کرتا آیا ہوں کہ یہ کتبیں ’’میری‘‘ ہیں۔ واضح طور پر ہر برقی کتاب میں لکھتا ہوں ’’جمع و ترتیب: اعجاز عبید‘‘، اور متن کے آخر میں با قاعدہ حوالہ دیتا ہوں کہ کہاں سے مواد کا حصول؛ ہوا ہے۔ آپ کی شاعری نرحوم ویب سائٹ اردو ورلڈ اور عالمی اخبار میں ملی تھی، جسے میں نے مرتب کر کے ایک کتاب بنائی تھی، جس کا نام ’زخم وفا‘ دیا گیا تھا۔ اس کی آپ کی کتاب سے مشابہت کچھ نہیں ہے، سوائے اس کے کہ آپ کا وہی کلام شامل ہو سکتا ہے (شاید آپ کی کتاب تو مجھے کہیں سے ملی نہیں جو وثوق سے کہہ سکوں)
آپ کی اصل کتاب کی ان پیج فائل فراہم کریں تو آپ کی اصل؛ کتاب بھی شائع کی جائے گی موجودہ برقی کتب میں جو اب
https://muftkutub.com
پر دستیاب ہے۔
اعجاز عبید
http://www.lse.ac.uk/media@lse/research/EMTEL/minorities/papers/denmarkreport.pdf
This article has no connection between the title and its content or an knowledge about Urdu media and language in Scandinavia. What a shame!
Prof. Mustafa Hussain
One needs to have specialised criticism skills and a wide reading range, therefore I’m curious what liability drove you to submit a comment like this.
Nasr Malik and
(which university??? ) Prof. Mustafa
Hussain
wretched and pathetic misogynist souls
محترم اعجاز عبید صاحب، سلام و رحمت ۔
محترمہ صدف مرزا کا یہ مضمون ’’ سکینڈے نیویا میں اردو‘‘ اپنے آپ میں بالکل ادھورا ہی نہیں بلکہ اپنے موضوع کا کا بھی کسی طور احاطہ نہیں کرتا۔ البتہ موصوفہ چند ایک احباب کی خوشامداور چاپلوسی کرتے ہوئے، حقائق کو بالکل دانستہ یا غیر دانستہ ، نظر انداز کر گئی ہیں ۔ ڈنمارک میں ٹی وی لنک اور ٹی وی نساء کو ’’ نشریاتی ضوابط کی پابندی نہ کرنے کی بنا پر بند کردیا گیا تھا۔ اور ٹی وی نساء تین سال تک تو کبھی رہا ہی نہیں ۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے ۔ ٹی وی لنک ادارہ منہاج القرآن کا باقاعدہ ترجمان تھا اور ٹی وی نساء اس کا ذیلی ہمزبان۔ ڈینش سکولوں میں اردو کی تعلیم اگرچہ پہلے جیسی سہولتیں نہیں البتہ اس کے لیے مشروط مواقعے موجود ہیں ۔ موصوفہ خود ایک سابق معلمہ ہیں اور قبل از وقت حاصل کردہ پنشن پر ہیں۔ وہ سکولوں میں اردو کی تعلیم کی بندش/ اسے محدود کر دیے جانے کے متعلق خوب جانتی ہوں گی اور شاید کسی مصلحت کے تحت اس کا ذکر مناسب نہ سمجھا ہوگا ۔ میں اگر اس مضمون کے عنوان کے حوالے سے اس کا جائزہ لوں تو میں یہ کہنے میں خود کو حق بجانب سمجھتا ہوں کہ موصوفہ کو اسکینڈے نیویائی ممالک کو دور کی بات ہے یہاں ڈنمارک جہاں وہ رہتی ہیں یہاں پر اردو زبان و ادب کی آبیاری اور ڈنمارک میں اردو کی آمد اور نشرواشاعت کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں ۔ محترم آپ ہی بتائیے کہ اس مضمون عنوان کی مطابقت میں کیا آپ آئس لینڈ، ڈنمارک، ناروے، سویڈن، فن لینڈ اور جزائر فیرو جیسے سکینڈے نیویائی ممالک میں ’’ اردو ‘‘ کی نشاندھی کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں ، تو پھر ایسے مضمون کو شائع کرنے کا فائدہ؟ اسکینڈے نیویا میں اردو کے حوالے سے میں چند ایک لنک ارسال کر رہا ہوں، ملاحظہ فرمائیں۔
والسلام، آپ کا خیراندیش، نصر ملک ، کوپن ہیگن ۔ ڈنمارک۔
لنکز حسب ذیل ہیں :
بر صغیر کا ادب ڈینش زبان میں
http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Articles&article=1249
کوپن ہیگن ، ڈنمارک سے شائع ہونے والے اردو جرائد
http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Articles&article=9
ڈنمارک میں اردو زبان و ادب
http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Literature&article=1398
ڈینش زبان کا اردو میں ترجمہ کی گیا پہلا ناول
http://urduhamasr.dk/devta/index.htm
ڈنمارک سے اردو کا پہلا ناول
http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Literature&article=918
ڈینش زبان سے ترجمہ کیا گیا اردو کا ناول
http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Misc&article=613
ڈینش زبان کے دو ناولوں کے اردو میں ترجمہ بارے
http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Misc&article=52
http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Misc&article=27
ایچ ۔ سی ۔ آنڈرسن کی طلسماتی کہانیوں کا اردو میں ترجمہ
http://urduhamasr.dk/devta/index.htm
سویڈن میں اردو، ایک مختصر جائزہ ۔
http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Articles&article=6
لتوینیا کی بچوں کے لیے طلسماتی کہانیاں
http://urduhamasr.dk/tales_of_magic/storylist.htm
بچوں کے لیے عالمی ادب سے انتخاب
http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Articles&article=585