جاوید دانش کی جگر پاشیاں (مہجری ڈرامے ’’ہجرت کے تماشے‘‘)
زلفِ ’’نیم دراز‘‘ اور بالوں میں کبھی کبھی چھوٹی سی چوٹی کے باوجود جاوید دانش صاحب کے بارے میں بعض اوقات خواتین بدگمانی کے سے انداز میں پوچھتی ہیں کہ ’’جاوید دانش مجھے ’جگر‘ کیوں لکھتے ہیں‘‘ تو قہقہہ لگانے کے بعد میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ ’’فکر نہ کریں ہم سبھی ان کے جگر ہیں یعنی وہ سب کو اپنا جگری دوست سمجھتے ہیں۔ یہ ان کی محبّت (افلاطونی Platonic) کا انداز ہے کہ وہ فیس بک پر بلا امتیازِ رنگ و نسل اور جنس، سب کو جگر کہ کر مخاطب کرتے ہیں اور یقین کریں یہ کام وہ بہت نیک نیتی سے کرتے ہیں‘‘۔ بس میں یہ کہتے کہتے رک جاتا ہوں کہ ان کی ڈاڑھی کا ہی خیال کر لیں۔ جی ہاں، گھنی ڈاڑھی، گرجتی آواز اور (تقریباً) ٹکسالی لہجے میں گفتگو کرنے والے یہ لمبے چوڑے برادرِ بزرگ جاوید دانش ہیں جن کی شرارت بھری مسکراتی آنکھوں سے دنیا دیکھیں تو گدگداتی بھی ہے اور رُلاتی بھی ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جو ان کی تحریروں میں منقّش ہے اور اس کا ایک ثبوت ان کا زیرِ نظر مجموعہ ’’ہجرت کے تماشے‘‘ ہے۔ ویسے اوپر درج باتوں کو میرا بیانِ عاشقانہ قرار دے کر بزرگ خواتین کرم فرما ہمیشہ کی طرح میرے کان بھی کھینچ سکتی ہیں بلکہ زلفوں کے ذکر پہ تو وہ اس بار مجھے زلف کی اسیری کا طعنہ بھی دے سکتی ہیں مگر کان کھنچنے اور سننے کے لیے ہی تو ہیں۔
اب آئیے جاوید دانش صاحب کی جگر پاشیوں کی طرف۔
’’ہجرت کے تماشے‘‘ ڈراموں کا مجموعہ ہے جس میں بعض مختصر اور بعض قدرے طویل ڈرامے ہیں۔ اس کے سرورق کی پیشانی پر ’’مہجری ڈرامے‘‘ نہ بھی لکھا ہو تو کتاب کا عنوان خود ہجرت کے موضوع کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اسی پس منظر کے ساتھ جن کہانیوں کو موضوع بنایا گیا ہے، وہ ایسے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو ہندوستان اور پاکستان سے کسی نہ کسی سبب نقل مکانی کر کے دیارِ مغرب، بالخصوص کینیڈا آ کر آباد ہوئے اور نت نئے مسائل اور امتحانوں سے گزر رہے ہیں مگر اس کے لیے خود کو ذہنی طور پہ تیار نہیں کر سکے ہیں۔ جسمانی طور پہ تو آ گئے ہیں مگر ذہنی طور پہ نہیں آئے۔ ہجر تو ہو گیا، ہجرت مکمّل نہیں ہوئی۔ پیر آگے کی طرف ہیں، نظریں پیچھے کی طرف۔ اس کتاب کا عنوان بہت بامعنی ہے کیونکہ ہم سب تماشے ہی تو ہیں۔ سچ پوچھیں تو خود کو، اپنے معاملات اور اپنے ماحول کو دور کھڑے ہو کر دیکھیں تو رونا آئے یا نہ آئے ہنسی ضرور آئے گی۔ نئے نئے مسائل، نئی نئی حماقتیں، لہجے، زبان، حلیے، باتیں، غرض عجیب عجیب تماشے ہیں جو ہم دیکھتے اور کرتے رہتے ہیں۔
جاوید دانش مصنّف تو اچھے ہیں ہی، مقرّر بھی اچھے ہو سکتے ہیں (یا شاید ہوں) کیونکہ انھیں گفتگو کرنا خوب آتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے مکالمے بھی دلچسپ، بھرپور اور پڑھنے، سننے دونوں سے تعلّق رکھتے ہیں۔ وہ ’’آوارگی‘‘ کے نام سے مصاحبے (انٹرویو) کا ایک سلسلہ بھی مستقل مزاجی سے جاری رکھے ہوئے ہیں جس میں کی جانے والی گفتگو میری درجِ بالا باتوں کا ثبوت ہے۔ گفتگو ایک فن ہے اور اس میں فنّی خرابی ہو تو سننے والے کے لیے مشکل ہو جاتی ہے۔ مگر جاوید دانش کو گفتگو کا فن بھی آتا ہے اور شاید مزہ بھی۔ ان سے بات کر کے ان کی الفاظ یا زبان سیکھنے اور برتنے پہ دسترس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ انھیں مختلف زبانوں پر بھی عبور حاصل ہے اور لہجوں پر بھی۔ اس کا ایک اور ثبوت ان کی داستان گوئی بھی ہے۔ وہ داستان گوئی کی محفل میں جب کسی کردار میں ڈھل کر داستان کا حصّہ بنتے ہیں تو آپ ان کے لہجوں پر عبور کے معترف ہو جاتے ہیں اور یہ فن اچھے مشاہدے کے بغیر نہیں آتا۔
ڈرامے کے کردار اگر اپنی یا اپنے ماحول کی زبان نہ بولیں تو فوراً پکڑے جائیں۔ آج کل ٹی وی کے لیے لکھنے والے کچھ ڈرامہ نویس ایسے بھی ہیں کہ ان کے کسی ڈرامے کے کسی کردار کو دیکھ لیں، مصنّف کا نام دیکھے بغیر کردار چغلی کھاتا ہے کہ یہ ڈرامہ کسی نہ کسی خلیل الرّحمان قمر نے لکھا ہے۔ نہ کرداروں کے سوچنے کے انداز میں تنوّع، نہ مکالمے میں۔ ہر ڈرامے کا ہر کردار ملے جلے انداز سے سوچتا اور بولتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے والا کردار کے قریب نہیں گیا۔ اس پہ مکالموں میں ایک خبطِ عظمت کے احساس کے ساتھ صوفیانہ اور فلسفیانہ خول سونے پہ سہاگا۔ مگر مقبولیت کی دورِ حاضر کی یہ کسوٹی بھی محلِّ نظر ہے کہ عوام النّاس اسے بھی خوبی کہ کر تالیاں بجاتے نظر آتے ہیں۔ خیر یہ بیماری ڈرامے تک محدود نہیں، فن کے ہر شعبے کے ساتھ ہمارا یہی رویّہ ہے۔ البتہ جاوید دانش کے ہاں معاملہ ایسا نہیں ہے۔ ان کے کردار واضح اور اپنی اپنی جگہ پر ہوتے ہیں، جو اپنی بات کرتے ہیں اور اپنی زبان بولتے ہیں لہٰذا ان کے کرداروں کی زبان عموماً کردار سے انصاف کرتی نظر آتی ہے۔ وہ نہ صرف زبان کا بلکہ کردار کے لہجے کا بھی خاص خیال رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی کردار نگاری زندہ اور بولتے ہوئے کردار بہت کامیابی سے پیش کرتی ہے۔
جاوید دانش کے ہاں (مرد) کرداروں کا اکثر کوئی نہ کوئی تکیہ کلام ہوتا ہے لیکن اس سے یکسانیت پیدا نہیں ہوتی۔ یہ بات مجھے اس کتاب کے مطالعے دوران بار بار یاد آئی کہ ایک زمانے میں پی ٹی وی لاہور کے ڈراموں میں یہ بہت ہوتا تھا۔ میرا خیال ہے جاوید دانش اپنے مکالموں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے تکیہ کلام کا اچھا استعمال کرتے ہیں اور بعض اوقات وہ اس سے شگفتگی بھی پیدا کر لیتے ہیں۔ ان کے ڈراموں میں ہلکے پھلکے مزاح کا عنصر جا بجا ملتا ہے جو خود ان کا مزاج بھی ہے۔ وہ خوش مزاج ہیں اور سنجیدہ ڈراموں میں بھی کہیں نہ کہیں شگفتگی کا احساس پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اس مجموعے میں شامل ڈراموں کا موضوع ہجرت یا نقل مکانی کے بعد پیدا ہونے والے مسائل اور المیے ہیں اور کہانیوں میں انھِیں معاملات کی زیریں لہریں متحرّک رہتی ہیں۔ ان کے اکثر کرداروں کا المیہ یہ ہے کہ ’’نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے ‘‘ جو مغرب میں بسنے والے اکثر مشرقی مہاجرین کا مشترکہ المیہ ہے۔ ایک نئی زمین پہ ایک نئی دنیا سے روشناس ہوتے لوگوں کو ملنے والے تہذیبی صدمے، ہجرت کے بعد نئی دنیا میں نئی قدروں اور نئے طور طریقوں کا سامنا اور ذہن و دل کا انھیں قبول کرنے میں تامّل برتنا، اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے نتائج اور ان کے بارے میں مختلف خیالات کا اظہار، عام آدمی کی نمائندگی اور بعض اوقات ان سے جڑے مختلف فلسفے زیرِ بحث لے آنا، یہ سب ان کے ڈراموں کا نچوڑ ہے۔ ان کی کہانیوں میں تہذیبی تصادم بھی نظر آتا ہے اور نسلی تصادم بھی۔ نسل پرستی کا احساس بھی اور ایک ہی خاندان کی مختلف نسلوں کے درمیان ہونے والی کشمکش بھی۔ خاندانوں کی، اقدار کی اور تصوّرات کی شکست و ریخت اور کشمکش سے جو الجھنیں اور المیے جنم لیتے ہیں اور پختہ نظریات اور عقائد جس طرح منہدم ہو کر لوگوں کو کسی بے گھر کی طرح بے سایہ آسمان کے نیچے لا کھڑا کرتے ہیں، ان ڈراموں میں نہ صرف ان کی ترجمانی ہے بلکہ مسائل کے حل بھی تجویز کیے گئے ہیں۔
ڈرامہ دیکھنے کی چیز ہے سو اس کی منظر نگاری کی اہمیت سے سبھی واقف ہیں۔ جاوید دانش کے ہاں منظر نگاری بقدرِ ضرورت ہوتی ہے۔ اطراف میں کیا ہے، ماحول کیسا ہے، کرداروں کے حلیے وغیرہ۔ جب وہ منظر کھینچتے ہیں تو اس کی ظاہری جزئیات کے ساتھ، بلکہ اس سے بھی زیادہ احساس، جذبے، کہانی اور مکالمے پر زور دیتے ہیں اور اسی سے ماحول پیدا کر لیتے ہیں اور آپ مکالمہ پڑھ کر، کردار کا حلیہ بھی دیکھ سکتے ہیں۔
اس کتاب میں شامل بعض چھوٹے چھوٹے خاکہ نما ڈرامے ہیں، جیسے ’’ہجرت کے تماشے ‘‘ اور ’’کنوارے بھلے ‘‘ جو اسٹیج کے خاکے کی شکل میں لکھے گئے ہیں اور اپنے مخصوص کرداروں کے ظاہری اور فکری نقوش دکھاتے ہیں۔ جبکہ بعض دیگر ڈرامے مکمّل کہانیاں اور زندگی کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان تمام کہانیوں میں دو کا ذکر میں خاص طور سے کرنا چاہوں گا۔ ایک ہے ’’ایک تھی روحی‘‘ اور دوسرا ’’بڑا شاعر چھوٹا آدمی‘‘۔ ’’ایک تھی روحی‘‘ زوردار اور بھرپور خود کلامی (مونولاگ) پر مشتمل آرٹ کا نمونہ ہے۔ اسٹیج پر پوری توانائی اور جذبے کے ساتھ دیکھنے اور سننے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لینے کی صلاحیت رکھنے والا یہ ڈرامہ علامات اور دکھ کے جذبوں سے معمور ہے۔ اسی طرح ’’بڑا شاعر چھوٹا آدمی‘‘ ایک بہت اچھا اور بھرپور ڈرامہ ہے۔ اس میں اونچے سنگھاسن پر بٹھائے گئے لوگوں کی سماجی زندگی کے تکلیف دہ کاروباری پہلوؤں اور خود غرضی کی عکاسی کی گئی ہے اور ڈرامہ اپنے دیکھنے (یا پڑھنے) والے پر ایک تکلیف دہ تاثر چھوڑ جاتا ہے۔
اس کتاب میں شامل کئی اچھے ڈرامے ہیں جن کا مختصر تذکرہ کرنا چاہوں گا جیسے ’’مکتی‘‘۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو مشرق اور مغرب دونوں کے لیے متنازع موضوع یعنی ایڈز اور ہم جنسوں سے متعلّق ہے۔ ’’عید کا کرب‘‘ نسلوں کے درمیان فکری اور تہذیبی فاصلے دکھاتا ہے۔ ’’کوئل جان‘‘ ایک نئی دنیا کا خواب ہے جہاں تیسری جنس کو بھی انسان سمجھا جائے گا۔ ’’نئی شاخ زیتون کی‘‘ امن کا خواب لیے ایک اچھا پیغام دیتا ڈرامہ ہے۔ ’’جیون ساتھی کلینک‘‘ بہت سنجیدہ موضوع پر ایک ہلکا پھلکا سا خاکہ ہے۔ ’’کینسر‘‘ ایک بہت جاندار ڈرامہ ہے جو مرسی کلنگ کے موضوع پر معاشرے پہ سوالات اٹھاتا ہے۔ ’’چالیس بابا ایک چور‘‘ میں اسی مجموعے میں شامل مختلف ڈراموں کے کردار جمع ہو گئے ہیں۔ اس میں کہانی تو آخر میں ہے، باقی دیسیوں کی بازاری زندگی کی جھلکیاں ہیں، کسی ڈاکومنٹری یا دستاویزی فکشن کی طرح۔ اس کے علاوہ ’’نو دو گیارہ‘‘ – 11/9 میں عربی اور انگریزی میں جو خطبہ ہے وہ قابلِ غور ہے۔
سب سے پہلا ڈرامہ ’’ہجرت کے تماشے‘‘ ہے جس میں ایک کمیونٹی سینٹر میں لوگوں کے مسائل سننے کا گویا تھیراپی سیشن ہوتا ہے۔ اس میں بعض کرداروں کا یکجا ہونا سوچنے پہ مجبور کرتا ہے۔ مثلاً فلسفی جو اکثر بے خود رہتا ہے، وہ تو بے خودی کے عالم میں وہاں چلا گیا ہو گا مگر ساتھ ہی ایک ترقی پسند شاعر اور ایک جدے دیت کا شاعر بھی جو اپنے نظریے اور فکر میں بہت واضح اور پختہ ہیں، ایسے سر پھروں کا اس طرح کی تھیراپی میں ہونا، کچھ اجنبی سا لگتا ہے کیونکہ یہ علامتی ڈرامہ نہیں ہے۔ یہ اگرچہ کسی ماہر نفسیات کا سیشن نہیں تھا پھر بھی اس کا انداز اس سے ملتا جلتا ہی ہے اور ایسے تخلیق کاروں کو وہاں دیکھنا آسان نہیں، ساقی فاروقی صاحب کی مثال انتہائی صحیح مگر وہ سائیکو تھیراپسٹ کو Psycho the rapist اور سائیکو تھیراپی کو سائیکولوجی کا ریپ کہتے تھے۔ پھر وہاں سنجیدہ بحث ایسے لوگوں سے مخاطب ہو کر بھی کی جا رہی ہے جو بالکل مختلف فکری دنیا کے باسی ہیں جیسے ایک بچہ اور ایک چائے کے ہوٹل پہ کام کرنے والے۔ ڈرامے میں ان لوگوں کی جدّ و جہد دکھائی گئی ہے جو زندگی بنانے کی تگ و دو میں راستہ تلاش کرتے کرتے تھکنے لگتے ہیں جیسے نووارد ڈاکٹر اور اس کی بیگم، جنھیں ابھی آئے صرف دو سال ہوئے ہیں اور وہ توقّعات کے برعکس ملنے والے ماحول سے گھبرا گئے ہیں گویا وہاں بہت وقت گزار چکے ہوں۔ جاوید دانش نے چونکہ مہاجروں کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے، یہ کردار ان کے دیکھے بھالے معلوم ہوتے ہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ یہ سب کردار انھوں نے خود ایک چھت کے نیچے دیکھے ہوں۔
’’کنوارے بھلے ‘‘ ایک اچھا دلچسپ ڈرامہ ہے۔ البتّہ اس میں جاوید دانش کی کردار نگاری اور مکالمے اپنے دوسرے ڈراموں کی نسبت کچھ لگے بندھے سے معلوم ہوئے۔ مجبوری اپنی جگہ کہ یہ اردو ڈرامہ ہے ورنہ اس کے کچھ کرداروں کو انھیں اتنی اچھی اردو بولنا آنا نہیں چاہیے جیسی وہ بول رہے ہیں۔ دیگر کردار لیکن اپنی زبان اور انداز کو پوری طرح نبھاتے نظر آتے ہیں۔ یہ کہانی بڑے دلچسپ موڑ پہ ختم ہوتی ہے جب پتہ چلتا ہے کہ ایک ہی گھر میں رشتے کی غرض سے ملی بھگت کر کے جانے والے تینوں لڑکے در اصل آپس میں دوست ہیں۔
تتّمہ یہ کہ آپ کو اگر مشرق سے یہاں آ کر بسنے والے لوگوں کی زندگی کے حالات جاننا اور ان کی جدّ و جہد اور اچھی زندگی کے حصول کی راہ میں کھونے اور پانے کا تماشہ دیکھنا ہے تو جاوید دانش کے یہ ڈرامے پڑھیے۔ اس میں بہت سے کردار اور بہت سی زندگیاں آپ کو چلتی پھرتی نظر آئیں گی۔ وہی زندگیاں اور وہی کردار جو کینیڈا اور امریکہ کی سڑکوں اور گھروں کے ڈرائنگ روم میں جا بجا باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کامیابی سے اپنے اطراف کی تصویریں کھینچ کر ان کی چلتی پھرتی ترجمانی کرنا جاوید دانش صاحب ہی کا کام ہے۔ اس کوشش میں اکثر لوگ ہیجان کا شکار ہو کر واہی تباہی بکنے لگتے ہیں مگر جاوید دانش ان لوگوں کی طرح فکری اور تحریری تشنّج کا شکار نہیں ہوتے بلکہ ان الجھے اور طنز کے زہر آلود تیر برساتے لوگوں سے دور کھڑے، ہنستے مسکراتے زندگی کو دیکھتے جاتے ہیں اور اس کی نقش گری اپنے قلم سے کرتے چلے جاتے ہیں۔
٭٭٭
’’نقوشِ پائے رفتگاں ‘‘ ایک جائزہ
ستیہ پال آنند صاحب کی خود نوشت ’’نقوشِ پائے رفتگاں ‘‘ پہلی بار پڑھی تو یہ قندِ مکرّر تھا کہ اس سے پہلے ان کی سوانح عمری ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ پڑھ چکا ہوں اور اس کے حوالے سے کچھ گزارشات بھی کر چکا ہوں۔ اس میں ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ سے خاصے اقتباسات ہیں اور کچھ اضافے بھی ہیں۔ ہمارے ایک بہت اچھے نثر اور مزاح نگار احمد رضوان جنھوں نے اس کتاب کو ترتیب دیا ہے، اس میں ان کا دیباچہ بھی شامل ہے۔
کتاب میں بہت کچھ ایسا ہے جو گزرے زمانوں کی تصویریں دکھاتا ہے، جس سے بڑی شخصیتوں، ان کی باتوں، ان کے خیالات اور ستیہ پال صاحب سے ان کے مراسم کا بھی پتہ چلتا ہے اور ان کے نظریات کے بارے میں ستیہ پال صاحب کے خیالات کا بھی۔ یقیناً ان تاریخ ساز شخصیتوں کے ساتھ گزرا وقت قابلِ رشک ہے۔ ان لوگوں کی گفتگو میں البتہ ایک بات جو شدّت سے محسوس ہوئی وہ یہ تھی کہ اردو ادب اور شعری اصناف کے بارے میں ستیہ پال صاحب کے جن خیالات سے ہم واقف ہیں، کم و بیش وہی باتیں ان کی یادداشتوں میں جگہ جگہ گفتگو میں آ رہی ہیں۔ ان کی زیادہ تر گفتگو کا محور وہی موضوعات ہیں جو ستیہ پال صاحب کی پہچان ہیں مثلاً اردو زبان و ادب اور ادیبوں سے شکایت، روایتی شاعری اور اس سے بیزاری اور غزل پر اعتراضات۔
تلوک چند محروم صاحب سے بات شروع ہوتی ہے۔ ستیہ پال صاحب کی خوش قسمتی کہ بچپن ہی میں ان کے قدموں میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ یہی وجہ ہے اور اس کی تائید خود آنند صاحب نے بھی کی ہے، کہ ان کے ادبی نظریات پر تلوک چند محروم صاحب کا بہت بنیادی اثر ہے۔ ستیہ پال صاحب کی بچپن کی تصویر تو شاید نہیں دیکھی مگر جوانی کی دیکھی ہے، وہ جوانی کی وجاہت کی طرح بچپن میں بھی یقیناً خوبرو ہوں گے اور انھیں خود بھی اس کا احساس تھا جس کا اندازہ ’’میرے لڑکپن کے بے داغ چہرے ‘‘ جیسے جملے سے ہو سکتا ہے۔ یہ جملہ میں نے اس لیے لکھا کہ مجھے بھی پڑھ کر مزہ آیا۔ ایک اور دلچسپ جملہ ’’کچھ ایسے ڈیسک تھے جن پر چاقوؤں سے الّم غلّم کھدا ہوا تھا، ایسا لگتا تھا جیسے ہر سال لڑکے بودھ غاروں میں اور بھکشوؤں کی طرح اپنی یادیں کندہ کر کے یہ یقینی بناتے تھے کہ آنے والے برسوں میں نئے لڑکے ان سے مستفید ہوں ‘‘ پڑھ کر لطف آیا۔ اسی حصّے میں تلوک چند محروم نے اردو اور اردو والوں یا یوپی والوں سے شکایت کا اظہار کیا ہے، میرے خیال میں وہ شکایتیں کچھ زیادہ کر گئے مگر شاید میں اس کا ذکر ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ والے مضمون میں کر چکا ہوں۔ ایک شکایت تو یقیناً بجا ہے جس پر آزاد، حالی جیسے بزرگوں نے بھی اپنے اپنے انداز سے تنقید کی ہے، وہ ہے فارسی کے مضامین اور موضوعات کو ٹکسال بنا کر تقلیدی راہ پہ چلتے رہنا۔ ہاں، لیکن ریگستان، جنگل وغیرہ کو باندھنے پر یہ اعتراض کہ شاعروں نے اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا ہو گا، تو یہ ضروری نہیں۔ ہم جیسے لوگ یہ جھلکیاں پاکستان میں دیکھ سکتے ہیں تو پورے ہندوستان میں کیا واقعی ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی! البتہ مجموعی طور پہ ان کا اعتراض بجا ہے کہ ایسی بہت سی چیزیں باندھ دی جاتی ہیں جنھیں صرف سنا ہو۔ شاعری میں مذکر کے صیغے کے حوالے سے جو لکھا ہے، اس کی بھی ایک سے زیادہ پرتیں ہیں۔ اسے امرد پرستی سے جوڑنا بھی ایک پہلو ہے مگر لازمی نہیں۔ جہاں اس کا اطلاق ہوتا ہے وہاں تو ٹھیک ہے لیکن اس کی جو مثال دی گئی ہے ’’کہا جو اس نے مرے پاؤں ذرا داب تو دے ‘‘ تو اس مثال سے میں اختلاف کروں گا۔ اس شعر میں تو آپ زن مرید، ناز پروری اور دوسری کئی چیزیں بھی ڈھونڈ سکتے ہیں۔ ایک اور بات، جہاں فارغ البالی کا ذکر ہے تو یہ اصطلاح اصل میں گنجے پن کے بجائے فکری آزادی کے معنی میں استعمال ہوتی ہے۔
اختر الایمان صاحب سے ان کی ملاقات بھی اختر الایمان کے بارے میں بہت کچھ جاننے میں مدد دیتی ہے۔ اس یادداشت کے ساتھ اگر یہ بھی لکھا ہوتا کہ کب کی ہے تو اور اچھا ہوتا۔ ان کی بات چیت کا موضوع زیادہ تر نظم میں اظہار کے اسالیب، غزل کی رومانی فضا اور بلند آہنگی ہے۔ فارسی آمیز اصطلاحات سے گریز اور کھل کر اظہار کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ فیض کے حوالے سے تنقیدی گفتگو اور ان کے ادبی اسلوب پہ کڑی نکتہ چینی کی گئی ہے۔ زیادہ تر ان کی باتوں کا نچوڑ بھی وہی تھا یعنی کلیشے سے بیزاری۔ ستیہ پال صاحب اس ملاقات میں ان کی باتوں کے نوٹس بھی لیتے رہے اور ان سے دل کی باتیں بھی کرواتے رہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کچھ باتیں ایسی ہیں جو وہ عموماً کرتے نہیں تھے۔
جوش ملسیانی کے بارے میں جو کچھ ان کی تحریر سے معلوم ہوا وہ جوش ملسیانی کی شخصیت اور ادبی رویے کا پتہ دیتا ہے۔ جہاں سیکھنے کا عمل ہے وہیں بالآخر ان سے گریز کا ذکر بھی ہے۔ ڈاکٹر تھامس گرے والا حصّہ بھی خاصہ معلوماتی ہے۔ دیگر شخصیات کے حوالے سے بھی کچھ یادیں، کچھ باتیں، کچھ شخصی پہلو، بڑوں کی بڑائیاں، زندگی کے فلسفے، سادگی اور کافی کچھ جو ہمیں فکر کی دعوت دیتا ہے، اس کتاب میں ہے۔ ادبی معاملات پر اظہارِ خیال اور بعض تنقیدی تحریریں بھی اس میں ہیں۔ لیکن تلوک چند محروم کی یادوں کے بعد جن مضامین کو میں خاصے کا کہوں گا وہ ہیں سروجنی نائیڈو، ڈاکٹر وزیر آغا اور راجندر سنگھ بیدی سے متعلّق۔
بلبلِ ہند سروجنی نائیڈو پر یہ مضمون یقیناً پڑھنے سے تعلّق رکھتا ہے جس میں سروجنی نائیڈو کی نظموں کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور ان کی شاعری کے مختلف پہلوؤں کو سامنے لایا گیا ہے۔ تراجم تو ہیں ہی مگر ان کے شعری محاسن پر گفتگو ادب کے طالب علموں کے لیے بہت اہم ہے جس میں منظر نگاری، تشبیہات، نظموں کی مجموعی فضا اور احساسات کی ترسیل جیسی نمایاں خصوصیات شامل ہیں۔ اس کا خلاصہ آخر میں یوں ہے کہ ’’مصوری یا لفظوں کی صنّاعی تک ہی یہ قدرت محدود نہیں، بلکہ مضمون، پیکر تراشی، انگریزی کے رومان پرور اسلوب میں بیانیہ اور پھر اس میں اشاراتی اور علامتی رموز کے تانے بانے۔۔ ۔۔ ‘‘۔
راجندر سنگھ بیدی سے ملاقات اور ان کا اپنی ذات اور زندگی کے بارے میں کھل کر باتیں کرنا بھی دلچسپ ہے۔ اردو والے بے چارے یہاں بھی طعنے تشنے کا شکار رہے جن کی وجوہ بھی اگرچہ بتائی گئی ہیں مگر پوری کتاب کی فضا سے لگتا ہے کہ یا تو ہندوستان کے پنجابی حضرات کی گفتگو میں یہی باتیں حاوی رہتی تھیں یا انھیں ستیہ پال صاحب سے ایسی باتیں کرنے میں سہولت ہوتی تھی یا پھر ستیہ پال صاحب خود ان کے ایسے خیالات جاننے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ بہرحال، میرے نزدیک دونوں طرف کے لکھنے والوں کو خلیجیں پاٹنے کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے اور رہے گی۔ اس مضمون میں بیدی کے افسانوں پر بھی اظہارِ خیال کیا گیا ہے جو غالباً کسی مضمون کا اقتباس ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا اس کتاب کی وہ دوسری اہم شخصیت ہیں جنھوں نے ستیہ پال صاحب کے ادبی اور فکری سرمائے اور خدوخال پر گہرا اثر ڈالا ہے جس کا کھلے دل سے ستیہ پال صاحب اعتراف بھی کرتے ہیں۔ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ وہ اس اعتراف میں ہچکچاتے نہیں بلکہ مجھ سے کئی بار براہِ راست گفتگو میں بھی انھوں نے ڈاکٹر وزیر آغا کا ذکر بہت عقیدت سے کیا ہے کہ وہ انھیں بہت مانتے تھے اور مانتے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا سے ان کی خط و کتابت اور ٹیلی فون رابطوں میں ایک تسلسل رہا جن میں بہت سے معاملات زیر بحث آتے رہے اور ان کا ذکر اس مضمون یا یادداشتوں میں موجود ہے۔ ان میں نظم، اس کے محاسن، اس کا فلسفہ اور دیگر پہلوؤں پر خیالات کا تبادلہ اور تنقیدی مسائل پر گفتگو شامل ہے۔ گھسی پٹی شاعری، جو نہیں ہونا چاہیے اور وہ جو ہونا چاہیے، نیز با اثر حلقوں کی طرف سے عدم توجہی وغیرہ کا ذکر بھی رہا۔ عالمی ادب پر تبادلۂ خیال بھی اس میں شامل ہے۔ ایک جگہ جہاں میں ٹھٹھکا وہ یہ تھی کہ اختر الایمان سے گفتگو میں جہاں کھل کر، نام لے کر، بلند آہنگ اظہار کرنے کو دونوں فریقوں نے بہت زیادہ ضروری کہا اور مانا تھا، وہیں ڈاکٹر وزیر آغا سے گفتگو میں ایسے ادب کو دونوں طرف سے ناپسندیدگی کی نظر سے بھی دیکھا گیا ہے اور اسے وقتی ادب کہا گیا ہے۔ ساتھ ہی وزیر آغا کے کلام میں اس جہت کے نہ ہونے کو ہی خصوصیت بھی مانا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان دونوں ملاقاتوں میں غالباً خاصہ زمانی فاصلہ موجود ہو گا اور وقت کے ساتھ خیالات بدلتے بھی ہیں اور بدلنا بھی چاہیے۔ یا ممکن ہے دونوں باتیں محض ایک خاص تناظر میں، نہ کہ قطعیت کے ساتھ کی گئی ہوں۔ اسی مضمون میں ایک مقام پر ستیہ پال صاحب نے ان بزرگوں کا ذکر کیا ہے جن کا ان کی ادبی اور فکری تربیت میں کردار رہا یا جن سے انھوں نے بہت کچھ پایا اور ساتھ میں انھوں نے ہم سے، خود کلامی کے انداز میں، یہ سوال بھی کیا ہے کہ ’’کیا کسی نوجوان نے مجھ سے کچھ سیکھا بھی ہے کہ نہیں ‘‘۔ یہ اقتباس من و عن ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ سے ہے اور میں نے تب بھی اس بات کا جواب اپنی ایک تحریر میں دیا تھا مگر اب ذرا تفصیل سے دیتا ہوں۔ نوجوانوں نے ان سے سیکھا، اس میں کوئی شک نہیں، آپ کو ان کے گرد طالب علم اکثر دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ میں یہ آسانی سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھ جیسے طفلِ مکتب نے ان سے ضرور سیکھا ہے جس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ میں نے مضمون کی صورت میں ستیہ پال صاحب کے کلام پر اظہارِ خیال سے پہلے محض گنے چنے مضامین لکھے ہوں گے، وہ بھی مجلسی ضرورت کے تحت، نہ کہ باقاعدہ کسی کتاب یا ادب پارے پر طبع زاد تحریر کے طور پر۔ ستیہ پال صاحب کی نظموں پہ میں نے ایک سے زیادہ دفعہ مضامین لکھے مگر میرے اندر ایک شرم اور لحاظ بچپن سے ہے جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہمیں سکھایا گیا ہے کہ بزرگوں کے آگے آواز نیچی رکھو اور خطائے بزرگاں گرفتن خطا است۔ تو میں اختلافی یا تنقیدی بات کرتے وقت واپسی اور معذرت کے راستے کھلے رکھتا تھا تاکہ بے ادبی نہ ہو۔ یہ کسرِ نفسی یا اظہارِ عجز نہیں تھا بس بزرگوں کی جوتیاں سیدھی کرنے کی عادت تھی۔ ایک بار ایسی ہی کسی بات پہ ستیہ پال صاحب نے مجھے ٹوکا، کہنے لگے کہ جب اپنی بات کہ دی ہے تو اس کے ساتھ یہ سب کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو صحیح سمجھ رہے ہو لکھ دو اور بس۔ ستیہ پال صاحب کی یہی نصیحت تھی جس نے میری الجھن دور کر دی کہ ادب کرنے اور ادب لکھنے میں سے کیا زیادہ ضروری ہے۔ لہٰذا اب اگر میں کہیں اپنی رائے کا اظہار کرتے وقت تخلیق کار کی عمر اور مقام کو، بزعمِ خود، ایک طرف رکھ دیتا ہوں تو یہ میں نے ستیہ پال صاحب سے ہی سیکھا ہے۔
آخر میں ساقی فاروقی صاحب کے حوالے سے ایک اعترافی مضمون ہے۔ یہ بات ایسی ہے کہ بہت دور سے اس پر کچھ کہنا، سننا یا ماننا محض پڑھنے والے کی صوابدید پر منحصر ہے۔ میں دست بستہ یہی کہوں گا کہ جو ان کی زندگی میں نہیں کہا، اب بھی نہ کہتے تو شاید بہتر ہوتا۔ اب یہ ’’اعتراف‘‘ شاید اپنی نوعیت میں اتنا اہم نہیں رہا۔ اس سے ساقی فاروقی کی طرح ستیہ پال آنند صاحب پر بھی سوال اٹھ جائے گا اور سوال بھی ایسا جس کا جواب ملنا اب نا ممکن ہے۔ لہٰذا میری ناچیز رائے میں یہ وہ یادداشت نہیں جو دوسری کتاب میں شامل ہونا چاہیے تھی۔
خلاصہ یہ کہ یہ کتاب ایک نہایت اہم دستاویز ہے اور جن شخصیات کے بارے میں اس میں تحریریں شامل ہیں، ان پر کام ہو گا تو اس کتاب سے یقیناً رجوع کیا جائے گا یا کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے ستیہ پال صاحب کو بھی مبارکباد اور اشاعت کے سلسلے میں احمد رضوان کی محبت اور کوششوں پر انھیں بھی مبارکباد۔
٭٭٭