’’کیا کہتی ہے مجھ سے میری روٹھی ہوئی تقدیر
ائے نالۂ شب گیر……..
بیگانی ہوئی جاتی ہے مجھ سے میری تصویر
ائے نالۂ شب گیر……..
کیوں لکھنے لگا کوئی میرے درد کی تفسیر
ائے نالۂ شب گیر……..‘‘
موجودہ عہد کی ایک ایسی شخصیت جو اپنے شاندار ناولوں اور افسانوں سے اردو ہی نہیں بلکہ ہندی دنیا میں بھی اپنا ایک منفرد مقام بنائے ہوئے ہیں وہ شخصیت مشرف عالم ذوقی کی ہے۔ ذوقی اب تک کئی ناولوں کی تخلیق کر چکے ہیں جس میں نیلام گھر، بیان، مسلمان، شہر چپ ہے، پوکے مان کی دنیا، لے سانس بھی آہستہ اور آتش رفتہ کا سراغ جیسے ناول شامل ہیں۔ یہ ناول اپنے علیحدہ علیحدہ موضوع کی بناء پر مشہور ہوئے ہیں۔ ذوقی نے اب تک جو بھی لکھا ہے بہت سوچ سمجھ کر پوری ذمہ داری سے لکھا ہے۔ ذوقی اپنے ناول کے ذریعہ ایک نیا موضوع اور نیا مسئلہ قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اس کا حل بھی بتاتے ہیں۔ جہاں انھوں نے ’’مسلمان‘‘ میں ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت زار پر روشنی ڈالی ہے وہیں ’’بیان‘‘ بابری مسجد کے انہدام کا نوحہ بیان کرتا ہے۔ ’’پوکے مان کی دنیا‘‘ نئی نسل اور نئی تہذیب کی افسوس ناک تصویر پیش کرتا ہے تو ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘‘ موجودہ عہد کی سماجی، سیاسی، مذہبی اور ادبی اور فکری نا انصافیوں کے خلاف اپنا احتجاج درج کراتا ہے۔ جہاں ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ تہذیبوں کے تصادم کی کہانی کو پیش کرتا ہے وہیں ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ مسلمانوں کے خلاف رچی جا رہی سیاسی سازشوں کی قلعی کھولتا ہے۔
ذوقی نے اپنے پچھلے تمام ناولوں کی طرح اس ناول کا موضوع بھی منفرد رکھا ہے۔ صرف موضوع ہی نہیں بلکہ اسلوب و تکنیک بھی دوسرے ناولوں سے علیحدہ استعمال کی ہے۔ اس ناول کے ذریعہ ذوقی نے ایسے مسئلے کو قاری کے سامنے پیش کیا ہے جو آج ہندوستان کا ہی نہیں بلکہ تمام ممالک کا مسئلہ بن چکا ہے اور یہ مسئلہ ایک عورت، اس کے حقوق اور اس کی عصمت و وقار کا ہے۔ یوں تو عورتوں کے موضوع کو بہت سارے ناول نگاروں نے اپنے ناول میں جگہ دی ہے۔ منٹو، عصمت چغتائی، خدیجہ مستور، واجدہ تبسم وغیرہ مگر ایک عورت کے جس پہلو سے ذوقی نے ہمیں متعارف کرایا ہے وہاں تک شاید ہی کوئی ناول نگار پہنچا ہو۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں عورتوں کے درد و کرب، ان کی کمزوری، ان کے استحصال کے ذکر کے ساتھ ساتھ ان کے احتجاج اور انتقام کی کہانی کو بہت انوکھے انداز میں سچائی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
ذوقی نے اس ناول کے ذریعہ ایک ایسے سماج کو ہمارے روبرو کرایا ہے جہاں عورتیں ایک انسان نہ ہو کر محض ایک ضرورت بن چکی ہیں۔ جہاں ان کا استحصال کیا جاتا ہے اور ان کے آواز اُٹھانے پر ان کو موت کے کنویں میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ یہ ناول ایسے ہی سماج سے جوجھتی ہوئی ایک لڑکی کی کہانی ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے ناول کے آغاز میں صوفیہ مشتاق احمد کو ناول کی ہیروئن کی حیثیت سے تعارف کرایا ہے مگر ناول کے مطالعہ کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ناول کی ہیروئن صوفیہ نہ ہو کر ناہید ناز ہے۔
صوفیہ ذیلی کردار اور ناہید ناز کلیدی کردار کی حیثیت سے نظر آتی ہیں۔ یہ ناول انہیں دو کرداروں کے گرد گھومتا ہے جہاں صوفیہ ایک ایسی بد نصیب لڑکی ہے جو تا زندگی پیار اور شفقت سے محروم رہی۔ اس کے والدین بچپن میں ہی انتقال کر گئے تھے۔ اس کے بھائی بہن اس کو بوجھ سمجھ کر اس کی شادی کسی بھی لڑکے سے کرا کر اپنے فرض سے سبک دوش ہونا چاہتے ہیں۔ یہی صدمہ صوفیہ کو گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ تو دوسری طرف ناہید ناز ایک ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہے جو جہنم سے بھی بد تر ہے وہ اپنے ماں باپ بہن بھائی کے موجود ہونے کے باوجود پیار اور شفقت کو ترستی ہے۔ وہ خود کو اپنے ہی گھر میں محفوظ نہیں پاتی اور پھر ایک ایسا حادثہ پیش آتا ہے کہ ناہید کو بھی اپنا گھر چھوڑنا پڑتا ہے۔
’’کچھ باقی رہ گیا ہے ……میں امی کی طرف پلٹی……..میں نے پھر اس لفظ کو دوہرایا…….کچھ باقی رہ گیا ہے …….اماں کسی اور سوچ میں گرفتار تھیں۔ لیکن یہ لفظ کچھ باقی رہ گیا ہے۔ دیر تک میرے اعصاب پر سوار رہے۔ اندر کشمکش چل رہی تھی۔ گھر میں طوفان آسکتا ہے۔ جب گھر میں مردوں کو بہوش عظیم کا پتہ چلے گا تو ہنگامہ شروع ہو جائے گا۔ مجھے اس ہنگامہ سے پہلے ہی گھر چھوڑ دینا تھا۔ میں اب کسی مصیبت کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ جب کی میں اتنی با ہوش تھی کسی بھی مصیبت کا سامنا کرنے کو تیار تھی۔ ‘‘
نالۂ شب گیر ہر اس لڑکی کی کہانی کو پیش کرتا ہے جو راہ چلتے، بسوں میں، کالجوں میں یہاں تک کہ اپنے ہی گھر میں خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہے۔ آزاد ہندوستان میں آج کوئی بھی عورت خود کو آزاد نہیں پاتی ہے۔ ناول میں ذوقی نے ان دو نسوانی کرداروں کو اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ قاری کا مرکز بنی رہتی ہے۔ ایک صوفیہ مشتاق احمد اور دوسری ناہید ناز جو مرد سے انتقام لینا چاہتی ہیں۔ ناول میں ذوقی نے خود کو مصنف کی حیثیت سے پیش کیا ہے جو ایک نئی کہانی کی تلاش میں گھومتا رہتا ہے۔ اسی بیچ جیوتی گنگ ریپ کا حادثہ ہوتا ہے اور پوری دہلی میں انقلابی آگ پھیل جاتی ہے اور انڈیا گیٹ کے چوراہے پر انقلابی مجمع میں مصنف کی ملاقات ناہید ناز سے ہوتی ہے، جو مصنف کو پر اثر انداز سے متاثر کرتی ہے اور وہ اس کی کہانی کو جاننے کے لئے بیقرار نظر آتا ہے اس کی یہی بیقراری اس کو ناہید ناز کے گھر نینی تال پہنچا دیتی ہے۔ وہاں ناہید اس کو اپنی زندگی کی ایسی کہانی سناتی ہے جس کو سننے کے بعد مصنف ہی نہیں قاری کے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ذہن سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا کسی گھر میں ایسا واقعہ بھی پیش آیا ہو گا۔ کیا کسی گھر میں ایسے بھی لوگ ہونگے جو انسان نہیں بلکہ حیوان ہیں۔ جنہیں رشتوں کا لحاظ نہیں، جہاں بیوی، بھابھی، بیٹی، بھتیجی میں فرق ہی نہ ہو۔ کیا کوئی ماں اتنی بے بس ہو سکتی ہے کہ سب کچھ دیکھتے اور سمجھتے ہوئے بھی آنکھ موندے رہتی ہے۔
یہ ناول جہاں عورتوں کے استحصال کی داستان بیان کرتا ہے وہیں ایک عورت کا مردوں کے لیے نفرت اور انتقام کی بڑھتی ہوئی شدت کو بھی دکھاتا ہے۔ یہ ہر اس عورت کی داستان بیان کرتا ہے جو مردوں کے ظلم و جبر، جنسی زیادتی، تشدد، مردوں کی جھوٹی انا کے خاطر خود کو قربان کرتے کرتے تھک چکی ہے اور اب وہ ان سب سے آزادی چاہتی ہے۔ وہ آج مردوں کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنا چاہتی ہے۔ ایک عورت جو ہر جگہ نظر آتی ہے فلم سے لے کر سیاست تک، اسکول کالجوں سے لے کر اسپتال تک وہ ہر جگہ موجود ہے مگر جب وہی عورت اپنے گھر سے نکلتی ہے تو یہ مرد اور سماج اس پر الزام لگانے سے نہیں چوکتا۔ اگر وہ کسی مرد سے بات کرتی ہے تو اس کے ساتھ اس کا رشتہ بنا دیا جاتا ہے۔ ہمیشہ عورت کے بارے میں غلط ذہن کیوں رکھا جاتا ہے۔ مردوں کے لیے ایسا کیوں نہیں سوچا جاتا ہے۔ انہیں سوالوں کے منجدھار میں پھنسی ناہید ناز کو جب لغات کا کام ملتا ہے تو وہ فاحشہ، کلنکنی، طوائف، رنڈی، ویشیا یہ سارے نام وہ مردوں سے منسوب کر دیتی ہے اور کہتی ہے کہ آنے والے وقتوں میں مرد کو اسی ناموں سے جانا جائے گا۔ اس کو اسی ناموں کے ساتھ جینا ہو گا۔
یہ ناول ایسے سماج کے احتجاج کی کہانی ہے جہاں عورت کس طرح برسوں سے صدمے اٹھا رہی ہے، ان کا کلیجہ مردوں کے طعنوں اور ان کے کوسنے سے چھلنی ہو چکا ہے، ناسور بن چکا ہے اور جب یہ ناسور پھٹتا ہے تو ناہید ناز جیسی عورت وجود میں آتی ہے۔ جو سماج کی ہر بندشوں کو توڑنا چاہتی ہے عورت کے راہ میں بچھے کانٹوں کو نکال پھینکنا چاہتی ہے۔ وہ مردوں سے ان کے ظلم کا انتقام لینا چاہتی ہے۔ ہر وہ کام جو عورت سے منسوب ہے مردوں کے نام کرنا چاہتی ہے۔ اس لئے ناہید ناز کمال کو بار بار ہر وہ کام کرنے پر مجبور کرتی ہے جو ایک مرد کی انا کو گوارہ نہیں اور آخر میں وہ کمال کو گھر سے باہر نکال دیتی ہے۔
’’میں کانپ رہا تھا ’تم جانتی بھی ہو تم کیا کر رہی ہو___پاگل ہو گئی ہو تم___‘
’بس نکلو___ ورنہ دھکے مار کر……… لوہے کا ڈنڈا پاگل پن کے انداز میں گھماتی ہوئی وہ مجھے باہر والے دروازے تک لے آئی __اس کے چہرے کا رنگ اچانک بدلہ تھا __اب اس چہرے پر مسکراہٹ تھی__وہ غصہ سے میری طرف دیکھتی ہوئی چیخی __تم لوگ ایسے ہی اپنی بیویوں کو گھر سے باہر نکالتے ہونا__؟ دھکے مار کر…….؟ سوچتے بھی نہیں کہ وہ کیا کرے گی؟ کہاں جائے گی__تمہارے الفاظ اس پر کیا اثر کریں گے __؟ سب کچھ بھول جاتے ہو تم لوگ نا…….؟ اب میں یہی کرنے والی ہوں …….دیکھ کیا رہے ہو__نکلو باہر ……..باہر نکلو____؟‘‘
(نالۂ شب گیر۔ مشرف عالم ذوقی ص ۳۵۲)
ناہید اپنے شوہر کے انتقام کے ذریعہ مردوں کو یہ سبق دینا چاہتی ہے کہ اب کوئی مرد عورت کے ساتھ زیادتی کے بارے میں سوچے گا بھی نہیں۔ آج عورت اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ وہ مردوں کے سہارے کے بنا اپنی زندگی خوشگوار طریقے سے گزار سکتی ہے اور ناہید ناز نے ایسا کر کے بھی دیکھا یاساپنے گھر کو خیر آباد کرنے کے بعد وہ ایک ایسے گروہ سے جڑ جاتی ہے جو صرف عورتوں کے لیے ہی کام کرتا ہے، وہ عورتوں کو بنا مرد کے جینا سیکھاتا ہے۔
صدیوں سے عورتوں کے ساتھ مردوں کا جو رویہ رہا ہے وہ غیر مناسب ہے۔ مگر آج زمانہ بدلہ ہوا نظر آتا ہے اب کہا جاتا ہے کہ عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق ملنا چاہئے انہیں بھی آزادی سے جینے کا حق ہے مگر آج جب عورت مردوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہتی تو ہمارا سماج ہی اسے پیچھے دھکیل دیتا ہے کیوں ؟وہ کہتا ہے کہ ہم عورتوں کی عزت کرتے ہیں وہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہم مردوں کی عزت کرتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ” ہم عورتوں کی عزت کرتے ہیں ” کا مطلب ہی یہی ہے کہ عورتوں کو مردوں کی برابری کا درجہ نہیں مل پا رہا ہے __مگر کیوں ؟ ایسی کیا وجہ ہے جو عورتوں کو مرد کے برابری کا درجہ نہیں مل پا رہاس ہے لہذا عورتوں کو ابھی اور طاقتور بننے کی ضرورت ہے تا کہ وہ مردوں کے سماج میں سر اُٹھا کر چل سکے اور ان کو یہ کہنے پر مجبور کر سکے کہ ’’ہاں عورت اور مرد برابر ہیں۔ ‘‘
"چھو کر دیکھو دل میرا میں دل میں تم کو بھر لوں گی
پر چھیڑ کر دیکھو تم مجھ کو میں تم کو نہیں جینے دوں گی”
نالۂ شب گیر میں ذوقی نے سادہ مگر ٹھوس الفاظ کا استعمال کیا ہے کہیں کہیں انھوں نے ایسے الفاظ اور جملے لکھے ہیں جو دل کو چھو جاتے ہیں۔ نالۂ شب گیر میں انھوں نے عبارت میں یا کرداروں کے مکالموں میں ایسے جملے لکھے ہیں جو ساخت کے اعتبار سے مختصر ہوتے ہیں مگر ان کے اندر جو گہرائی چھپی ہے وہ قاری کے ذہن اور اس کے وجود میں ایک تلاطم برپا کر دیتی ہے۔
’’اور اب میری سمجھ میں آیا کہ ان سب کے پیچھے کون ہے __؟ مائی گاڈ……..سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا اور ہم کتنے بے خبر تھے۔
’ان سب کے پیچھے کون ہے ؟، ناہید کا لہجہ بھی بدل گیا تھا۔
’عورت‘
نرمل اساس کا لہجہ اس وقت برف کی طرح سرد تھا __’عورت‘ جس نے آئی ٹی انڈسٹری سے سائبر اسپس تک قبضہ کر لیا۔ اور انتہائی ہوشیاری سے مردوں کو ایک نیا مرد بنا دیا۔ یعنی عورت…….‘‘
(نالۂ شب گیر۔ مشرف عالم ذوقی ص ۳۱۹)
مشرف عالم ذوقی نے روز مرہ کے پیش آنے والے واقعات و حادثات کا بہت گہرائی سے مشاہدہ کیا ہے اور اس کو سچائی کے ساتھ اپنے ناول میں سمو دیا ہے۔ ان کا لہجہ، اسلوب، اندازِ بیان سادہ اور سلیس ہے۔ کہیں کہیں علامتیں نظر آتی ہیں مگر ایہام نہیں ہے۔ ذوقی نے ناول میں ناہید ناز کے ذریعہ ان مردوں کے خلاف احتجاج پیش کیا ہے جو عورتوں کا استحصال کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان کے خلاف اپنا غم و غصہ بھی درج کرایا ہے۔ ذوقی نے بیچ بیچ میں چھوٹی چھوٹی نظمیں اور مرثیوں کا استعمال بھی کیا ہے۔ یہی وہ منفرد اسلوب ہے جسے ذوقی نے اپنایا ہے اور وہ اس نئے اسلوب کی بدولت وہ اردو ادب کو ایک نیا ڈائمنشن دینے میں کامیاب رہے ہیں۔ اپنے اسلوب اور طرزِ فکر کی وجہ سے یہ ناول اس موضوع پر لکھی جانے والی تحریروں میں زیادہ قابلِ اعتنا نظر آتا ہے۔ ناول کے سارے افراد و واقعات ٹھوس اور حقیقی نظر آتے ہیں اور ایسا شاید اس لیے ہو سکا کہ ناول کی زبان اور پیرائے بیان بھی ٹھوس، غیر جذباتی اور تعمیری ہیں۔ اس میں موزونیت اور لطافت نہیں جو شاعرانہ نثر کا حصہ ہے۔ لیکن خشک اور بے رنگ الفاظ کی اوٹ سے گہری سوچ اور عصری حقائق سے الجھنے والی فکر کی کرنیں اس طرح پھوٹتی ہیں کہ ذہن چکا چوند ہو جاتا ہے۔ ناول میں سلاست اور روانی اتنی ہے کہ ناول بوجھل نہیں معلوم ہوتا ہے اور قاری کی دلچسپی آغاز سے اختتام تک بنی رہتی ہے۔
’’مگر کیا سچ مچ ایسا ہے میڈم……..نہیں مجھے معاف کیجئے گا۔ کیا یہ دنیا اس حد تک بدک چکی ہے ؟
یہ اپنے اپنے نظریہ سے سوچنے اور دیکھنے کی بات ہے ……..،
’ہاں۔، یہ بھی ٹھیک ہے، …….نرمل اساس مسکرانے کی کوشش کر رہا تھا__’اور آپ نے صیحح کہا۔ ڈسکو چلے جائیے۔ نئی نسل کو دیکھئے۔ مرد اور عورت اور عورت مرد……..یعنی سمجھ میں نہیں آتا کہ کون کیا ہے۔ میرے بیٹی کانوں میں چھلے پہنے ہیں۔ بیٹی لڑکوں کی طرح رہتی ہے۔ شاید آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ لیکن اس بدلتی ہوئی صورت حال میں …….وہ شیشے کے کیبن سے باہر دیکھ رہا تھا__’تبدیلی بہر حال ہم ایک بڑی اور خوفناک تبدیلی کی زد میں ہیں۔ ‘‘
(نالۂ شب گیر۔ مشرف عالم ذوقی ص ۳۱۰)
نالۂ شب گیر کے بعد یہ بہ آسانی کہا جا سکتا ہے کہ ناول موضوع کے اعتبار سے قاری کو متاثر کرتا ہے اور پڑھتے وقت وہ اپنے آپ کو ناول سے وابستہ کر لیتا ہے کیوں کہ یہ تمام حالات اس کے اپنے عہد کے ہیں اور ان تمام واقعات سے وہ کہیں نہ کہیں گزرتا بھی ہے۔ ذوقی کا یہ ناول بلا شبہ دور حاضر کی تلخ سچائی ہے۔ کم کرداروں اور پر کشش لب و لہجہ کی بناء پر یہ ناول دلچسپ ہے۔ جیوتی گنگ ریپ اور انڈیا گیٹ پر انقلابی ماحول تو سبھی کے ذہنوں میں آج بھی موجود ہے لیکن ذوقی نے اپنے کرداروں کے ذریعہ نالۂ شب گیر میں ہمیشہ کے لئے درج کرا دیا ہے۔
٭٭٭