چاروں اَور بے لگام انسانوں کی دھکم پیل اور بے معانی شور و غوغا اپنے جلو میں عجیب سے اضطراب کو عیاں کرتا تھا۔ ایسے میں میں لاہور کے اِس مصروف ریلوے اسٹیشن کے بک اسٹال پر کھڑا کسی رسالے کی ورق گردانی کر رہا تھا۔ مجھے کچھ خریدنا نہیں تھا، محض وقت گزاری کیلئے خود کو مصروف کرنا تھا اور اپنے اِس مقصد میں کامیاب رہا تھا کیونکہ اسٹیشن پر موجود مسافروں کی نہ سمجھ میں آنے والی حرکات میری توجہ اپنی جانب مبذول نہیں کر رہی تھیں۔
تب ریلوے اسٹیشن انسانوں کی دُنیا میں اپنی الگ پہچان اور ثقافت رکھتے تھے اور مجھے اپنی زندگی کی مصروفیات سے کٹ کر اِس ماحول میں کچھ وقت گزارنا مرغوب ہوا کرتا تھا۔ نہ جانے کیوں آج مجھے یہ سب کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ بک اسٹال کا مالک مجھے اُمید بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اُس کی نظریں مجھے کچھ شرمسار کئے دے رہی تھیں کیونکہ میں اُس کی خاص ترتیب سے رکھی ہوئی کتابوں سے چھیڑ چھاڑ تو کر رہا تھا مگر اُن میں سے کوئی بھی کتاب خریدنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔
ایسے میں میرے کندھے پر کسی ہاتھ کا لمس اپنی ہویت کا احساس دے گیا۔ میں چونکا۔ کانوں میں جلترنگ سی بج اُٹھی ’’دوست!‘‘
میں آہستگی سے پلٹ گیا۔ دیکھا، نازو اپنی جگمگاتی آنکھوں میں شرارت کی لپٹیں لئے مجھے ایک ٹک دیکھے جا رہی تھی۔ شوخ نیلے رنگ کے دوپٹے کا لیس دار کنارہ اُس کے ماتھے پر منقش محراب کی طرح سایہ فگن تھا۔ میں اُسے کافی دیر تک بس دیکھتا گیا۔ کوئی ایسا وقت مجھ پر آن اُترا تھا کہ میری شخصیت کی تمام تر طاقتیں میری بصارت پر آن منطبق ہو گئی تھیں۔
’’ہائے نازو تم؟ کہیں میں نوسٹلجیا ( Nostalgia) کا شکار تو نہیں ہو گیا؟‘‘ مجھے اپنی آواز بھی اجنبی محسوس ہوئی۔
’’ہاں نازو… میں نازو ہی ہوں۔‘‘ وہ اپنے مخصوص انداز میں نچلا ہونٹ خوبصورت اور متوازن دانتوں کی لڑی تلے کچلتے ہوئے بولی ’’تم دیکھ کر بھی یقین کرنے کو تیار نہیں ہو، میں نہ دیکھتے ہوئے بھی آج تک یقین کی دولت سے مالا مال رہی ہوں۔ کہو، تمہارے پاس یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ ہے؟ کیا میں بدل گئی ہوں یا تمہاری نظر بدل گئی ہے؟‘‘
زمانہ بدل گیا تھا، اُس کی اور میری عمروں کے تقاضے بدل گئے تھے اور سب سے بڑی بات یہ کہ ہم دونوں کے حالات نے پلٹا کھا کر نئی صورتیں اوڑھ لی تھیں۔ سب کچھ بدل گیا تھا مگر اُس کی شوخی، بے ساختہ مسکراہٹ اور گالوں میں ہونٹوں کے گوشوں کے قریب پڑنے والے ننھے ننھے گڑھوں نے نظروں کو ساکت کر دینے والی روش نہیں بدلی تھی۔ میں تعجب بھرے لہجے میں بولا، یوں جیسے خود سے مخاطب ہوا ہوں ’’واقعی! یقین نہیں آ رہا۔ تم اتنے برسوں کے بعد مجھے ملی ہو مگر اتنے لمبے عرصے میں پڑنے والی وقت کی گرد تمہارے چہرے اور وجود پر کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ کل والی نازو اور آج والی نازو میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سچ کہتے ہیں، حسن ہر عمر میں حسن ہی کہلاتا ہے۔‘‘
وہ ایک ذرا جھینپ کر مسکرائی، سر جھکا کر بولی ’’رہنے دو، میں تو سمجھی تھی کہ تم نے بولنا کم کر دیا ہو گا۔ زبان تھک چکی ہو گی مگر تم بھی ویسے کے ویسے ہی ہو۔ باتونی، بات کو بے بات بڑھانے والے…‘‘
اُس نے مجھے یاد دلادیا تھا کہ میں ماضی میں بہت بولا کرتا تھا۔ شاید اُسے یہ علم نہیں تھا کہ میری زبان نے ہمیشہ اُسی کے سامنے اپنی تمام تر شکتی کو بروئے کار لانے کی کوششیں کی تھیں وگرنہ میں اتنا بھی باتونی نہیں تھا۔ شاید اُسے احساس نہیں تھا کہ اُس کی زندہ اور تڑپا دینے والے حسن کے سامنے پتھر بھی بول پڑتے تھے۔
میں نے سر گھما کر اُس کے اطراف میں دیکھا۔ کسی کو نہ پا کر متعجب ہوا۔ پوچھا ’’کیا تم اکیلی ہو؟‘‘
اُس نے میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے بات بدل دی۔ بولی ’’سُنو! میں نے شادی کر لی ہے۔‘‘
میرا اوپر کا سانس اوپر رہ گیا ’’کیا واقعی؟‘‘
’’اِس میں اچنبھے کی کیا بات ہے؟‘‘ اُس کی نظریں بے سبب شوخ ہو گئیں۔
’’نازو!تم نے شادی کر لی، حیرت ہے۔‘‘ میں اَبھی تک سنبھل نہیں پایا تھا ’’مجھے یقین نہیں آ رہا۔‘‘
’’تم یقین کرو، نہ کرو، مگرسچ یہی ہے کہ میں نے شادی کر لی ہے۔ وہ دیکھو! وہ رہے میرے شوہر!‘‘ وہ ہنسی۔
میں نے اُس کے ہاتھ کے اشارے کی طرف نظر دوڑائی۔ چند قدموں کے فاصلے پر شیڈ کے آہنی ستون کے ساتھ بہترین سوٹ میں ملبوس ایک قد آور شخص کھڑا تھا۔ ہماری جانب اُس کی پشت تھی۔ میں نے بے یقینی سے نازو کی طرف دیکھا۔ نازو مجھے ہاتھ سے پکڑ کر تقریباً کھینچتے ہوئے شیڈ کی طرف بڑھی۔ اُس کے سامنے لے جا کر کھڑا کرتے ہوئے بولی ’’یہ ہیں میرے شوہر، ڈاکٹر صادق چوہدری…‘‘
میں نے ستائش بھری نگاہوں سے وجیہہ، پرکشش اور وضع دار ڈاکٹر صادق چوہدری کے سراپا کا جائزہ لیا۔ نازو میری طرف اشارہ کر کے بتلا رہی تھی ’’ڈاکٹر صاحب! یہ رضی الدین ہے۔ میرا کالج فیلو۔ میں نے آپ کے سامنے بارہا مرتبہ اِس کا تذکرہ کیا ہے۔ یاد ہے ناں ؟‘‘
ڈاکٹر صادق نے اثبات میں سر ہلایا اور میری جانب ہاتھ بڑھا دیا۔ میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر گرمجوشی سے دَباتے ہوئے بڑے مہذب انداز میں گویا ہوا ’’آپ سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ یہ بھی گزارش کرتا چلوں کہ میرے اِن الفاظ کو رَسمی جان کر نظر انداز مت کیجئے گا۔‘‘
میں نے بہ ہرحال اُسے رسمی انداز میں کہا ’’اور مجھے بھی بہت مسرت ہوئی۔‘‘
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ مجھے اُس سے مل کر ہرگز خوشی نہیں ہوئی تھی حالانکہ اُس کی شخصیت میں ایسی کشش پنہاں تھی کہ مل کر ملتے رہنے کو جی کرتا تھا۔ شاید اُس وقت یادوں کی دیوی اپنی نازک انگلیوں کے ساتھ ماضی کے گزرے ہوئے یادگار لمحات کے الوہی بشرے پر لپٹا ہوا گھونگھٹ اُتارنے میں محو تھی اور میری تمام تر توجہات کو اپنی جانب مبذول کئے بیٹھی تھی۔ نازو کے دیدار میں کھڑی ہر رکاوٹ شاید اُس سمے رقیب کا چہرہ اوڑھ چکی تھی۔
’’دوست! خاموش کیوں ہو؟‘‘نازو نے بے چینی سے پہلو بدلا ’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
میں کیا بتلاتا کہ کیا سوچ رہا ہوں ؟ اُس کے پوچھنے پر سوچوں کا لطف آگیں سلسلہ ٹوٹ گیا، میں چونک گیا، بولا ’’آں …ہاں … ہاں ! تم کیا پوچھ رہی تھیں ؟‘‘
’’میں نے پوچھا ہے کہ تم کن سوچوں میں گم ہو؟‘‘ وہ مسکرائی۔
میں نے سنبھل کر بات بنائی ’’میں سوچ رہا ہوں کہ بچھڑے ہوئے دوست سے مل کر انسان ماضی میں کیوں کھو جاتا ہے؟ اور ماضی کی یادوں میں کتنی زیادہ کشش اور سندرتا چھپی ہوتی ہے۔ آہ! وہ ماضی کتنا خوبصورت تھا… ہائے! یہ ملاقات کتنی کیف آور ثابت ہو رہی ہے۔‘‘
نازو کے سرخ لبوں سے جلترنگ پھوٹ پڑی۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اُس بے ساختہ ہنسی میں وہ اکیلی شامل نہیں تھی بلکہ اُس کے شوہر کی محبت بھی موجزن تھی۔ وہ کسی بھی لحاظ سے اکیلی نہیں رہی تھی۔ اُس کی ہنسی نے ارد گرد بیٹھے اور کھڑے مسافروں کو ایک ذرا اپنی جانب متوجہ کیا۔ اُنہوں نے تعجب سے ہمیں دیکھا پھر بظاہر اپنے اپنے معمولات میں مگن ہو گئے۔ وہ اپنی فطری بے ساختگی سے بولی ’’ارے واہ دوست! کالج چھوڑنے کے بعد شاید تم نے فلسفہ سیکھنا شروع کر دیا تھا۔ اَب تو پورے اور پکے فلسفی بن چکے ہو۔‘‘
’’فلسفی…‘‘ میں نے دل ہی دل میں اپنی اِس نئی حیثیت کا تعین کیا۔ خود کو اِس مقام پر فائز نہ پا کر سوچا کہ شاید وہ مجھ پر طنز کر رہی ہے۔ اپنی سوچ کو جھٹلاتے ہوئے میں نے سوچا ’’نازو طنز کرنے والی ہستی کبھی بھی نہیں رہی۔ طنز تو کجا، اُس نے کبھی کسی کو مذاق کا نشانہ بھی نہیں بنایا تھا۔ وہ صبح کی طرح نوخیز تھی، صبح میں پھولوں پر چمکتی شبنم کی طرح پاک وپوِتر تھی اور شبنم کی پوترتا میں غسل کرنے والی روح بدن میں پروئے رکھتی تھی۔ اُس کا ذہن دودھ کی طرح شیریں اور ہر آلائش سے یکسر پاک تھا۔ وہ عجیب لڑکی تھی۔
مجھے یاد آیا، جب میں کالج میں زیرِ تعلیم تھا، تب اُس کا باپ مسلم لیگ کا سرگرم اور فعال کارکن ہوا کرتا تھا۔ سوتے جاگتے پاکستان بنانے کی دھن میں مصروف عمل رہتا تھا۔ اُنہی دِنوں میں نے کسی سے سُنا تھا کہ اگر اُس کے سامنے نظریۂ حصولِ پاکستان، قائد اعظم یا چوہدری رحمت علی کے خلاف کچھ بول دیا جاتا تو وہ غیر معمولی حد تک برانگیختہ ہو جاتا اور مَرنے مارنے پر تُل جاتا۔ بعد میں میرے دریافت کرنے پر نازو نے اِس سنی سنائی بات پر تائید کی مہر ثبت کر دی تھی۔
نازو کی خواہش پر ایک مرتبہ میں اُس کے باپو جی سے ملنے کیلئے اُس کے گھر گیا۔ وہ بڑی محبت سے ملا۔ ملکی سیاست پر، کانگریس اور یونینسٹ پارٹی کے ملک گیر کردار پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ مجھے ماننا پڑا کہ اُس کے پاس معلومات کا نہ ختم ہونے والا خزینہ موجود تھا۔ محفل برخاست ہونے پر اُس ن میرا ہاتھ گرمجوشی سے دَباتے ہوئے کہا تھا ’’رضی بیٹا! پاکستان کا بننا آسمانوں پر طے پاچکا ہے، دیکھنا، بن کے رہے گا ہمارا پیارا پاکستان!‘‘
اُس کا لہجہ اتنا اَٹل تھا کہ میرے بدن میں جھرجھری پھر گئی۔ میں نے پھیکے رُو مسکرا کر اُس کی خواہش کا خیرمقدم کیا تھا۔
وہ معروف دانش ور بھی تھا۔ دو ضخیم کتابوں کا تصنیف کار ہونے کے با وصف اُس میں غرور نام کو نہ تھا۔ اُس نے اپنی اولاد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ یہ اُس کی تربیت کا اثر تھا کہ اُس کی اولاد مثالی زندگی گزار رہی تھی۔ اُس نے سماج کی بے حیثیت رَسموں کو کبھی اہمیت نہیں دی تھی اور گھر میں ہر ایک کے حقوق کے ساتھ انصاف برتا تھا۔ اُس نے گھرکے ہر فردکو بے جا پابندیوں سے مبرا رکھا تھا۔ ہر کسی کو شخصی آزادی حاصل تھی مگر یہ بھی اُس کی مثالی تربیت کا نتیجہ تھا کہ اُس کی اولاد میں سے کسی نے بھی جوانی بھر سینما کا منہ نہیں دیکھا تھا۔
نازو نے گورنمنٹ کالج میں گریجویشن میرے ساتھ کیا تھا۔ مجھے لڑکا ہونے کے ناتے اپنے ماحول نے اتنی آزادی نہیں دے رکھی تھی جتنی نازو کو صنفِ نازک ہوتے ہوئے حاصل تھی۔ وہ مکمل آزادی سے لطف اندوز ہوتی تھی۔ جہاں جانا چاہتی، بلا روک ٹوک جا سکتی تھی۔ بارہا مرتبہ میں نے اُسے سینما چلنے کی پیش کش کی، مجبور کیا مگر اُس نے بڑے رسان سے ہر مرتبہ ’نو‘ کہہ کر مجھے مایوس کر دیا۔
ایک مرتبہ میرے جھنجلانے پراُس نے شیریں لہجے میں سمجھایا ’’دیکھ میرے اچھے دوست! میرے باپو جی نے مجھے ہر طرح کی آزادی دے رکھی ہے۔ مجھ پر اندھا اعتماد کرتے ہیں وہ۔ کیا تم چاہتے ہو کہ میں اُن کا دِل دکھاؤں، اُن کی مرحمت کی ہوئی آزادی سے ناجائز فائدہ اُٹھاؤں ؟ اُنہوں نے میرے سمیت سبھی گھر والوں کو سینما جانے سے منع کر رکھا ہے۔ اُن کا کہا پتھر پر لکیر ہوتا ہے۔ یہ لکیر تشدد سے نہیں، محبت سے کھینچی گئی ہے جس میں بد اعتمادی اور نافرمانی کی میل ہم بہن بھائیوں میں سے کوئی بھی بھرنے کو تیار نہیں ہے۔ میں تمہارے ساتھ سینما چلی جاؤں اور باپ کے اعتماد کو کھو دوں، کیا یہ کام میری شخصیت کیلئے اچھا ہو گا؟‘‘
میں لاجواب ہو گیا۔ اُس کے بعد میں نے اُسے سینما جانے کی پیش کش نہیں کی۔
پھر ایک مرتبہ کلاس کے سبھی لڑکے لڑکیوں نے پکنک پر جانے کا پروگرام ترتیب دیا۔ نازو اپنے باپو جی کی اجازت کے ساتھ ہمارے سنگ پکنک پر گئی۔ اُس کا انداز وہاں بھی جداگانہ دکھائی دیا۔ اُس نے بچوں ایسی حرکات کرتے ساتھیوں کا ساتھ نہیں دیا تھا بلکہ با وقار انداز میں ٹہلتی رہی یا ایک بڑھے ہوئے کنارے والے پتھر پر جاگزیں رہی۔ پھر جب ایک دائرے میں بیٹھ کر سبھی لڑکے لڑکیاں باری باری گیت گانے لگے تو وہ پُر تمکنت انداز میں بیٹھی بڑے انہماک سے سب کو دیکھتی رہی۔ جوانیوں کے چولھوں پر چڑھی دیگچیوں میں فلمی رومانی گیتوں کی آنچ نے اُبال پیدا کر دیا۔ محفل ہر آتی آن میں پہلوؤں کو گرمائے جا رہی تھی۔
اپنی باری پر اُس نے شاہ حسین کی کافی ’’مائے نی میں کِنوں آکھاں‘‘ گا کر سب کا دھیان پلٹ دیا۔ میں نے دیکھا، کافی کا لفظ لفظ اُس کی زبان کے ساتھ ساتھ اُس کے پورے وجود سے پھوٹنے لگا تھا۔ چہرے پر عجیب سی طمانیت چھائی ہوئی تھی جسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا، جیسے وہ اِس دُنیا کی نہیں، کسی اور ہی دُنیا کی رہنے والی ہو۔ اُسے کوئی اندیشہ نہیں تھا، اُس کے کسی شوق نے حسرت کا لبادہ نہیں اوڑھا تھا، اُس کا کوئی بھی خواب رات سے نکل کر دِن کے اجالے تک نہیں پہنچا تھا۔ کم از کم میں نے شباب کی دہلیز پر انگڑائیاں لیتے ہوئے کسی وجود میں اتنی شانتی کبھی نہیں دیکھی تھی۔ کافی ختم ہوئی، یوں لگا جیسے تمام شرکاء کے لبوں میں روح پھر گئی ہو اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھنے لگے۔ مبالغہ نہیں کہ وہ جب تک گاتی رہی، سانسیں تک ٹھہری رہیں، دھوپ تک تھمی رہی۔ اُس کے خاموش ہونے پر وقت نے سرکنا شروع کر دیا۔
میں اُس کے پہلو میں بیٹھا تھا، غیر اختیاری طور پر اُس کی جانب جھکا اور نہایت مدھم آواز میں بولا ’’تم قلندر ہویا جوگن… بہت عجیب ہو۔‘‘
وہ بند آنکھوں کے ساتھ مسکرائی۔ پھر اَدھ کھلی آنکھوں سے مجھے عجیب سے انداز میں دیکھتے ہوئے بولی ’’یس… اینڈ تھینک یو!‘‘
اُس کے بعد کسی کو اپنی خوش گلوئی کو بزم میں آزمانے کی جرأت نہ ہوئی۔ وہ دِن گیا اور کہیں چھپ کر ہر نظر کو دیوانگی سونپ کر اُس کی طرف پلٹانے لگا۔ سارا کالج اُس کے حسن، حسن کی مہمیز اداؤں اور ندرت کا دیوانہ ہو گیا۔ بے تمنا دِلوں والے طلباء سے لے کر پرنسپل تک، ہر کوئی اُس سے، اُس کے خیالات سے اور ہر دَم چھا جانے والی شخصیت سے متاثر دکھائی دینے لگا۔
وہ فطرتاً ہنس مکھ واقع ہوئی تھی۔ ہر کسی سے آزادانہ ہنس بول لیتی تھی۔ اُس کی اِس عادت نے کئی لڑکوں کو غلطی فہمیوں کی سیج پر سلا دیا۔ رات کی نہ تھکنے والی کروٹوں کی ہر شکن ہر جوانی کو لجاتے ہوئے نازو کی شبیہ دکھانے لگی۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ سب سے پیار کرتی تھی، مگر شایدکسی سے بھی پیار نہیں کرتی تھی۔
اُسے چاہنے والوں کے جم عفیر میں پروفیسر ارشد جمال بھی شامل تھا۔ وہ کنوارا تھا۔ غیر شادی شدہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ لیڈی کلر بھی واقع ہوا تھا۔ پرکشش اور قد آور شخصیت، وجیہہ نقوش اور دھیمے لہجے کی گفتگو کالج کی ہر لڑکی کے دل میں بستی تھی۔ کئی لڑکیاں کھلم کھلا اپنی چاہت کا اظہار بھی کر چکی تھیں مگر وہ اپنے تمام تر پروفیشنل ازم کو نازو کے قدموں میں دھول بنانے پر آمادہ دکھائی دیتا تھا۔ اُس کی نظروں سے ہویدا ہونے والے نازو کیلئے محبت کے پیغام کو کالج کی ہر نظر بہ آسانی پڑھ سکتی تھی۔ غضب یہ ہوا کہ نازو بھی کئی مرتبہ اُس کے ساتھ چلتی پھرتی دکھائی دی تھی۔ لڑکوں کا خیال تھا کہ نازو پروفیسر ارشد جمال کی لچھے دار باتوں میں پور پور ڈوب چکی ہے اور دونوں محبت کی پینگ پر ارد گرد دیکھے بغیر جھولنے لگے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اکثر سٹوڈنٹس پروفیسر ارشد جمال کو اپنا دُشمن خیال کرنے لگے تھے۔
پھر یوں ہوا کہ پروفیسر ارشد جمال کے ایک چہیتے شاگرد انور فاروقی نے اُسے تنہائی میں حسرت آمیز لہجے میں کہا ’’پروفیسر صاحب! آپ بڑے خوش قسمت ہیں۔‘‘
’’وہ کیسے بھئی؟‘‘ پروفیسر نے تعجب بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’آپ کو نازو چاہتی ہے اور آثار بتلاتے ہیں کہ آپ دونوں شادی کر لیں گے۔‘‘
پروفیسر کے چہرے پر کئی سائے لہرا گئے۔ کافی دیر تک انور فاروقی کو عجیب نظروں سے دیکھتا رہا، ٹٹولتا رہا پھر آہ بھر کر بولا ’’نہیں فاروقی! تم مجھے اپنی ناسمجھی میں خوش قسمت قرار دے رہے ہو، حقیقت میں میں بدقسمت ہوں۔ ہر اُس لڑکے کی طرح جو مسکرا کر آنے اور ہاتھ لہرا کر جانے والی نازو کی محبت کو دِل میں سجائے بیٹھا ہے اور اپنی محبت کی معراج پانے کیلئے دِن رات دعائیں کرتا ہے۔ مگر تم سمیت کسی کو بھی اندازہ نہیں ہے کہ نازو کے سینے میں دل نہیں، پتھر رکھا ہوا ہے۔ پتھر پر سردی، گرمی، بارش یا دھوپ اپنا اثر نہیں چھوڑ پاتی۔‘‘
’’سر! میں سمجھا نہیں۔‘‘ انور فاروقی کا چہرہ سوالیہ نشان بن گیا۔
’’میں نے اُسے شادی کی پیشکش کی تھی…‘‘ پروفیسر ارشد جمال نے اپنے ہونٹ سکیڑتے ہوئے کہا اور اَدھوری بات چھوڑ کر خاموش ہو گیا۔ انور فاروقی کچھ ساعتیں خاموشی سے اُس کے مزید کچھ کہنے کا منتظر رہا، پھر بول پڑا ’’پھر کیا ہوا سر؟‘‘
’’وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ بولی، آپ کے ساتھ شادی نہیں ہو سکتی۔ میری کیوں کے جواب میں وہ ایک بار پھر ہنسی، بولی، کیونکہ میں آپ کے ساتھ شادی کرنا ہی نہیں چاہتی۔‘‘
پروفیسر کا لہجہ سرد ہو گیا۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بولا ’’پتہ ہے، پھراُس نے مجھ سے کیا کہا؟‘‘
’’کیا کہا سر؟‘‘
’’اُس نے کہا کہ میرا شوہر محض میرا مجازی خدا نہیں ہو گا، پورے اختیار اور وقار کے ساتھ خدا بھی ہو گا۔ محبت کے ساتھ ساتھ مجھ پر اعتبار بھی کرے گا۔ مجھے کسی اور کے ساتھ ہنستا کھیلتا دیکھ کر کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہو گا۔ گھر کی نوکرانی نہیں سمجھے گا۔ صرف اپنے حقوق کی بات نہیں کرے گا، میرے تمام تر حقوق کی حفاظت بھی کرے گا اور صحیح معنوں میں میرا شریکِ حیات ثابت ہو گا۔ پروفیسر صاحب! آپ میں یہ وصف کہاں ؟ آپ کالج کے کسی لڑکے کے ساتھ مجھے باتیں کرتے دیکھ کر بُرا مناتے ہیں۔ مجھے اَبھی سے ہی عورت سمجھنے لگے ہیں، اپنی خواہشوں کی تسکین کا محور خیال کرنے لگے ہیں۔ ایسے میں میں آپ کے ساتھ کیسے شادی کرسکتی ہوں ؟‘‘
پروفیسر کا لہجہ بھرا سا گیا۔ آنکھوں میں ناگاہ نمی تیرنے لگی۔ خود پر قابو پاتے ہوئے تھکے تھکے لہجے میں بولا ’’نازو عجیب لڑکی ہے۔ خدا جانے وہ کس کے ساتھ محبت کرتی ہے، خدا جانے وہ کس کے ساتھ شادی رچانا چاہتی ہے، کچھ علم نہیں ہو پاتا۔‘‘
’’عجیب لڑکی؟‘‘ فاروقی نے تعجب آمیز انداز میں ہونٹ سکیڑے۔
’’ہاں ! عجیب لڑکی…‘‘
فاروقی کا استعجاب اعلان بن کر کالج کی دیواروں میں گونج گیا۔ بہت تھوڑے دِنوں میں سبھی ہونٹ سکڑ گئے۔ دیواروں کے کان ہوتے ہیں، سن رکھا تھا، تب پتہ چلا کہ دیواروں کی زبان بھی ہوتی ہے۔ کالج کے در و دیوار سے آوازے پھوٹنے لگے ’’نازو عجیب لڑکی ہے!‘‘
’’نازو پروفیسر ارشد جمال کے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہتی۔‘‘
’’نازو کے سینے میں دل نہیں، پتھر رکھا ہے۔‘‘
’’نازو عجیب لڑکی ہے۔‘‘
وقت نے اُسی عجیب لڑکی، نازو، کو آج برسوں بعد لاہور کے ریلوے اسٹیشن کی حد س بڑھی ہوئی بھیڑ میں میرے سامنے لا کھڑا کیا تھا۔ اُسے دیکھ کر میں نے آنکھیں بند کیں تو پروفیسر ارشد جمال کا اُداس اور مضمحل چہرہ میرے تصور میں جھلملا گیا۔ اُس کا پڑھاتے پڑھاتے بھول جانا، رُک کر ادھر اُدھر دیکھنا اور پھر کتاب ڈائس پر پٹخ کر کلاس روم سے نکلنا آنکھوں میں لہرا گیا۔ گھبرا کر آنکھیں کھولیں تو نازو کا شوہر دکھائی دیا جو چند قدموں کے فاصلے پر اپنا سامان قلی کے سر پر رکھوانے میں مصروف تھا۔ اُس کے کندھوں کے اوپر سے ہولے ہولے کھسک کر پلیٹ فارم تک آتی ہوئی ریل گاڑی نظر آ رہی تھی۔ پھر ایک ننھے سے جھٹکے کے ساتھ گاڑی رُک گئی۔ ڈاکٹر صادق قلی کو ساتھ لے کر سیکنڈ کلاس کے ڈبے میں گھس گیا۔ ایسے ہی وقت میں میرے لبوں پر بے اختیار ایک سوال، ماضی کا استعارہ، مچل گیا ’’نازو! کیا پروفیسر ارشد جمال اَبھی تک اُسی کالج میں پڑھا رہا ہے؟‘‘
اُس کے خوبصورت چہرے پر سوچ کی پرچھائیاں رقصاں ہوئیں، حیرانگی سے بولی ’’پروفیسر ارشد جمال! وہ کون…؟‘‘
مجھے ایک جھٹکا سا لگا۔ کیا عورت اپنے ماضی کو نئے سفر پر گامزن ہوتے ہی یکسر بھلا دیتی ہے؟…اگر ایسا ہے تو وہ میرے ساتھ قدم بہ قدم چلتے ہوئے لاہور کی اُس سیر کو بھی فراموش کر چکی ہو گی جس نے ہمیں ایک دوسرے کے بہت قریب کر دیا تھا، اتنا کہ ہم ہمیشہ کیلئے دُور ہو گئے۔
میرے لہجے میں واضح طور پر ارتعاش عود کر آیا ’’کیا واقعی تم پروفیسر ارشد جمال کو بھول گئی ہو جو ہمیں اکنامکس پڑھایا کرتا تھا؟‘‘
مخصوص انداز میں اُس کے ہونٹوں نے سکڑ کر دائروی شکل اختیار کر لی، بولی ’’اچھا، اچھا، وہ پروفیسر ارشد… وہی ناں، جو میرے ساتھ شادی کرنے کا خواہش مند تھا؟‘‘
میں نے جلدی سے کہا ’’ہاں وہی پروفیسر ارشد!‘‘
’’وہ تو کب کا اُس کالج سے تبادلہ کروا کر چلا گیا۔ کہاں گیا؟ موتیوں والا برقعہ پہننے والی سکینہ تو یاد ہو گی؟ وہی جو ہر وقت کوئی نہ کوئی کتاب پڑھتی رہتی تھی۔ وہ ایک مرتبہ ملی تھی۔ اُس نے بتلایا تھا کہ پروفیسر ارشد نے اپنا تبادلہ دلی کے کالج میں کروا لیا تھا۔ اَب وہ کہاں ہے، خبر نہیں۔‘‘ اُس کا لہجہ عجیب انداز میں زہر خند ہو گیا ’’دوست! مجھے اُس سے شدید نفرت تھی۔‘‘
’’وہ کیوں ؟‘‘
’’وہ جینئس ہرگز نہیں تھا۔‘‘ وہ سر جھٹک کر بولی ’’وہ اِس قابل بھی ہرگز نہیں تھا کہ اُسے یاد رکھا جاتا۔‘‘
’’تم نے شاید اُس آوارہ گردی کو بھی بھلا دیا ہو گا …‘‘ میرے اندر بے عنوان تپش بھرنے لگی۔
’’وہ، جسے تم نے ’شب گردی‘ کا نام دے رکھا تھا؟‘‘ وہ جھینپ گئی۔
’’ہاں ہاں وہی… جب تم اور میں شب بھر لاہور کی سیر کرتے رہے تھے۔ رات کا پچھلا پہر ہم نے مقبرہ جہانگیر میں گزارا تھا۔ کیا تمہیں یاد رہا اَب تک؟‘‘
’’کیوں نہیں دوست!‘‘ وہ غیر محسوس انداز میں نظریں چُراتے ہوئے بولی ’’شانہ بشانہ پیدل چلتے ہوئے گزرنے والی وہ رات، مسجد کی سیڑھیاں، پیروں تلے اُڑتی ہوئی گرد اور مقبرہ جہانگیر کی تنہائی… آہ! میں چاہوں بھی تو اُس رات کو بھول نہیں سکتی۔ وہ رات میری زندگی کی خوبصورت ترین رات ہے۔ اور ہاں میرے اچھے دوست! اگر میں نے زندگی میں اپنے سوا کسی کو چاہا ہے، تو وہ تم ہو…‘‘
وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے تھم گئی ’’ہاں میرے اچھے دوست! وہ تم، رضی الدین، ہاں !وہ تم ہی ہو…‘‘
اچانک میرا سر غرور سے بلند ہو گیا کہ نازو کے دِل میں اَبھی بھی میں سانسیں لے رہا تھا۔ اچانک اُس رات کی تمام تر یادگاریں میری نظروں کے سامنے لہرانے لگیں۔ مسجد کی سیڑھیوں پر بیچ میں پانچ سات فٹ کا فاصلہ حائل کر کے نہ جانے کتنی دیر تک ہم بیٹھے باتیں کرتے رہے تھے۔ دربار تک کندھے سے کندھا ملائے چلتے ہوئے وہ کتنی مدہوش ہو رہی تھی۔ پھر جب شب کے پچھلے پہر میں ہم مقبرہ جہانگیر کی تنہائی کا حصہ بنے تو اُس کے لہجے کا خمار پوری کائنات کو بے خود کرنے لگا تھا۔
پھر میری فرمائش پر جب وہ میری گود میں سر رکھ کر ’’مائے نی میں کنوں آکھاں‘‘ کنگنا رہی تھی تو مجھے یوں لگا تھا جیسے پوری کائنات اُس کے سنگ سنگ رقص کرنے لگی تھی۔ کیف کی وہ کیفیت، بے خودی کا وہ احساس اور جیتی آنکھوں دکھائی دینے والے خواب کا سرور… تب سے اَب تک شاید میں اُس کیفیت سے نکل ہی نہیں پایا تھا۔
نہ جانے کتنی دیر گزر گئی۔ شب تھک گئی۔ ہم تھک گئے۔ پھر میں نے اُس کی نیم کھلی زلفوں میں اپنی انگلیوں کا اضطراب چھپاتے ہوئے کہا ’’نازو‘‘ تو مجھے اپنا لہجہ بھی ناشناسا لگا تھا۔
وہ چونکی ’’ہاں میرے اچھے دوست! کہو۔‘‘
’’کیا میرے ساتھ شادی کرو گی؟‘‘
وہ ناگن کی طرح اچانک میری جانب پلٹ آئی۔ فجر میں رات کے دَم توڑتے اندھیارے میں کئی ساعتوں تک نظریں گاڑے مجھے ٹٹولتی رہی۔ صاف دکھائی پڑتا تھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی۔ مگر کہہ نہ پائی اور اُس کے لبوں سے بے ربط سا جملہ برآمد ہوا ’’آں …ہاں … میرے بہت اچھے دوست … مگر…‘‘
’’مگر کیا؟‘‘
’’مگر شاید تم مجھ سے محبت نہیں کرتے ہو۔‘‘ اُس کے لہجے میں پائی جانے والی شکست و ریخت کو میں آج تک بھول نہیں پایا تھا۔
’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ مجھے اچنبھا ہوا۔
’’نہ جانے کیا کہہ رہی ہوں، نہ جانے تم کیا سن کر کیا سمجھ رہے ہو؟‘‘ وہ تھکے تھکے انداز میں اُٹھ کر میرے رو برُو بیٹھ گئی۔
کافی دیر تک سر جھکائے گرد آلود فرش پر انگلیوں سے لکیریں ڈالتی رہی۔ شاید میری قسمت کا فیصلہ سنانے سے پیشتر وہ میری قسمت کی لکیروں میں رد و بدل کرنے لگی تھی۔ پھر اچانک سر اُٹھا کر بولی ’’کیا تم یونینسٹ پارٹی کو چھوڑ کر مسلم لیگ جائن کرسکتے ہو؟‘‘
میرا اُوپر کا سانس اُوپر ہی کہیں اَٹک گیا ’’مم… مگر… تم یہ شرط کیوں عائد کر رہی ہو؟‘‘
اُس کی نگاہوں میں خالی پن عود کرنے لگا ’’میں جو پوچھ رہی ہو، اُس کا جواب دو میرے اچھے دوست!‘‘
میں نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا ’’جیسے میرے دِل میں تمہاری محبت اپنا مکمل اور معتبر وجود رکھتی ہے، ایسے ہی میرا ذہن میرے نظریات کی لاٹھی تھامے اندھیروں میں راستہ ٹٹولتا پھرتا ہے۔‘‘
’’تو کیا تم یونینسٹ پارٹی کی رکنیت سے دستبردار نہیں ہوسکتے؟‘‘ اُس نے اپنے سوال پر زور دیا۔
’’یہ دست برداری میرے لئے مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہے۔‘‘ میں نے بے بسی سے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ میں تمہارے ساتھ شادی نہیں کروں گی۔‘‘ اُس نے کندھے اُچکا کر فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’لیکن سنو تو سہی…‘‘
اُس نے ہاتھ اُٹھا کر کہا ’’میں کچھ اَور سننا ہی نہیں چاہتی۔ خاموش رہو، زندگی کی اِس بہ ترین رات کے آخری لمحات کو ہمیشہ کیلئے محفوظ کرنے دو میرے اچھے دوست!‘‘
پھر اُس نے مجھے اِس موضوع پر کبھی بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ اُس کے لہجے کی قطعیت نے مجھے چند دِنوں میں ہی توڑ کر رکھ دیا۔ آنے والے دنوں میں میں نے اُس پر بارہا مرتبہ باور کرایا کہ میں اُس کی خاطر یونینسٹ پارٹی کو چھوڑ سکتا ہوں۔ میں، جو اپنے مصمم نظریات میں کسی آمیزش کو بھی قبول نہیں کرتا تھا، اچانک اُس ایک لڑکی کیلئے نظریات سے یکسر دست بردار ہونے کو بھی تیار ہو گیا۔ پارٹی تو ایک طرف رہی، میں پوری دُنیا کو تجنے پر تیار تھا مگر وہ سننے اور ماننے پر آمادہ نہیں ہوئی۔ میں اُس کی غلط فہمی کو محو کرنے میں ناکام ہو گیا اور اُس کی نفرت کو محبت میں بدل نہ سکا۔ پھر اپنی صفائی میں پیش کرنے کیلئے میرے پاس دلیلیں، تاویلیں اور جواز دَم توڑ گئے اور ہم دونوں کے بیچ ایک لمبی چُپ حائل ہو گئی جو ایگزامز کے دوران بھی سانس لیتی رہی۔
پھر اُس موت گیں چُپ نے جدائی کی چادر اوڑھ لی۔ یادوں سے چھٹکارا نہیں پا سکا، اُسے دل سے بھلا نہیں سکا تو لاہور کو چھوڑ کر گجرانوالہ سدھار گیا۔ یہ جلاوطنی بھی مجھے اُس ناکام محبت کے اَثر سے نکال نہیں سکی تھی۔ ہوش میں ہوتا تو اُسے سوچتا، مدہوشی میں اُس کے خواب دیکھتا… پھر یوں بھی ہوا کہ وہی مجھے رات کو سلایا کرتی، وہی علی الصبح جگانے کیلئے بالوں میں انگلیاں پھیرا کرتی۔ میرے دَہن میں اُترنے والا ہر لقمہ اُس کی انگلیوں کا لمس لے کر اُترتا تھا۔
لاہور میں ایک ضروری کام کے سلسلے میں آنے کا اتفاق ہوا تھا۔ چند روزہ قیام کے بعد واپسی کا قصد کیا تو مقدر نے مجھے ریلوے اسٹیشن پر نازو سے ملوا دیا۔ وہی نازو جو ہر شب میں میرے ناز اُٹھانے کیلئے دَر آتی رہی تھی اور اُس نے آج تک میری نامکمل تنہائی کو کسی اَور عورت کے وجود سے مکمل نہیں ہونے دیا تھا۔
سگنل ڈاؤن ہو گیا۔ دور کھڑے انجن نے سیٹی بجائی۔ ایسے میں ڈاکٹر صادق چوہدری کی تیز آواز ہمارے کانوں تک پہنچی ’’نازو!گاڑی چلنے والی ہے۔ کم آن پلیز!‘‘
نازو نے میرے دائیں ہاتھ کو اپنے گداز اور ملائم ہاتھوں میں پوری قوت سے دَباتے ہوئے کہا ’’میرے بہت اچھے دوست! تمہیں خدا اپنی امان میں رکھے اور ہاں ! اپنا خیال رکھنا۔‘‘
میں اُسے کوئی دُعا بھی نہ دے سکا۔ میرے حلق میں نمک گھل گیا۔ میرے ماضی کا مکمل حصہ، جو میری پوری زندگانی پر محیط تھا، مجھ سے دور ہٹ رہا تھا اور میں اُس روکنے پر قدرت نہیں رکھتا تھا۔ وہ پیچھے مُڑ مُڑ کر دیکھتی ہوئی سیکنڈ کلاس کے ڈبے کے اگلے دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی جس میں ایک ہاتھ پھیلائے اُس کا ناخدا، ڈاکٹر صادق، کھڑا اُسے اپنی جانب بلا رہا تھا۔ ایسے میں گاڑی ہولے ہولے سرکنے لگی۔
اُس کا ہاتھ تھکے تھکے انداز میں ہل رہا تھا۔ میں نے جواباً ہاتھ لہرا کر ’بائے‘ کہنے کی کوشش کی مگر شاید میرے اعصاب جواب دے گئے تھے۔ میرا کھلی انگلیوں والا ہاتھ میری آنکھوں کے سامنے ساکت موجود رہا اور وہ میری انگلیوں کے بیچ میں بھرے پُر ے وجود سے ایک نقطہ بن کر مٹ گئی۔
پھر شاید سب کچھ مٹ گیا تھا۔ میرا ہاتھ بے جان انداز میں میری ران پر گر گیا اور میں پوری قوت سے چیخ پڑا ’’نازو! تم واقعی عجیب لڑکی ہو۔‘‘
پلیٹ فارم پر میرے اطراف میں کھڑے مسافر، جو اَب تک میری اور نازو کی باتوں سے حظ کشید کر رہے تھے، پھٹی پھٹی نگاہوں سے مجھے گھورنے لگے۔
(مرکزی خیال ماخوذ اَز نند کشور وکرم)
٭٭٭