سفر ۔۔ بے چہرگی کا
____________________________
میرے مالک
تازہ سفر کی کون سی یہ منزل ہے جہاں پر
میری بیٹی کی آنکھوں میں
خواب نہیں اندیشے ہیں
میرے بیٹے کے لفظوں میں
مستقبل کی دھندلی دھندلی تصویریں ہیں
میری بیوی کے چہرے پر
مجھ سے بچھڑ جانے کا خوف چمکتا ہے
میری نظر میں
جلتی بجھتی امیّدوں کے سائے ہیں
میرے مولا
کب تک ہم کو
عدم تحفّظ کا آسیب ستائے گا
کب تک یونہی
بے سمتی کے دشتِ سفر میں
چلتے رہیں تو
شہرِ یقیں تک پہنچیں گے
٭٭٭
خود غرضی
____________________________
اتنی آگ کہاں سے لاؤں
جو سب کچھ خاکستر کر دے
پیار، خلوص، وفا، ہمدردی
انا ، ضمیر، خود داری
یعنی۔
میرے جسم کا سارا سونا راکھ بنا دے
دل سے آنکھ تک آنے والے
ہر رستے پر خاک بچھا دے
ذہن کی بنجر مٹی پر جو خود غرضی کے پھول کھلا دے
ایسی آگ کہاں سے لاؤں
اتنی آگ کہیں سے مجھ کو مل جائے تو
میں بھی دنیا داری کر لوں
میں بھی کچھ دن ڈھونگ رچا لوں
خوش رہنے کا
٭٭٭