________________________________________________
جھلملاتی ہوئی نیند، سُن
________________________________________________
رفیق سندیلوی
________________________________________________
اَے چراغوں کی لوکی طرح
جھلملاتی ہوئی نیند، سُن
میرا اُدھڑا ہوا جسم بُن
خواب سے جوڑ
لہروں میں ڈھال
اِک تسلسُل میں لا
نقش مربوط کر
نرم، ابریشمیں کیف سے
میری درزوں کی بھر
میری مٹّی کے ذرّے اُٹھا
میری وَحشت کے بکھرے ہوئے
سنگ ریزوں کو چُن
اَے چراغوں کی لو کی طرح
جھلملاتی ہوئی نیند، سُن
میرا اُدھڑا ہوا جسم بُن
کوئی لوری دے
جھو لا جھلا
پوٹلی کھول، رمزوں کی
مجھ پر کہانی کی اَبرک چھڑک
میرا کاندھا تھپک
آ مجھے تاجِ رُوئیدگی سے سجا
اِک تسلسُل میں لا
لو کے اِکتارے پر
چھیڑ دے کوئی دھُن
اَے چراغوں کی لوکی طرح
جھلملاتی ہوئی نیند، سُن
میرا اُدھڑا ہوا جسم بُن!
٭٭
________________________________________________
رفیق سندیلوی کی نظم ’’ جھلملاتی ہوئی نیند، سُن‘‘ پڑھ کر جو پہلی مشکل مجھے درپیش ہے وہ اِس نظم کی مخاطب ہستی سے متعلق ہے۔ مجھے یہ طے کرنا ہے کہ آیا اِس نظم کی مخاطب ہستی کوئی پتھر کی مورتی ہے یا کوئی تصوراتی دیوی۔ مخاطب ہستی پر مجھے اِس لیے پتھر کی مورتی کا گمان گزرا ہے کیوں کہ بہ ظاہر یہ ہستی فعالیت سے قطعی طور پر عاری ہے اور اِس کی تمام تر فعالیت کا دارومدار خطاب کرنے والی ہستی کی تمناؤں پر ہے جب کہ تصوراتی دیوی کا خیال مجھے اِس لیے آیا ہے کہ خطاب کرنے والے کی تمنائیں مخاطب ہستی اور اُس کی قوّتوں پر کسی غیر یقینی اظہار کی پیش کش کے برعکس مکمل اعتقاد کی حامل ہیں۔ خطاب کرنے والے کو یقین ہے کہ وہ اِس دیوی کے چرنوں سے مایوس نہیں لوٹے گا اور یہ یقین ظاہر کر رہا ہے کہ خطاب کرنے والا اِس دیوی کی تعمیر ی فعالیت سے پوری طرح آگاہ ہے اور اپنی حالتِ زار کے ذریعے اِس کی فعالیت کو کرشمہ سازی پر مائل کرنا چاہتا ہے جو فی الوقت عدم فعال ہے۔ اِن دو قیاسات میں میرا کون سا قیاس زیادہ قرین عقل اور نظم کی ساختیاتی معنویت سے مناسبت رکھتا ہے، اِس کا فیصلہ مجھے ابھی کرنا ہے لیکن اِس فیصلے کے لیے نظم کے فاعل اور مفعول کا تعیّن ناگزیر ہے۔ یہ نظم دو ہستیوں کے مابین مکالماتی انداز کی حامل ضرور ہے مگر بڑی حد تک اِسے مونولاگ تصور کیا جا سکتا ہے کیوں کہ اِ س نظم کی مخاطب ہستی مکالمے میں صرف سامع کا کردار ادا کر رہی ہے اور بہ ظاہر نظم کی مفعول ہے۔ اِس نظم کی متکلم ہستی نظم کا فاعل کہی جا سکتی ہے مگر ظاہراً قابلِ مشاہدہ۔ اِس صورتِ حال کی تصدیق یا تردید کے لیے یہ ضروری ہے کہ نظم میں موجود افعال کی جہاتِ فعلیت کو سامنے رکھا جائے۔ نظم کی اوّلین تین سطور پر غور کیجیے :
اَے چراغوں کی لوکی طرح
جھلملاتی ہوئی نیند، سُن
میرا اُدھڑا ہوا جسم بُن
اِن سطور میں فعلیت کی جہت یہ صاف ظاہر کر رہی ہے کہ نظم کا متکلم مفعول ہے جو مخاطب ہستی کو اپنے وجود پر تعمیری عمل کے لیے متوجّہ کرنا چاہتا ہے۔ چونکہ تمام افعال متکلم پر آزمائے جانے ہیں، اِس لیے یہ ضروری ہے کہ مخاطب ہستی کو پتھر کی مورتی کے بجائے تصوراتی دیوی مان کر نظم کی قرأت کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ نظم کی اگلی نو سطریں متکلم کی تمناؤں کی صورت میں اِس تصوراتی دیوی کی کرشمہ ساز قوّتوں کی جانب اشارہ کناں ہیں :
خواب سے جوڑ
لہروں میں ڈھال
اِک تسلسُل میں لا
نقش مربوط کر
نرم، ابریشمیں کیف سے
میری درزوں کی بھر
میری مٹی کے ذرّے اُٹھا
میری وَحشت کے بکھرے ہوئے
سنگ ریزوں کو چُن
مَیں نے دیوی کو تصوراتی اِس لیے کہا ہے کہ نظم میں اِس کے لیے نیند کا استعارہ پیش کیا گیا ہے جو ایک طرف روشنی سے مشابہت کا رشتہ قائم کئے ہوئے ہے تو دوسری طرف جھلملاہٹ کے باعث عدم شفافیت سے جُڑا ہوا ہے۔ یہ استعارہ، روشنی کی وضاحت اور جھلملا ہٹ کے ابہام کے مابین ایک خاص توازن رکھ کر وضع کیا گیا ہے جس نے اِسے کثیر المعنی بنا دیا ہے۔ معنی کی اِس کثرت کو برقرار رکھنے اور ہر قاری کی فعال شرکت کا حق محفوظ رکھنے کی خاطر مَیں نے اِس استعارے کی تفہیم کے لیے تصوراتی دیوی کی علامت سے کام لیا ہے۔ یہ دیوی کسی’ ’ تخلیقی لمحے ‘‘ کی نمائندہ ہو سکتی ہے، جو متکلم یعنی شاعر کے وجود کو منتشر اور مضمحل کر دینے والی عدم تخلیقیت کی اذ یّت سے چھٹکارا دے کراُسے خواب سے جوڑنے، تسلسُل میں لانے اور تاجِ رُوئیدگی سے سجانے کے فرائض انجام سکے یا’’ موت‘‘ کی نمائندہ ہو سکتی ہے، جو وجودی کرب کی صورت حال سے نکلنے کے لیے متکلم کا انتخاب ہے اور شاید اِس انتخاب کے علاوہ اب اُس کے پاس کوئی دوسری صورت نہیں بچی جو اُسے آزاد رہنے کی سزا سے نجات دلا سکے یاپھریہ کسی ’’مابعد الطبعیاتی ہستی ‘‘کی نمائندہ ہو سکتی ہے جس سے متکلم کا مکالمہ عقیدت مندانہ تمناؤں سے عبارت ہے۔ اِس ہستی پر اعتقاد متکلم کی قوت ہے اور یہی قوت اُسے جینے کا حوصلہ دیتی ہے اور شکستگی کے باوجود اُسے نومیدی کے دلدل میں دھنسنے سے بچا لیتی ہے۔ یا پھر یہ دیوی کسی اور ’’معنی ‘‘ کی نمائندہ ہو سکتی ہے جس کا تعیّن ہر قاری کا حق ہے اور اسے چھیننا عملِ تنقید کے منافی ہو گا۔ تا ہم متکلم کا لہجہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مخاطب ہستی اُس کی بدحالی کا سبب نہیں بلکہ اُس کا مداوا ہے۔ آخر متکلم ہستی کی زبوں حالی کا سبب کیا ہے ؟ کیا یہ کوئی ’’وجودی کرب ‘‘ ہے ؟یعنی کیا یہ ہستی اپنی آزادیِ انتخاب کے بھیانک نتائج بھگت رہی ہے یا معروضی حالات کی ناگفتہ بہ صورت نے اُسے بے حال کر رکھا ہے ؟ میرا خیال ہے جس کرب میں اِس نظم کا متکلم مبتلا ہے وہ کوئی وجودی کرب نہیں ہو سکتا کیوں کہ وجودی کرب کی صورت میں کسی تصوراتی دیوی یا وجود سے باہر کسی قوّت کو مدد کے لیے آواز دینا بے معنی ہو جاتا ہے لیکن اگر تصوراتی دیوی کی علامت کو ’’موت‘‘ کے طور پر قبول کر لیا جائے تو متکلم کے کرب کو ’’وجودی کرب‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ جہاں تک غیر موافق معروضی حالات کی بات ہے تو اِس حوالے سے نظم میں کوئی واضح اشارہ دستیاب نہیں ہے مگر نظم کی مزید نو سطور کی قرأت شاید کسی نتیجے تک پہنچنے میں معاونت کر سکے :
کوئی لوری دے
جھولا جھلا
پوٹلی کھول، رمزوں کی
مجھ پر کہانی کی اَبرک چھڑک
میرا کاندھا تھپک
آ مجھے تاجِ رُوئیدگی سے سجا
اِک تسلسل میں لا
لو کے اِکتارے پر
چھیڑ دے کوئی دھُن
اِن سطور میں لوری، دھُن اور کہانی سننے کے تقاضے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حقیقت سفاک ہو چکی ہے۔ متکلم کسی لمحۂ سکون کی، کسی طمانیت بھری ساعت کی، کسی پُر کیف پَل کی تلاش میں ہے جو اُس کی بے ربطی کو مربوط کر دے، اُس کے عدم تسلسُل میں تسلسُل پیدا کر دے اور اُس کی بے خواب آنکھوں میں خواب کی جوت جگا دے۔ نظم کی ابتدائی تین سطور مجموعی طور پر تین بار دہرائی گئی ہیں۔ یہ سہ بار گی اعادہ متکلم کے کرب کی شدّت کا اظہار بھی ہے اور مخاطب ہستی کی بے پروائی کا ثبوت بھی۔ آخر یہ مخاطب ہستی اِس قدر بے پروا کیوں ہے ؟ مَیں نہ چاہتے ہوئے بھی اِس سوال کو نظم کا حاصل سمجھنے پر مجبور ہوں کہ یہی سوال متکلم کے کرب کو انفرادیت کے دائرے سے نکال کر اجتماع میں موجود ہر فرد کے دُکھ کی آواز بنا رہا ہے اور شاید دُکھوں کے اظہار کی یہی مشارکت برق رفتار عہد میں شاعری کا جواز مہیّا کرتی ہے اور احساس دلاتی ہے کہ ہم انسانی زندگی کی معنویت میں اضافہ کر رہے ہیں۔
٭٭٭