نظمیں ۔۔۔ ستیہ پال آنند

نظمیں

               ستیہ پال آنند

 

  بین کے سُر

 

سانپ سے خوف اب نہیں آتا

سانپ کا زہر تو میں جھیل چکا!

اب مجھے بین کے سُروں سے بہت

خوف آتا ہے۔۔۔ ان کا کاٹا ہوا

کبھی تریا ق سے نہیں بچتا

٭٭٭

 

 

وقت اور مقام کا تواتر

 

اپنی آنکھوں پہ بارہا مجھ کو

شک ہوا ہے کہ جھوٹ کہتی ہیں

 

تم ’’یہاں ‘‘ ہو۔۔یہی جگہ ہے جہاں

تم ہو۔۔ اور اگر ’’یہاں ‘‘ ہو ، تو

تم ’’وہاں ‘‘ پر تو ہو نہیں سکتے!

 

تم ’’ابھی‘‘ ہو۔۔ اگر ابھی ہو ، تو

’’اب سے پہلے‘‘ نہیں تھے، اور اب کے

بعد ہونا بھی غیر ممکن ہے!

 

’’اب‘‘، ’’یہاں ‘‘۔۔ طے شدہ حقیقت سی؟

’’تب‘‘، ’’وہاں ‘‘۔۔ فہم کا توہم سا ؟

اپنی آنکھوں سے کیا سوال کروں

خود نگاہی انہیں نہیں آتی!

٭٭٭

2 thoughts on “نظمیں ۔۔۔ ستیہ پال آنند

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے