یخ بستہ خواب ۔۔۔ شائستہ فاخری

یخ بستہ موسم

 

               شا ئستہ فاخری

 

گلابی غرارے کی چنٹوں میں آئی برساتی پھپھوند کو دیکھ کر ارجمند کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ پچھلے برس دھوپ دکھا کر اس نے کتنی احتیاط سے یہ سارے کپڑے صندوق میں بند کئے تھے۔بند کرنے سے قبل ان کپڑوں کی تہوں میں نیم کی سوکھی پتیاں رکھنا وہ نہیں بھولی تھی۔  پھر بھی صندوق کی جھری سے اندر جاتی ہواؤ ں نے اپنا کام کر دیا تھا۔ اس نے کپڑوں کو تخت پر پھیلا دیا۔ کاہی رنگ کے دھبے اس گلابی غرارے کو جگہ جگہ  سے بد رنگ بنا چکے تھے۔ اس کی آنکھوں سے پانی کے قطرے ٹپکنے لگے۔ ’ارجمند !تیری کھلی  رنگت پر گلابی رنگ نور برساتے ہیں ‘  ایسا عبدالغنی اس سے کہا کرتے۔  یہ رنگ اس کے لئے کافی اہمیت رکھتا تھا۔ چوڑیاں ہوں ، ساڑی ہو ، بندے جھالے سب گلابی ، وہ انہیں  سب سے تو عبدالغنی کو رجھایا کرتی تھی۔  یہ اُس  وقت کی بات ہے جب اس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ناز نخروں کے دن تھے۔  ایک باراس نے گلابی  پھند نے والی  چوٹی کی ضد کر لی تھی ، کہاں کہاں عبدالغنی نے بالوں کی وہ نقلی چوٹی  نہیں تلاشی ، آخرکار عید کے موقعے پر لگی ہاٹ میں گلابی پھندنے کی  وہ چوٹی اسے مل سکی تھی۔اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کا عبدالغنی کتنا احترام کرتا تھا۔

وہ آہستہ ہاتھوں سے اپنے گلابی غرارے کو سہلانے لگی۔کنگورے دار سنہرا لچکا پرانا پڑ کر ادھڑ چکا تھا۔ غرارے کے پائنچے مٹ میلے ہو کر اپنی گلابی رنگت کھو چکے تھے۔اس نے ایک گہری سانس لی اور سارے کپڑے چھت  پر لے جا کر پھیلا دئے۔ اس گلابی رنگ میں عبدالغنی کا پیار رچا بسا تھا۔

وہ رات آج بھی  ارجمند کی آنکھوں کے ڈوروں کو سرخ کر جاتی ہے ، جب وہ دونوں روزمرہ کے کاموں سے فارغ ہو کربستر پر لیٹے ادھر اُدھر کی گفتگو کر رہے تھے ، تبھی کہیں دور شور اُٹھا۔عبدالغنی نے کہا کہ کسی جانور نے حملہ کیا ہوگا ، ارجمند کا قیاس تھا کہ یہ شور ان کسانوں کا ہوگا ، جن کی کھڑی فصلیں اکثر چور اُچکے نوچ لے جاتے ہیں مگر شور قریب آتا گیا۔۔اور قریب۔۔اور قریب۔۔اور پھر پوری بستی شور کی  چپیٹ میں آ گئی۔۔۔۔۔۔۔ ارجمند کے بھیگتے پپوٹوں میں عبدالغنی کی تصویر اُتر آئی۔اس کی آنکھوں میں کتنی دہشت تھی۔ وہ اور ارجمند بے بسی سے ایک دوسرے کو تک رہے تھے۔  رات گذر گئی  ،سویرا ہوا۔ لوگ اپنے گھروں میں قید ہو گئے تھے۔زندگی ٹھپ پڑ گئی۔ دن سہما ہوا تھا اور رات ہوتے ہی درختوں سے اُتر کر اُلو سناٹوں کی دوڑ لگانے لگتے۔  کریم جا بجا ضد کرتا اور ننھی ماہی کو جب بھوک پریشان کرتی تو وہ رونے لگتی۔اسے کیوں بھوکا رکھا جائے۔ ارجمند کے منع کرنے کے باوجود عبدالغنی نہیں مانے۔ اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٹھک۔۔۔۔۔ٹھک ۔۔۔۔۔۔ٹھک

کوئی بند کواڑ پر دستک دے رہا تھا۔

’’ کون ؟ ‘‘ ارجمند نے دروازے کے قریب جا کر آواز لگائی۔

بی بی ، دروازہ کھولئے۔ میں ہوں مدن۔ ‘‘

’اوہ ‘ ارجمند نے جلدی سے دروازہ  کھولا اور اوٹ میں ہو کر سلام کیا۔

’’ خوش رہئے۔ مال تیار ہو گیا؟ ‘‘

’’ جی مدن بھائی ، میں تو کل سے آپ کا انتظار کر  رہی تھی۔ ‘‘

ارجمند نے ایک چھوٹی سی کپڑوں کی گٹھری مدن بھائی کو لا کر پکڑا دی۔

ارجمند بستی کے تمام لوگوں سے پردہ کرتی تھی۔ اس وقت بھی جب عبدالغنی اس کے ساتھ رہتا تھا ، اب تو خیر۔۔۔۔

مدن بھائی کے جاتے ہوئے قدموں کی آہٹ سننے کے بعد اس نے آہستہ سے کھڑکی کے پٹ کھولے اور جھانکنے لگی۔ بہت دیر سے اسے نہ تو کریم کی آواز سنائی دی تھی اور نہ ماہی کی۔ وہ فکرمند تھی مگر گھر کے سامنے ہی اس کے دونوں بچے آم کے درخت پر پڑے جھولے پر بیٹھے  جھول رہے تھے۔ کریم نے ایک کتاب کھول رکھی تھی اور جھوم جھوم کر کہانی پڑھ رہا تھا۔ ماہی حیرانی سے آنکھیں پھیلائے غور سے کہانی سن رہی تھی۔ اُف ! یہ کہانیاں !۔۔ارجمند بے ساختہ کراہ اُٹھی۔ وہ کھڑکی کے پٹ بند کرنا چاہتی تھی مگر یادوں کے دریچے جب وا ہو گئے تو کواڑ اور کھڑکی کے پٹ بند بھی کر دئے جائیں تو کیا  فرق پڑتا ہے۔ارجمند کی آنکھوں کے سامنے اُس رات اور اُس رات کے بعد کے تمام منظر سامنے آنے لگے۔

ستمبر کا مہینہ تھا۔ آسمان ہر دوڑتے ہوئے چھوٹے چھوٹے بادلوں کے ٹکڑے اور زمین پر پھیلتی ہوئی اُمس۔ کبھی بارش کبھی دھوپ۔۔۔

رہ رہ کر چلتی ہوئی سرد گرم ہواؤ ں سے بستی کے لوگ پریشان تھے۔ کچے پکے گھروں میں زندگی جیسے گھٹ رہی تھی دن بھر کی کڑی مشقت کے بعد رات کے چولہے سوغات میں جو رزق رکابی میں ڈال دیتے  لوگ اسی کو اپنا نصیب مان کر اللہ کا شکر ادا کرتے۔ سؤ ڈیڑھ سو کی آبادی والی یہ بستی شہر سے بہت دور نہ ہوتے ہوئے بھی شہر کی سرگرمیوں سے محروم تھی۔ چار سال گزرتے گزرتے ہلچلیں دکھائی دیتیں ، بھیڑ آتی ، مان مُنول کا دور شروع ہوتا اور پھر سب کچھ ختم۔۔زندگی اپنے پرانے ڈھرے پر آ جاتی مگر اس بار بستی میں بھیڑ کے آنے کی نوعیت مختلف تھی۔ کریم کو یہ بات کیوں نہیں سمجھ میں آ رہی تھی۔۷ برس کے اس بچے کو کیسے سمجھایا جائے۔ ارجمند پریشان تھی۔ عبدالغنی نے مسجد جانا بند کر دیا تھا۔  رفتہ رفتہ ایک دو گھنٹے نہیں ، ایک دو دن نہیں  بلکہ کئی روز کھسک گئے۔ کلنڈر کی کئی تاریخیں آگے بڑھ گئیں مگر گھر کا دروازہ نہیں کھلا۔

کریم اپنے آپ میں اُلجھ رہا تھا۔ نہ وہ مدرسے جا رہا تھا ، نہ اسکول۔ وہ باہر اپنے ساتھیوں کے بیچ کھیلنے جانا چاہتا تھا مگر گھر کے دروازے پر پڑا قفل اس کے بڑھتے قدم روک دیتا۔ دو کمروں پر مشتمل اس کا چھوٹا سا گھر ان دنوں اس کے لئے قید خانہ بنا ہوا تھا۔

اُس رات  کریم کھانا کھا کر اُٹھا تو عبدالغنی نے یاد دلایا کہ اس نے کئی دنوں سے سبق آموز کہانی نہیں پڑھی ہے۔ کریم نے نہ چاہتے ہوے بھی کتاب کھولی اور جھوم جھوم کر پڑھنے لگا۔۔۔۔

’’ پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک قافلہ بغداد کی طرف جا رہا تھا۔ بہت سے لوگ اس میں شامل تھے۔ جان و مال کی حفاظت کے لئے قافلے کا سرداربیچ بیچ میں لوگوں کو ہوشیار کرتا چل رہا تھا۔منزل کچھ ہی دور رہ گئی تھی کہ لٹیروں اور قزاقوں نے اس قافلے پر حملہ بول دیا۔ افراتفری مچ گئی۔ کچھ جان و مال کی حفاظت میں جٹ گئے ا ور کچھ خوف سے سازوسامان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس قافلے میں ایک چھوٹا بچہ بھی تھا  جو کنارے کھڑے ہو کر تماشا دیکھ رہا تھا۔ قزاقوں کے سردار کی نگاہ جب اس بچے پر پڑی تو اس نے اسے پکڑ لیا اور تلاشی لینے لگا۔ جب اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا تو وہ جھنجھلا اٹھا۔۔۔’’ کیا تیرے پاس کچھ  نہیں ہے ؟ ‘‘

بچے نے جواب دیا۔۔۔’’ میرے پاس چالیس اشرفیاں ہیں ۔ ‘‘

سردار حیران ہو گیا۔۔۔’’ کہاں ہیں ؟ ‘‘

’’ میری صدری کے استر میں ۔ ‘‘

سردار نے خنجر کی نوک سے استر پھاڑ کر اشرفیاں نکال لیں ۔

’’ بیٹا ! تو نے مجھ سے سچ کیوں کہا  ؟ ‘‘ کچھ حیرانی کے ساتھ سردار نے بچے سے پوچھا۔

بچے نے صداقت سے جواب دیا۔۔۔’’ کیونکہ چلتے وقت میری ماں نے مجھ سے کہا تھا کہ بیٹا جھوٹ کبھی مت بولنا۔‘‘

سبق کا ایک حصہ پورا ہو چکا تھا۔ کریم نے لمبی سانس لی اور اگلے صفحہ پر انگلیاں چلانے لگا۔

’’ بچوں ! اس سچے بالک کی طرح تمہیں بھی ہمیشہ سچ بولنا چاہئے۔سچائی کے راستے پر چلنا چاہئے۔ سچ اور حق کے لئے اپنی گردن کٹا دینی چاہئے۔۔‘‘

’’ ابا آج کا سبق پورا ہو گیا۔ اب میں سو جاؤ ؟ ‘‘

’’ ہاں بیٹا !  اب سو جاؤ  !مگر کتاب احتیاط سے تکئے کے نیچے رکھ دینا ، پھٹنے نہ پائے۔ ‘‘

کریم کتاب رکھ کر سو گیا۔کچی نیند میں اچانک اس کی آنکھ کھلی۔ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ قدموں کی آہٹ اور کچھ پھسپھساتی آوازیں اسے کمرے میں رینگتی محسوس ہوئی۔ ڈر کر اس نے اپنے گھٹنے سمیٹ لئے اور دھیرے سے بستر پر لیٹی امی کو پکڑنا چاہا  مگر انگلیوں کی گرفت میں ننھی ماہی کی فراک آ گئی۔ اس نے فراک کا کونہ پکڑ کر زور سے کھینچا۔ ۶ ماہ کی بچی جاگ کر کنمنائی اور رونے لگی۔ کمرے میں ہلکی روشنی پھیل گئی۔ ارجمند نے ۶۰پاور کے بلب کو جلا دیا تھا۔ کریم نے سکون کی سانس لی۔ سامنے عبدالغنی کھڑے تھے۔ آنکھوں میں خوف اور چہرے پر بدحواسی۔  ایک ہاتھ سے بیٹے کو چپ رہنے کا اشارہ کیا اور دوسرا ہاتھ سے دروازے کا پٹ پکڑے باہر کے شور کوسننے  اور سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کریم نے گھبرا کر ماں کو دیکھا وہ ننھی کو گود میں اُٹھائے کمرے کے ایک کونے سے دوسرے کونے کی طرف اور   دوسرے کونے  سے پہلے کونے کی طرف بے چینی سے ٹہل رہی تھیں ۔

کئی دنوں سے عبدالغنی کے کپڑے کی دوکان بند پڑی تھی۔ بستی کی فضا بگڑی ہوئی تھی۔ راشن گھٹ رہے تھے ، مگر لوگ مجبور تھے۔ باہر نکلنے کی سخت مناہی تھی۔ ایسے میں ننھی ماہی کے دودھ کا ڈبہ ختم ہو گیا۔  اسے چپ کرانے کی کوشش میں ارجمند ساری رات گود میں لے کر اسے ٹہلاتی رہی۔ مگر  یہ عمل بہت کارگر نہیں ثابت ہوا۔ کتنی بار ارجمند نے اسے سینے سے چپکا کر اپنا دودھ پلانا چاہا مگر ماہی کو تو جیسے شیشی سے ہی دودھ پینے کی ضد تھی۔  مجبور ہو کر عبدالغنی کو گھر سے باہر نکلنا پڑا۔ صبح سے شام اور شام سے صبح ہوتی رہی۔ ارجمند جیسے نماز کی چوکی سے اُترنا ہی بھول گئی۔ نماز ، قران کی تلاوت اور آنسوؤں میں ڈوبی دعائیں عرش کا پایہ ہلاتی رہیں ۔ننھی ماہی کو جیسے بھوکے رہنے کی عادت ہو گئی۔ کبھی کریم کی گود میں اور کبھی گدے پر چپ چاپ پڑی رہتی۔ پاس پڑوس کی عورتیں کسی طرح ان کے گھر تک کھانا پہنچا دیتیں جو کبھی کریم کھاتا اور کبھی یوں ہی کھلا چھوڑ دیتا۔ ہاں اس درمیان اس نے ماہی کو روٹی چوسنا ضرور سکھا دیا تھا۔

دروازے پر دستک ہوئی ارجمند پورے یقین اور اعتماد سے نماز کی چوکی سے اتر کر دروازہ کھولنے آگے بڑھی۔ بستی کی بہت سی عورتیں اور مرد گھر میں داخل ہو گئے۔ جانے پہچانے چہرے مگر کریم نے دیکھا کہ جانے کیا ہوا کہ ایک چیخ کے ساتھ اس کی امی بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑیں ۔ ہوش میں آئیں تو ان کی چوڑیاں توڑ دی گئی۔ ان کے سر پر سفید دوپٹہ ڈال دیا گیا۔ لوگ عبدالغنی کو لے کر طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے ان کی باتیں کم عمر کریم کو سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں ۔  اسے مدن چاچا اپنے ساتھ لے کر گھر سے باہر نکل گئے۔ اور جب وہ دوبارہ گھر میں داخل ہوا تو اس کے ابا کا جنازہ اٹھ رہا تھا۔روتے ہوے اس نے پوچھا۔۔’’ مدن چاچا ابا کو کیا ہوا ؟ ‘‘

’’ بیٹا تمہارے ابا کو اللہ میاں نے بلا لیا۔ ‘‘  مدن چاچا کی آنکھوں سے لگاتارآنسو بہہ رہے تھے۔

معصوم کریم کو قرار آ گیا  ، کسی کے گھر کوئی مہمان کتنے دن رہ سکتا ہے۔

رفتہ  رفتہ گھر چھوڑ کر بھاگے ہوے لوگ بستی میں واپس آنے لگے تھے۔ زندگی اپنے پرانے ڈھرے پر لوٹنے لگی۔مدن بھائی نے اپنے کام کے ساتھ ساتھ عبدالغنی کی دوکان کا کام بھی سنبھال لیا۔ ہفتہ میں دو دن کچہری بند رہتی۔ وہ بستی واپس آتے شہر سے لائے ہوے کپڑوں کے ٹکڑے ارجمند کو دے آتے اور وہ اپنے ہنر سے ان کپڑوں سے بچوں کے  ریڈی میڈ لباس تیار کر دیتی۔ چھٹی کے بعد جب وہ شہر واپس جاتے تو پہلے سے طئے شدہ دوکانوں پر تیار مال دے آتے۔اس سے  اتنی آمدنی ہونے لگی تھی کہ عبد الغنی کے گھر میں دونوں وقت چولھا جلنے لگا تھا۔

اجڑی بستی ایک بار پھر سے بس گئی۔مگر رات کی تنہائی میں کریم کے ذہن میں اٹھتے ہوے سوالات اسے پریشان کرنے لگے۔  وقت کے ساتھ کریم کی سوچ بھی پختہ ہوتی گئی۔ بہت سی باتیں بغیر پوچھے اس کی سمجھ میں آنے لگیں ہمیشہ سچ بولنے کا سبق دینے والے ابا بھول گئے کہ سبق آموز کہانیوں کا سچ بدلتا رہتا ہے۔کیوں بولا ابا نے سچ !۔۔۔۔۔اگر میں ہوتا تو۔۔۔تو! کریم کے ذہن میں چونٹیاں رینگنے لگیں ، بار بار سچے بالک کی کہانی ذہن میں گھومنے لگی۔ اکثر رات میں جب عبدالغنی فرصت میں ہوتے تو وہ کریم سے سبق آموز کہانیاں سننا نہیں بھولتے تھے۔ ایک بار جب ارجمند نے ٹوکا تو انہوں نے ہنس کر جواب دیا ، ’ ہمارے والدین نے اسی طرح تاریخی واقعہ سنا سنا کر ہماری ذہنی پرورش کی ہے۔ میں بھی اپنے بچوں کی سوچ کو پختہ کر رہا ہوں ۔

۔۔۔۔اور پھر اس حادثے کو بھی کئی برس گزر گئے۔ مدن بھائی اسی طرح عمل پیرا رہے۔عبدالغنی کا گھر اب ان کے لئے فوت ہوئے بھائی کے گھر جیسا بن چکا تھا۔ ہر سال وہ عبدالغنی کی برسی کرنا نہیں بھولتے تھے۔ اس دن جہاں ارجمند گھر میں مدرسے کے بچوں کے لئے کھانا بناتی وہیں مدن بھائی ان بچوں کو عبدالغنی کے نام پر سالانہ وظیفہ دیتے۔ حالانکہ وظیفہ کی رقم ۱۰۰ روپیہ تھی مگر پھر بھی اس کام سے مدن بھائی کو بہت سکون ملتا تھا۔

کریم اب گیارہ سال مکمل کر کے بارہویں میں لگ چکا تھا  مگر اس کے ذہن میں رینگتی ہوئی چیوٹیاں کم نہیں ہوئی تھیں ۔ ایک شام جب وہ بہت دیر تک اپنی پڑھائی کی میز کرسی سے نہیں اُٹھا تو سلائی کرتی ارجمند نے آواز دی۔۔’’ کریم تو نے ابھی تک دن کا کھانا بھی نہیں کھایا ہے اور عصر کی اذان ہو گئی۔ ‘‘

’’ امی میں ایک کہانی لکھ رہا ہوں ۔ بس مکمل ہونے والی ہے۔پھر نماز پڑھ کر کھا لوں گا۔ ‘‘

ارجمند ہنسنے لگی۔۔’’ خدا خیر کرے۔ باپ کو شاعری کا جنون اور بیٹے کو کہانی لکھنے کا شوق۔ ‘‘

عشاء کی اذان ہوتے ہی ارجمند باورچی خانے سے نکل کر کریم اور ماہی کو نماز پڑھنے کے لئے آواز لگاتی ہوئی خود وضو کرنے بیٹھ گئی۔

نماز کے بعد تینوں نے کھانا کھایا اور کہانی سننے کے لئے سب بستر پر بیٹھ گئے۔  کریم نے جوش کے ساتھ کہانی سنانا شروع کیا۔۔۔۔

’’ پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک قافلہ بغداد کی طرف جا رہا تھا۔ بہت سے لوگ اس میں شامل تھے۔ جان و مال کی حفاظت کیلئے قافلے کا سرداربیچ بیچ میں لوگوں کو ہوشیار کرتا چل رہا تھا۔منزل کچھ ہی دور رہ گئی تھی کہ لٹیروں اور قزاقوں نے اس قافلے پر حملہ بول دیا۔ افراتفری مچ گئی۔ کچھ جان و مال کی حفاظت میں جٹ گئے ا ور کچھ خوف سے سازوسامان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس قافلے میں ایک چھوٹا بچہ بھی تھا جو کنارے کھڑے ہو کر یہ نظارہ دیکھ رہا تھا۔ قزاقوں کے سردار کی نگاہ جب اس بچے پر پڑی تو اس نے اسے پکڑ لیا اور تلاشی لینے لگا۔

جب اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا تو وہ جھنجھلا اٹھا۔۔۔’’ کیا تیرے پاس کچھ  نہیں ہے ؟ ‘‘

بچہ خاموش رہا۔

ارجمند نے اسے بیچ میں ہی ٹوکا۔۔’’ بیٹا! تم تو وہی تاریخی واقعہ  سنا رہے ہو جو سبق آموز کہانیوں کی کتاب میں ہے۔ ‘‘

کریم نے اسی روانی میں کہا۔۔’’ آگے تو سنئے۔ ‘‘

کریم نے ایک گہری سانس لی۔۔’’ دوستو ! اگر جینا چاہتے ہو تو تمہیں ہوش مندی اور دوراندیشی سے رہنا ہوگا۔ خدا انہیں کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں ۔ ساتھیوں زندہ رہنا ہے تو اپنی عقل سے زندہ رہنا سیکھو۔ ‘‘

ارجمند کا ہاتھ اُٹھا اور ایک بھرپور طمانچہ کریم کے گال پر پڑا۔ اگلے ہی لمحے اس نے پھپھک کر روتے ہوے کریم کو اپنی آغوش میں بھر لیا۔ کچھ لمحے یوں ہی گزر گئے۔ اس کے بہتے ہوئے آنسوارجمند کو اپنی گردن پر محسوس ہو رہے تھے مگر وہ چپ کھڑی غبار کے نکل جانے کا انتظار کر رہی تھی۔ ماہی کی آنکھوں میں حیرانی تھی۔ وہ ناسمجھی سے کبھی ماں کا اور کبھی بھائی کا چہرہ تک رہی تھی۔ کریم جب گہری سانس لیتے ہوے ماں سے الگ ہوا تو ارجمند اپنی روندھی آواز میں اس سے مخاطب ہوئی ’’بیٹا  ! انجانے میں تجھ سے گناہ عظیم ہو گیا۔ ایک تاریخی واقعہ میں تو نے اپنی مرضی سے پھیر بدل کر دیا۔ ‘‘

کریم نے کوئی جواب نہیں دیا اور منھ دھونے کے لئے نلکے کی طرف بڑھ گیا۔ وہ بات کی گہرائی سمجھتے ہوے بھی دل سے اس سچ کو تسلیم نہیں کر پا رہا تھا۔ جب چھوٹے سے جھوٹ سے زندگی بچ سکتی تھی ، تو سچ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔ پھر نہ امی کی چوڑیاں ٹوٹتیں اور نہ وہ یتیم کہلاتا۔

ماں کے کہنے پر ، وہ اس بات کے لئے رضامند ہوا کہ وہ صبح کہانی پھاڑ دے گا۔  اور پھر سب چپ چاپ بستر پر لیٹ گئے۔ اپنے ابا کی یاد کریم کو بری طرح تڑپا رہی تھی۔ قطرہ قطرہ آنسو آنکھوں سے ٹپکتا جا رہا تھا۔ بے چین ارجمند بھی تھی۔ نیند آنکھوں سے دور تھی۔ شوہر کی یاد دل کو پاش پاش کر رہی تھی۔ آنسو  اس کی آنکھوں سے بھی بہہ رہے تھے۔ اس کی نگاہ میں  نہ شوہر غلط تھا اور نہ بیٹے کو غلط ماننے کے لئے دل رضامند تھا۔ ماہی ہمیشہ کی طرح دونوں کے درمیان لیٹی گہری نیند سوئی ہوئی تھی۔ ارجمند اور کریم دونوں کی پیٹھ ایک دوسرے کی جانب تھی۔ دونوں جاگ رہے تھے۔ مگر دونوں ہی ایک دوسرے کی ذ ہنی کیفیت سے انجان  تھے۔رات کچھ پہر اور آگے بڑھی ، اس انتظار میں دونوں نیند دور بھگا  رہے تھے۔ ارجمند چاہتی تھی کہ بیٹا نیند کی غفلت میں چلا جائے تو وہ اپنے تڑپتے ہوئے دل کو قرار دینے کے لئے نماز کی چوکی کا سہارا پکڑے اور کریم چاہتا تھا کہ ماں جلدی سے جلدی گہری نیند میں سو جائیں تو وہ اپنے بستر سے اُتر کر چپ چاپ وہ کام کر ڈالے جسے کر گزرنے کی کشمکش میں اس نے گزشتہ کئی ماہ گزارے تھے۔

آخر وہ لمحہ آ ہی گیا جس کا کریم کو انتظار تھا۔ اسے یقین تھا کہ اس کی ماں سو چکی ہے۔ وہ آہستہ سے اُٹھ کر بیٹھ گیا اور جھک کر ماں کے چہرے کو دیکھنے لگا۔ ماں کی آنکھیں بند تھیں ۔ پلکوں میں کوئی جنبش نہیں تھی۔ وہ دھیرے سے پلنگ سے اُتر کر باورچی خانے کی طرف بڑھا۔ ارجمند نے پھڑپھڑا کر آنکھیں کھول دیں ۔ وہ اپنی جگہ لیٹے لیٹے ہی باورچی خانے میں کریم کی ایک ایک نقل و حرکت کو بغور دیکھ سکتی تھی۔

کریم نے سبق آموز کہانیوں کی کتاب کھولی۔ سچے بالک کی کہانی سامنے آ گئی۔ ایک ہی جھٹکے میں اس نے اس کہانی کے دونوں ورق پھاڑ لئے اور رات کا چاول لے کر اپنی لکھی ہوئی کہانی اس نے ان پھٹے ہوے اوراق کی جگہ پر چپکا دی۔کچھ دیر یوں ہی کھڑا وہ کتاب سے پھاڑے ہوئے صفحات کو دیکھتا رہا۔ آنسوؤں سے ڈبڈبائی آنکھوں کے سامنے سارے حروف آپس میں اسے ملتے  ہوے محسوس ہو رہے تھے۔ باپ کا چہرہ بار بار آنکھوں کے سامنے  آ رہا تھا۔ پھر اس نے ماچس اُٹھائی ، دیاسلائی جلائی اور صفحے کے ایک کونے کو آتش کے حوالے کر دیا۔ اس کے قبل کہ صفحے کے حروف مٹتے ، وہ سکون کی گہری سانس لیتا ، اس کے بے قرار دل کو قرار آتا ، برق رفتاری سے باورچی خانے میں داخل ہوتی ہوئی ارجمند نے دونوں ہتھیلیوں کے درمیان صفحہ کو محفوظ کر کے آگ بجھا دی  اور بے نور آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی  مگر کریم کی نگاہ  سیلن سے پھولی چھت کے ا س کونے پر لگی ہوئی تھی جس کا پلاسٹر چٹخ گیا تھا اور جو کسی بھی وقت ٹوٹ کر زمین پر گر سکتا تھا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے