ذوالفقار نقویؔ

دھواں تھا چار سو اتنا کہ ہم بے انتہا روئے
فلک محوِ تماشا تھا، نہ کیوں تحت الثریٰ روئے

عجب حدت مرے اطراف میں جلوہ فروزاں تھی
کہ میری خاک سے شعلے لپٹ کر بار ہا روئے

کسی پتھر کے کانوں میں مری آواز یوں گونجے
کہ اس کے دل کے خانوں میں چھپا ہر اژدھا روئے

صریر ِ حدت ِ یزدانِ دوراں کیا اُتر آیا؟
اَنا سر پیٹتی آئی، جفاؤں کے خدا روئے

مرے آغاز میں مجھ کو ہی رونا تھا، سو میں رویا
نہ جانے کیوں مرے انجام پہ شاہ و گدا روئے

کریں انکار تیری خاک سے ارض و سما ء نقویؔ
عبث ہے، آنکھ بھر آئے، یا تیرا نقشِ پا روئے
٭٭٭

یہ صحرا کیوں مجھے الجھا رہا ہے
مرے قبضے میں کیا دریا رہا ہے؟

بجھا دی تھی جو میرے آنسوؤں نے
کوئی وہ آگ پھر بھڑکا رہا ہے

بہا لے جائے گا اِس کو بھی دریا
جو ٹیلہ ریت کا اِترا رہا ہے

عجب غم ہے کہ آ جاتا ہے پھر سے
مگر ہر بار منہ کی کھا رہا ہے

ہے جگنو یا اندھیرے کا شرارہ
مرے اندر وہ کیا چمکا رہا ہے

مری،منزل سے اُس کو کیا تعلق
مجھے رستے سے جو بھٹکا رہا ہے
٭٭٭

رنگ اپنا پھر دکھانے لگ گیا
حرفِ لا پھر سے پڑھانے لگ گیا

ہاتھ کیا میں نے بڑھایا اُس طرف
وہ مجھے اپنا بنانے لگ گیا

پھر ہوا کے دوش پر ہیں تلخیاں
پھر یہ موسم آزمانے لگ گیا

ایسا چمکا وہ چراغ ِ آرزو
آنکھ کی پتلی جلانے لگ گیا

صورتیں بنتی بھی ہیں ، مٹتی بھی ہیں
خاک پر وہ گل کھلانے لگ گیا

شہر میں جو شخص تھا پہچان کا
دیکھتے ہی منہ چھپانے لگ گیا

وہ مری مٹی میں پنپا اِس قدر
میرے اندر گھر بنانے لگ گیا
٭٭٭

2 thoughts on “ذوالفقار نقویؔ

  • صریر ِ حدت ِ یزدانِ دوراں کیا اُتر آیا؟
    اَنا سر پیٹتی آئی، جفاؤں کے خدا روئے

    اس شعر کو یوں پڑھا جائے ۔ ۔ ۔

    سریر حجت یزداں زمیں پر کیا اُتر آیا؟
    اَنا سر پیٹتی آئی، جفاؤں کے خدا روئے

ذوالفقارنقوی کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے