سفر نامہ عمرہ ۲۰۱۶ء
گیٹ نمبر ۵ سے باہر نکلتے ہی قرآن میوزیم کی عالی شان عمارت بلکہ عمارتوں کا جو سلسلہ ہے، وہ اس سوق الحرم کو مسمار کر کے تعمیر کیا گیا ہے کہ جہاں ۲۰۰۱ ء میں حج کے موقع پر ہم کبھی کبھی چلے جاتے تھے لیکن دوسرے عمرے ۲۰۰۸ء پر وہاں اس کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اب حرم کے ارد گرد ایک سی سرخ چھتوں والی سرکاری عمارتوں کا سلسلہ ہے کہ جہاں مختلف عجائب گھر تعمیر کیے گئے ہیں۔ اس وقت ہم قرآن میوزیم کی جانب جاتے تھے۔ منتظمین بہت خوش دلی سے خوش آمدید کہتے تھے۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے زائرین کی ساری توجہ مسجد تک ہی محدود رہتی ہے اور جو اہم آثار محفوظ کیے گئے ہیں یا تو ان کے متعلق وہ جانتے نہیں یا انہیں اہمیت نہیں دیتے، یہی حال اسما الحسنیٰ سے مزین عمارت کا تھا لیکن وہاں انڈونیشیا کے زائرین کی ایک جماعت ہم سے لمحہ بھر پہلے داخل ہوئی تھی جس کی بنا پر کافی ہجوم ہو گیا تھا۔ میوزیم میں داخل ہوتے ہی دین اسلام کے آغاز اور ارتقا پر مبنی فلم کے ذریعے نمایاں واقعات کی منظر کشی کی گئی ہے۔ قرآن پاک کے قدیم ترین نسخے، وہ نسخہ جس کی تلاوت کے دوران، حضرت عثمان غنی شہید ہوئے، سب سے بڑا، سب سے چھوٹا، مختلف ممالک میں لکھے گئے، خطِ کوفی، نسخ، تعلیق، نستعلیق، شمس، ریحان، زخارف میں تحریر کردہ نسخے محفوظ کیے گئے ہیں اور زائرین کو دعوت دی گئی ہے کہ اگر ان کے پاس ایسا کوئی نایاب نسخہ ہے تو اسے یہاں رکھنے کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں۔ قلم دوات کے نمونے بھی رکھے گئے ہیں کہ جن سے انھیں لکھا گیا ہے۔ مسجد نبوی آ کر ان مقدس آثار کی دید سے محرومی مناسب نہیں۔
آج جمعرات کی رات بارہ بجے، یعنی شب جمعہ کے آغاز کے ساتھ ہی ہمیں انتظار تھا بلال کا، کہ جس نے چوبیس گھنٹوں کے سفر کے بعد ابو ظہبی سے مدینہ پہنچنا تھا اور جاوید بھائی نے اسے کہہ دیا تھا کہ اتنی رات گئے تم ہمیں تلاش کرنے کی بجائے، اپنے ہوٹل میں آرام کرنا، نمازِ فجر کے بعد گیٹ نمبر ۷ پر آ کر ملنا ہم وہیں تمھارا انتظار کریں گے۔ اب آگے کی روداد بلال کی زبانی سنیے۔
’’شاہد ماموں کو فون کیا اور ناراض ہوا کہ یہ کیا ہوا کہ آپ اس مرتبہ عمرے کے لیے آ رہے ہیں اور دبئی کا پروگرام نہیں بنا رہے، اس مرتبہ تو ہم زیادہ شدت سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں، اب پکنک، فشنگ، سوئمنگ اور بار بی کیو کے زیادہ بہتر انداز میں اور زیادہ دور دراز کے منصوبے بن سکتے ہیں۔ اب شاہد ماموں کا مکالمہ سنیے کہ اب کے تم یہاں مکہ آ جاؤ، اکٹھے عمرہ کر تے ہیں اور پہلی مرتبہ اس جملے کے معنی کھلے کہ بلاوا ہو تو راستے خود بخود بن جاتے ہیں۔ حج عمرے کی خواہش تو ہر مسلمان کے دل میں شعور کی منزل کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے، لیکن یوں اچانک میرا ارادہ بن جانا اور اسی لمحے تگ و دو کا آغاز کر دینا یہ سب اسی کی کرم نوازی ہے، میں دل ہی دل میں کہتا رہتا کہ شاہد ماموں کیوں نہیں آ رہے، فون پر ان سے گلہ نہ کرتا تو شاید پروگرام ہی نہ بن پاتا۔
پہلے تو خیال آیا کہ فرح اور بچوں کو بھی ساتھ لیتا جاؤں، لیکن بعد ازاں خود ہی اس ارادے سے باز رہا کہ میں سڑک کے راستے سے جانے کا پروگرام بنا رہا ہوں، بہتر ہے کہ اکیلے ہی ہو آؤں۔ بچوں کو پھر لے جاؤں گا، تو جناب سفری گماشتے سے گفت و شنید شروع ہوئی اور یکم دسمبر سے دس دسمبر تک کا پروگرام بن گیا، میں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ تیاریوں میں مصروف تھا، حج، عمرے سے متعلق کوئی کتابچہ پاس نہ تھا، نیٹ سے پرنٹ لے لیے، جو تھوڑا بہت وقت ملتا، انھیں دیکھ لیتا۔ اللہ اللہ کر کے جمعرات کو ہمارا سفر شروع ہوا، بس مارواڑیوں سے بھری ہوئی تھی، رہنما بھی بس نام کا ہی تھا۔ بہرحال کھاتے پیتے سوتے جاگتے لبیک اور درودِ پاک پڑھتے سفر کٹا۔ سفر تو بہتر رہا لیکن جس طرح سعودی سرحد پر جانچ پڑتال کے نام پر زائرین کو آٹھ گھنٹے تک اذیت میں مبتلا رکھا گیا، اس کا جواب نہیں۔ خیر ریاض سے روانہ ہوئے اور شہر مدینہ کی خنک ہواؤں نے رات بارہ بجے یوں استقبال کیا کہ تمام تر کلفت اور سفر کی تکان ہوا ہو گئی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ امی ابو کا ہوٹل کس جانب ہے، پھر انھوں نے منع بھی کیا تھا کہ رات کے اس پہر میں انھیں تلاش کرنے کی بجائے آرام کروں۔ بہت آرام دہ ہوٹل بہت خوبصورت کمرے اور اس سے بڑھ کر خوش نصیبی اور کیا ہو گی کہ سر زمینِ مدینہ پر پہلا قدم پڑا، پہلی نگاہ اٹھی اور سبز گنبد جسے بلند و بالا میناروں نے اپنے حصار میں لیا ہوا تھا، نگاہوں کے سامنے تھا۔ سبھی ساتھی بستروں پر دراز ہوئے میں نے بھی سونے کی کوشش کی لیکن اضطراب بڑھتا گیا۔ مجھے تین دن ملے ہیں دیارِ نبیﷺ کے اور میں یہ پل سو کر گزار دوں۔ یہ ممکن نہیں، میں خاموشی سے اٹھا، ہوٹل سے باہر آیا، سامنے ہی سبز گنبد مجھے اپنی اور بہت محبت سے بلاتا تھا۔ مجھے یاد تھا کہ شہرِ نبیﷺ میں داخلے کا اجازت نامہ درودِ پاک ہے، میں زیر لب درودِ ابراہیمی، درودِ تنجینا پڑھتا جاتا تھا۔ مجھے گرد و پیش کا کچھ ہوش نہ تھا بے شک رات کا ایک بج رہا تھا لیکن میرے نبی کے دیار میں اندھیروں کا کیا کام، مجھے تو یوں محسوس ہوا کہ ابھی تو شاید چار مرتبہ بھی درودِ پاک مکمل نہ کیا تھا اور میں درِ نبی پر تھا، در نبی پر پڑا رہوں گا، پڑے ہی رہنے سے کام ہو گا۔
میں پہنچ تو گیا ہوں اب مجھے کیا کرنا ہے، میں تو بالکل خالی الذہن تھا، دل کی حالت البتہ عجب تھی کیا یہ میں ہی ہوں جو یہاں تک آ پہنچا ہوں۔ میں صحنِ مسجد تک پہنچ چکا ہوں بڑی بڑی پر شکوہ عمارتیں دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے لیکن اس مسجد کے سنگ تراش، معمار، نقشہ نویس، رنگ ساز، خطاط، شیشہ گر، پچی کاری کے ماہر، کوئی عام سند یافتہ افراد نہ تھے ترک حکومت نے اپنے تمام عمال کو ہدایات جاری کی تھیں کہ قسطنطنیہ کے باہر نیا شہر آباد کیا جائے جہاں اطراف و اکنافِ عالم سے آنے والے قافلوں کو ٹھہرایا جائے، ماہرین کا انتخاب کیا جائے، اور وہ اپنے ذہین ترین بچے کو اپنا فن سکھائے، یہ ترک حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بچے کو قرآن حفظ کروائے گی، یہ دو چار برس کی بات نہیں، پچیس برس کا قصہ ہے۔ مسجدِ نبوی کی تعمیر میں حصہ لینے والا ہر فرد، حافظِ قرآن، بہترین شاہسوار، با عمل مسلمان اور اپنے فن کا ماہر تھا۔ پانچ سو افراد کی یہ جماعت ہر وقت با وضو مصروفِ کار رہتی۔ مسلسل قرآنِ پاک کی تلاوت جاری رہتی۔ نئی تعمیر اور توسیع کا کام پندرہ سال جاری رہا لیکن اس انداز میں کہ با جماعت نماز میں کبھی کوئی رکاوٹ نہ آئی۔ یہ تو ترک سلطنت کا احوال تھا۔ سعودی دورِ حکومت میں تعمیر وتوسیع کا کام زبردست طریقے سے جاری رہا۔ میں اس وسیع و عریض مسجد کو دیکھتا تھا جس کے صحن میں ہی چار لاکھ تیس ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے، وہ دروازے جو اب تک ہم تصاویر میں دیکھتے آئے تھے میرے سامنے تھے، میں سوچتا ہوں کہ میری بڑی خواہش تھی درِ نبیﷺ کو چھونے کی، ان تین دنوں میں کیا مجھے اتنی مہلت ملے گی کہ میں ان پچاسی دروازوں کو چھو سکوں۔ میں اپنے ہی دھیان گیان میں محو تھا، مجھے کچھ علم نہ تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے، ہر امتحان ہمیشہ تیاری کے ساتھ دیا ہے اور یہاں میں ایک ایسے بچے کی طرح آ گیا تھا جسے امتحان میں بٹھا دیا گیا ہو لیکن اسے نصاب کا ہی پتا نہ ہو، اچانک مجھے ایک پاکستانی دکھائی دیا، اسے کہا کہ بھائی میں یہاں تک آ تو گیا ہوں، آگے کیا کرنا ہے مجھے معلوم نہیں، اس نے سبز گنبد کی جانب اشارہ کیا، وہاں چلے جاؤ۔ میں دھیمے دھیمے قدم اٹھاتا باب جبریل پہنچ چکا تھا، چلتے چلتے میں ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا جہاں میرا خیال تھا کہ اب نفل ادا کرنے کی نیت کر لوں کہ گرد و پیش میں چند افراد نفل پڑھتے نظر آ رہے تھے، جیسے ہی میں نے اللہ اکبر کہنے کے لیے ہاتھ بلند کیے کسی نے مجھے بہت پیار سے ایک قدم آگے کر دیا۔ سلام پھیرنے کے بعد معلوم ہوا کہ میں ریاض الجنۃ میں تھا۔ میں نے نہ جانے کتنے نوافل پڑھے۔ فرح، عرشمان، ریان، سنان، فہد، طلال اور ان کے بچوں سبھی کے لیے دعائیں کرتا، مسجد کے اس متبرک حصے کی دید سے نگاہوں کو سیراب کرتا رہا، ہر لمحے کو کیمرے کی آنکھ سے زندۂ جاوید کرنا میری خواہش تھی۔ درودِ پاک کا ورد لبوں پر تھا اور پھر میں نے صلوۃلتسبیح کی نیت کر لی اتنے آرام سے پڑھی گئی کہ بس۔۔ ۔ قریۂ دل پہ چھا گیا کیف و سرور کا سحاب
ابھی فجر میں وقت باقی تھا ہوٹل پہنچا لیکن نیند شاید نہ آئی یا کچھ دیر سویا۔ فجر کی اذان سے پہلے ہی مسجد جا پہنچا۔ امی ابو نے کہا تھا کہ نماز فجر کے بعد گیٹ نمبر سات پر آ جانا، تو اس وقت تو میں اندر نماز پڑھ لوں، نماز کے بعد ان کی تلاش میں نکلوں گا، یہی سوچتے ہوئے میں مسجد میں داخل ہوا۔ ابھی چند قدم ہی آگے بڑھا ہوں گا کہ مجھے شاہد ماموں بیٹھے نظر آئے۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ انھوں نے مجھے دیکھ لیا ہے جب میں ان کے بالکل قریب پہنچا تو انھوں نے سمٹ کر مجھے راستہ دینے کی کوشش کی کہ میں آسانی سے آگے بڑھ جاؤں، لیکن میں نے ان کا ہاتھ تھام لیا، اب سارا منظر دیکھنے والوں کے لیے حیرت کا جہاں سمیٹے ہوئے تھا کہ یہاں تو ساتھ آئے ہوئے عزیز بھی لمحہ بھر کو بچھڑ جائیں تو ملنا مشکل ہوتا ہے اور اس وقت تو ایک اسلام آباد سے دوسرا دوبئی سے آیا ہوا کیسے مل گئے اور ذرا دیر میں ہی ابو سے ملاقات بھی ہو گئی۔ نماز کے بعد گیٹ نمبر سات پر پہنچتے ہی امی دکھائی دیں اور کچھ لمحوں بعد کسی نے میری آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ دیے۔۔ جی ہاں طاہرہ آنٹی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘
چار جمع ایک پانچ درویش، درویشی ڈیرے سے بہت دور، اس جگہ یکجا ہیں کہ جہاں کی زمیں پر آسمان بھی رشک کرتا ہے۔
بلال بہت ذوق و شوق سے اپنی روداد کہہ رہا تھا اور میں حیرت زدہ تھی کہ اس نے ریاض الجنۃ میں لا تعداد نوافل کے علاوہ صلوۃ لتسبیح کیسے ادا کر لی۔ ہمیں تو نفل کی ادائیگی بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر کرنا پڑتی ہے۔ ایک ایک سجدے کے لیے نئے سرے سے جگہ بنانا پڑتی ہے۔ ہر لمحہ احتمال رہتا ہے کہ سجدے میں سر رکھا تو اٹھانا بھی نصیب ہوتا ہے کہ نہیں اور کبھی نسبتاً سکون سے نوافل کی ادائگی کا موقع مل جائے تو لذت و شادکامی کی کیفیت پورے وجود کو سرشار کرتی چلی جاتی ہے۔ میں سوچ رہی تھی واقعی پہلے بلاوے کا، پہلی ملاقات کا، پہلی دید کا نشہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ بلال جس عالم سرشاری میں تھا، جس جذب و سرور میں سر تا پا غرق تھا، ریاض الجنۃ کی کتھا سناتے ہوئے جوش و ولولہ، شیفتگی اور وارفتگی اس کے چہرے سے عیاں تھی اس میں اس وقت اور اضافہ ہو جا تا تھا جب میں کہتی تھی کہ بلال تم خوش نصیب ہو تمہیں روضۂ رسول پر حضوری کے ساتھ حاضری کا موقع ملا، اللہ ہی بندے کو خود سے قریب کرتا ہے، وہ نہ چاہے تو کچھ ممکن نہیں۔ اس کی توفیق ہے جسے اپنی محبت عطا کر دے، اپنے در پہ، اپنے محبوب کے دیار بلا لے۔۔ ۔ اور وہ بے انتہا خوش تھا۔ بلال کی خواہش تھی کہ ہم اس کا ہوٹل بھی دیکھ لیں بلکہ وہ حرم سے قریب ہے ہم کچھ دیر وہاں آرام کر لیں۔ اس کا ہوٹل ہمارے لیے اجنبی یوں نہ تھا کہ ہم حرم سے واپسی پر اکثر اس کے شاپنگ ایریا سے ونڈو شاپنگ کرتے گزرتے تھے۔ ہوٹل کی لابی میں چند لمحے قیام کیا اس اثنا میں بلال ابو ظہبی سے لایا گیا کچھ سامان لے کر واپس آ گیا۔ اب ہم اپنے ہوٹل جاتے تھے اور اس سے پہلے ہمیں پشاوری ہوٹل کے پائے کھانے تھے جو ہم پچھلے تین دنوں سے بلال کے انتظار میں موخر کر رہے تھے۔ ہوٹل میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی کچھ صبر کیا، کچھ انتظار کیا۔ آخر جگہ ملی پراٹھے، نان، پائے، حلوہ، لسی چائے کا آ ڈر دیا جو وقفے وقفے سے پورا ہوتا رہا۔ بلال کو فکر تھی کہ اس کے دوست ریاض سے اس سے ملنے، مسجد نبویﷺ میں نمازِ جمعہ کی ادائگی کے لیے آ رہے ہیں اور اب وہ مسجد نبویﷺ پہنچنے والے ہیں۔ بلال کو میں نے بار بار کہا کہ نو بجے سے پہلے حرم پہنچ جانا، ورنہ جمعے کے روز نماز کے لیے جگہ نہیں ملے گی۔ کہنے لگا، میں تو ریاض الجنۃ جاؤں گا، میں نے کہا وہاں کے لیے تو سوچنا بھی مت، اس وقت اتنا رش ہو گا کہ وہاں سانس لینا بھی محال ہو گا۔
دوپہر میں جب اس کے دوستوں کے ساتھ اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ میں تو ریاض الجنۃ بہت آرام سے پہنچ گیا نوافل بھی پڑھے اور صلوۃ التسبیح بھی ادا کی۔ مدت کے بچھڑے دوست بہت کم وقت کے لیے ملے تھے، شدید طوفانی بارش میں ایک طویل سفر کر کے پہنچے تھے اور نماز جمعہ کے بعد انھیں واپس بھی جا نا تھا ان دوستوں کو الوداع کہہ کر میں اور ثروت باجی خواتین کے حصے میں چلے گئے۔ تسبیح، صلوۃ التسبیح درودِ پاک حسبِ توفیق پڑھتے رہے، میرا خیال تھا کہ اگر دیر ہو گئی تو آج جمعہ کے سبب ہمیں نماز کے لیے جگہ نہ ملے گی لیکن ایسا نہ ہوا، ہاں گیارہ بجے کے بعد تل دھرنے کی جگہ بھی نہ تھی۔ نماز کے بعد کھانے کا خیال آیا، اس مرتبہ دوپہر کے کھانے کی جگہ کا تعین نہ ہو سکا، جیسے پچھلے اسفار میں پاکستانی ہوٹل سے کھانا لے لیا کرتے تھے۔ اب مسجدِ نبوی کے قرب و جوار میں ایسا کوئی ہوٹل نہ تھا۔ دور جانے میں تھکن بھی ہوتی اور وقت کے زیاں کا افسوس بھی۔ بہرحال کھانے سے واپسی پر باب عثمان سے داخل ہوئے کہ اب ریاض الجنۃ جانے کا وقت ہو گیا ہو گا، معلوم ہوا تھوڑی دیر کے لیے کھولا گیا تھا۔ ہماری طرح ایک بہت بڑی تعداد منتظر تھی کہ دوبارہ کھلنے کی شنید ہے، کافی انتظار کیا معلوم ہوا کہ اب خواتین کو عشا کے بعد ہی جانے کی اجازت ہو گی۔ اس انتظار میں درود پاک پڑھنے کا خوب موقع ملا، اس مرتبہ پاکستان کے دیہات سے بہت بڑی تعداد میں عمرہ زائرین تشریف لائے تھے۔ ہال اور صحن ان کی ٹولیوں سے پر تھے۔ پورا پورا خاندان، شیر خوار بچوں سے لے کر ہر عمر کے بچے، بڑے اور بزرگ، با جماعت نماز کی ادائگی کا طریقہ معلوم نہیں۔ باتوں کے لچھے البتہ بہت تیزی سے تیار کیے جاتے ہیں۔ اس وقت چار خواتین محو گفتگو تھیں۔ شاید یہیں ملاقات ہوئی تھی۔ اپنی کسی رشتہ دار کی شادی کا احوال، ساس نندوں کے تذکرے ایک ہی بات کو بار بار دہرایا جا رہا تھا اور بلند آواز دوسروں کے لیے پریشانی کا سبب تو نہیں، اس امر کا احساس بھی نہ تھا۔ میں نے ایک خاتون سے کہا، کہ جمعے کے روز نمازِ عصر کے بعد اسی مرتبہ درود شریف اور ستر مرتبہ آیت الکرسی پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے۔ دوسری خاتون بول اٹھیں، ہاں ایک مرتبہ میں ڈاکٹر کے پاس گئی تھے دوا لینے، بڑا ہی اچھا ڈاکٹر تھا، اس نے بھی مجھے کہا تھا درود شریف پڑھا کرو، اب اس ڈاکٹر کی صفات کا تذکرہ شروع ہو گیا، درودِ پاک کے سلسلے میں یہ بات بھی مجھے انوکھی لگی کہ ایک خاتون تسبیح لیے پھر رہی تھیں اور ہر ایک سے کہتی تھیں ایک مرتبہ درود شریف پڑھ دیں۔ میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ خود کیوں نہیں پڑھ لیتیں۔ شاید یہ کوئی منت کا انداز ہو۔
عصر سے مغرب تک مسجد نبوی میں کہیں والدین اور کہیں مدرس یا معلمہ بچوں کو قرآنِ پاک کی تعلیم دیتے ہوئے مصروف دکھائی دیتے ہیں۔۔ عشا کے بعد ہم سات نمبر گیٹ کی جانب جاتے تھے جہاں شاہد، جاوید بھائی اور بلال ہمارے منتظر تھے۔ اگر آج ہماری ریاض الجنۃ تک رسائی ہو جاتی تو ہمارے قدم اتنے تھکے تھکے اور دل بوجھل نہ ہوتے۔ بار بار خیال آتا رہا کہ پچھلے تین اسفار میں اتنی محرومی کا سامنا کرنا نہیں کرنا پڑا تھا اکثر دن میں دو مرتبہ بھی جانے کی سعادت مل جاتی تھی اب کے ہم صرف دو مرتبہ جا سکے تھے اور اس بات کا بہت قلق تھا۔
ہفتے کی صبح بلال زیارات کے لیے گیا، بہترین تصاویر اور معلومات کا خزینہ لیے ہوئے آیا۔ ہم اس مرتبہ پاکستان سے ہی ارادہ کر کے آئے تھے کہ وادی جن جانے کا موقع بنایا جائے گا۔ بلال کے انتظار میں تھے دو ایک ٹیکسی چلانے والوں سے بات بھی ہو چکی تھی لیکن بلال آیا تو یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت مسجدِ نبوی میں گزارنا چاہتا ہے، اس نے وادی جن جانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ مقامی زیارات میں ظہر کے وقت تک آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے لیکن وادی جن جانے میں ایک یا دو نمازوں کے حرم نبوی میں ادا نہ کر سکنے کا احتمال رہتا ہے۔ ہمیں بھی حرم پاک میں زیادہ عبادت کا موقع مل گیا۔ ماشا اللہ ثروت باجی دن میں چار پانچ سپارے پڑھ لیا کرتی تھیں۔ دعا مانگنے کا فرض انھیں ہی سونپ رکھا تھا، آمین کہنا میرے ذمے اور قبول کرنا اللہ کا کام تھا۔
اب ہم مسجدِ نبوی جاتے تھے قدیم مسجدِ نبوی سے سو گنا بڑی مسجد کے صحن میں نصب ایک سو بیاسی چھتریاں دھوپ کی تمازت کو کم کرتی اور حقِ میزبانی ادا کرتی تھیں۔ کل ریاض الجنۃ سے ناکام واپسی کا دکھ آج پھر ہمیں کشاں کشاں باب عثمان لیے جاتا تھا لیکن آج بھی نصیب نے یاوری نہ کی۔ معلوم ہوا کہ بس چند منٹوں کے لیے کھلا تھا بہت تکلیف ہوئی، ہم وہیں بیٹھ کر درود پاک کا ورد کرتے رہے۔ نمازِ عصر اور مغرب باب عثمان پر ہی ادا کیں۔ خیال تھا کہ مغرب کے بعد ہم باب مجید چلے جائیں گے تاکہ عشا کے بعد گیٹ نمبر سات پہنچنے میں سہولت رہے۔
مغرب کی نماز ادا کی لیکن یہ پشیمانی کم نہ ہوئی کہ ریاض الجنۃ سے بلاوا نہیں آیا۔ نماز کے بعد تسبیحات کا آغاز ہی کیا تھا کہ مجھے برابر میں بیٹھی اپنے جذب و سرور میں غرق بزرگ خاتون کی پر شوق اور وجد آفریں دعائیہ صداؤں نے متوجہ کیا۔ میں نے ان کی جانب نگاہ کی اور پھر میں ان سے نظریں اٹھانا بھول گئی۔ عمر ستر بہتر کے درمیان، میدہ و شہاب سے گندھی رنگت، دبلا پتلا نازک سا سراپا، بہترین کڑھائی والے جامنی سوٹ پرسیاہ عبا، ہاتھوں میں تسبیحات اور لبوں پر محبوب سے محبت کی شیفتگی کے ترانے، جلالی کیفیت نہیں، ان کی محبت کا کمال تھا کہ ہر سو جمال ہی جمال بکھرا ہوا تھا۔ نورانی شعاعوں کے ہالے کے درمیان، بزبان عربی وہ مشاہدہ حق کی گفتگو میں محو تھیں، ندائے غیبی کی شنید میں ہمہ تن گوش تھیں۔ تسلیم و رضا کی منزل کی متلاشی، طالب کی طلب کی خواہاں، لیکن کیفیات میں زیر و بم کے سبب لہجے میں بھی تغیر محسوس ہو جاتا تھا، متلاشیِ حقیقت کی بے چینی، کبھی چپکے چپکے راز و نیاز، کبھی بلند آہنگی میں شکستہ و در ماندہ فریاد، کبھی اعترافِ خطا، کبھی عجز و انکسار، کبھی اظہار ندامت، کبھی احساسِ تشکر اور ان سب میں وفورِ شوق، نشاطِ ذوق، جذبِ محبت۔۔ ۔۔ میں اپنی تسبیحات میں مشغول تھی یا ان کے خود شناسی و خدا شناسی کے مراحل سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ثروت باجی کبھی مجھے اور کبھی انھیں دیکھتی تھیں۔ آخر انھوں نے سوالیہ سرگوشی کی، یہاں سے اٹھیں، میں نے نفی میں سر ہلا دیا، نہیں نہیں۔۔ ۔ آج تو نصیب نے یاوری کی ہے، پہلی مرتبہ کسی ولی اللہ کی قربت ملی ہے اور میں نے محسوس کیا کہ ولیہ بھی میری طرف متوجہ ہو رہی ہیں، ان کے لب مسکراتے تھے یا آنکھیں، طمانیت قلب نے ان کو مجسم محبت و شفقت بنا دیا تھا۔ انھوں نے محبت سے میرا ہاتھ دبایا، مجھے کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ میں نے اپنے بیگ سے دو بسکٹ نکال کر ان کی خدمت میں پیش کیے۔ انھوں نے لے لیے اور کچھ لمحوں کے بعد سامنے بیٹھی ہوئی ترک خاتون کو دے دیے۔ انھوں نے اپنے سامنے قالین پر اپنی جامنی چادر بچھائی ہوئی تھی۔ جس پر ان کے سجدۂ شوق کے نشاں ثبت تھے۔ مجھے بے حد افسوس ہوا کہ میں آج اپنا جائے نماز کیوں لے کر نہ آئی۔ بے شک وہ جائے نماز برادرم عبد الوہاب خان سلیم کا تحفہ ہے، اگر اس وقت وہ میرے پاس ہوتا تو میں ان کی خدمت میں پیش کرتی اور اس کے عوض یہ چادر ان سے مانگ لیتی۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ سامنے بیٹھی، ترک خاتون نے سستانے کی خاطر ذرا ٹانگیں لمبی کیں۔ ولیہ نے فوراً وہ چادر ان کی ٹانگوں پر ڈال دی، میں نے ان کی خوش قسمتی پر رشک کیا۔ ترک خاتون نے انھیں اخروٹ کی گریوں کا لفافہ پیش کیا جو انھوں نے نہایت خوش دلی سے وصول کیا اور چند لمحوں بعد وہ لفافہ میری جھولی میں پڑا تھا۔ عشا کی نماز کے دوران بھی ان کی عبادت اور اپنی نمازوں کا موازنہ کرنے سے گریز نہ کر سکی۔
بطواف کعبہ رفتم بحرم رہم نہ دادند
تو برون در چہ کر دی کہ درون خانہ آئی
بزمیں چوں سجدہ کردم ززمیں ندا برآمد
کہ مرا خراب کر دی تو بسجدۂ ریائی
بعد نماز و دعا ترک خاتون جانے لگیں اور چادر واپس کرنا چاہی تو ولیہ نے انھیں بہت محبت سے کہا کہ یہ رکھ لو لیکن اس نے نہایت بے پروائی سے ان کا تحفہ رد کر دیا اور کسی قدر درشتگی سے وہ چادر انھیں واپس کر دی۔ مجھے اس کا رویہ اچھا نہ لگا۔ ابھی وہ دعاؤں میں مشغول تھیں کہ ایک نہایت خوبصورت تیرہ چودہ سالہ لڑکی آئی۔ عرف عام میں ہم اسے بر گر فیملی سے تعلق رکھنے والی کہہ سکتے ہیں، اس نے بہت محبت سے ان کی اشیا سمیٹنے اور انھیں اٹھنے میں مدد دی۔ وہ بزرگ خاتون جسے میں ہمیشہ اپنی یادوں میں محفوظ رکھنا چاہتی تھی، خواہش کے باوجود ان کی تصویر نہ لے سکی، مجھے ایسے لگتا تھا کہ ان کی تصویر کھینچ کر میں بے ادبی اور گستاخی کی مرتکب ہوں گی۔ انھوں نے رخصت ہوتے ہوئے وہ جامنی چادر مجھے تھما دی اور میں حیرت سے انھیں دھیرے دھیرے قدموں سے اس بچی کا ہاتھ تھامے جاتے دیکھتی رہی۔ ثروت باجی کہنے لگیں یہ گرم چادر ان کے سوٹ کے ساتھ کی تھی، میں نے کہا میں خود حیران تھی اور مجھے اس بات پر بھی حیرت تھی کہ اس بچی نے انھیں کیوں نہ روکا۔ جب انھوں نے چادر مجھے دی تو میں نے بچی کی طرف دیکھا، کہ شاید وہ اپنی دادی کو اس عمل سے باز رکھ سکے لیکن اس کے لیے بھی شاید یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔
گیٹ نمبر سات پر شاہد، جاوید بھائی اور بلال ہمارا انتظار کرتے تھے اور ہمیں ان تک پہنچنے کے لیے کافی لمبا سفر طے کرنا تھا۔ خواتین کا یہ حصہ تقریباً خالی ہو چکا تھا۔ ثروت باجی نے ستون کے ساتھ رکھا اپنے بیگ اٹھایا تو ایک اور حیرت کا سامنا تھا۔ وہاں دو مالٹے پڑے تھے۔ وہ کہنے لگیں ابھی کچھ دیر پہلے میں نے بیگ اٹھا کر اس میں تسبیح رکھی تھی تو یہاں کچھ نہ تھا اور اب یہ مالٹے کہاں سے آ گئے۔ وہ کچھ دیر دیکھتی رہیں پھر کہنے لگیں کہ اب تو مسجد خالی ہو گئی ہے، میں یہ تصور کر رہی ہوں کہ یہ میرے لیے رکھے گئے ہیں اور اگر میں غلطی پر ہوں تو اے اللہ مجھے معاف فرما۔ آج دوپہر کھانے کے لیے جاتے ہوئے مجھے پھلوں کی دکان پر مالٹے دکھائی دیے تھے اور میں نے سوچا تھا کہ پہلی فرصت میں مالٹے خریدیں گے۔ اے اللہ !، تو ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔
’’اے اللہ مجھے خوب شکر کرنے والا، کثرت سے ذکر کرنے والا، نصیحت ماننے والا اور حکم یاد رکھنے والا بنا۔‘‘ آمین
’’اے اللہ میں غیر مقبول دعا، بے خوف دل اور نفسِ غیر مطمئنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ آمین
اے اللہ بے شک میں سستی، بڑھاپے، بد عقیدگی اور عذابِ قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ آمین
٭٭٭