املا کے اختلافی مسائل ۔۔۔ خلیق الزماں/ اعجاز عبید

اردو املا کے اختلافی مسائل

 

               مصنف: خلیق الزماں / مبصر: اعجاز عبید

 

املا سے مجھے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے، بطور خاص اس لئے کہ تقریباً تمام عالم اردو  میں جہاں بھی کمپیوٹر پر اردو میں املا کی پڑتال کی جاتی ہے، وہاں اس خاکسار کی اردو لغت کا استعمال ہوتا ہے۔ اور پچھلے نو دس سال سے جب سے یہ لغت رلیز کی گئی ہے، املا کو کمپیوٹر کے مطابق معیار بندی  بھی میرا   میدان کار رہا ہے۔ اس لئے جب عزیزم  امتیاز احمد سے خلیق الزماں کی زیر تبصرہ کتاب  پڑھنے کے لئے لایا تو ایک دن میں ہی ختم کر دی، اور اسی وقت طے کیا کہ یہ کتاب یقیناً تبصرے بلکہ ’سمت‘ میں ’مطالعے‘ کے تحت شامل کرنے کی اہل ہے۔

اس کتاب کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ  اس میں تلفظ کے مطابق املا کی معیار بندی کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اور دو ایک سفارشات کو چھوڑ کر تقریباً ساری سفارشات وہی ہیں ، جو میری معیار بندی  کے مطابق تسلیم کی گئی ہیں ۔ اس کی ضرورت اس لئے بھی تھی کہ رشید حسن خاں اور گوپی چند نارنگ کی مرتبہ سفارشات  پر زمانہ بیت گیا ہے۔ اور جیسا کہ خلیق الزماں کا درست کہنا ہے کہ زیادہ تر املا کے متعلق تحریروں میں یہ بحث نہیں کی گئی ہے کہ کوئی لفظ اسی طرح کیوں لکھا جائے، اور کیوں ان کی سفارش کردہ املا کو ہی درست مانا جائے۔

اس کتاب میں ابتدائیے کی بحث کے بعد  ۱۷ شقیں بنائی گئی ہیں ، جن کے تحت  املا کے اختلاف کی بحث کی گئی ہے، اور مصنف کسی مخصوص املا کو کیوں درست سمجھتا ہے، اس کی تفصیل دی  گئی ہے۔ اس سے کم و بیش متفق ہونے پر بھی مجھے ایک بات کا شدت کے ساتھ احساس ہو رہا ہے کہ اب اس قسم کی املائی سفارشات کسی ادارے کے تحت کیوں نہیں ؟ وہ خلیق الزماں ہوں ، یا اعجاز عبید، یہ سفارشات محض ایک شخص کی ہوتی ہیں ، اور ان کا اثر  بھی محدود ہوتا ہے۔ معین الدین جینابڑے    جن کے تحت مصنف نے یہ تحقیقی مقالہ لکھا ہے، کو چاہئے تھا کہ ایک ادارہ تشکیل دیتے، اور اس قسم کی سفارشات  جواہر لال یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کی طرف سے پیش کی جاتیں ، تو اس کی اثر  پذیری بڑھ سکتی تھی۔ بہر حال، فی الحال تو یہ محض خلیق الزماں یا زیادہ سے زیادہ ان کے ساتھ جینابڑے صاحب کی سفارشات ہیں ۔

لیکن مجھے سب سے بڑی کمی یہ محسوس ہوئی کہ جب یہ کتاب اب کمپیوٹر کے دور میں لکھی جا رہی ہے تو کمپیوٹر کے مخصوص مسائل کا بھی ذکر کرنا چاہئے تھا، مثلاً الف مقصورہ اور تنوین کے بارے میں اس کی معیار بندی نہیں کی گئی ہے کہ تنوین  یا کھڑا زبر کس حرف کے بعد ٹائپ کیا جائے۔ موسیٰ کس طرح درست ہے، م۔ و۔س۔ مقصورہ۔ ی یا م۔و۔س۔ی۔ مقصورہ۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ عربی  ٹائپ کرنے والے یا قرآن مجید کے کمپوزر  تنوین اور مقصورہ بالترتیب الف اور ی سے پہلے لگاتے ہیں ، جب کہ اردو والے  الف اور یا کے بعد۔ میں اردو میں آخر الذکر صورت بہتر سمجھتا ہوں ۔

ہمزہ کے بارے میں بھی موصوف کی سفارشات خوب ہیں ۔جرأت، سائل، ابتدا اور آرائش وغیرہ ا کی املا میں  ہمزہ میں بھی پسند کرتا ہوں ۔ لیکن کیونکہ عربی والے ابتداء اور علماء بھی لکھتے آ رہے ہیں ، اس لئے میں دونوں صورتیں درست مان لیتا ہوں ۔ (اسی طرح لئے یا لیے، اور کئے یا کیے دونوں صورتیں ، کہ دونوں کو استعمال کرنے والوں کی فریکوئینسی اتنی زیادہ ہے کہ اگر ’لئے‘ کو غلط مانا جائے  کمپیوٹر پر املا چیک کرنے میں کام بہت بڑھ جائے گا۔)

البتہ کمپیوٹر کے خصوصی مسائل جس کا کوئی ذکر نہیں گیا، اس کا یہاں اجمالی ذکر کرنا سود مند ہو گا۔

اردو ٹائپ کرنے کے لئے مقبول عام ان پیج سافٹ وئر ہو  یا یونی کوڈ معیار۔ دونوں صورتوں میں ہمزہ کئی شکلوں میں پایا جاتا ہے۔ درمیانی ہمزہ کو ’ئ‘(یونی کوڈ قدر 0626 ) سے ٹائپ کیا جاتا ہے، جب کہ مفرد  ’ء ‘علیٰحدہ (یونی کوڈ قدر  0621 ) سے دکھائی جاتی ہے۔ ان کے علاوہ  ہمزہ بڑی ے، ’ۓ‘ (یونی کوڈ قدر(06D3۔ ؤ (یونی کوڈ قدر 0624)، الف کے اوپر ہمزہ، أ، (یونی کوڈ قدر 0623) الف کے نیچے ہمزہ ، إ (یونی کوڈ قدر 0625)،  ہائے ہوزکے اوپر ہمزہۂ (یونی کوڈ قدر 06C2)، اور ان سب کے علاوہ ایک اوپر والی ہمزہ الگ سے، جو   ’ ٔ ‘ ہوتی ہے، اور جس کی یونی کوڈ قدر  0020ہے ، ہمزہ کی دوسری شکلیں ہیں ۔ کچھ لوگ  اسی اوپر والی ہمزہ کا استعمال کر کے  ’گائے‘ کو بھی ’گاۓ ( یعنی گاف، الف، ے اور اوپر والی ہمزہ ) ٹائپ کرتے ہیں ۔ جب کہ محض تین کنجیوں سے گاۓ(گاف الف اور 06D3 والا ۓ) ٹائپ کیا جاتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ مقبول عام جمیل نستعلیق فانٹ  میں یہ کیریکٹر ہے ہی نہیں ، اس لئے نسخ میں ٹائپ ہوتا ہے۔ لیکن علوی نستعلیق فانٹ میں درست لگتا ہے)، لیکن ہر فانٹ میں ، وہ یونی کوڈ ہو یا ان پیج سافٹ وئر، بہترین شکل اس وقت ٹائپ ہوتی ہے جب پہلے درمیانی حمزہ ’ئ‘ ٹائپ کی جائے اور اس کے بعد ے)۔

اسی طرح جرأت قبیل کے الفاظ کی ٹائپنگ ہے۔ کمپیوٹر پر اسے ا۔ اوپر والی ہمزہ سے ٹائپ کیا جائے یا یا أ والے واحد کیریکٹر سے یعنی یونی کوڈ 0623 سے۔یہ مسئلہ کمپیوٹر کے لئے مخصوص ہے۔

سب سے زیادہ مسئلہ مجھے ہمزۂ اضافت میں محسوس ہوتا  ہے۔  غالب کا ہی مصرع لیں تو بوئے گل پر تو کوئی مشکل نہیں ، لیکن نالۂ دل کتنی شکلوں میں دیکھنے کو ملتا ہے، ملاحظہ کریں :

نالۂ دل (نالہ۔اوپر والی ہمزہ۔ دل)

نالہءِ دل (نالہ۔ مفرد ہمزہ۔ زیرِ اضافت۔ دل، اس میں نالہ، ءِ، اور دل کت درمیان خلا (space)بھی ممکن ہے، اور تینوں جگہ سپیس بھی ممکن ہے، اور کنہیں دو جگہوں پر سپیس۔ اس طرح یہ ایک نہیں چار صورتیں ہیں )

نالہءدل (نالہ۔ مفرد ہمزہ۔ دل، اس کی بھی چار صورتیں ممکن ہیں ، درمیانی خلا کو مد نظر رکھتے ہوئے)

اور جسے میں درست مانتا ہوں

نالۂ دل۔ یعنی ن، ا، ل، اور ہ ہمزہ کا واحد کیریکٹر(06C2)  سپیس۔ اور دل )بغیر سپیس کے ایک اور غلط صورت)

اور اگر اسے محض ’نالہ دل ‘ لکھا جائے تو اسے غلط تو مانتا ہوں لیکن مائکرو سافٹ ورڈ کا سپیل چیک انجن  اسے دو الفاظ مانتا ہی ہے، نالہ اور دل، اور یہ ترکیب استعمال کی گئی ہے، اتنی عقل کمپیوٹر کو ابھی دسستیاب نہیں ہے۔ یہ دونوں الگ الگ لفظ مکمل درست ہیں ، اس لئے غلط نہیں ہیں ۔ اور ورڈ اپنی مشہور عام سرخ خط منحنی سے غلطی نہیں دکھاتا۔

اور اب جس بات کا ذکر  کرنا چاہ رہا ہوں اس کر خلیق الزماں نے مکمل چھوڑ دیا ہے۔ یعنی  ’ی‘ پر ختم ہونے والے الفاظ پر کسرۂ اضافت۔

زندگانی اور شمع کے درمیان اضافت کو کس طرح  دکھایا جائے؟

زندگانیِ شمع (زندگانی پر کسرہ)

زندگانیٔ شمع (زندگانی پر اوپر والی ہمزہ)

زندگانئ شمع (زندگان کے بعد ئ۔ شمع)

زنگانئی شمع (زندگانی۔ ئ۔ شمع)

زندگانیءِشمع (سپیس کی مختلف صورتیں ، بطور ایک، دو اور تین الفاظ)

زندگانیءشمع (سپیس کی مختلف صورتیں ، بطور ایک، دو اور تین الفاظ)

میں محض پہلی صورت کو جائز سمجھتا ہوں ۔ کہ یہاں الف کی آواز نہیں نکلتی ہے جو ہمزہ استعمال کی جائے۔ (جملۂ معترضہ۔یوں بھی عربی میں محض حرکت والا الف ہے ہی نہیں ، صرف الف ہمیشہ  خاموش   (Silent)ہوتا ہے، حرکت والا إ ہوتا ہے یا أ۔ اس بات کا ذکر بھی خلیق صاحب نے نہیں کیا ہے)

اس کے علاوہ وصل اور فصل والے الفاظ کی فہرست میں خلیق صاحب نے بے رحم اور بیوقوف کا  تو ذکر کیا ہے، لیکن یہ نہیں کہ جہاں  ’بے‘ الگ لکھا جائے، وہاں ’بے‘ کے بعد سپیس بھی دی جائے۔ یا بہر حال کو بطور دو الفاظ بہر اور حال لکھا جائے یا بطور واحد لفظ بہرحال، بغیر درمیانی سپیس کے۔

اسی طرح ’اسیطرح‘ کو تو غلط مانا ہے، لیکن۔اسلئے، کیلئے، اسطرح، ہونگا، جائیگا، آپکا، انکو وغیرہ  کا کوئی ذکر نہیں کیا، حالانکہ ان کی ہی بلکہ یقیناً درست لاجک کے مطابق  اس طرح لکھنا غلط مانا جاتا ہے۔۔ کے لئے، اس لئے وغیرہ الگ الگ لکھنا ہی درست ہے۔ اور کمپیوٹر  ٹائپنگ کے مطابق ان کے درمیان سپیس بھی دی جائے گی۔ یہ دوسری بات ہے کہ پرنٹ میں آپ نہیں کہہ سکتے کہ ’کےلئے‘ اور ’کے لئے‘ میں کیا فرق ہے، جب کہ پہلی جگہ میں ‘کے‘ اور ’لئے‘ کے درمیان سپیس نہیں دی گئی ہے، دوسری جگہ سپیس دے کر بطور دو الفاظ لکھا گیا ہے۔ یہ بات بھی یہاں جملۂ معترضہ کے طور پر کہہ دوں کہ   لفظ کی تعریف ہی کمپیوٹر میں اس طرح کی گئی ہے جس کے دونوں جانب فصل، سپیس دی جائے۔ )۔ اس لاجک سے میں ’بہر حال‘ اور ’بہرحال‘ دونوں کو درست مان لیتا ہوں ۔  کہ ’بہر‘ لاحقہ ہونے پر بھی اپنے معنی رکھتا ہے۔

یہاں ایک یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گی کہ ہمارے کمپیوٹر پر اردو ٹائپ کرنے والے وصل اور فصل کا خیال  نہیں رکھتے، کچھ الفاظ کو درمیان سے توڑ دیتے ہیں ۔ کسی بھی ان پیج یا ورڈ فائل میں  سب سے پہلے میں  ’اور‘ جیسے معمولی لفظ کو بھی ’او‘ اور ’ر‘  ڈھونڈھ کر ’اور‘ میں تبدیل کرنے کی کمانڈ دیتا ہوں ، اور یہ غلطی کم از ایک بار ہر فائل میں نظر آتی ہے۔ مفرد حروف کو تو سپیل چیک انجن اپنے تحت رکھتا ہی نہیں ، اور ’او‘ با قاعدہ لفظ ہے، اس لئے ایسی کوئی غلطی نہیں دکھاتا۔

یہاں اعراب کا ذکر بھی ضروری ہے۔ ہاتھ سے لکھنے پر  تو ہم مجبور ہوتے ہیں کہ ’گُل‘ لکھتے ہوئے ’گل‘ لکھیں ۔ اور بعد میں  ’پیش‘ لگائیں ۔ لیکن کمپیوٹر پر بھی ایسا ہی کریں تو غلط ہے۔ گاف کے بعد ہی اعراب لگائے جائیں گے، زبر کی صوت میں ’گَل‘، زیر کی صورت میں ’گِل‘، پیش کی صورت میں ’گُل‘ اور  اضافت کی صورت میں ’گلِ‘ یہ چاروں مختلف ہیں ، اور مختلف طریقے سے ہی ٹائپ کرنا چاہئے۔

تائے مربوطہ کی صورت میں بھی (جسے خلیق صاحب نے تائے مدورہ لکھا ہے جو غلط نہیں ہے) جب مفرد ہو تو ضرور یہ درست لکھا جاتا ہے اور ٹائپ کیا جاتا ہے، قرۃ العین کو تو درست لکھتے اور ٹائپ کرتے ہیں ، لیکن رحمۃ اللہ علیہ کی رحمۃ کو ر۔ح۔م۔ۃ نہ ٹائپ کر کے اکثر ر۔ح۔م۔ت۔ہ ٹائپ کیا جاتا ہے۔ جو دیکھنے میں تقریباً ایک جیسا ہی لگتا ہے۔ ایک شوشے کے فرق کے علاوہ۔یہاں میں دونوں شکلیں لکھ رہا ہوں ۔

رحمۃ۔ ۃ کے ساتھ

رحمتہ۔ ت اور ہ کے ساتھ

مؤخر الذکر غلط ہے لیکن زیادہ عام یہی صورت ہے۔ خلیق صاحب ہی اسی کتاب کی سافٹ کاپی (ان پیج فائل) میں دیکھیں تو ممکن ہے کہ وہاں بھی ۃ کی جگہ ت۔ہ نظر آئے۔ اس پر یہ یاد آیا کہ ہمارے کمپوزر نہ جانے کیوں ایک کنجی ٹائپ کرنے میں ڈنڈی مار جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر  (د، ا، ک، ٹ، ر) کو ڈاکڑ (ڈ۔ا۔ک۔ڑ) اکثر لکھا دیکھا ہے۔ مذکورہ کتاب میں بھی ایک جگہ ’اکثر‘ (ا۔ک۔ث۔ر) کو ’اکژ (ا۔ک۔ژ) لکھا دیکھا تھا، لیکن ابھی ابھی حوالہ دیکھنے کی کوشش کی تو یہ نہیں مل سکا، خلیق صاحب سافٹ کاپی میں آسانی سے ڈھونڈھ سکتے ہیں ۔ ’اکژ‘ ڈھونڈھنے پر ’بکژت‘ مل گیا ہے، صفحہ ۹۲ کی گیارویں سطر میں )  خیر دو کنجیوں کی جگہ ایک کنجی ٹائپ کرنے میں تو سہل انگاری کہی جا سکتی ہے، لیکن ’پکڑ‘ (پ۔ک۔ڑ) کو ’پکٹر‘ (پ۔ک۔ٹ۔ر) لکھنا!!! اس کو ناطقہ سر بگریباں نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے!!

آخر میں یہ مشورہ دینا چاہوں گا کہ خلیق الزماں اور معین الدین جینابڑے  ایک  جواہر لال یونیورسٹی کا ایسا پروجیکٹ بنائیں جس میں کمپیوٹر پر املا کی سفارشات بھی دی جا سکیں ۔ اس کے لئے احقر کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جس نے سینکروں کتابوں کی فائلوں کی تدوین کر کے برقی کتب بنائی ہیں ۔ دیکھیں :

http://kitaben۔urdulibrary۔org

اور

http://lib۔bazmeurdu۔net

بہر حال 170 صفحات کی یہ کتاب 250 روپئے میں براؤن بک پبلی کیشنز۔  این ۱۳۹ سی، ابو الفضل انکلیو، جامعہ نگر دہلی  ۱۱۰۰۲۵ سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے