دوہے کا مخصوص مزاج، مخصوص آہنگ اور مخصوص انداز ہے۔ دوہا آسانی سے شاعر کی گرفت میں آ نہیں پاتا تا آنکہ شاعر دوہے کے مزاج سے کامل طور پر شناسا نہ ہو جائے، دوہا کہنا سمندر کو کوزے میں سمونے کے مترادف ہے۔ اردو میں بہت سے دوہا نگاروں نے اپنی مخصوص شناخت بنائی ہے، جن میں جمیل الدین عالی، بھگوان داس اعجاز اور ڈاکٹر فراز حامدی نے مخصوص پہچان بنائی ہے، ڈاکٹر فراز حامدی نے دوہے کی بڑی اچھی تعریف کی ہے اتنی اچھی کہ دوہے کی اس سے بہتر تعریف شاید نا ممکن ہے۔
تیرہ گیارہ ماترہ، بیچ بیچ و شرام
دو مصرعوں کی شاعری، دوہا جس کا نام
ہند و پاک کے ممتاز دوہا نگاروں میں ساحرؔ شیوی کا شمار ہوتا ہے، انہیں منفرد دوہا نگار کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے، ان کے دوہوں سے ان کا مخصوص مزاج اور آہنگ جھلکتا ہے۔ وہ جس میدان کی طرف بھی گئے، کامیابی و کامرانی نے ان کے قدم چومے۔ انہوں نے ماہیے لکھے، سین ریوز لکھے، ہائیکو لکھے، افسانے لکھے، دوہے لکھے، تعجب کی بات یہ ہے کہ ہر صنف کو انہوں نے کامیابی کے ساتھ برتا، انہوں نے ہر صنف کی اصل روح سمجھی، اور جو بھی لکھا پوری محنت، لگن اور کوشش سے لکھا۔
ساحرؔ شیوی نے حمدیہ دوہے بڑے اچھے لکھے ہیں۔ آسمان و زمین کی ساری مخلوق، ساری کائنات، سارے جمادات، نباتات، حیوانات اللہ کی کبریائی، اس کی عظمت، اس کی بڑائی بیان کرتی ہیں۔ فرشتے انسان کی پیدائش سے قبل ہی اس کی حمد و ثنا بیان کرتے رہے ہیں۔ تسبح لہ السمٰوات السبع والارض ومن فیہن وان من شیِ الا یسبح بحمدہ (اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہیں، اور ہر چیز اس کی تسبیح بیان کر رہی ہے۔) اردو زبان کے بیشتر شعراء نے حمد و مناجات پر مشتمل کلام عبادت سمجھ کر کہا ہے، حمد میں با خدا دیوانہ باشد والا معاملہ ہوتا ہے، حمد میں جتنا زیادہ مبالغہ ہو گا اتنا ہی اسے مستحسن سمجھا جائے گا۔ ساحرؔ شیوی کے حمد و مناجات پر مشتمل کلام کی اپنی الگ انفرادیت اور خصوصیت ہے، انہوں نے بڑے انوکھے انداز میں اپنے آقا و مولیٰ کی بڑائی بیان کی ہے:
کوئی کہے رحمن تجھے، کوئی کہے بھگوان
پوجا تیری جو کرے، ہے وہ ہی انسان
تیری ذات قدیم ہے تیری ذات عظیم
بیشک تو رحمن ہے تجھ سا نہیں رحیم
یا رب تو رکھنا مری قسمت کو بیدار
مجھ عاصی کو بخش دے عزت کی دستار
یا رب ہم پر ہے ترا کتنا بڑا احسان
تو نے بنایا ہے ہمیں اک مومن انسان
اس نے بن مانگے دیا مجھ کو سکھ بھنڈار
ساحرؔ اس کا شکریہ جس کا کل سنسار
بیشک ایسے لوگ ہیں جنت کے مہمان
جو اللہ کی راہ میں ہوتے ہیں قربان
یا رب ہم پر رحم کر بچ جائے ایمان
انسانوں کے بھیس میں پھرتے ہیں شیطان
حمد کے بعد نعت کا نمبر آتا ہے، نعتیہ کلام کہنا ویسے مشکل کام ہے، مگر نعتیہ دوہے کہنا اس سے مشکل عمل ہے۔ اس میں با محمد ہوشیار والا معاملہ ہوتا ہے۔ صحابۂ کرام میں بیشتر شعراء نے نعت کہی ہے۔ جیسے حسان بن ثابتؓ نے کہا ہے:
خلقت مبرأ من کل عیب
کأنک قد خلقت کما تشاءٗ
شیخ سعدیؒ کی یہ رباعی آج بھی نعت کی بہترین مثال کہی جا سکتی ہے:
بلغ العلیٰ بکمالہ،
کشف الدجیٰ بجمالہٖ
حسنت جمیع خصالہٖ
صلوا علیہ و آلہٖ
آپ علیہ السلام کی شان میں خالق کونین بھی رطب اللسان ہے: وانک لعلیٰ خلق عظیم (بیشک آپ اخلاق کے بلند مرتبے پر فائز ہیں ) نعت کہنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، ساحرؔ شیوی نے بڑی کامیابی کے ساتھ نعت کہی ہے، موصوف کے اکثر نعتیہ دوہوں میں نبیِ کریمﷺ کی اطاعت کا پیغام ملتا ہے۔ من یطع الرسول فقد اطاع اللّٰہ (جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی) وما اٰتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا (رسولؐ تمہیں جو چیز دیں اسے لے لو، اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ) ومن یطع اللّٰہ والرسول فأولٰئک مع الذین أنعم اللّٰہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین (اور جو اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے وہ لوگ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے، یعنی انبیاء، اصدقاء، شہداء ور صالحین) ساحرؔ شیوی کے وہ دوہے ملاحظہ کریں جن میں اطاعت رسولؐ کے اشارے ملتے ہیں:
آپ ہی رہبر ہیں مرے، جس رستے بھی جاؤں
آپ کی مرضی کے بنا کیسے قدم بڑھاؤں
میں ہوں تابع آپ کا آپ مری پہچان
اے محبوب کبریاء! آپ پہ میں قربان
اس سے کوسوں دور ہے ہر دکھ ہر آزار
ساحرؔ طاعت میں تری رہتا ہے سرشار
قابل طاعت ہیں فقط آپ ہی کے احکام
قرآں دیتا ہے ہمیں صرف یہی پیغام
وانک لتھدی الی صراط مستقیم (بیشک آپ صراط مستقیم کی رہنمائی کرتے ہیں) یعنی ہدایتِ ارشاد نبیؐ کے ہاتھ میں ہے:
آپ ہی رہبر ہیں مرے، جس رستے بھی جاؤں
آپ کی مرضی کے بنا کیسے قدم اٹھاؤں
عرب قبل اسلام جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، رسول رحمتﷺ کے ورود کے بعد سارے اندھیارے دور ہو گئے، بد بخت نیک بخت بن گئے، بھٹکے ہوئے راہ پا گئے، جہنمی جنتی ہو گئے، وما أرسلنٰک الا رحمۃ للعالمین (ہم نے تو آپ کو تمام جہانوں کے حق میں رحمت بنا کر بھیجا ہے) اس موضوع پر ساحرؔ صاحب کے خیالات دیکھیں:
باطل کے خیمے سبھی ہونے لگے اجاڑ
جب رحمت کی آ گئی چھل چھل کرتی باڑ
رحمت بن کے آئے جب نبیوں کے سردار
آپؐ کے دم سے بن گیا صحرا بھی گلزار
عالم جن سے آشنا رحمت جن کی عام
کیسے بھولے آدمی ان کا پیارا نام
حمدیہ اور نعتیہ دوہوں کے بعد عام دوہوں کی طرف آتے ہیں، جن میں انہوں نے مختلف معاشرتی کروب کو ظاہر کیا ہے۔ زندگی میں خوشی و غم، مصیبت و راحت، سکھ دکھ آتے رہتے ہیں۔ روزمرہ زندگی میں عام انسان کو ان سے پالا پڑتا ہے۔ زندگی میں جہاں مشکلیں ہیں وہاں آسانیاں بھی ہیں۔ اور جہاں آسانیاں ہیں وہاں مشکلات بھی ہیں۔ ان مع العسر یسراً فان مع العسر یسراً
عیش ہو یا کہ رنج، نفرت ہو یا پیار
جیون کے اسٹیج پر سب کچھ ہے بے کار
ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے، ان اللّٰہ مع الصابرین (بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ) واصبر فان اللّٰہ لا یضیع اجر المحسنین (اور صبر کیجیے! بیشک اللہ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا)
ساحرؔ صبر و ضبط کو کر کے اپنی ڈھال
آلودہ ماحول میں زندہ ہوں تا حال
اہل زر کی تنگ دلی، تنگ نظری، خود غرضی کی طرف کس لطیف انداز میں اشارہ کیا ہے۔
اس سے یہ امید کیوں مل جائے گا پیار
بے مطلب مزدور سے کب ملتا ہے زر دار
ساحرؔ شیوی صاحب کی ایک حمدیہ دوہا غزل پیش کر رہا ہوں۔
گر ہے گل میں تازگی یا رب تیری شان
مہر و ماہ میں روشنی یا رب تیری شان
بخشی کلیوں کو ہنسی یا رب تیری شان
دی بو کو آوارگی یا رب تیری شان
ہم کو بخشی زندگی یا رب تیری شان
دل بھی تیرا جان بھی یا رب تیری شان
بخشی ایسی دلکشی یا رب تیری شان
دھرتی جنت بن گئی یا رب تیری شان
بخشی سب پر برتری یا رب تیری شان
یہ عظمت انسان کی یا رب تیری شان
جب بھی چاہی ڈھونڈ لی یا رب تیری شان
ذرے ذرے سے ملی یا رب تیری شان
ایسی سنگلاخ اور مشکل زمین میں ایسے کامیاب اور سلاست بھرے دوہے ساحرؔ شیوی جیسا قادر الکلام شاعر ہی کہہ سکتا ہے۔ بلا شبہ ساحرؔ شیوی دور حاضر کے ممتاز شاعر ہیں۔ انہوں نے جن اصناف کو بھی چھوا، انہیں انفرادیت اور اعتبار بخشا ہے۔ مستقبل میں ادبی تاریخ لکھنے والا مورخ ساحرؔ صاحب کے کلام، ان کے فن اور کام کو ہرگز ہرگز فراموش نہیں کر سکتا۔
یا رب تجھ سے ہے دعا عزت عظمت پائے
اپنے دوہوں کے سبب ساحرؔ شہرت پائے
٭٭٭