دو نظمیں ۔۔۔ سلیم انصاری

سفر ۔۔ بے چہرگی کا

­____________________________

 

 

میرے مالک

تازہ سفر کی کون سی یہ منزل ہے جہاں پر

میری بیٹی کی آنکھوں میں

خواب نہیں اندیشے ہیں

میرے بیٹے کے لفظوں میں

مستقبل کی دھندلی دھندلی تصویریں ہیں

میری بیوی کے چہرے پر

مجھ سے بچھڑ جانے کا خوف چمکتا ہے

میری نظر میں

جلتی بجھتی امیّدوں کے سائے ہیں

میرے مولا

کب تک ہم کو

عدم تحفّظ کا آسیب ستائے گا

کب تک یونہی

بے سمتی کے دشتِ سفر میں

چلتے رہیں تو

شہرِ یقیں تک پہنچیں گے

٭٭٭

 

 

 

خود غرضی

­____________________________

 

 

اتنی آگ کہاں سے لاؤں

جو سب کچھ خاکستر کر دے

پیار، خلوص، وفا، ہمدردی

انا ، ضمیر، خود داری

یعنی۔

میرے جسم کا سارا سونا راکھ بنا دے

دل سے آنکھ  تک  آنے  والے

ہر رستے پر خاک  بچھا دے

ذہن  کی بنجر مٹی پر جو خود غرضی کے پھول کھلا دے

ایسی آگ کہاں سے لاؤں

اتنی آگ کہیں سے مجھ کو مل جائے تو

میں بھی دنیا داری کر لوں

میں بھی کچھ دن ڈھونگ رچا لوں

خوش رہنے کا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے