شاعری جدید ہو یا قدیم، اس سے لطف اندوز ہونے کے لئے دو شرطیں لازمی ہیں۔ ایک تو ادبی ذوق کی موجودگی، دوسرے ذہنی سطح جو شاعر کی ذہنی سطح سے ہم آہنگ ہو۔ زمانۂ قدیم سے عصر حاضر تک فنون لطیفہ کی اس اہم صنف شاعری کے مداحوں کی کبھی کمی نہیں رہی اور اپنی اپنی استعداد و صلاحیت کی بنأ پر کم یا زیادہ عوام و خواص شعر کو نہ صرف پسند کرتے رہے ہیں بلکہ لطف و انبساط بھی حاصل کرتے رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک شعر کی مختلف شرحیں کی جاتی رہی ہیں اور اپنے اپنے انداز میں اس سے حظ اُٹھایا جاتا رہا ہے۔ یہ کلیہ تو نہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ بعض اوقات شعر کی تشریح شعر کا خون کر دیتی ہے۔ لیکن اس ایک سچائی کی بنأ پر شعر کی تشریح ختم تو نہیں کی جا سکتی۔ ایک صدی قبل مولانا حالی نے ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ کی تصنیف کی تھی اور واقعہ یہ ہے کہ نقد و نظر اور شاعری کو سمجھنے سمجھانے کی خاطر اس کتاب کا درجہ بہت بلند ہے۔ ممکن ہے یونانی زبان کی قدیم تصنیف POETICSجس کا عربی ترجمہ ’’بوطیقا‘‘ کیا جاتا ہے، مولانا حالی کو کتاب ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ تصنیف کرنے پر اُکسایا ہو۔ غالباً شمس الرحمٰن فاروقی نے اُردو میں ’’بوطیقا‘‘ کا ترجمہ ’’شعریات‘‘ کیا ہے جو مفہوم و معانی کے اعتبار سے قریب ترین ترجمہ ہے۔
اُردو شاعری کا احاطہ اگر ہم میر تقی میرؔ سے کرتے ہیں تو ڈھائی سو سال کا عرصہ ہوتا ہے لیکن اگر پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ سے کرتے ہیں تو چار سو سال ہوتے ہیں۔ جو بھی ہو قلی قطب شاہ کی شاعری ابتدائی نمونہ ہے اور میرؔ کی شاعری، اُردو شعریات کے عروج پر پہنچتی نظر آتی ہے اور اسی لئے شاید میرؔ کو ’’خدائے سخن‘‘ کہا جاتا ہے۔ بعد کے ادوار میں غالبؔ نے اور پھر اقبالؔ نے اسے مزید بلندیوں سے نوازا۔ اقبالؔ کے بعد سے اُردو شعر کا گراف کیا اونچا ہوتا گیا یا زوال پذیر ہوا؟ یہ الگ بحث ہے۔ لیکن عظیم ترین شعرأ تو تین ہی قرار دئیے جاتے ہیں۔ میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ۔ البتہ اقبالؔ کے بعد سے اُردو شعر تین بڑی تحریکوں یا رجحانات سے گذرا۔
پہلی تحریک حالیؔ کی اصلاحی تحریک تھی جو اُنیسویں صدی میں شعر و شاعری کو ’’زلف لب و رخسار‘‘ سے نکال کر مسائلی اور معاشرتی موضوعات سے متصف کرنے کی کوشش تھی۔ دوسری، ترقی پسند ادب کی تحریک تھی جو ۱۹۳۶ء سے شروع ہوئی۔ سجاد ظہیر جو بلحاظ عقیدہ اشتراکی تھے، اس کے بانی مبانی مانے جاتے ہیں۔ ترقی پسند ادبی تحریک در اصل ادب میں اشتراکی یا مارکسی نظریات کے طور پر شروع کی گئی اور اپنی شدت پسندی یا انتہا پسندی کے سبب جلد ہی اختلافات کا شکار ہو گئی اور دھیرے دھیرے اس کی اثر پذیری میں کمی واقع ہوتی گئی۔ مزدوروں اور کسانوں کے مسائل، سماجی انسلاک اور مذہب بیزاری اس کے اہم محرکات تھے۔ ہر چند کہ اس تحریک کے علمبرداروں میں صف اوّل کے ادیب و شاعر شامل تھے، تاہم جس طرح باڑھ کے ساتھ کچرا بھی چلا آتا ہے، اسی طرح کم تر درجہ کے ادیب و شاعر بھی اس کی ہمنوائی میں اہمیت حاصل کر گئے۔ تنقید، افسانہ اور آزاد نظم کو اسی تحریک کے زیر اثر فروغ حاصل ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اُردو ادب کو ترقی پسند تحریک نے بہت کچھ دیا۔ ربع صدی کے بعد اس کا زور ٹوٹا اور ۱۹۶۰ء کی دہائی کے آس پاس اس تحریک کے ردِ عمل کو طور پر جدیدیت کے رجحان نے زور پکڑا۔ کچھ ناقدین کی رائے میں یہ رجحان، ترقی پسند تحریک کی توسیع کے طور پر ابھرا۔ کچھ بھی ہو، اس رجحان نے یکسانیت کو توڑا، ٹھنڈی ہوا کے شاداب جھونکوں کی طرح ادب کی مختلف اصناف میں تازگی و تبدیلی پیدا کی۔
اس تحریک یا رجحان کی سب سے بڑی خصوصیت ’’نا وابستگی‘‘ تھی یعنی ادیب و شاعر کو کسی نظرئیے یا ازم کا ’’پرچار ک‘‘ یا ’’مبلّغ‘‘ نہیں ہونا چائیے۔ پھر کہا گیا کہ اس کی وابستگی صرف زندگی سے ہونی چاہئیے۔ اس کے علاوہ غمِ ذات، تنہائی، فرد کی پہچان جیسے مسائل اس رجحان کے تحت تخلیق کا سبب بنے۔ سماجی رشتوں پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا گیا۔ کم و بیش تین دہائیوں تک (۰۶ء تا ۰۸ء) اس رجحان نے اپنا سکّہ جمائے رکھا۔ پھر پچھلے دس بارہ برسوں سے اب ’’ما بعد جدیدیت‘‘ کا چرچا ہے۔ اس ’’ما بعد جدیدیت‘‘ ایک طرف مقامیت Localisation پر بھی زور دیتی ہے تو دوسری طرف عالمی ثقافت (گلوبل کلچر) میں بھی سما جانے کی دعوت دیتی ہے۔ نسائیت (feminism) بھی اس کا ایک خاص پہلو رہا ہے۔
ان دنوں اُردو میں جو شعر و ادب تخلیق ہو رہا ہے، اس پر گفتگو سنجیدگی سے نہیں ہو رہی ہے۔ چاہے جائزے کی صورت میں ہو یا تجزئیے و تنقید کی شکل میں۔ ناقدین کے اپنے پیمانے ہیں، اپنے معیارات ہیں بلکہ اپنی پسند بھی ہے جو غیر جانبداری کے تئیں اُن کے آڑے آ رہی ہے ایسے میں کیا یہ بہتر نہیں کہ اس تمام صورتحال کی پروا کئے بغیر تخلیق کار اپنے تخلیقی عمل کو دیانت داری کے ساتھ جاری وساری رکھے۔ شعر و ادب کو تخلیق تنقید نگاروں کی پسند یا نا پسند کے مطابق پیداوار (Production) میں نہ ڈھالے بلکہ اُسے تخلیق (Creation) کی منزلوں سے ہمکنار کرے۔ تبھی تخلیق کار اپنی شناخت برقرار رکھ سکتا ہے اور اپنا وجود منوا سکتا ہے۔ اب سوالی ہے کہ جدید شاعری کو (جس میں ’’ما بعد جدید شاعری‘‘ بھی شامل ہے) ایک ’’بوطیقا‘‘ کی ضرورت کیوں ہے …؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے سے پہلے ہمیں اُن لفظیات پر غور کرنا ہو گا جو روایتی شاعری، ترقی پسند شاعری اور جدید شاعری میں استعمال ہوتے رہے ہیں۔ ان تینوں ادوار میں سب سے طویل دور روایتی شاعری کا رہا ہے (ویسے غالب بھی اپنے عہد کا جدید شاعر مانا گیا ہے لیکن بہرحال لفظیات کی حد تک اُس نے انہی لفظیات کو برتا جو روایتی شاعری کا حصّہ تھے) البتہ ان لفظوں کو معانی و مفہوم اُس نے نئے پہنائے۔ اختصار سے بھی کام لیا جائے تو یہ فہرست نہایت طویل ہے۔ پھر بھی میخانہ اور اس کے لوازمات: ساقی، رند، جام و سبو۔ مقتل اور اس کے لوازمات: مقتول، قاتل، تلوار و تیغ۔ محفل اور اس کے لوازمات: شمع، اہلِ محفل، رقیب وغیرہ، اس کے علاوہ معاملات عشق میں: دل، زخم، نگاہ، ابرو، غمزہ، ناز و ادا وغیرہ وغیرہ بیسیوں لفظیات اس ضمن میں آتی ہیں۔
ترقی پسند تحریک کے زمانے میں لفظیات کا ذخیرہ کچھ اور تھا جس میں دار و رسن، سحر و شام، فرازِ دار، کاروانِ سحر، اندھیرا اُجالا، سرخ سویرا و زنجیر وغیرہ شامل ہیں۔
جدیدیت کے رجحان میں جن لفظیات کا استعمال زیادہ رہا ان میں سورج، ریت، سمندر، دھوپ، آئینہ، سفر، ہوا، شجر وغیرہ شامل ہیں۔
واضح رہے کہ ان تمام لفظیات کو کبھی تشبیہ، کبھی استعارہ اور کبھی علامت کے طور پر مجازاً شعر میں جگہ دی گئی۔ بعض تصورات کو مسلّمات کا درجہ حاصل ہوا اور بعض مسلّمات رد کر دئیے گئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بالتفصیل ہر دور کی ’’شعریات‘‘ پر گفتگو کریں۔ جس کے لئے نئے پیمانے دریافت کرنے ہوں گے۔ تشریح اور تفسیر کا باب بند نہیں ہوا ہے اور نہ کبھی بند ہو گا۔ ہمیں یہ ملحوظ رکھنا ہو گا کہ امتداد زمانہ کے باعث رشتوں اور محسوسات کی شکست و ریخت ہوئی ہے۔ کل جو امور عیب سمجھے جاتے تھے وہ آج ہُنر بن گئے ہیں۔ قدریں بدل گئی ہیں۔ لہذا ہمیں پرانے پیمانے بدلنے ہوں گے۔ سائینسی، مادّی اور الکٹرانک ترقیوں کے باعث ’’شعریات‘‘ کا ازسر نو جائزہ لیتے ہوئے تجرباتی طور پر سہی، جدید شاعری کی ایک ’’بوطیقا‘‘ لکھنی ہو گی۔ دیکھنا ہے اس سمت کون آگے قدم بڑھائے گا؟
٭٭٭