وہ دمے کی مریضہ تھی اور پچھلے ایک مہینے سے شہر کے ایک سرکاری اسپتال میں ایڈمٹ تھی۔ مقامی اسپتال میں علاج معالجہ کے بعد اسے جب کوئی خاص افاقہ نہیں ہوا بلکہ بیماری نے طول پکڑا تو اسے شہر کے چیسٹ کیئر اسپتال میں ریفر کیا گیا۔ در اصل چیسٹ کیئر اسپتال میں منتقل کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مقامی اسپتال میں چیک اپ کرنے کے بعد چند دوائیاں لکھ کر اسے گھر بھیج دیا جاتا تھا اور گھر پر رات دن کھانس کھانس کر وہ خود بھی تکلیف میں مبتلا رہتی اور افراد خانہ کو بھی پریشان کر دیتی۔ اس کا بیٹا خود ایک سرکاری افسر تھا وہ تو دن میں گھر سے باہر ہی رہتا لیکن اس کی بیوی اور دو چھوٹے چھوٹے بچے تو گھر پر ہی رہتے ‘اس لئے بہو کے لئے ماں جی اور بچوں کے لئے دادی کی کھانسی زیادہ ہی وبال جان بن گئی تھی۔ اگرچہ یہ لوگ ٹی وی کی آواز حد سے زیادہ بڑھا کر بھی رکھتے لیکن پھر بھی ماجی کے کمرے سے کھانسنے کی مسلسل آواز انہیں ڈسٹرب کر ہی دیتی۔ بیٹے نے کچھ ماں کی بیماری اور کچھ بیوی کے کہنے پر اسے شہر کے ایک بڑے سرکاری اسپتال میں ایڈمٹ کرانے کا من بنا لیا تاکہ وہ اچھی طرح سے ٹھیک ہو جائے۔ ایک دن ڈاکٹروں سے صلح مشورہ کر کے ماں جی کو سرکاری اسپتال میں ایڈمٹ کروا دیا۔ اس دن اس کے ساتھ بیٹا‘ بہو اور دو بیٹیاں بھی چلی گئیں اور آدھے دن تک میڈیکل چیک اپ اور ضروری ٹیسٹ کرانے کے بعد جب ڈاکٹروں نے بتایا کہ ماں جی کو اسپتال میں ایڈمٹ رہنا پڑے گا تو اسے بیڈ پر بٹھاتے ہوئے سبھی لوگ دلاسہ دینے لگے کہ بس چند دنوں کی بات ہے ‘اس کے بعد آپ صحت مند ہو کر دوبارہ اپنے گھر آئیں گی۔ کبھی کبھی دلاسہ تو بیمار کے لئے دوائی کا کام کرتا ہے۔ وہ ہر کسی کی بات سن کر دل میں خوش ہو جاتی کہ اب وہ ٹھیک ہو جائے گی اور پھر گھر جا کر آرام سے رہے گی۔ اس کی بیٹیاں شہر سے دور بیاہی گئی تھیں اوپر سے دونوں سرکاری ملازمہ تھیں ‘اس لئے اسپتال میں ماں کے ساتھ رہنا زیادہ دنوں تک ممکن نہیں تھا۔ بیٹے کی بھی یہی مجبوری تھی۔
اب رہا سوال بہو کا تو وہ اگرچہ گھر گرہستی کا کام ہی سنبھالتی رہتی لیکن پھر بھی گھر میں دو چھوٹے چھوٹے بچوں کا خیال بھی رکھنا پڑتا تھا اس لئے ماں کی خبر گیری کا بوجھ بیٹے اور بیٹیوں کے کندھوں پر ہی آن پڑا۔ ان لوگوں نے اب یہ سبیل نکالی کہ کام آپس میں بانٹ دیا اور ماں کی خبر گیری کا معاملہ آسان ہو گیا۔ ویسے بھی اسپتال میں سبھی سہولیات میسر تھیں تاہم کبھی کبھی کسی دوائی کو باہر سے لانا پڑتا تھا اور باتھ روم میں آنے جانے کے لئے ماں کو سہارے کی ضرورت پڑتی تھی۔ اس کے باوجود یہ بھی آسانی رہی کہ ان لوگوں کو زیادہ تر رات کے لئے ہی اسپتال میں ٹھہرنے کے لئے ضرورت پڑتی کیونکہ دن کے لئے انہوں نے ایک دو نرسوں کو ماں کا خیال رکھنے کے لئے کہہ رکھا تھا۔ نرسوں نے بھی کچھ اپنی ڈیوٹی اور کچھ چائے پانی کا خیال کر کے حامی بھری تھی۔ اس طرح سے اسپتال میں ماں کا علاج معالجہ اطمینان سے چلتا رہا۔
دس بیس دنوں کے اندر ماں کی طبیعت میں کافی سدھار آیا اور اب کھانسی کے مسلسل دوروں میں بھی کمی واقع ہوئی اور دن بدن ماں بھی چاک و چوبند نظر آنے لگی۔ گھر والے بھی ماں کو رو بہ صحت ہوتے ہوئے خوش ہونے لگے اور انہیں بھی اطمینان ہو رہا تھا کہ ماں کو اب زیادہ تکلیف سے نہیں گزرنا پڑے گا کیونکہ بہت عرصے سے جیسے وہ مرمر کے جی رہی تھی۔ ایک مہینہ ہونے کو آیا تو ڈاکٹروں نے شہنواز علی کو بتایا کہ آپ کل ماں کو گھر لے جا سکتے ہیں۔ دوائی وقت پر دیتے رہنا اور ایک آکسیجن سلینڈر بھی خریدنا پڑے گا تا کہ حسب ضرورت آکسیجن دینے کے لئے اسپتال کے چکر نہ کاٹنے پڑیں اور ایک بات کا خاص خیال رکھیں کہ ماں کو اس کمرے میں رکھیں جہاں گرد اور دھوئیں کا اثر نہ ہو کیونکہ یہ چیزیں اس قسم کے مریض کے لئے زہر کے برابر ہوتی ہیں۔ شہنواز علی یہ سن کر خوش ہوا کہ ماں بہت حد تک ٹھیک ہوئی ہے اور اب اسے گھر بھی لے جا سکتے ہیں۔ اس نے ڈاکٹروں کا شکریہ ادا کیا اور ماں کو یہ خوشخبری سنا کر گھر چلا گیا تاکہ کل بیوی کو ساتھ لے کر ماں کو اسپتال سے لے جائیں۔
گھر پہنچ کر ڈریس چینج کر کے اس نے پہلے دونوں بہنوں کو فون پر بتا یا کہ کل ماں کو گھر واپس لانا ہے اس لئے اسپتال جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دونوں بہنیں یہ خبر سن کر خوش ہوئیں اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اب ماں ٹھیک ہو کر گھر واپس آ رہی ہیں۔ بیوی چائے بنا کر سامنے رکھتے ہوئی پوچھ بیٹھی کہ اب ماں کی طبیعت کیسی ہے تو شہنواز نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے خوشگوار انداز سے کہا کہ ماں کی حالت اب کافی بہتر ہے اور اب اسے گھر لانا ہے۔ اس لئے کل جلدی گھر کے کام نپٹا دینا تاکہ سویرے اسپتال جا کر ماں کو گھر لے آئیں۔ یہ سنتے ہی بیوی کا موڈ خراب ہو گیا اور اسے ایک پڑوسی کی بات یاد آ گئی کہ استھما کی بیماری دوسرے لوگوں پر جلد ہی اثر کرتی ہے ‘اس لئے یا تو اپنی ساس کو بیٹیوں کے پاس بھیج دو یا اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ دو۔ وہاں پر وہ بڑی آرام سے رہے گی اور آپ لوگ خصوصاً آپ کے بچے بھی اس بیماری سے بچ سکیں گے۔ بیوی اس وقت خاموش رہی لیکن رات کا کھانا کھانے کے بعد جب شہنواز نے دوبارہ یہ بات دہرائی تو بیوی نے پہلے بڑی نرمی سے کہا:
”اگر میری بات مانو تو ماں کو اولڈ ایج ہوم میں رکھتے ہیں۔ وہاں پر ایسے بیماروں کا اچھا خیال رکھا جاتا ہے۔ “
شہنواز یہ غیر متوقع بات سن کر بیوی کے منہ کو تکتے ہی رہ گیا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کسی دشمن نے اچانک اندھیرے میں اس کی پیٹھ پر چھرا گھونپ دیا ہو۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وہ سنبھل گیا تو اس نے بیوی سے کہا کہ آپ یہ کیسی فضول قسم کی بات کرتی ہو ‘کیا تم ہوش میں ہو۔
” ہاں ‘میں ہوش میں ہوں ‘اسی لئے یہ مشورہ دے رہی ہوں۔ “بیوی آنکھیں دکھا کر بولی ”مجھے اپنے بچوں کو جیتے جی نہیں مارنا ہے۔ “
”بچوں کو جیتے جی مارنا۔ “شہنواز بھی اب تھوڑا غصے میں بولا ”ماں کو گھر لانے سے بچوں کے مارنے سے کیا واسطہ۔ “
”ماں کو استھما کی بیماری ہے۔ “بیوی سمجھانے لگی ”یہ بیماری بچوں پربھی اثر کر سکتی ہے۔ اس لئے میں ماں کو کسی بھی صورت میں یہاں آنے نہیں دوں گی۔ “
”آپ پڑھی لکھی ہو کر بھی یہ سوچ رہی ہو۔ یہ متعدی مرض نہیں ہے۔ “
”مجھے اور کچھ نہیں سننا ہے۔ “بیوی کا پارا اب اور چڑھنے لگا۔ ”اگر اولڈ ایج ہوم میں نہیں تو اسے اپنی بہنوں کے حوالے کر دو۔ آخر ان کا بھی تو کچھ حق بنتا ہے۔ “
آدھی رات تک شہنواز بیوی کو سمجھاتا رہا لیکن جب اس نے کل بچوں سمت میکے چلے جانے کی دھمکی دے ڈالی اور بچوں کے کمرے میں چلی گئی تو شہنواز پریشان ہو کر کروٹیں بدل بدل کر نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ صبح اٹھنے کے بعد اس نے بڑی مشکل سے چائے کی ایک پیالی پی لی اور ایک بار پھر بیوی سے کہنے لگا کہ چلو ماں کو لے آتے ہیں۔ یہ سنتے ہی بیوی ناگن کی طرح اس پر برس پڑی کہ اگر ماں کو اس گھر میں لے آئے تو میں گھر چھوڑ کر چلی جاؤں گی اور پھر فیصلہ عدالت میں ہو گا۔ بیوی کے یہ تیور دیکھ کر شہنواز علی بھونچکا رہ گیا۔ اسے پہلے بھی ایک گھریلو مسئلے پر عدالت کا منہ دیکھنا پڑا تھا اور جج صاحب نے اسے سمجھایا تھا کہ ایک ذمہ دار آفیسر ہونے کے باوجود بھی آپ ایسے چھوٹے مسائل کو عدالت تک لے آئے۔ یہ تو آپ گھر میں ہی نپٹا سکتے تھے۔ شہنواز علی ایک طرف اپنے عہدے اور سماجی رتبے کی سوچ میں پڑ گیا اور دوسری طرف بیوی کی دھمکی اور پھر عدالت جانے کی بے عزتی۔ وہ اب اسپتال جانے کی بجائے دفتر جانے کے بارے میں سوچنے لگا۔ نو بجے اس نے گاڑی نکالی اور سیدھا دفتر پہنچ گیا۔ چپراسی گڈ مارننگ سر کہتے ہوئے پانی کا گلاس ٹیبل پر رکھ کر چلا گیا۔ ایک گھنٹے کے بعد جب چپراسی چائے لے کر دوبارہ حاضر ہوا تو وہ ہچکچاتے ہوئے پوچھ بیٹھا کہ سر ‘آپ کچھ پریشان سے لگ رہے ہیں۔ میں نے صبح کو محسوس کیا تھا لیکن سوچا کہ شاید تھکاوٹ مت ہو گی۔ چپراسی کی بات سن کر شہنواز کپ اٹھاتے ہوئے بولا کہ نہیں کچھ خاص نہیں لیکن طبیعت ذرا سی خراب ہے۔ چپراسی یہ سن کر وہاں سے چلا گیا۔ چائے پیتے ہوئے شہنواز کو خیال آیا کہ کیوں نہ کسی ایک بہن سے بات کروں کہ وہ ماں کو تھوڑے عرصے کے لئے اپنے گھر لے جائے۔ اس نے جونہی بڑی بہن کا نمبر ڈائل کرنا چاہا تو اسے ایک اور خیال آیا کہ کہ اگر اس نے سوچا کہ شاید میں ماں کی بیماری سے تنگ آ گیا ہوں اور اسے بہانہ بنا کر اس کے ہاں چھوڑنے کی کوشش کر رہا ہوں یا اگر اس کے گھر والے بھی میری بیوی کی طرح سوچ کر انکار کر دیں تو؟ “اب ایک ہی صورت ہے کہ ماں کو اولڈ ایج ہوم میں ہی چھوڑا جائے۔ اس کے بعد ہم وہاں پر بھی جا کر اس کا اچھا خیال رکھ سکتے ہیں۔ ویسے بھی اب بزرگوں کو اولڈ ایج ہومز میں چھوڑنے کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے۔ ان ہی سوچوں میں گم ہو کر وہ دفتر سے نکل کر سیدھا اولڈ ایج ہوم کی طرف چلا گیا۔ وہاں پر پہنچ کر اس نے ضروری کاغذی لوازمات پورے کر دے اور انہیں کل ماں کو ساتھ لانے کا بتا دیا۔ وہاں پر موجود ایک بزرگ آدمی نے کہا کہ:
”شہنواز صاحب ‘آپ ضرور ماں کو اس اولڈ ایج ہوم میں لے آئیں لیکن ایک بار پھر سوچنا کہ جو اپنائیت کا لمس والدین کو گھر پر اپنوں یا اپنے بچوں سے ملتا ہے وہ یہاں پر نہیں ہوتا ہے۔ یہاں پر موجود لوگ بظاہر خوش نظر آتے ہیں لیکن جب ان کے من میں جھانکنے کی کوشش کی جائے تو وہ ویران کھنڈر معلوم ہوتے جو ہر وقت اپنوں کی محبت سے آباد ہونا چاہتے ہیں۔ “
شہنواز علی بزرگ کی دل فگار باتیں سن کر پھر سے سوچ میں پڑ گیا لیکن جلد ہی اسے بیوی کی گھر چھوڑنے کی دھمکی یاد آئی اور وہ بغیر کچھ کہے وہاں سے اٹھ کر چلا آیا۔ گاڑی ڈرائیو کرتے کرتے وہ پریشان حالت میں اسپتال کے گیٹ پر پہنچ گیا۔ گاڑی پارک کرنے کے بعد وہ سیدھا اسپتال میں ماں کے پاس چلا گیا۔ ایک نرس ماں کو دوائی پلا رہی تھی۔ شہنواز کو دیکھتے ہیں ماں مسکراتے ہوئے بول پڑی کہ بیٹا صبح سے آپ لوگوں کی راہ تکتے تکتے میری آنکھیں ترس گئیں ‘آپ نے اتنی دیر کیوں لگا دی ‘کیا بہو اور بچے ٹھیک طرح سے ہیں۔ میں تو یہاں پر تنگ آ گئی ہوں ‘جلدی سے مجھے گھر لے چلو تاکہ اپنے بچوں کا منہ دیکھ کر سکون پا سکوں۔ ماں کی باتیں سن کر شہنواز کی آنکھیں آبدیدہ ہو گئیں اور وہ کچھ کہے بغیر وہاں سے ڈاکٹر کے چیمبر میں چلا گیا۔ دس بیس منٹ کے بعد ڈاکٹر نے نرس کو بلوایا اور شہنواز کی بات سمجھانے لگا کہ شہنواز صاحب کی ماں کو کسی بھی طرح اولڈ ایج ہوم میں جانے کے لئے مائل کرو کیونکہ ان کے گھر میں کچھ پرابلم ہے۔ نرس ‘اوکے سر کہتے ہوئے وہاں سے نکل کر وارڈ میں چلی گئی۔ وہاں پر اس نے جب ماں کی بے قراری دیکھی کہ کب وہ گھر جائے گی تو وہ دوبارہ ڈاکٹر کے چیمبر میں آئی کہ سر میں رات کو اسے سمجھا دوں گی۔ شہنواز یہ سن کر پھر سے ماں کے پاس چلا گیا اور اسے کل لے جانے کی بات بتاتے ہوئے وہاں سے نکل پڑا۔
مارکیٹ میں اس نے آکسیجن سلینڈر بھی خریدا اور گھر کی طرف چل پڑا۔ گیٹ کھلنے کی آواز سنتے ہی بیوی گھر سے باہر آئی اور گاڑی کو گھورنے لگی کہ شاید اس میں ماں بھی مت ہو گی لیکن جب اسے یقین ہو گیا کہ ماں ساتھ نہیں ہے تو وہ الٹے پاؤں کچن میں چلی گئی اور تھوڑی دیر کے بعد چائے کپ میں انڈیلتے ہوئے پوچھ بیٹھی کہ ماں کو کہاں پر چھوڑا۔ شہنواز پہلے کچھ نہیں بولا پھر کہہ ہی دیا کہ اسے کل اولڈ ایج ہوم میں چھوڑیں گے۔ اس کی بیوی یہ سن کر خوش ہوئی اور کہنے لگی کہ مجھے ماں کو یہاں لانے میں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن بچوں کی صحت کا سوچنا پڑے گا آخر وہ تھوڑے میرے ہی ہیں ‘آپ کے بھی تو ہیں۔ شہنواز پھر بھی بے چین ہی رہا۔ وہ سوچنے لگا کہ ہمسائے کیا کہیں گے اور بہنوں کو کیا بتاؤں گا۔ رات کے وقت جب نرس نے ماں جی کو دوائی پلائی تو تھوڑی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد آخر اصلی بات پر آ کر کہنی لگی کہ ماں جی ‘آپ تو بہت حد تک ٹھیک ہو گئی ہیں۔ اب یہ دوا وغیرہ وقت پر کھاتے رہنا اور ہاں فی الحال گھر میں رہنا ٹھیک نہیں رہے گا اس لئے آپ کے بیٹے نے اچھا انتظام کر دیا ہے۔ کل آپ کو اولڈ ایج ہوم لیا جائے گا۔ وہاں پر بھی آپ کی عمر کے اچھے اچھے لوگ ہوتے ہیں۔ نرس کی بات سن کر ماں جی پر جیسے بجلی گر پڑی۔ وہ لرز اٹھی۔ نرس کا منہ تکنے لگی۔ پہلے کچھ نہ بول سکی لیکن پھر سب کچھ سمجھ کر بول پڑی:
”بیٹی‘ مجھے جھوٹا دلاسہ مت دو۔ میں سب کچھ سمجھ گئی۔ مجھے گھر سے بے گھر کرنے کا پورا پروگرام بنایا گیا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ اولڈ ایج ہوم بے سہارا لوگوں کے لئے ہوتا ہے۔ میں تو بے سہارا نہیں لیکن لا وارث ضرور بن گئی ہوں۔ “
نرس نے ماں جی کی دل توڑنے والی بات سن کر بڑی مشکل سے آنسو روکے رکھے اور کچھ کہے بغیر وہاں سے دوسرے بیڈ کے مریض کی طرف چل دی۔ نصف رات تک ماں جی کے دل کو نرس کی بات سانپ کی طرح ڈستی رہی کہ ”کل آپ کو اولڈ ایج ہوم میں لیا جائے گا۔ “نیند کوسوں دور بھاگ چلی تھی۔ اسے یاد آیا کہ بچپن میں جب شہنواز کو بھی چھاتی کے درد کی وجہ سے اسی اسپتال میں ایڈمٹ کیا گیا تھا تو وہ دس دنوں تک یہاں سے ہل بھی نہیں پائی تھی اور بیٹے کو چھاتی سے لگائے رکھا تھا۔ جس دن اسے اسپتال سے چھٹی ملی تھی تو گھر پہنچ گھر اس نے دل کھول کر صدقہ اتارا تھا کہ اس کا بیٹا ٹھیک ہو گیا ہے اور آج اُسی بیٹے نے اپنی ماں کو گھر سے بے گھر کرنے کے بہانے اولڈ ایج ہوم کی سبیل نکالی ہے۔ اسی کرب ریز حالت میں اس کے دل سے سرد آہ نکلی شہنواز بیٹا اور آخری ہچکی لیتے ہوئے منہ سے نکل پڑا ”اپنا گھر“۔
٭٭٭