مشتاق عاجز: دوہے کی منفرد آواز ۔۔۔ غلام شبیر رانا

 

 

مشتاق عاجز:         دوہے کی منفرد آواز

 

               غلام شبیر رانا

 

بر عظیم پاک و ہند کے ادب میں دوہے کی صنف کے ارتقا پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ دوہے کے سوتے اس خطے کی تہذیبی اور ثقافتی اقدار و روایات سے پھُوٹے ہیں ۔بر عظیم میں دوہے کے ابتدائی نقوش کا تعلق پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی سے ہے۔یہی وہ زمانہ ہے جب مقامی بولیوں اور پراکرت میں مقامی شعرا نے دوہے کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنایا۔فطرت خود بہ خود لالے کی حنا بندی میں مصروف رہی اور مقامی شعرا نے تزکیۂ نفس کے لیے دوہے کو ایک موثر اور مقبول ترین لوک صنف شعر کے طور پر اپنا لیا۔یہاں تک کہ نویں صدی عیسوی میں اپ بھرنش کے متعدد اہم تخلیق کاروں نے دوہے کو ایک با ضابطہ صنف شاعری کی حیثیت سے متعارف کرایا اور اس میں تخلیقِ فن کے اصول و قواعد پر توجہ دی۔تاریخی اعتبار سے یہ بات مسلمہ ہے کہ بہ حیثیت ایک مقبول صنفِ  شاعری دوہے کو بر عظیم کی کئی زبانوں کے تخلیق کاروں نے اپنایا اور ان کے اسلوب کی عوامی سطح پر وسیع پیمانے پر پذیرائی بھی ہوئی۔جن مقامی زبانوں میں قدیم دوہے لکھے گئے اُن میں پنجابی، سندھی، برج بھاشا، مگدھی اور اودھی قابلِ ذکر ہیں ۔ ہندوستانی لسانیات اور اصنافِ ادب کے ارتقا میں دلچسپی رکھنے والے قارئینِ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جس قدر قدیم یہاں کی تہذیب ہے اُسی قدر قدیم یہاں کے ادب کی روایات ہیں ۔ مورخین اور ماہرین علمِ بشریات کی متفقہ رائے ہے کہ اقوامِ عالم کے تخت و کُلاہ و تاج کے سب سلسلے سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں کی زد میں آ کر خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتے ہیں لیکن تہذیب اس ہونی سے محفوظ رہتی ہے۔ادیب جب قلم تھام کر پرورشِ لوح و قلم میں مصروف ہوتا ہے تو وہ یدِ بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے اور اپنی تخلیقی فعالیت کے اعجاز سے یہ بیش بہا تہذیبی میراث نئی نسل کو منتقل کر کے تاریخی تسلسل کو بر قرار رکھتا ہے۔تہذیبی اور ثقافتی ورثے کی بقا انتھک جد و جہد کی متقاضی ہے۔جو قوم اپنی تہذیبی میراث کو عزیز رکھتی ہے وہ خود اپنی نظروں میں معزز و مفتخر ہو جاتی ہے۔اپنی مٹی سے محبت اور اپنی تہذیب کی حفاظت کسی بھی زندہ قوم کا امتیازی وصف قرار دیا جاتا ہے۔ تہذیبی میراث کی نسلِ نو کو منتقلی وقت کا اہم ترین تقاضا سمجھا جاتا ہے۔وہ قومیں بد قسمت خیال کی جاتی ہیں جو اپنی تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت کے بارے میں مُجر مانہ تغافل کا شکار ہو کر دُوسری اقوام کی تہذیب کی بھونڈی نقالی میں مصروف ہو جاتی ہیں ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اگر بد قسمتی سے کسی قوم کی تہذیب کے تحفظ اور اِسے نئی نسل تک منتقل کرنے کی مہلک غلطی ہو جائے، بے حسی کے باعث قوم کے دل سے احساسِ  زیاں عنقا ہو جائے اور مسلسل سو برس تک بھی اس المیے کی جانب توجہ نہ دی جائے تو تہذیبی انہدام کے باعث وہ قوم پتھر کے زمانے کے ماحول میں پہنچ جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں زیرک تخلیق کار ان اقدار  و  روایات کے تحفظ پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے چلے آئے ہیں جن کا تعلق تہذیبی بقا اور اس کے تسلسل سے ہے۔مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ’’دوہا ‘‘ایک ایسی صنف شاعری ہے جس نے بر عظیم کی تہذیب میں نمو پائی اور اس کے دامن میں گُزشتہ صدیوں کی تاریخ اور تہذیبی ارتقا کے جُملہ حقائق سمٹ آئے ہیں ۔

اُردو زبان میں دوہا نگاری کے ابتدائی آثار تیرہ سو سو برس قبل بھی پائے جاتے تھے۔  جب پُوری دُنیا آفتابِ اِسلام کی ضیا پاشیوں سے بُقعۂ نُور ہو گئی تو اس خطے میں بھی فکر و نظر کا ایک انقلاب بر پا ہو گیا۔ہر قسم کے نسلی، علاقائی اور لسانی امتیازات کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔اس عہد آفریں انقلاب کے بعد افکار تازہ کی مشعل تھامے یہاں کے تخلیق کاروں نے جہانِ تازہ کی جستجو کو اپنا مطمحِ نظر بنا لیا۔اُردو میں دوہے کے ارتقا میں اس خطے میں اسلام کے ابد آشنا پیغام کو سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔جہاں تک شاعری میں تزکیہ نفس کی شعوری یا غیر شعوری کوشش کا تعلق ہے اِس کی اولین صورت دوہے میں دکھائی دیتی ہے۔وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ دوہا نگاروں نے اس صنف میں وہ گُل ہائے رنگ رنگ پیش کیے جن کے اعجاز سے دوہا واقعیت، حقیقت، مقصدیت اور سبق آموز نصیحت کے روپ میں قلب و نظر کی تسخیر میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہو گیا۔دوہے کی صنف کو خونِ  دِل سے سینچ کر پروان چڑھانے والے تخلیق کاروں میں بہت سے نام شامل ہیں ۔ان میں سے کچھ مقبول مسلمان دوہا نگاروں کے نام درجِ ذیل ہیں :

امیر خسرو (۱۲۵۳تا۱۳۲۵)، بابا فرید الدین مسعود گنج شکر (۱۱۷۳تا ۱۲۶۶)، سید عبداللہ  بلھے شاہ (۱۶۸۰تا۱۷۵۷)، عبدالرحیم خانِ خاناں (۱۵۵۶تا۱۶۲۸)، ملک محمد جائسی (۱۴۷۷تا۱۵۴۲)، بہادر شاہ ظفر (۱۷۷۵تا ۱۸۶۲)

دوہا نگاری کے فروغ میں متعدد ہندو شعرا نے بھی اہم کر دار ادا کیا۔جس طرح زندگی اپنے لیے لائحۂ عمل کا انتخاب خود ہی کر لیتی ہے بالکل اُسی طر ح اصنافِ ادب بھی اپنے لیے موضوع اور اظہار کے مواقع تلاش کر لیتی ہیں اس میں مسلک یا عقیدے کی طرف سے کوئی قدغن نہیں ۔ تاہم ہندو شعرا نے بالعموم اپنے دھرم  اور ہندی معاشرت کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔جن ہندو شعرا نے دوہے کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنایا ان میں سے چند نام درجِ ذیل ہیں :

کبیر داس (۱۴۴۰تا۱۵۱۸)، سنت کوی سورداس (۱۴۷۸تا۱۵۸۴)، تُلسی داس (۱۴۹۷تا۱۶۳۲)بہاری لال (۱۵۹۵تا۱۶۶۳)

۱۸۵۷کی ناکام جنگ آزادی کے بعد جب تاجر کے روپ میں آنے والے انگریز اپنے مکر کی چالوں سے تاج ور بن بیٹھے تو اس خطے کی تہذیب و ثقافت بھی اس سانحے سے متاثر ہوئی۔زندگی کے ہر شعبے پر اس سانحے کے مسموم اثرات مرتب ہوئے۔یورپی تہذیب کے غلبے کے باعث مقامی تہذیب کے ارتقا کی رفتار قدرے سست پڑ گئی۔نوے سالہ غلامی کے دور میں اس خطے کے باشندوں پر جو کوہِ سِتم ٹوٹا اس نے تو محکوم قوم کی امیدوں کی فصل غارت کر دی اور ان کی محنت اکارت چلی گئی۔جب لوگ پرا گندہ روزی اور پراگندہ دِل ہوں تو کہاں کے دوہے، کہاں کی رباعی اور کہاں کی غزل، سب کچھ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ دوسری اصنافِ سخن نے تو اس جان کنی کے عالم میں بھی اپنا ارتقائی سفر جاری رکھا لیکن دوہا ادیبوں کی تخلیقی توجہ سے محروم رہا۔جب آزادی کی صبحِ درخشاں طلوع ہوئی تو یورپی پیرتسمہ پا اور بیرونی طفیلی اپنی دُکان بڑھا گئے۔اس کے بعد دوہے کو بھی نئے سرے سے پنپنے کا موقع ملا۔دوہا نگاروں نے اپنے موثر اسلوب کے ذریعے زندگی کے تمام موسموں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔صرف دو مصرعوں میں قاری کو قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کا منظر دکھا کر ان شاعروں نے قلب و نظر کو مسخر کر لیا۔ ان کے اسلوب میں جذبات، احساسات اور تخیل کی ندرت اور پا کیزگی کا جادو سر چڑھ کر بو لتا ہے۔ دوہا نگاروں نے بالعموم  حُسن کی تجریدی کیفیت کی لفظی مرقع نگاری پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ ان کے اسلوب میں دو پہلو قابل توجہ ہیں ایک تو روحانیت کا عکاس ہے اور دوسرا مادیت کا پر تو لیے ہوئے ہے۔مادہ پرستی ایک تخلیق کار کو رومانیت کی وادی میں مستانہ وار گھومنے پر مائل کرتی ہے جب کہ روحانیت کے زیرِ  اثر تخلیق کار ما بعد الطبیعات اور مافوق الفطرت عناصر میں گہری دلچسپی لینے لگتا ہے۔دوہا نگاروں کے اسلوب میں ان دونوں کیفیات کا امتزاج دھنک رنگ منظرنامہ پیش کرتا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں دوہا نگاری کے اسلوب میں ایک واضح فرق دکھائی دیتا ہے۔پاکستانی دوہا نگاروں نے سرسی چھند کو اپنایا ہے جب کہ بھارت میں دوہا چھند کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت میں دوہا لکھنے والے شعرا نے پاکستانی شعرا سے الگ ایک نئی طرز ادا کو اپنایا ہے۔آزادی کے بعد پاکستان میں جن شعرا نے دوہا نگاری پر توجہ دیتے ہوئے اس صنف شعر کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ان میں سے کچھ ممتاز شعرا کے نام درجِ ذیل ہیں :

احمد حسن مجاہد، الیاس عشقی، الطاف پرواز، امین خیال، بشیر منذر، تاج سعید، تاج قائم خانی، جلال میرزا خانی، جمال پانی پتی، جمیل الدین عالی، جمیل عظیم آبادی، دِل محمد خواجہ، ذکیہ غزل، رشید قیصرانی، رئیس احمد رئیس، شاعر صدیقی، شاہد جمیل، شمیم انجم وارثی، صہبا اختر، صابر آفاقی، طاہر سعید ہارون ڈاکٹر، عبدالعزیز خالد، عرش صدیقی،  ع۔س۔مسلم، فراز حامدی، قتیل شفائی، کشور ناہید،  مشتاق عاجز، مناظر عاشق ہر گانوی،  نذیر فتح پوری، وحید قریشی۔

آزادی کے بعد پاکستان میں دوہا نگاری کے فن پر تخلیق کاروں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔اس کی بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ اکثر شعرا نے غزل کو اظہار و ابلاغ کا موثر ترین وسیلہ سمجھتے ہوئے اسی پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔جن دوہا نگاروں نے لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے حرفِ صداقت کو زندگی کی تمام نسبتوں کا اہم ترین حوالہ اور ربطِ باہمی کا موثر ترین وسیلہ سمجھا، اُنھوں نے دوہے کو اجتماعی بھلائی کی ندا کے طور پر اپنے اسلوب میں جگہ دی۔ اُن کی یہ طرزِ فغاں بہت مقبول ہوئی اور پاکستان میں دوہا نگاری نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے۔آلامِ روزگار کو حرف حرف بیان کرنے والے ان شعرا نے اپنی دوہا نگاری کی دھاک بٹھا دی اور اُن کے دوہوں کے مجموعے شائع ہوئے، جنھیں قارئین کی جانب سے بے حد پذیرائی نصیب ہوئی۔ یہ اِس صنف شاعری کی مقبولیت کی دلیل ہے۔جِن شعرا کے دوہوں کے مجموعے شائع ہو چُکے ہیں اُن میں خواجہ دِل محمد، جمیل الدین عالی، اِلیاس عشقی، پرتو روہیلہ، جمیل عظیم آبادی، رشید قیصرانی، تاج قائم خانی، طاہر سعید ہارون اور مشتاق عاجز شامل ہیں ۔اُردو زبان میں دوہے کے ارتقا پر تحقیقی کام کا جو معیار ڈاکٹر عرش صدیقی نے پیش کیا اس کے اعجاز سے اس صنف شاعری کو تاریخی تناظر میں دیکھنے میں بہت مدد ملی۔ڈاکٹر عرش صدیقی کا عالمانہ تحقیقی مقالہ ’’پاکستان میں اُردو دوہے کا ارتقا‘‘ جو ۱۹۹۱میں شائع ہوا ادبی تحقیق کا وقیع نمونہ ہے۔اس گراں قدر تحقیقی مقالے میں دوہے میں طبع آزمائی کرنے والے اُن تمام ممتاز پاکستانی شعرا کے اسلوب کا مطالعہ شامل کیا گیا ہے جنھوں نے گزشتہ نصف صدی کے عرصے میں اس صنفِ شاعری کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ڈاکٹر عرش صدیقی خود بھی دوہے لکھتے تھے اس لیے اس تحقیقی مقالے میں ان کے دوہے بھی شامل ہیں ۔دوہے کے ارتقا سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس تحقیقی مقالے کا مطالعہ بہت افادیت کا حامل ہے۔

مشتاق عاجز کا شمار پاکستان کے ممتاز شاعروں میں ہوتا ہے۔وہ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز اپنی دھُن میں مگن پرورشِ لوح و قلم میں مصروف رہتا ہے۔اُس کی انفرادی خصوصیات، جذباتی میلانات اور احساساتی کیفیات اُس کے اسلوب میں نمایاں ہیں ۔اُس کا تخلیقی سفر گزشتہ چار عشروں پر محیط ہے۔اس عرصے میں اُس نے جس خلوص اور درد مندی کے ساتھ اپنے جذبات اور احساسات کو اشعار کے قالب میں ڈھال کر شاعری کی ہے اُسے علمی و ادبی حلقوں نے بے حد سراہا ہے۔اُس کی نظموں ، قطعات اور غزلیات کا مجموعہ ’’آئنے سے باہر ‘‘سال ۲۰۰۰میں شائع ہوا۔اس کی شاعری میں موثر ابلاغ کی مسحور کُن کیفیت اس کے منفر اسلوب کی مظہر ہے۔ موقع پرست عناصر اور استحصالی طبقے نے معاشرے اور سماج میں حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کا جو وتیرہ اپنا رکھا ہے اُس کے خلاف مشتاق عاجز نے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا ہے۔حریتِ  فکر کا یہ نڈر مجاہد سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے کی جد جہد میں پیہم مصروف رہا اور اپنے حصے کی شمع فروزاں رکھی۔روشنی کا یہ سفر جاری رہا اور سال ۲۰۰۸میں غزلیات پر مشتمل اُس کا دوسرا شعری مجموعہ ’’الاپ‘‘ منظر عام پر آیا۔اس کے ساتھ ہی وہ شہرت اور مقبولیت کی بُلندیوں پر جا پہنچا۔مشتاق عاجز کے دوہوں کا مجموعہ ’’سمپُورن ‘‘سال ۲۰۱۱ میں شائع ہوا۔’’سمپُورن ‘‘کے آغاز میں مشتاق عاجز کے اسلوب کے بارے میں چار اہم مضامین شامل اشاعت ہیں ۔پہلا مضمون ’’سمپُورن۔۔۔ ایک سُر ساگر ‘‘ ہے۔یہ تجزیاتی مضمون ڈاکٹر طاہر سعید ہارون نے لکھا ہے۔دوسرا مضمون ’’مترنم دوہے‘‘ بھارت کے عالمی شہرت کے حامل ادیب اور دانش ور اعجاز عبید نے لکھا ہے۔ اس مضمون میں پاکستان اور بھارت میں دوہے کے ارتقا پر روشنی ڈالی گئی ہے۔’’دوہے کا معجز ‘‘کے عنوان سے امین خیال کا لکھا ہوا تحقیقی و تنقیدی  مضمون متعدد حقائق کی گرہ کشائی کرتا ہے۔چوتھے مضمون ’’میں ناہیں سبھ توں ‘‘میں مشتاق عاجز نے اپنی تخلیقی فعالیت کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔اپنے اس مختصر مضمون میں مشتاق خیال نے قریب قریب پانچ عشروں پر محیط اپنے تخلیقی سفر سے قاری کو آگاہ کیا ہے۔ایک حساس ادیب کی زندگی کا سفر اور تخلیقی سفر تو جیسے تیسے کٹ ہی جاتا ہے لیکن پے در پے آزمائشوں اور کٹھن حالات کا سامنا کرتے کرتے اس کا وجود کرچیوں میں بٹ جاتا ہے۔مشتاق عاجز کی تحریر کا ایک ایک لفظ زندگی کی صداقتوں اور تخلیقی تجربات کی افادیت کا مظہر ہے۔ عجز و انکسار کے پیکر اِس زیرک تخلیق کار نے جب دوہے کو تزکیہ نفس کا وسیلہ بنایا تو قارئینِ ادب پر اُس کی تخلیقی فعالیت کے نئے در وا ہوتے چلے گئے۔ان دوہوں کے مطالعہ سے بے حِس معاشرے کے سامنے متعدد چشم کشا صداقتیں پیش کی گئیں ۔ مشتاق عاجز  نے اپنے  منفرد اسلوب کو وسیع مطالعہ، مشاہدۂ کائنات، زندگی کی حقیقی معنویت سے لبریز تصورات، خلوص اور درد مندی سے معطر جذبات اور متنوع تخلیقی اور ذہنی تجربات کی اساس پر استوار کیا ہے۔ زبان و بیان اور ہئیت کے نادر تجربات نے ان دوہوں کو زندگی کی حقیقی معنویت کا ترجمان بنا دیا ہے۔ان دوہوں میں رنج اور راحت، دُکھ اور سُکھ شادی و غم اور جذباتی نشیب و فراز کا باہمی تعلق اساسی کے بجائے وقوفی حیثیت کا حامل ہے۔ایک فطین تخلیق کار کی حیثیت سے مشتاق عاجز نے قارئینِ ادب پر واضح کر دیا ہے کہ جہاں شادمانی ہماری زندگی کے معمولات کو ترفع کی جانب لے جانے کا اہم ذریعہ ہے وہاں ہجوم یاس میں انسان کا سینہ و دل حسرتوں سے چھا جاتا ہے اور یہ کیفیت زندگی میں استعدادِ کار کو پستی کی جانب دھکیل دیتی ہے۔تاہم اُس نے اس حقیقت کی تفہیم پر اصرار کیا ہے کہ اس جہاں میں شادی و غم تو ام ہیں ۔اس لیے ہر با شعور انسان کے لیے عیش میں یادِ خدا اور طیش میں خوفِ خدا کی ذہن میں موجودگی کو یقینی بنانا بے حد ضروری ہے۔مشتاق عاجز نے دوہا نگاری کے فن کے جملہ اسرار و رموز کو پیشِ نظر رکھا ہے۔غزل کے مانند دوہے کا ہر شعر بھی ایک مستقل حیثیت اور واضح مفہوم رکھتا ہے۔اس کے دوہے اپنی جگہ پر ایک اکائی اور مستقل نوعیت رکھتے ہیں ۔دوہے کے محض دو مصرعوں کو وہ گنجینۂ معانی کا طلسم بنا دیتا ہے۔اس نے دوہے کی دو ہزار برس کی روایت کو جس خوش اسلوبی سے اپنے فکر و فن کی اساس بنایا ہے وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔

مشتاق عاجز نے اپنے من اور اپنے فن میں ڈُوب کر زندگی کے حقائق کی غواصی میں جس انہماک کا ثبوت دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔اُسے اچھی طرح معلوم ہے کہ زندگی کے کن موضوعات پر اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھانے کے مواقع میسر ہیں ۔وہ ادب اور فنون لطیفہ کا نباض ہے اس لیے اس کی ہر تخلیق عصری آگہی کو پروان چڑھانے میں اہم کردار اد ا کرتی ہے۔دوہے کی فنی اور جمالیاتی قدر و قیمت کے بارے میں وہ ایک واضح اندازِ فکر اپناتا ہے اور اظہار و ابلاغ میں ستاروں کو چھُو لیتا ہے۔ بادی النظر میں یہ حقیقت چونکا دیتی ہے کہ جہاں اور لوگوں کی راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے وہاں مشتاق عاجز پُورے اعتماد کے ساتھ خراماں خراماں چلتا ہوا منزل پہ جا کے دم لیتا ہے۔قرونِ وسطیٰ کے واقعات ہوں یا عہدِ جدید کی ترجیحات مجبوروں اور محروموں کے مسائل کا عنوان ہو یا الم نصیبوں کے گھائل ہونے کا گُمان، معرفت الٰہی کا بیان ہو یا حُسن و رُومان کی داستان،  چندے آفتاب چندے ماہتاب حسینوں کی سراپا نگاری ہو یا ہوا و ہوس میں حد سے گُزر جانے والوں کی دِل آزاری، علم و فضل کا احوال ہو یا معاشی اور معاشرتی جنجال، کارِ جہاں کے ہیچ ہونے کا تذکرہ ہو یا ہجر و فراق کی راہوں کے پُر پیچ ہونے کا شکوہ ہجر کی اذیت ہو یا وصل کی راحت غرض زندگی کا کوئی پہلو بھی اُس کے دِلِ بینا سے پوشیدہ نہیں رہتا۔تخلیقِ فن کے لمحوں میں اُس نے جس جگر کاوی کا ثبوت دیا ہے وہ اُس کی جدتِ اظہار، نُدرتِ تخیل، اسلوبیاتی صناعی اور زورِ بیاں سے ظاہر ہے۔ پرورشِ لوح و قلم کو مشتاق عاجز نے ایک توازن اور ذوقِ سلیم کا آئینہ دار بنا دیا ہے۔اپنی شاعری میں بالعموم اور دوہوں میں بالخصوص وہ مقامِ شوق کی اُس منزل پر فائز دکھائی دیتا ہے کہ قارئینِ ادب اُس کی کامرانیوں پر عش عش کر اُٹھتے ہیں ۔اپنے دوہوں کے ذریعے اُس نے مقصدیت کی جو شمع فروزاں کی ہے اِسے وہ اپنی زندگی کا بیش بہا اثاثہ قرار دیتا ہے۔وہ پُوری دیانت کے ساتھ زندگی کی تعمیری اور اصلاحی اقدار کو اپنے فکر و فن کی اساس بنا کر تخلیقی فعالیت میں مصروف ہے۔وہ جدت پسندی کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے لیکن زندگی کی اقدار عالیہ کا بھی وہ شیدائی ہے۔وہ درخشاں روایات جنھیں مشتاق عاجز نے سدا حرزِ جاں بنائے رکھا اُن میں حق گوئی و بے باکی، راست گوئی، انسانیت کا وقار اور سر بُلندی، حریتِ فکرو عمل، بے لوث محبت، ایثار، خلوص اور دردمندی شامل ہیں اُس کے دوہے جہاں حُسن و جمال کی مسحور کُن کیفیات اور لازوال اقدار کو حقیقی تناظر میں سامنے لاتے ہیں وہاں ذہنی بیداری کویقینی بنا کر فکر و خیال کو مہمیز کر کے ذوقِ سلیم کو جِلا بخشتے ہیں اور تجسس پر مائل کرتے ہیں ۔

مشتاق عاجز نے سمپُورن میں شامل دوہوں کو دس ابواب میں تقسیم کیا ہے۔یہ تقسیم موضوعاتی نوعیت کی ہے جو شا عر کی فکر پرور بصیرت کی مظہر ہے۔ابواب کے عنوانات ہی سے ان ابواب کے مشمولات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔قاری تجسس کے عالم میں ان ابواب کے مطالعہ پر مائل ہو جاتا ہے۔ دوہوں کے اس مجموعے کا مطالعہ کرتے وقت قاری ایک خوش گوار تجربے سے گُزرتا ہے۔جب کوئی نامانوس ہندی لفظ کسی دوہے میں استعمال ہوا ہو تو قاری کی آسانی کے لیے ہر صفحے کے فٹ نوٹ پر ایسے الفاظ کی فرہنگ اِس شامل کی گئی ہے۔اس طرح اظہار و ابلاغ کی راہ میں حائل معمولی دشواریوں پر قابو پا لیا گیا ہے۔شاعر کا یہ اندازِ  فکر غیر معمولی اہمیت اور افادیت کا حامل ہے، جس کی بدولت ادب کا عام قاری اس تخلیقی فن پارے کا استحسان کر سکتا ہے اور اس سے حظ اُٹھا کر اذہان کی تطہیر و تنویر کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔اس خطے کی صدیوں کی تہذیبی و ثقافتی اقدار کے ساتھ رشتہ و پیوند کا اظہار کرتے ہوئے شاعر نے سمپُورن کو بلا شُبہ ایک سُر ساگر بنا دیا ہے۔ سمپُورن کے دس ابواب درج ذیل ہیں :

دھرم اشلوک، ماٹی مان، مایا موہ، دھیان دھارا، گیان گیتا، روپ سروپ، برہن بین، پریم پنتھ، بجوگ روگ، سنجوگ۔

مشتاق عاجز کے دوہوں میں فکر و خیال کی نئی جہتیں اور جذبات واحساسات کی کی نئی صورتیں قاری کے لیے ایک انوکھا تجربہ ہیں ۔اِ ن دوہوں میں متعدد علامات کا استعمال کیا گیا ہے جنھیں ایک ایسے نفسیاتی کُل کی موثر صورت سمجھنا چاہیے جس کے معجز نما اثر سے لاشعور کی حرکت و حرارت کو متشکل کرنے میں مدد مِلتی ہے۔آئیے اِس زیرک تخلیق کار کی گُل افشانیِ گفتار سے مزین اُس دھنک رنگ منظر نامے کی ایک جھلک دیکھیں جو سمپُورن میں موجود ہے:

غوث، قطب، ابدال، قلندر سمجھے کُن کا راگ

سَنت، ولی، اَوتار، پیمبر جانے سُر کی لاگ

جب تک تن کا تُونبا باجے پی کا راگ الاپ

جِس نے من کا تار بجایا نام اُسی کا جاپ

ماٹی کا تُو جایا پالا، ماٹی تیری ذات

مُٹھی بھر ماٹی کے پُتلے، تیری کیا اوقات

دانا ہے تو ماٹی ہو کر اپنا رُوپ نکھار

دانے سے پھُلواری پھُوٹے مہکے سب سنسار

مول سے تول برابر کر لے، کر سچا بیوپار

شام ڈھلے ہی اُٹھ جائے گا دُنیا کا بازار

رنگ برنگی تتلی دُنیا، کلی کلی مُنڈلائے

گُلشن گُلشن بالک بھاگے تتلی ہاتھ نہ آئے

چاہے جیسا پیچ لڑا لے اور بڑھا لے ڈور

تھوڑی دیر مین مچ جائے گا بو کاٹا کا شور

جو کرنا ہے آج ہی کر لے کل پر کام نہ ٹال

آج اناج کی فکر کرے سو ٹالے کل کا کال

میٹھی جِیبھا بول رسیلے من کو لیویں جیت

تیکھے بول سے گھائل ہوویں کیا بیری کیا مِیت

دھن دولت کو لاکھ سنبھالو، دھن کو لاگے چور

پُن کی دولت لو بھی ڈھونڈے بھاگے اس کی اور

بات کرے پھُلجھڑیاں چھُوٹیں بول بکھیریں باس

ہنسے تو جیسے جھرنے پھُوٹیں بُجھتی جائے پیاس

رُوپ نگر کی راج کُماری کرے دِلوں پر راج

راجے راج کُنور سب بھُولے راج سبھا کے کاج

سکھیاں پُو چھیں روگ جیا کا، اکھیاں کھولیں بھید

چُپ سادھوں تو آہیں نِکلیں ، سینے میں سو چھید

رُوپ سروپ سنگھار کہاں کا، مانگ بھری ہے دھُول

آن بسو گھر آنگن ساجن جیوں جُوڑے میں پھُول

اُس بالی کے دانے سونا، دھُوپ جلے جو بالی

اُس بالی کی کیا ہر یالی، جودانوں سے خالی

سہج پکے سو مِیٹھا ہووے جانے سب سنسار

کچی کیری پِس کر چُورن، کَٹ کر بنے اچار

ساون بھادوں برسے برکھا، نِت برسیں مورے نین

جب سے پی پردیس سدھارے، آٹھ پہر کی رَین

من میں پالا دُکھ برہا کا، تن میں پالا روگ

دھرتی اور آکاش منائیں مُجھ دُکھیا کا روگ

ہر صورت میں چھب ساجن کی، ساجن ہر ہر جا

تَن مَن دَھنسب اَرپن کر دوں ، ہر مورے گھر آ

نیل گگن پر چند ا چمکے برسے پی کا نُور

سورج اور ستاروں میں ہے پی کا نُور ظہور

مشتاق عاجز نے سمپُورن کے دوہوں میں اس خطے کی صدیوں کی اقدار و روایات کو شاعری کے قالب میں ڈھال کر جو تخلیقی تجربہ کیا ہے وہ لائقِ  تحسین ہے۔ہماری قومی، معاشرتی، سماجی اور ملی بقا کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی مٹی پر چلنے کا قرینہ سیکھیں ۔اس خطے کا ارضی و ثقافتی حوالہ ہی یہاں کا امتیازی وصف سمجھا جا سکتا ہے۔ زندگی کی یہی اقدار مختلف صورتوں میں اجتماعی لا شعور کا حصہ بن کر یادِ ایام کا رُوپ دھار چُکی ہیں ۔ہمارے قومی کلچر، ادب، فنون لطیفہ، طرزِ معاشرت اور سماجی زندگی کے جُملہ معمولات میں ان کا واضح پر تو دکھائی دیتا ہے۔معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی بے چینی اور اضطراب کا قلع قمع کرنے کے لیے زندگی کے مسائل کے بارے میں مثبت شعور و آگہی کو پروان چڑھانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔سمپُورن میں شامل دوہے عصری آگہی کے جذبات کو ایک منفرد روپ میں پیش کرتے ہیں ۔ان کے معجز نما اثر سے خوداحتسابی اور اصلاحِ  احوال کی نئی صورت پیدا ہو گی، بے حسی اور جمود کا خاتمہ ہو گا اور جہانِ تازہ کی منزل کی جستجو شروع ہو گی۔یہ ہمارے قومی تشخص کے لیے ایک نیک شگون ہے۔ ہماری مثال ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی ایک ایسی تحریر کے ما نند ہے جسے سیلِ زماں کی پُر شور موجیں کسی وقت بھی مٹا سکتی ہیں ۔رخشِ حیات پیہم رو میں ہے نہ تو ہمارا پاؤں رکاب میں ہے اور نہ ہی اِس کی باگ ہماری گرفت میں ہے  نامعلوم یہ کس مقام پر تھم جائے۔ہم بے بسی کے عالم میں سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور تقدیر مسلسل انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑاتی چلی جا رہی ہے۔تقدیر کے چاک کو سوزنِ تدبیر سے کسی صورت میں بھی رفو نہیں کیا جا سکتا۔مشتاق عاجز نے انسان کی عاجزی کا جو احوال بیان کیا ہے وہ چشم کشا صداقتوں سے لبریز ہے۔اِ س عالمِ آب و گِل میں قدرتِ کاملہ کی طرف سے اختیارِ  بشر پہ جو پہرے بٹھا دئیے گئے ہیں ہمیں اُن کا ادراک ہو نا چاہیے۔مشتاق عاجز کی حقیقت نگاری ہر دور میں اس کی مثبت سوچ کا اثبات کرے گی اور قاری اپنے من میں ڈُوب کر زندگی کے حقائق سے آشنا ہو تا رہے گا۔نہاں خانۂ دِل پر دستک دینے والے یہ دوہے وقت کی آواز پر کان دھرنے کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں ۔اندھیروں کی دسترس سے دُور یہ شاعری سدا روشنی کے سفر میں رہے گی اور زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کر کے کارِ جہاں میں انسانی کردار کو سمجھنے میں مدد دے گی۔

کٹھ پُتلی اور ڈوری کا ہے جنم جنم کا ساتھ

جیسا چاہے ناچ نچائے ڈوری والا ہاتھ

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے