بچوں کے جمیل جالبی —– عطا محمد تبسم

بچوں کا ایک اور ادیب رخصت ہو گیا۔ اردو کے بڑے لکھنے والوں میں جمیل جالبی ایسے ادیب تھے، جو بچوں کے لیے بھی وقت نکال کر کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے۔ نونہال کے مدیر مسعود احمد برکاتی جو خود بھی بچوں کے بہت بڑے ادیب تھے، اور اپنے آخری وقت تک بچوں کا نونہال کی ادارت کرتے ہوئے رخصت ہوئے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی سے اپنے رسالے کے لیے کچھ نہ کچھ لکھوا لیتے تھے۔ جس کی وجہ سے بچوں کو نادان بکری، نادانی کی سزا، ناشکرا ہرن، قصّہ ایک بھیڑیے کا، دو دوست، دو دشمن، دو چوہے، مغرور لومڑی جیسی کہانیاں پڑھنے کو ملیں۔ محمد انیس الرحمٰن اور اعجاز عبید نے یہ کہانیاں ای بک کی شکل میں جمع و ترتیب کر کے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پر شائع کر دی ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کو بچپن ہی سے کتاب لکھنے کا شوق تھا۔ اپنے اس شوق کے بارے میں ڈاکٹر طاہر مسعود کو دیئے گئے انٹرویو میں ڈاکٹر جمیل جالبی کہتے ہیں، ، جب میں بہت چھوٹا تھا تو میری پٹائی اکثر اس بات پر ہوتی تھی کہ میں کاپیاں پھاڑ کر ان سے کتاب بناتا تھا اور دوپہر کو جب سب لوگ سو جاتے تھے غسل خانے میں چھپ کر کاپیوں کے ورق علیحدہ کر کے ان سے کتاب بناتا اور اپنے کورس کی کتاب اس پر نقل کر کے اپنا نام نمایاں طریقے سے لکھ دیتا: ’’محمد جمیل خان‘‘۔ اس سے اباجی بہت خوش ہوتے تھے لیکن ہمارے اسکول کے ہیڈ ماسٹر مسٹر فانسس جو عیسائی ہو گئے تھے، انھیں میری اس قسم کی سرگرمیوں سے سخت شکایت رہتی تھی اور وہ اباجی سے اکثر شکایت کرتے تھے کہ یہ کاپیاں پھاڑ دیتا ہے۔ گویا کتاب لکھنے یا مصنف بننے کا رجحان شعوری طور سے موجود تھا۔ اسی زمانے میں ہمارے ایک استاد تھے مولوی اسمٰعیل صاحب، پڑھے لکھے آدمی تھے، بہت ہی بوڑھے۔ مجھے یاد ہے لیکن بچوں کو تو ہر شخص بوڑھا لگتا ہے، ممکن ہے وہ اتنے بوڑھے نہ ہوں، لیکن وہ بہت بوڑھے تھے اور آنکھوں سے بھی بالکل معذور تھے۔ ان سے ہم نے اردو اور فارسی پڑھی۔ وہ اتنے اچھے طریقے سے پڑھاتے تھے کہ ان کی سنائی ہوئی کہانیاں ہمیں فوراً یاد ہو جاتی تھیں۔ وہ محبت بھی کرتے اور ناراض ہوتے تو مار بھی دیتے تھے۔ مارنا جو تھا وہ محبت کے اظہار کا ایک طریقہ تھا۔ وہ خود مولوی اسمٰعیل میرٹھی کے شاگرد تھے۔ ان ہی مولوی صاحب سے ہم نے صحتِ زبان و بیان اور اچھی عبارت لکھنے کا انداز سیکھا۔

جالبی صاحب کی ادبی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں ان کی والدہ کا بھی ہاتھ ہے۔ انھوں نے بچپن ہی میں کہانیاں لکھنا شروع کر دی تھی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی پہلی تخلیق ’سکندر اور ڈاکو‘ ہے۔ جو انھوں نے گیارہ بارہ سال کی عمر میں لکھا تھا، جو ان کے اسکول میں اسٹیج بھی کیا گیا تھا۔ ان کی پہلی تحریر ’بنات‘ دہلی میں شائع ہوئی۔ بعد میں ’عصمت‘ دہلی میں بھی ان کی تحریر شائع ہوئیں، ان کی پہلی کتاب ’جانورستان‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ یہ جارج آرول کا ناول تھا۔

بچوں کے ادب سے ڈاکٹر جمیل جالبی کے بارے میں ایک مضمون میں راشد اشرف لکھتے ہیں کہ ’’ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ بڑا ادیب بچوں کے لیے لکھنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے، چہ جائیکہ ایک کھرا محقق یہ رستہ چنے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی تمام تر تحقیقی مصروفیات کے باوجود اس جانب بھی خوب توجہ دی۔ ننھے بچوں کے لیے جمیل جالبی نے جو کہانیاں لکھیں ان میں بید کی کہانیاں، بلیاں، حضرت امیر خسرو، چھن چھن چھن چھن، عجیب واقعہ اور نئی گلستان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے فسانہ آزاد کے مزاحیہ کردار خوجی پر مبنی داستان ’خوجی پر کیا گزری‘ عنوان سے رسالہ ’ہونہار ْ کے لیے قسط وار لکھی جبکہ ان کی ایک طویل کہانی ’حیرت ناک کہانیاں ‘ کے عنوان سے ۱۹۸۳میں شائع ہوئی۔ ’خوجی پر کیا گزری‘ کی کل ۶۶ اقساط شائع ہوئیں۔ ستمبر ۱۹۸۴ میں یہ سلسلہ اپنی آخری یعنی ۶۶ویں قسط کے ساتھ اختتام کو پہنچا تھا۔ خوجی پر کیا گزری بچوں کے لیے ایک دلچسپ سلسلہ تھا۔‘‘

ڈاکٹر جمیل جالبی کو ان کی ادبی خدمات کا سب سے بڑا ایوارڈ ’کمال فن ایوارڈ‘ بھی دیا گیا۔ جمیل جالبی کی خدمات اور ان کے کام پر داؤد ادبی ایوارڈ، یونیورسٹی گولڈ میڈل، محمد طفیل ادبی ایوارڈ، ستارہ امتیاز، ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا۔

ڈاکٹر جمیل جالبی۱۲ جون ۱۹۲۹کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد جمیل خان ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے ہندوستان، پاکستان کے مختلف شہروں میں تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم علی گڑھ میں ہوئی۔ تقسیم ہند کے بعد ۱۹۴۷ میں ڈاکٹر جمیل جالبی پاکستان آ گئے، یہاں جمیل جالبی کو بہادر یار جنگ ہائی اسکول میں ہیڈ رہے۔ جمیل صاحب نے ملازمت کے دوران ہی ایم اے اور ایل ایل بی کے امتحانات پاس کیے۔ سندھ یونیورسٹی سے قدیم اردو ادب پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ملازمت سے رٹائرمنٹ کے بعد باقاعدہ طور پر ادبی سرگرمیوں میں مصروف ہوئے۔ انہوں نے ماہنامہ ساقی میں معاون مدیر کے طور پر خدمات سر انجام دیں، اس کے علاوہ انہوں نے اپنا ایک سہ ماہی رسالہ نیا دور بھی جاری کیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی۱۹۸۳ میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور پھر مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین تعینات ہوئے اس کے علاوہ اردو لغت بورڈ کراچی کے سربراہ بھی رہے۔ ان کا سب سے اہم کام قومی انگریزی اردو لغت کی تدوین اور تاریخ ادب اردو، ارسطو سے ایلیٹ تک، پاکستانی کلچر: قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ جیسی اہم کتاب کی تصنیف و تالیف ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی کیے جن میں جانورستان، ایلیٹ کے مضامین، ارسطو سے ایلیٹ تک شامل ہیں۔، ، جمیل جالبی کا کتب خانہ ایک یکتا روزگار کتب خانہ ہے۔ کتابوں کو محبت سے سینت سینت کر رکھنا تو کوئی ان سے سیکھے۔ بقول نصر اللہ خاں ’’جمیل جالبی ریشم کے کیڑوں کی جگہ کتابوں کے کیڑے پالتے ہیں۔ اگر انہیں ان کی پسند کی کرم خوردہ کتاب نہیں ملتی تو یہ کتاب کی جگہ اس کتاب کے کیڑے حاصل کر لیتے ہیں اور پھر ان کیڑوں کا پیٹ چاک کر کے اس میں سے اصل کتاب حاصل نکال لیتے ہیں۔ ‘‘ انھیں کتابوں اور تحقیق سے بہت شغف رہا، اپنی شدید بیماری کی حالت میں انھوں نے اگست ۲۰۱۶ میں انھوں نے بذات خود ’ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری‘ کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس سے ان کی جامعہ کراچی سے محبت کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ لائبریری کراچی یونیورسٹی کے لئے ڈاکٹر جمیل جالبی کی طرف سے ایک بہت بڑا علمی تحفہ ہے جس میں ایک لاکھ کتابیں اور قلمی مخطوطے شامل ہیں۔ اس کتب خانہ کے ایک ریسورس سینٹر بھی بنایا گیا ہے جو نئے دور کے تمام علمی اور تحقیقی تقاضوں کو پورا کرے گا۔

٭٭٭

2 thoughts on “بچوں کے جمیل جالبی —– عطا محمد تبسم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے