گُل فروش ۔۔۔ اقتدار جاوید

 

ناس پال، رونے والیوں سے بھر گیا ہے چاروں سمت سے احاطۂ مزار

آنکھیں لگ گئی ہیں جھلملاتی جھالروں کے درمیان جالیوں سے

گھونگھٹوں میں روپ کو لپیٹتیں

گلی کی رونقیں نگاہوں میں سمیٹتیں

لرز رہی ہیں

کس طرح ضریح سے لرزتا سینہ جوڑ لیں

سمندروں سے ایک ایک اٹھتی لہر روک لیں

سمندروں کو موڑ لیں

کہ کھل سکے کسی پہ ان کا روپ

اور پڑے چھتوں پہ سیدھی سردیوں کی دھوپ

اڑے مہک کہ کھُل سکے یہاں پہ کون آ رہا ہے پوری زندگی گزارنے

کوئی گھڑی بس اک گھڑی گزارنے

پلک پلک پہ جو قدیم بوجھ ہے اسے اتارنے

ازل سے مستقل دہانے بند غار

غار بخت منتروں سے کھولتی ہیں

سرخ سے سفید ہوتی نرم تر کلائیوں کی گرم نبضیں ڈوبنے لگیں

رگوں میں جاں پڑی

ضریح سے ہٹی نگاہ

ہجوم پھیلتا ہوا ہجوم، تریزیں توڑتا ہجوم

اک طرف ہوا

تو کھوپرے کے پانیوں بھری حصار توڑتی بڑھیں

ستارۂ شمال

آسمان پہ اپنے دائمی مقام پر چمک اٹھا

آسماں دمک اٹھا

بہت سی نتھلیاں ہلیِں، رُواں رُواں کھڑا ہوا

گرا چمکتے فرش پر نگیں سفید!

 

گل فروش ڈالیوں کے ساتھ

ہنسنے والیوں کے ساتھ آ گیا احاطۂ مزار میں

معاملۂ گل فروش ہنسنے اور رونے والیوں سے ہے الگ

یہ اُس کی پہلی نذر ہے یہ اس کا پہلا خواب ہے

کہ

ست لڑے سے اس کی آخری لڑی فروخت ہو

تو وہ کسی طرح احاطۂ مزار اور سیاہ رات کی حدود سے ہمیشہ کے لئے نکل سکے !!!

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے