اختر علی کے سینے میں عجیب سی چمک اُٹھی اور وہ ایک دم نیند سے بیدار ہو گئے اور اُنھوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے سینے کے بائیں حصے کو پکڑ لیا، لیکن تکلیف کم نہیں ہوئی، پھر اُنھیں بے چینی سی ہونے لگی۔ بازو ہی اُن کی بیوی گہری نیند سو رہی تھی۔ وہ سوچنے لگے، پچاس برس کی عمر میں یہ پہلا اتفاق ہے، اس سے پہلے ایسا درد کبھی اُٹھا ہی نہیں تھا۔ وہ اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ اچانک اُنھیں خیال آیا کہ ایسے وقت میں یا قوی کا ورد کرنا چاہیے اور پینتالیس بار پڑھ کر سینے پر دم کرنا چاہیے۔ اُنھوں نے ورد کرنا شروع ہی کیا تھا کہ اُن کا حلق سوکھنے لگا، پانی کی چاہ میں وہ فریج تک گئے اور ٹھنڈے پانی کی بوتل نکالی اور ایک ہی سانس میں بہت سارا پانی پی لیا اور دوبارہ اپنے بستر پر لوٹ آئے، گھڑی دیکھی پانچ بج رہے تھے۔ اچانک اُن کے ذہن میں خیال آیا کہ چھ ماہ پیشتر چھوٹے چچا کے سینے میں بھی ایسا ہی درد اُٹھا تھا جو ہارٹ اٹیک کا سبب بنا تھا۔ اُن پر گھبراہٹ طاری ہو گئی اور وسوسہ حقیقت میں بدلنے لگا، تو کیا اب مجھے بھی ہارٹ اٹیک آنے والا ہے؟ خوف کے مارے اُن کا بدن پسینے سے تر بتر ہونے لگا تھا، اُنھوں نے جلدی جلدی خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی، پھر جتنی بھی قرآنی آیتیں یاد تھیں اُنھیں پڑھنا شروع کیا لیکن ہارٹ اٹیک نہیں آیا، اُنھوں نے اپنے سینے کو دبا کر دیکھا، اب بھی درد باقی تھا۔ کچھ سوچ کر اُنھوں نے بیوی کو بیدار کرنے کی غرض سے اُس کے کندھے کو تھپتھپایا تو اُس نے بنا آنکھیں کھولے ہی اُنھیں ڈانٹ دیا، ’’کیا مصیبت ہے؟ صبح ہونے والی ہے۔‘‘ اور پھر سر سے پیر تک چادر اوڑھ کر کروٹ بدل لی۔
ایسی حالت میں بھی اُنھیں غصہ آنے لگا تھا لیکن بہت جلد اُنھوں نے اُس پر قابو پا لیا کہ اس وقت غصہ ٹھیک نہیں ہے، وہ ہارٹ اٹیک کی آمد کو یقینی بنا سکتا ہے۔ پھر بھی اُنھوں نے بیوی کی دیکھ کر دل میں سوچا، صبح جب بیوہ ہو جائے گی تو پھوٹ پھوٹ کر روئے گی چلائے گی۔ چیخے گی، پچھتائے گی کہ ہائے میاں نے تو اُٹھایا تھا، میں ہی ابھاگی جاگی نہیں، اُنھوں نے ایک بار پھر بیوی کی طرف دیکھا اور وہاں سے اُٹھ کر صحن میں چلے آئے۔ نظریں اُٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا تو صبح نمودار ہو رہی تھی اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھی، اور صحن میں موجود بڑے سے بیری کے درخت پر پرندے چہچہا رہے تھے۔ اُنھوں نے سوچا، ایسی خوبصورت صبح تو میں نے آج تک دیکھی ہی نہیں تھی، لیکن دوسرے ہی لمحے اُن پر افسردگی چھا گئی، آہ شاید یہ میری زندگی کی آخری صبح ہے۔ اُنھوں نے پھر ایک بار اپنے سینے پر ایک بوجھ سا محسوس کیا، بے چینی اب بھی ویسی ہی تھی۔ وہ ٹہلنے لگے تھے کہ کانوں میں اذان کی آوازیں گونجنے لگیں، دل نے کہا نماز پڑھ لیں، اور اگر نماز میں ہارٹ اٹیک آ جائے تو نیک نامی کی شہرت بھی ہو جائے گی۔ اُنھوں نے وضو کیا اور نہایت خشوع و خضوع سے نماز پڑھی، گھر کے تمام لوگ جاگ گئے تھے۔ اُنھوں نے سوچا، بچوں کو اپنی تکلیف کے بارے میں بتا دینا چاہیے۔ وہ ضرور اسپتال لے کر جائیں گے۔ پھر خیال آیا ابھی تو اٹیک کا صرف خدشہ ہے۔ دوا خانہ جاؤں گا تو ڈاکٹر زبردستی اٹیک لے کر آ جائیں گے۔ ڈاکٹر بھی اب وہ ڈاکٹر کہاں رہے وہ تو دُکان دار ہو گئے ہیں۔ مریض کو گاہک سمجھتے ہیں۔ اس سے تو بہتر ہے کہ میں خود کو مصروف کر لوں تو شاید اس ہارٹ اٹیک سے توجہ بھی بٹ جائے گی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اٹیک ٹل جائے۔ ویسے بھی جب موت نے دستک دے ہی دی ہے تو اچھا ہے کہ جتنا بھی وقفہ ملا ہے ہنس بول لوں، کچھ کام وام کر لوں۔ چنانچہ اُنھوں نے بنا کسی کو بتائے ہی تھیلی ہاتھ میں لی اور بھاجی ترکاری کی خریداری کے لیے نکل پڑے۔
آج اُن کا معمول ہی بدل گیا تھا۔ راستے میں جو بھی چھوٹا بڑا دکھائی دیتا وہ خود ہی اُسے سلام کر رہے تھے۔ محلے کے لوگوں سے اُن کی خیر خیریت بھی پو چھ رہے تھے۔ کسی کو دعائیں دے رہے تھے تو کسی کو اچھی باتوں کی نصیحتیں کر رہے تھے۔ محلے والے بھی پریشان تھے کہ ہمیشہ اکڑ میں رہنے والے بڑے میاں کو آج کیا ہو گیا؟
جب وہ گھر واپس ہوئے تو اچھے خاصے سامان سے لدے ہوئے تھے۔ بھاجی ترکاری کے ساتھ ہی ساتھ پوتا پاتی کے لیے بہت سارے عمدہ عمدہ کھلونے، بیوی کے لیے کالی مہندی، بہو کے لیے چوڑیوں کا سیٹ، بیٹے کے لیے قیمتی ٹائی اور ہمیشہ ننگے پاؤں رہنے والی ملازمہ کے لیے چپل بھی لائے تھے۔ ان ساری چیزوں کو دیکھ کر سب کے چہرے کھِل اُٹھے۔ بچوں نے اپنے اپنے کھلونے اُٹھا لیے اور خوشی خوشی وہیں کھیلنے لگے، بہو نے تعریف کی کہ ابّا جان کی پسند ہمیشہ ہی عمدہ رہی ہے۔ بیوی بھی بے حد خوش دکھائی دی، اپنی اپنی چیزوں کو لے کر سبھی خوش تھے۔ سب ہی اُنھیں تحسین آمیز نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر اختر علی کو بھی عجیب سی مسرت ہونے لگی تھی کہ تبھی سینے میں پھر ہلکی سی چمک اُٹھی اور اُن کی آنکھوں میں آنسو رولنے لگے، اور بار بار اُنھیں یہ خیال ستا نے لگا کہ شاید شام تک یہ خوشیاں ماتم میں بدل جائیں گی سینے کا درد پتہ نہیں کب ہارٹ اٹیک میں تبدیل ہو جائے۔
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اُنھوں نے سوچا کیوں نہ آخری بار سب سے مل لیا جائے اس کے بعد تو شاید قیامت ہی میں ملاقات ہو گی۔ چنانچہ وہ گھر سے پھر ایک بار باہر نکلے، کچھ قدم ہی چلے ہوں گے کہ اُن کی نظریں شنکر پہلوان پر پڑیں بلدیہ کے الیکشن کے وقت دونوں میں تکرار ہو گئی تھی اور اُس کے بعد سے اُنھوں نے کبھی اُس سے بات نہیں کی تھی لیکن آج اُنھوں نے خود ہی اُسے آداب کہا، وہ شرمندہ شرمندہ سا اُن کی طرف بڑھا تو اُنھوں نے اُس سے ہاتھ بھی ملایا اور کہا، ’’پہلوان پُرانی باتیں بھول جاؤ، میں نے تمھیں معاف کر دیا تم بھی مجھے معاف کر دو۔‘‘
اُس نے اُنھیں گلے لگا لیا اور بولا، ’’ہم تو آپ کو اوہی دن معاپھ کیے رہے ہیں۔‘‘
دونوں نے ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھا، سامنے ہی چائے خانہ تھا۔ شنکر نے چائے کی پیش کش کی جسے اختر میاں نے فوراً قبول کر لیا، دونوں نے خوشی خوشی چائے پی، ایک دوسرے سے ہنس ہنس کر باتیں کیں، اور پھر اختر میاں نے چائے خانے سے اُٹھنے سے پہلے شنکر پہلوان سے سوال کیا، ’’پہلوان ہارٹ اٹیک آنے سے پہلے کیا سینے میں درد ہوتا ہے؟‘‘
’’ ہاں درد تو ہوت ہے، کنتو اب ڈاکٹر کہت ہیں، بیمار کو شوگر ہوے تو درد کا بھاس بھی ناہی ہوت۔‘‘
’’ اچھا اچھا۔۔۔!‘‘ اُنھوں نے کس طرح اُسے یہ جواب دیا اُن کا دل ہی جانتا تھا اور پھر خدا حافظ کہتے ہوئے وہاں سے آگے بڑھ گئے۔ لیکن پہلوان کی باتوں نے اُنھیں ایک نئی فکر میں مبتلا کر دیا تھا۔ اُنھوں نے آج تک شوگر کا چیک اپ کرایا ہی نہیں تھا۔ رُک کر درد کو محسوس کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا اب تو درد بھی نہیں ہو رہا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مجھے شوگر بھی ہو گئی ہے، اور یہ اٹیک نہایت خاموشی سے آئے گا۔ خوف اُن پر مسلط ہونے لگا تھا، بلکہ ہلکے ہلکے چکر بھی آنے لگے تھے۔ اُنھوں نے کسی طرح آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا تو مسجد دکھائی دی، وہ مسجد میں پہنچے، ظہر کے لیے جماعت کھڑی ہو چکی تھا۔ اُنھوں نے جلدی جلدی وضو کیا اور نماز میں شامل ہو گئے۔
نماز سے فارغ ہو کر باہر نکلے تو طبیعت بہل چکی تھی اور اُنھیں ایک عجیب سا سکون محسوس ہونے لگا، وہ کچھ آگے ہی بڑھے تھے کہ کسی نے اُن کے کاندھے ہر ہاتھ رکھا، پلٹ کر دیکھا تو چہرا کھِل اُٹھا، اُن کے بچپن کا دوست جاوید مرزا تھا ء علیک سلیک کے بعد دونوں بہت دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ جب جدا ہونے کا وقت آیا تو اختر علی نے پوچھا، ’’یار مرزا یہ تو بتاؤ شوگر کی بیماری کی علامتیں کیا ہیں؟‘‘
جاوید مرزا نے گھور کر اُنھیں دیکھا، ’’کیوں خیریت؟‘‘
’’بھائی اب تک تو خیریت ہے۔ بس معلومات کے لیے پوچھ رہا تھا۔‘‘
’’ ایک تو شوگر کی بیماری کی وجہ سے آدمی کمزور بہت ہو جاتا ہے‘‘ وہ بتانے لگا، ’’اُسے بھوک بھی نہیں لگتی اور دوسرے اُس کا زخم جلدی نہیں بھرتا۔۔۔۔‘‘
اتنا سنتے ہی اختر علی اپنے آپ میں چلے گئے اور وہ کیا کچھ کہہ رہا تھا یہ تو اُنھوں نے سنا ہی نہیں، البتہ اُنھیں یاد آیا تھا کہ پچھلے دنوں اُنھیں بڑی زور کی ٹھوکر لگی تھی۔ زخم بھی آیا تھا لیکن وہ بنا دوا کے ہی اچھا ہو گیا تھا۔ اُنھوں نے جاوید مرزا کی طرف دیکھا جو ابھی تک کہے جا رہا تھا، ’’ قسمت میں جو بیماری ہو لاکھ احتیاط انسان کر لے وہ ہو کر ہی رہتی ہے۔‘‘
’’اور ہارٹ اٹیک۔۔۔؟‘‘
’’اُس کا تو کوئی وقت متعین نہیں ہے۔ وہ تو کبھی آ سکتا ہے۔ البتہ اُس کی ایک وجہ شوگر کی بیماری بھی ہو سکتی ہے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ لیکن شوگر کی بیماری میں درد کا احساس نہیں ہوتا۔‘‘
’’یہ بات آپ سے کس نے کہی، بھائی ہارٹ اٹیک سے پہلے دل پر ایک بوجھ سا محسوس ہوتا ہے اور درد پیٹھ سے نکل کر ہاتھ اور سینے میں پھیل جاتا ہے۔‘‘
اختر علی کا چہرا ایک دم فق ہو گیا۔ درد اُن کی پیٹھ اور ہاتھ میں بھی محسوس ہونے لگا تھا۔ اُنھوں نے آہستہ سے کہا، ’’اچھا چلتا ہوں۔‘‘
اور جیسے ہی قدم آگے بڑھایا، مرزا نے کہا، ’’اختر علی بیماری کو ٹالنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ آدمی خوش و خُرم رہے اور سب سے ملتا جلتا ہے۔‘‘
’’یہ بہت کام کی بات بتائی تم نے‘‘ اور پھر اپنے دوست سے رخصت ہو گئے، لیکن اُنھیں محسوس ہو رہا تھا جیسے موت اُن سے چار قدم پیچھے ہی چل رہی ہے۔ وہ اُس کو ٹالنے کی غرض ہی سے باہر نکلے تھے۔
اُنھوں نے دن بھر گھوم کر اپنے ہر دوست سے ملاقات کی، اُن کی خیر و عافیت دریافت کی، اُن سے اچھی اچھی باتیں کی، راستے میں جو بھی فقیر نظر آیا اُسے خیرات میں روپیہ دو روپیہ بھی دیا اور پوری کوشش کی کہ اُن کا لہجہ نرم اور شائستہ رہے۔
سورج ڈھلنے لگا تھا اور وہ گھر واپس ہونا ہی چاہتے تھے کہ اچانک اُنھیں بھائی جان کی یاد آئی، جائداد کے بٹوارے کے وقت دونوں بھائیوں میں زبردست لڑائی ہو گئی تھی۔ بھائی جان نے بڑے گھر پر قبضہ کر لیا تھا اور ان کے حصے میں چھوٹا گھر آ گیا تھا۔ جس کی وجہ سے دونوں بھائیوں میں برسوں سے بات چیت بند تھی بلکہ ایک دوسرے کو شادی بیاہ کے موقعوں پر بھی نہیں بلانے لگے تھے۔ اُنھوں نے سوچا، مرنے کے بعد اپنے ساتھ کیا لے کر جاؤں گا؟ سب کچھ تو یہیں رہ جائے گا۔ بھائی جان نے اگر بڑا گھر لے بھی لیا تھا تو کیا ہوا تھا، اُن کا کنبہ بھی بڑا تھا۔ میں نے لڑائی سے پہلے یہ بات کیوں نہیں سوچی تھی؟ اُنھیں اپنے آپ پر ملامت سی ہونے لگی اور دل نے کہا بھائی جان سے بھی معافی مانگ لینی چاہیے۔ مرنے سے پہلے یہ کام بھی کر لینا چاہیے۔ بھائی جان یقیناً معاف کر دیں گے بلکہ مجھے دیکھتے ہی، وہ خود ہی گلے بھی لگا لیں گے، لیکن بھابھی جان اور بچے؟ شاید وہ تو مجھے کبھی معاف نہیں کریں گے، میں نے کتنی بد تمیزی بھی تو کی تھی اُن لوگوں کے ساتھ، کیا کچھ نہیں کہہ ڈالا تھا، وہ تو شاید مجھے دیکھتے ہی برہم ہو جائیں گے اور پتہ نہیں میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ اور جب میرے گھر کے لوگوں کو پتہ چلے گا کہ میں اُن کے گھر گیا تھا تو وہ میرا کیا حشر کریں گے؟ اختر میاں کے قدم وہیں ٹھٹھک گئے اور وہ تذبذب کے شکار ہو گئے۔ دل کہتا بھائی جان کے گھر جانا چاہیے اور دماغ کہتا کیا ضرورت ہے؟ وہ بہت دیر تک اسی شش و پنج میں اُلجھے رہے۔ اُن کے ذہن میں ماضی کی ایک ایک تصویر اُبھرنے لگی، کبھی وہ اپنے آپ کو بھائی جان کی گود میں سوار دیکھتے، کبھی وہ اپنے آپ کو روٹھا ہوا دیکھتے اور بھائی جان کو مناتا ہوا پاتے، کتنی ہی بار بھائی جان نے اپنے پسندیدہ کھلونے اُنھیں دے دیا تھا، اُن کی کسی غلطی پر ابّا جان غصہ ہوتے تو یہی تو وہ بھائی جان تھے جو اُنھیں ابا جان کی مار سے بچا لیا کرتے تھے۔ لیکن اس کے جواب میں اُنھوں نے بھائی جان کو کیا دیا تھا؟ ایک ٹیس سی اُن کے دل میں اُٹھی اور آخر اُنھوں نے دل کی بات مان لی اور اُن کے قدم بھائی جان کے گھر کی طرف اُٹھنے لگے۔ دل میں محبت کا دریا موجزن ہو گیا۔ وہ جیسے جیسے قدم اُٹھاتے راستہ اور طویل محسوس ہونے لگتا۔ وہ جلدی جلدی قدم اُٹھانا چاہتے تھے لیکن ہارٹ اٹیک کا خدشہ اُن کے پیروں کو وزنی کر دیتا۔ آخر وہ کسی طرح بھائی جان کے گھر تک پہنچ ہی گئے اور اُنھوں نے آہستہ سے دستک دی۔ دروازہ کھلا، اُن کے سامنے بھابھی جان کھڑی تھیں۔ دونوں ایک دوسرے کی جانب دیکھ رہے تھے۔
’’بھابھی جان اندر آنے کو نہیں کہیں گی؟‘‘
’’کون اختر میاں۔۔۔‘‘ بھابھی جان کی آواز میں خوشی صاف جھلک رہی تھی ’’چشمے کے بغیر ٹھیک سے کچھ دکھائی بھی نہیں دیتا، آؤ آؤ میاں ہم لوگ تو جانے کب سے تمہارے منتظر رہے ہیں۔۔۔۔‘‘ پھر اُنھوں نے وہیں سے ہانک لگائی، ’’ارے زاہد، روبینہ، انور، صفدر دیکھو تمہارے چچا جان آئے ہیں۔۔۔۔‘‘
اختر میاں شرمندہ شرمندہ سے دروازے سے اندر داخل ہوئے۔
اور دوسرے ہی لمحے وہ چاروں آ کر اُن سے لپٹ گئے۔
اختر میاں کبھی اس بھتیجے کے سر پر ہاتھ پھیرتے کبھی اُس بھتیجے کے ماتھے کو چومتے، کبھی بھتیجی کو لپٹاتے اور کبھی چاروں کو اپنی بانہوں میں بھینچ لیتے۔
’’چچا جان ساری محبتیں یہیں ہم پر لُٹا دو گے تو گھر میں موجود پوتا پاتی کو کیا دو گے؟‘‘
زاہد کے اس سوال پر سب ہی کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
اور وہ جیسے ہی ورانڈے کی جانب بڑھے، اختر میاں نے بھائی جان کو وہاں کھڑا پایا، وہ دوڑتے ہوئے جا کر اُن سے لپٹ گئے، اُن کی آنکھیں بھر آئیں اور اُنھوں نے رُندی ہوئی آواز میں کہا ’’بھائی جان مجھے معاف کر دیں۔‘‘
بھائی جان نے اُنھیں پوری طاقت سے لپٹا لیا۔ اُن کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے ’’پگلے پانی میں لاٹھی مارنے سے کبھی پانی الگ بھی ہوا ہے؟‘‘
وہ اپنے بھائی کے ساتھ جب کمرے میں داخل ہوئے تو ننھے منے بچے اُنھیں حیرت سے دیکھنے لگے۔
’’بچو سلام کرو۔۔۔ یہ تمہارے چھوٹے دادا ہیں۔‘‘
اختر میاں نے دونوں بچوں کو اپنی گود میں اُٹھا لیا اور اُنھیں پیار کرنے لگے۔
’’میاں اتنے برسوں تمھیں ہماری یاد نہیں آئی؟‘‘
بھابھی کے اس سوال پر وہ شرمندگی سی محسوس کرنے لگے۔
’’اب آ گیا ہے تو گلے شکوے بند کرو۔‘‘ بھائی جان نے بھابھی کو ٹوک دیا ’’میاں کیا ہی اچھا ہوتا کہ تم سب کولے کر آتے؟‘‘
اختر میاں کا دل بھر آیا، کیسے بتاتے کہ دمِ واپسیں ہے۔ ہارٹ اٹیک منتظر ہے۔ اللہ کا سامنا ہے۔ گناہ بخشوانے آئے ہیں۔ اُنھوں نے اپنے سینے کو دبایا۔
’’چچا جان سینے میں تکلیف ہے؟‘‘ انور نے پوچھا
’’ارے کوئی تکلیف وکلیف نہیں ہے۔‘‘ بھائی جان بتانے لگے ’’بچپن میں بھی اسے بد ہضمی کی شکایت ہو جاتی تھی اور میں اِسے سوڈا واٹر لا کر پلایا کرتا تھا۔‘‘
’’ٹھیک ہے میں ابھی لے کر آتا ہوں۔‘‘ انور نے فوراً جا کر فریج میں سے سوڈا واٹر کی بوتل نکالی اور زبردستی اُنھیں پلا دیا۔ ایک لمبی ڈکار اُن کے حلق سے نکلی اور صفدر نے کہا، ’’چچا جان اب آپ ہمارے پاس ہی رہ جائیں۔‘‘
اختر میاں نے صفدر کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھا ’’اب تو بس یادوں ہی میں رہیں گے، لیکن یہ جملہ اُن کی زبان سے نکلا ہی نہیں‘‘
اور پھر کچھ ہی دیر بھابھی جان نے دستر لگایا، سب نے کھانا کھایا۔ بہت دیر تک ہنسی مذاق کی باتیں ہوتی رہیں۔ اختر میاں کے دل سے سارا غبار چھٹ چکا تھا وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے۔
رات دیر گئے جب اُنھوں نے اپنے گھر میں قدم رکھا تو کسی کے پوچھنے سے پہلے ہی اُنھوں نے کہا، ’’بھئی ہم اپنے بھائی جان کے گھر گئے تھے۔ وہیں سے کھانا بھی کھا کر آئے ہیں۔ وہ سب اس قدر محبت سے ملے کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔‘‘
یہ سنتے ہی سب کے چہروں پر مسرت کی لہر دوڑ گئی
’’کل ہم سب بھی بھائی جان کے گھر جائیں؟‘‘ اُن کی بیوی نے اُن کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’کیوں نہیں میں خود تم سب کو لے کر جاؤں گا۔‘‘
بیوی نے اُن کی طرف ایسی نظروں سے دیکھا گویا اُسے یقین ہی نہیں آیا۔
’’واقعی۔۔۔؟‘‘
’’ہاں ہاں واقعی۔‘‘
سب کے چہرے کھل اُٹھے۔
’’ابا جان آج آپ نے کتنے اچھے کام کیے۔‘‘ بہو نے تعریفی نظروں سے اُن کی طرف دیکھا تو وہ گویا ہوئے، ’’ہم نے تو آج پہلی بار صبح بھی دیکھی، ساری نمازیں بھی ادا کیں، بھئی اب تو ہم نے طئے کیا ہے جب تک زندگی ہے روز صبح ہی اُٹھیں گے۔‘‘
سب ہی اُنھیں حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
اُن سب کو اُن کے حال پر چھوڑ کر اختر علی اپنے کمرے میں پہنچے، پنکھے کا بٹن دبایا اور بستر پر لیٹے تو اُنھیں عجیب سا مسرت بھرا احساس ہونے لگا تھا۔ اُن کے سینے کا بوجھ ایک دم غائب ہو چکا تھا۔ اُنھوں نے اپنے دن بھر کا جائزہ لیا تو اُنھیں خیال آیا، اگر ساری زندگی میں ایسی ہی بسر کرتا تو؟
اور دیوار پر آویزاں کیلنڈر کے اوراق ہوا سے پھڑپھڑانے لگے تھے۔
٭٭٭