خوابوں کا جزیرہ ’موریشس‘ ۔۔۔ دردانہ قاسمی/ امتیاز احمد

خوابوں کا جزیرہ ’موریشس‘

 

               ڈاکٹر دردانہ قاسمی/ امتیاز احمد

 

کتاب    :          خوابوں کا جزیرہ ’موریشس‘

مصنفہ   :           ڈاکٹر دردانہ قاسمی

قیمت    :           ۱۵۰ روپے

تبصرہ     :           امتیاز احمد

ڈاکٹر دردانہ قاسمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے عبداﷲ گرلس کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں ۔ اس سے پہلے ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ انتظامی سطح پر بھی خاصی فعال اور پُر خلوص ہیں ۔ اُن کی ان تمام خوبیوں کا اندازہ اس سفرنامے کے مطالعہ سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ ’’خوابوں کا جزیرہ موریشس‘‘ موصوفہ کے سفرموریشس کی بہت خوب صورت داستان ہے۔ اس کی خوب صورتی کا اندازہ مصنفہ کے سفرنامہ کے اس آخری نوٹ سے بھی ہوتا ہے:

’’موریشس کا یہ سفر ہمارے لیے خوابوں کا سفر تھا۔ ایک تو اس سرزمین سے وابستہ یادیں اور پھر وہاں کی طلسمی دنیا، ساحل ہو یا سمندر، خشکی ہو یا آبادی ہر جگہ ایک انوکھا پن ملتا ہے۔ ہندوستانی مہاجرین جو وہاں کی آبادی کی اکثریت کی حیثیت رکھتے ہیں کئی نسلیں گزر جانے کے باوجود ابھی ویسے ہی سادہ لوح اور بے ریا معلوم ہوتے ہیں جیسے ان کے اجداد ہندوستان کے مشرقی خطے سے آئے تھے۔ ان تمام اعتبارات سے موریشس کی یادیں کم از کم میرے لیے خواب و خیال کی طرح ہیں جن کو فراموش کرنا ممکن نہیں ۔‘‘  (ص:۱۱۱)

اس کتاب کے ہر صفحہ پر انسانی محبت، خلوص، دل کشی، بے لوثی اور فطری مناظر سے ہم آہنگی بکھری پڑی ہے۔ اُن کے عزیز شاگردوں اور جاننے والوں کی اتنی بڑی تعداد موریشس کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہے اور وہ سب اس خلوص اور اپنائیت سے بار بار ان سے ملنے آتے ہیں کہ جمال ہم نشیں در من اثر کرد کا منظر سامنے آ جاتا ہے۔ وہ ایک ایک فرد کے خلوص کی، محبت کی، لگن کی، رہن سہن کی، وہاں کے کلچر کی تعریف کرتی ہیں ۔ ذرا یہ منظر دیکھیے۔ ایک فیملی کے ساتھ وہ پکنک پر گئی ہیں ، ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں :

’’آج کی پکنک کا جُمّن صاحب نے بطور خاص ہم لوگوں کے لیے اہتمام کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج میں لیڈیز کو فری کرتا ہوں اور میں خود سارا کام کروں گا۔ انھوں نے خود ٹینٹ لگایا، کرسیاں بچھائیں ، بیٹھنے کا بہت اچھا بندوبست کیا اس کے بعد گاڑی میں سے چولہا، گیس، کڑھائی، کھانا پکانے کے برتن، مسالے اور سارا سامان نکالنا شروع کیا۔ باقی سب لوگ گھومتے پھرتے رہے۔ میں دیکھ کر حیرت میں پڑ گئی کہ کیسے مزے اور سلیقے سے کام کر رہے ہیں ۔ حد یہ ہے کہ پیاز چوپ کرنا، سلاد بنانا، چٹنی اور سوس نکالنا ہر کام وہ خود کر رہے تھے، ساتھ میں مہمانوں کا استقبال بھی کرتے جاتے تھے۔ اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے جُمّن صاحب سب کو بڑے دلچسپ انداز میں خوش آمدید بھی کہہ رہے تھے۔‘‘ (ص:۷۸)

اسی موقع پر سمندر میں اُترنے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں اور دیکھیے کسی original انداز میں لکھتی ہیں :

’’ اس درمیان میں سمندر میں نیچے اُترنے کی کوشش کرتی اور ساتھ میں ڈرتی بھی جاتی تھی لیکن آفرین اور دوسرے بچے میرے ساتھ تھے جو میرے ڈرنے سے بہت مزے لے رہے تھے۔ آخرکار میں بھی کوشش کر کے پانی میں نیچے اُتر گئی، لیکن جب دیکھتی کہ لہریں آ رہی ہیں تو میں سب بچوں کا ہاتھ پکڑ کے پیچھے کی طرف بھاگتی۔ سب بچے بہت ہنستے وہ سب تو ان چیزوں کے عادی تھے لیکن مجھے خوف کے ساتھ بہت مزا بھی آ رہا تھا۔‘‘  (ص:۷۹)

وہاں کی اس طرح کی دلچسپیوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے:

’’وہاں آؤٹنگ اور وقت گزاری کا بہترین ذریعہ سمندر کے کنارے جانا ہے۔ سمندر کے کنارے جا کر ان لوگوں کو خوشی ملتی ہے، سکون ملتا ہے۔ پریشانی میں بھی سمندرکے کنارے جا کر خاموش بیٹھ جاتے ہیں اور اسی میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہر شخص کہتا ہے سمندر ہمارے گھرکے پاس ہے۔ اس طرح موریشس میں ہم لوگوں نے ہر ہر زاویہ سے سمندر کو دیکھا اور اس کے حسن سے محظوظ ہوئے۔ یہ خدا کی قدرت نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک سمندر کو بیسیوں زاویے سے دیکھا جاسکتا ہو اور ہر ہر زاویہ میں الگ الگ انداز کا حسن دیکھنے کو ملتا ہو۔‘‘  (ص:۸۸)

اس سفر نامہ کے ذریعہ پڑھنے والا موریشس کی معاشرتی زندگی کی بہت سی خوبیوں سے واقف ہوتا ہے مثلاً یہ کہ:

’’گھروں میں ہندوستانی کلچر زندہ ہے۔ وہی ہندوستانی رہائش، وہی طور طریقے اور وہی سادگی اور اپنائیت۔‘‘ وگ

’’ اکثر لوگوں نے ہندوستان کی علاقائی زبان اور کھانے پینے کی چیزوں کے ان ناموں کا استعمال آج تک جاری رکھا ہوا ہے جو وہ کبھی ہندوستان میں استعمال کیا کرتے تھے۔‘‘ (ص:۱۰۳)

’’موریشس میں خواتین گھروں میں طرح طرح کے کیک،  بسکٹ، Pudding، نمکین وغیرہ بنانے کی عادی ہیں ۔ ‘‘  (ص:    )

’’ سمندر کے کنارے ایک جگہ ایسی ہے جہاں پر سات رنگ کی مٹی ہوتی ہے، اس مٹی سے Key ring بنائے جاتے ہیں جو بہت ہی خوب صورت اور انوکھے ہوتے ہیں ۔‘‘ (ص:۱۰۸)

’’اس کلچر میں اگر کسی سے ملاقات کے لیے جایا جائے تو اس سے کسی نہ کسی تحفے کے ساتھ ملاقات کی جائے۔‘‘  (ص:    )

’’وہ لوگ گھر میں کریول زبان بولتے ہیں ۔‘‘ (ص:۱۰۷)

’’ موریشس کی کڑھائی کے بیڈ شیٹ بہت مشہور ہیں ۔‘‘ (ص:۱۰۳)

’’تمام کھانوں میں جھینگا بہت شوق سے کھایا جاتا ہے۔‘‘ (ص:۹۴)

’’ دلہن کا عروسی لباس سفید ہوتا ہے۔‘‘ (ص:۹۰)

ایک جگہ وہاں کی خوب صورتی خاص طورسے ہرن گھاٹی کا ذکر کرتے ہوئے بہت خوب صورتی سے لکھتی ہیں :

’’تقریباً سارا کا سارا پہاڑی علاقہ ہے، کبھی چڑھائی ہے کبھی اُتار، غرض اس گھاٹی کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک پیالہ کی طرح معلوم ہوتی ہے اور پیالہ اتنا گہرا ہے کہ اس کا پیندا یا دوسرے لفظوں میں نچلا حصہ بالکل نظر نہیں آتا۔ چاروں طرف بے انتہا ہریالی، حسین اور خوب صورت پیڑوں کا گہرا گھیرا۔ اس کے علاوہ نظر کچھ نہیں آتا۔ نیچے جھرنا بہنے کی آوازیں آتی رہتی ہیں ۔ اس گھاٹی کو فرانسیسی میں تھیوسیف کہتے ہیں ، شاید اسی لفظ کے معنی ہرن گھاٹی کے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ یہ جگہ دراصل ہزاروں سال قبل آتش فشاں پہاڑ کے پھٹنے اور بھڑکنے سے سمندر میں اُبھر آئی تھی۔ اس لیے زبردست اُبھار اور گہرائی ملی جلی ہے۔ پورے موریشس میں یہ دیکھنے کی بے حد اہم تاریخی اور جغرافیائی جگہ ہے۔‘‘  (ص:۶۲)

ہرن گھاٹی کے علاوہ وہاں کی قابلِ دید جگہوں میں کودوں کی بندرگاہ، مچھلی گھر، بوٹنیکل گارڈن، پورٹ لوئس کی بندرگاہ وغیرہ خاص طورسے اہم ہیں ۔

اس سفرنامے کی اچھی بات یہ ہے کہ اس سے ہمیں خود اس ملک کے بارے میں بھی بہت سی معلومات ہوئی ہیں ۔ مثلاً یہ کہ:

’’ویسے تو موریشس جنوبی افریقہ سے قریب ہے مگر ایک تو جنوبی افریقہ پر عرصے تک برطانوی سامراج کے اثر کی وجہ سے اور دوسرے خود موریشس پر پہلے فرانسیسی غلبے اور بعد کے زمانے میں برطانوی حکومت کے سبب وہاں کا پورا اندازِ زندگی رفتہ رفتہ مغربی ممالک جیسا ہو گیا۔‘‘ (ص:۱۹)

’’اس وقت (وہاں )… اندازاً ۶۸ فی صد ہندوستانی نسل کے لوگ ہیں ۔ ۵۱ فی صد ہندو ہیں ، ۱۷ فی صد مسلمان ہیں ، ۲۵ فی صد عیسائی ہیں اور باقی بدھ مت اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے۔ سردست موریشس میں جو ہندوستانی گجراتی، تمل، مراٹھی وغیرہ ہیں وہ قدرے بعد میں پہنچے تھے۔ عیسائیوں کے علاوہ چینی اور بدھسٹ لوگ بھی وقت کے ساتھ ساتھ موریشس کی آبادی کا حصہ بن گئے ہیں ۔‘‘ (ص:۱۸)

’’ ۱۸۳۳ء میں ہندوستانی مزدوروں کا جو پہلا جتھا موریشس پہنچا تھا اس میں مسلمانوں کی تعداد اچھی خاصی تھی۔ ان میں ۱۱۲۰ مرد، ۶۱ خواتین، ۲۲ لڑکے اور گیارہ لڑکیاں تھیں ۔ یہ سب لوگ پانچ سال کے معاہدے کے ساتھ موریشس پہنچے تھے اور ان کی تنخواہ ۱۰ روپے ماہوار طے ہوئی تھی جس میں ۵ روپے نقد ملتے تھے اور باقی ۵ روپے کے عوض کپڑا اور کھانا ملا کرتا تھا۔ مجموعی طور پر ۱۸۳۳ء اور ۱۹۲۲ء کے درمیان ہندوستان سے ساڑھے چار لاکھ مزدور موریشس پہنچے تھے۔‘‘ (ص:۱۷)

ان مہاجرین کی زندگی کے بارے میں عنایت حسین عیدن نے چند سال پیشتر ’’اپنی زمین‘‘ کے نام سے ایک ناول لکھا تھا۔ ہندی میں بھی اس سلسلہ میں بعض تحریریں سامنے آئی ہیں ۔ ضرورت اس بات کی محسوس کی جا رہی تھی کہ ’’اپنی زمین‘‘ کی جدوجہد کی زندگی کے بعد آہستہ آہستہ ان مہاجرین کی زندگی کے خوش گوار دنوں کے آنے سے متعلق اور اس کے بعد موجودہ دور میں انہی مہاجرین کے ترقی کر کے ملک کے صدر اور وزیر اعظم وغیرہ بننے کی داستان ایک Trilogy کی شکل میں لکھی جاتی۔ ڈاکٹرقاسمی کے اس سفرنامہ میں وہاں کی دو مختلف نسلوں کی زندگی کی خوب صورت عکاسی ملتی ہے جو مذکورہ Trilogy کا حصہ ہوسکتے ہیں ۔ ان میں ایک طرف لال محمد صاحب، عیدن صاحب، صابر گودر صاحب، جمن صاحب، رابعہ بودھن، ریحانہ عیدن وغیرہ بزرگ ہیں تو دوسری طرف نسرین، ناظرین، شاہین اشرف، مہتاب آرا اور نظیر علی وغیرہ نوجوان ہیں ۔ ان سب کی خوشیاں اور غم، ماضی اور حال اور مشرق اور مغرب کی کش مکش اپنی جڑوں سے وابستگی اور مستقبل پر نظر وغیرہ ایک شاندار ناول کا موضوع ہیں ۔ ڈاکٹر قاسمی نے جس تفصیل اور جزئیات نگاری کے ساتھ اس سفرنامہ میں ان کی زندگیوں کا احاطہ کیا ہے، شاید یہ امید بے جا نہ ہو کہ وہ ان کی زندگی پر ایک بھرپور ناول لکھ سکیں ۔ فی الحال اس سفرنامہ میں ہم اس کی ابتدائی شکل دیکھ سکتے ہیں ۔ بعض افراد اور واقعات کا ذکر بار بار آیا ہے ان کی تکرار ناگوار گزرتی ہے۔

مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’خوابوں کا جزیرہ موریشس‘‘ ڈاکٹر قاسمی کی ایک خوب صورت تحریر ہے جسے ہم اردو کے سفرناموں میں ایک خوب صورت اضافہ کہہ سکتے ہیں ۔ ظاہر ہے اس خوب صورت تحریر کے لیے وہ اور ان کے شریک ِسفر دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں ۔

٭٭٭

One thought on “خوابوں کا جزیرہ ’موریشس‘ ۔۔۔ دردانہ قاسمی/ امتیاز احمد

badran saeedi کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے