دو نظمیں ۔۔۔ مصحف اقبال توصیفی

ایک نظم

__________________

 

(؎ اور تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ پھرتا تھا)

 

رات تھی۔ اندھیرا تھا

اپنے خواب سے اُٹھ کر

میں نے ایک در کھولا

اور میں نے کیا دیکھا؟

دور۔ جو مکاں ہے وہ

ہاں۔ یہی مکاں ہے وہ

جس میں، میں نہیں رہتا

اور مجھے نظر آئے

اس کے کچھ مکیں ایسے

رشک باغ جنت لوگ

میں نے پھر نہیں دیکھے

ایسے خوبصورت لوگ

 

ایک زنگ خوردہ گیٹ

کھول کر میں جب آیا

اُس مکان کے اندر

میں نے دیکھا یہ میں تھا

لکھ رہا تھا جانے کیا

ایک میز پر جھک کر

اک پلنگ کے نیچے

ایک گیند۔ اک بلّا

اک کواڑ۔ کھونٹی پر

اک سفید اچکن تھی

میرے پیارے ابّو کی

ہر طرف اجالا تھا

میری ماں کی ممتا کا

 

اب یہ سوچتا ہوں میں

جانے کون ساعت تھی

اس بھری جوانی میں

خود سے کیسے بچھڑا تھا

گھر سے جب میں نکلا تھا

ایک دل دھڑکتا تھا

ایک جسم تھا میرا

اب جو لوٹ آیا ہوں

کچھ نہیں بچا میرا

اک گم شدہ کردار

وقت کی کہانی میں

جیسے کوئی سایہ ہوں

دیکھتا ہوں پانی میں

بہہ رہا ہوں اپنے ہی

اشک کی روانی میں

٭٭٭

 

 

 

 

میں نے اس کو غور سے دیکھا

___________________________

 

ہم دونوں نے

مٹی کھودی

نیچے دیکھا۔ ہاتھ اُٹھائے

ہاتھوں میں۔ یہ کیا!

مٹی کے نیچے بھی مٹی تھی

 

دھول میں سر سے پاؤں تک ایسے

ہم دونوں اَٹے ہوئے تھے

لیکن اس کی آنکھوں میں

میں نے ایک چمک دیکھی

اس کے گرد اک نور کا ہالہ

اس کا سارا سراپا…

 

لیکن۔

یہ کیا

وہ مٹی۔

میرے ہاتھ میں مٹی

اس کے ہاتھ میں سونا تھی…

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے