کیا پکاویں ۔۔۔ سید عارف مصطفیٰ

آج مجھے یہ معلوم کر کے رہنا ہے کہ مشرق کا کوئی شائستہ و مہذب شخص یعنی شریف زادہ آخر کب تک روز روز ایک ہی گھسے پٹے سوال کا جواب کیسے دے سکتا ہے اور اس دوران وہ مسلسل معقول بھی کیسے رہ سکتا ہے بالخصوص جبکہ سوال کرنے کی نیت بھی یہ ہو کہ اس کو ہر بار الگ الگ جواب دیا جائے۔

اسی لئے اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ کائنات کا سب سے عجیب یا اہم سوال کیا ہے تو نہ تو میں آسمان و زمین کے وجود کی بابت پوچھے جانے والے کسی سوال کی جانب اشارہ کروں گا اور نہ ہی انسانی فطرت کے اسرار کے بارے میں کسی سوال کا حوالہ دوں گا بلکہ سیدھے سیدھے بتا دوں گا کہ وہ سوال ہے ’آج کیا پکاویں‘ گو ممکن ہے کہ دنیا کے لئے چند اور سوال بھی کسی قدر وزنی ہوں لیکن مشرق میں بالعموم اور پاک و ہند میں بالخصوص یہ روزانہ کا سوال اس قدر وزنی ہے کہ اس کے بوجھ تلے صرف سماعت ہی نہیں اعصاب بھی دب کے خستہ ہو ہو جاتے ہیں۔ ۔۔

میرا تعلق چونکہ ایک مشرقی گھرانے سے ہے چنانچہ میرے گھر میں بھی کہ جسے میں اپنی کائنات کہتا ہوں یہ وزنی سوال تقریباً روز ہی لڑھکتا رہتا ہے اور باقاعدگی سے ہر صبح جبکہ ناشتہ جاری ہی ہوتا ہے، بیگم اس سوال کا بھاری ہتھوڑا لیئے میرے سر پہ آ موجود ہوتی ہیں۔ اکثر تو میں چپ چاپ نکل بھاگتا ہوں لیکن کبھی کبھی نکل بھاگنے کے سبھی رستے مسدود ہوتے ہیں کیونکہ اخراج کے ہر امکانی رستے کو بھانپ کر زوجہ محض ڈیڑھ دو فٹ کے فاصلے پہ سوالی ہتھوڑا بدست موجود ہوتی ہیں اور پھر وہ میری سماعت پہ یہ ہتھوڑا اس وقت تک برساتی رہتی ہیں کہ جب تک انہیں حتمی جواب نہیں مل جاتا یا وہ یہ سوال ہی بھول نہیں جاتیں۔ لیکن میری جان پھر بھی نہیں چھوٹتی کیونکہ ذرا دیر بعد میں یاد آتے ہی وہ پھر بگولا سی بنی اسی سوال کا ہتھوڑا لیئے آ دھمکتی ہیں اور مجھے درست طور پہ یوں لگنے لگتا ہے کہ شاید مسئلہ کھانا پکانے سے زیادہ مجھے پکانے کا ہے کیونکہ ان کے چلے جانے کے بعد میرے دل اور منہ سے ویسی ہی خوفزدہ سیٹی نکلتی ہے کہ جیسے خوب پکائی کے بعد پریشر ککر میں سے بجتی سنائی دیتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟؟ بس یوں سمجھیئے کہ جس طرح کچھ نہ کچھ چیزیں کچھ گھروں میں روز ہوتی ہیں جیسے ملنسار لوگوں کے گھروں میں روز کوئی نہ کوئی کوئی مہمان آ کے پڑ جاتا ہے، یا جیسے کچھ سلگتے بلکتے لوگوں کے بدن میں روز ہی صبح سے کوئی نہ کوئی درد جنم لے لیتا ہے اور وہ یہاں وہاں جسم کے کسی کسی نہ کسی حصے پہ ہاتھ رکھے ہمیشہ درد سے کراہتے سنے جاتے ہیں تو عین اس طرح میرے گھر کی چھوٹی سی دنیا کا یہ وہ دائمی بلکہ قائمی مسئلہ ہے کہ جو روز ہی اٹھتا ہے اور مجھے بے طرح ڈستا ہے لیکن بیگم پھر بھی ہر صبح اپنے اس سوالی مورچے پہ آ کے ڈٹ جاتی ہیں اور بلا ناغہ گفتگو کی پٹاری کھول کے اس سوال کا ناگ برآمد کرتی ہیں پھر میرے روبرو یہ بین تا دیر بجتی رہتی ہے کہ ’’بتائیے آج کیا پکائیں‘‘۔

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، یہ مسئلہ اک میرے گھر سے ہی مخصوص نہیں کیونکہ پیٹ تو سب کے جسمانی سامان کا لازمی حصہ ہے اور اسی لیئے اس سوال کا ہتھوڑا بھی روز ہی ہر ایسے شریف صاحب خانہ کے سر پہ جم کے برستا ہے کہ جو گھر میں ناشتے کی فاش غلطی کرتا ہے لیکن جو لوگ اس سوال سے بچنے کے لیئے ناشتے سے قبل ہی دفتر کے نام پہ کبھی نکل بھاگتے ہیں تو پھر ان کی زندگی ہر رات کے کھانے کے وقت ہی حرام کر دی جاتی ہے اور وہ اس سوال سے بچ پھر بھی نہیں سکتے۔ اس سوال سے ناوقف لوگ جو کہ محض کنوارے ہی ہو سکتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ اس سوال والے معاملے میں عجب ستم یہ ہے کہ بظاہر تو مخاطب کی عزت افزائی کا پہلو چھپا معلوم ہوتا ہے۔۔ لیکن اس استفسار کی چبھن، اس کی حدت اور شدت کا احوال وہی لوگ جانتے ہیں کہ جو ایک عدد بیوی کے حامل ہیں اور روز ہی اس سوال کی سولی چڑھائے جاتے ہیں۔ کوئی مرد اس سوال کا صحیح جواب دے پائے یہ کچھ یقینی بھی نہیں خواہ وہ آخری درجے کا ایک صلح جو اور مسکین سا شوہر ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس مسئلے میں صرف جواب دینا ہی ضروری نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس جواب کو بیگم کی طرف سے قبولیابی کی سند مل جانا بھی لازمی ہے اور یوں بیگم کا درجۂ اطمینان تک پہنچ جانا ہی گلو خلاصی کی واحد شرط ہے

میں دنیا بھر کی بات نہیں کرتا، لیکن مجھے اپنی کائنات کے سب سے بڑے مسئلے کو ہر دن پوری دلجمعی و مکمل تندہی سے حل کرنا ہوتا ہے اور وہ بھی ایسے عالم میں کہ بیگم اس کے حل ہونے تک سرپہ موجود رہتی ہیں اور اس سچائی سے تو ہر وہ شخص واقف ہے کہ جو کبھی نہ کبھی خود طالب علم رہ چکا ہو کہ کوئی ذہین سے ذہین طالبعلم بھی امتحان میں پرچہ کا وہ سوال ڈھنگ سے حل نہیں کر سکتا کہ جو اگر اس دوران کوئی خشمگیں صورت لیئے کوئی ممتحن اس کے سر پہ ہی کھڑا رہے۔ اور پھر یہ سوال بھی تو وہ ہے کہ جس کے جواب میں نقل کی سہولت بھی موجود نہیں۔ اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ بیگمات کے اس روزمرہ کے سوال کہ ’’آج کیا پکائیں‘‘ کے نتیجے میں ان کی پکائی کا عمل کچن سے زیادہ کچن کے باہر سرانجام پاتا ہے اور کھانا پکنے سے بہت پہلے ہی ہم جیسے شوہر حضرات ضرور پک جاتے ہیں۔ لیکن اور بیگمات کی طرح چونکہ میری بیگم کے لیئے بھی یہ مسئلہ کسی عالمی مسئلے سے بھی زیادہ اہمیت لیئے ہوتا ہے چنانچہ وہ مجھے اس میں کھینچ لینا عین ضروری بلکہ لازمی سمجھتی ہیں، میں اپنی سی کوشش ضرور کرتا ہوں کہ ان کے اس ’معمولی‘ سے سوال کا کوئی جواب ایک آدھ گھنٹے ہی میں دے سکوں لیکن میرا صبر اور میری بصیرت روز ہی اس آزمائش کا شکار رہتی ہیں۔ آئیے آج آپ کو بھی اس کی اک جھلک دکھاتا ہوں۔

یہ دیکھیئے یہ میرے گھر کا کسی ایک دن کا صبح کا روٹین منظر نامہ ہے اور حسب معمول میری بیگم نے اس وقت مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے اور یہی سوال کسی پتھر کی طرح مجھے کھینچ مارا ہے اور میں بدحواسی میں ادھر ادھر دیکھ رہا ہوں لیکن بدحواسی کو چھپانے اور پراعتماد نظر آنے کے لئے میں بیٹھے بیٹھے ٹانگ ہلانا شروع کر دیتا ہوں جس سے میرا پیر سامنے رکھی تپائی پہ لگ جاتا ہے اور اس پہ رکھی چائے کی پیالی فرش پہ گر پڑتی ہے اور پھر یہ منظر نامہ میری ان صفات کے تذکرے سے بھرنے لگتا ہے کہ جو اگر واقعی مجھ میں ہوتیں تو قانوناً میری آزاد چلت پھرت ہی ممنوع ہو جاتی۔ صاف صفائی ہو جانے اور میری ہجو میں کئی بیانات دے چکنے اور میرے ارد گرد سے ہر ایسا سامان ہٹا دینے یا اٹھا لینے کے بعد جو کہ ٹھیس لگنے سے گر پڑنے کا ذرا بھی امکان رکھتا ہو، یہ منظر نامہ پھر وہیں سے جڑ جاتا ہے کہ جہاں سے ٹوٹا تھا۔

’’سنیں اتنی دیر کیوں لگا رہے ہیں سیدھی طرح کیوں نہیں بتا دیتے کہ آج کیا پکے گا؟؟‘‘ بیگم نے غرانا شروع کر دیا تھا۔

کسی بڑے جھگڑے سے بچنے کے لیئے یا رفع شر کی خاطر میں حسب عادت پہلے تو یہ کہ کر جان چھڑانے کی فوری تدبیر کا سہارا لیتا ہوں کہ بڑی فیاضی سے کہ اٹھتا ہوں ’’جو جی چاہے پکا لو‘‘  لیکن اکثر یہ چال کامیاب نہیں ہوتی کیونکہ ادھر سے جواب میں یہ ارشاد ہوتا ہے کہ ’’چلو آج کھانے کو رہنے ہی دیتے ہیں‘‘۔ جس پہ میرے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں کیونکہ میں بھوک کا بہت کچا ہوں اور یہ ’’رہنے دیں‘‘ والے الفاظ گویا صور اسرافیل معلوم ہوتے ہیں تب میں بتیسی نکال کے کہتا ہوں کہ ’’آج آلو گوشت پکا لو‘‘! اب پھر میں نے یہی تجویز دے ڈالی اور جواب بھی وہی پہلے والا ملا یعنی ’’وہ تو گزشتہ ہفتے ہی پکایا تھا‘‘

حسب دستور میں ایسے موقع پہ اپنے جبڑے بھینچ لیا کرتا ہوں تاکہ شروع ہی میں کوئی لفظ ایسا نہ نکل جائے جو میری بیزاری و ناگواری بالکل واضح کر دے۔ با وقار اور دانشمند نظر آنے کی کوشش کرتے ہوئے کمرے میں ادھر سے ادھر نظر گھماتا ہوں پھر چھت کی طرف دیکھتا ہوں اور پھر بے بس نظر کھڑکی کی طرف جاتی ہے پھر کہیں سے کوئی اشارہ یا مدد نہ ملنے پہ بے بس ہوکے کندھے اچکا کے کہتا ہوں ’’بھئی کچھ بھی پکا لو‘‘

’’کچھ بھی! یہ کونسی ڈش ہے بھلا کچھ بھی؟‘‘ بیگم نے گویا میری نقل اتاری۔

’’اچھا چلو دھوئیں والی مرغی بنا لو‘‘ میں نے دانت نکالے۔ جس چیز کے دام گرے ہوں میں اسے مسلسل پکوانے میں ہمیشہ بڑی مسرت پاتا ہوں۔

’’مرغی، مرغی‘‘ جناب مرغی سستی ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں کے بار بار اتنا کھا مریں کہ پھر خود ہی کڑکڑاتے پھریں‘‘۔ بیگم نے یاد دلایا

’’تو چلو اروی گوشت بنا لو‘‘ میں نے ایک اور تجویز پیش کی۔

’’اسے تو گھر کے صرف آدھے ہی لوگ کھاتے ہیں!‘‘ بیگم نے تاویل پیش کی۔

’’ایسا کرو اسٹو یعنی دو پیازہ بنا لو۔‘‘ میں نے چمک کے کہا۔

’’وہ ابھی 4 دن پہلے ہی بنا تھا۔‘‘ 14 دن کو 4 دن میں سمیٹنے والی بیگماتی وضاحت میں دیر نہ لگی۔

’’اخاہ۔ پائے بہت لذیذ بناتی ہو، آج ہو جائیں پائے‘‘۔ میں نے تعریف کے رستے جان چھڑانے کی کوشش کی۔

’’خدا کا خوف کریں اتنا کولیسٹرول ہوتا ہے اس میں، اور آپ کا تو بلڈ پریشر بھی ہائی رہتا ہے‘‘ بیگم نے جیسے میڈیکل کی کتاب ہی کھول لی۔

’’اچھا مچھلی لے آؤں‘‘۔ میں نے باہر بھاگنے کا جواز تلاش کیا۔

’’اتنی گرمی میں؟ اور پھر آپ کو مچھلی کی پہچان بھی کہاں ہے!! مچھلی کے نام پہ جو شے آپ لاتے ہیں وہ ہوتی تو مچھلی کی شباہت والی ہی ہے لیکن پہچانی صرف بے حساب بدبو ہی سے جاتی ہے پھر چھانٹ چھانٹ کر بھی پوری کوشش ایسی افلاطون مچھلی لاتے ہیں کہ جس میں گھل گھلا کے بس کانٹوں کا انبار ہی رہ گیا ہو۔‘‘

’’اب ایسی بات بھی نہیں ہے بیگم!‘‘ میں منمنایا۔

’’آپ کی لائی مچھلی اتنی باسی ہوتی ہے کہ میں اسے جیسے ہی کڑھائی میں ڈالتی ہوں دائیں بائیں کے گھروں سے نجانے کتنے لوگ کھانسنے اور بڑبڑانے لگتے ہیں۔‘‘

میرے وجود میں سے شرمندگی برآمد کرنے کا یہ جانا پہچانا طولانی بیان بہت دیر جاری رہ سکتا تھا اگر میں موضوع فوراً ہی نہ بدل دیتا۔

’’کیا خیال ہے بیگم۔ چکن کڑھائی اچھی رہے گی نا؟

’’پچھلی بار بنائی تھی تو زیادہ مزا نہیں آیا تھا آپ کو، ایک بار بھی تعریف نہیں کی تھی آپ نے جبکہ ہمیشہ بہت تعریف کرتے تھے!‘‘

’’تو اس سے کیا ہوا؟ ایں؟‘‘

’’میں نے تو بڑی شرمندگی محسوس کی تھی اور قسم کھا لی تھی کہ اب ایک برس سے پہلے نہ بناؤں گی موئی چکن کڑھائی۔‘‘

’’آخر ایک برس ہی کیوں؟‘‘

’’تاکہ اس کا کھویا ذائقہ بحال ہو جائے اور پرانے والے کی یاد بھول جائے‘‘

’’اچھا پلاؤ یا بریانی بنا لو۔ یا پھر قورمہ۔‘‘ میں نے ایک ہی سانس میں کئی مرغن آپشن دے ڈالے۔

’’آخر کیوں یہ بار بار قورمہ بریانی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں آپ! جب دیکھو بریانی، جب پوچھو قورمہ، ابھی اس مہینے ہی تو پورے 4 بار شادی ولیموں میں یہی بریانی اور قورموں پہ تو بڑھ چڑھ کے ہاتھ صاف کیا ہے آپ نے۔‘‘

’’اچھا تو کوئی سبزی بنا لو۔‘‘

’’مثلاً؟؟‘‘

’’میرا خیال ہے کہ بھنڈی ٹھیک رہے گی۔‘‘ مجھے آسان نسخہ سوجھا

’’واہ صاحب واہ، دو بچے تو اس کی طرف آنکھ اٹھا کے بھی نہیں دیکھتے، کیا انہیں بھوکا مار دوں؟‘‘

’’اوہ، اچھا تو پھر بھنڈی کو گوشت میں ڈال دو تو کھا ہی لیں گے۔۔‘‘

’’نہیں پھر تو بالکل نہیں کھائیں گے، گوشت بھی خواہ مخواہ ضائع ہو گا۔‘‘

’’چلو کوئی اور سبزی پکا لو۔۔‘‘

’’مثلاً؟؟‘‘

’’میرا خیال ہے لوکی مناسب ہے۔‘‘

کیوں کیا چند دن پہلے جو لوکی پکائی تھی اس کا حشر یاد نہیں، 3 دن تک میں نے اور آپ نے ہی کھائی تھی۔‘‘

’’ھجھج ارے ہاں (یہ یاد آتے ہی میرے رونگٹے یکدم کھڑے ہو گئے )۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں بھئی لوکی رہنے دو‘‘

’’کدو اور ٹینڈے کو تو خود آپ بھی مارا باندھے ہی کھاتے ہیں، پھر بچوں کے صبر کا امتحان کیوں لوں‘‘

’’میرا خیال ہے دال ہی پکا لیں تو بہتر رہے گا۔‘‘

’’بچوں کو تو ایک ملکہ مسور کی کالی دال کے سوا اور کوئی دال نہیں بھاتی، الٹ پلٹ کے وہی بار بار پکتی ہے۔ اسے بھی کہاں تک پکاؤں۔‘‘

’’اچھا تو بچوں کو ہوٹل سے نہاری منگا کے ہی کھلا دو۔‘‘

’’وہ جو پچھلے مہینے منجھلے کا پیٹ چل پڑا تھا اس سے ذرا پہلے نہاری ہی تو کھائی تھی اس نے جو اپنے پسندیدہ ہوٹل سے لائے تھے آپ۔ یاد ہے نا۔ پھر کتنے دن ڈاکٹروں کے پاس لیے لیے پھرے تھے۔‘‘

’’چلو گھر ہی میں بنا لو نہاری۔‘‘

’’آپ خود ہی تو کہتے پھرتے ہیں ہر جگہ کہ نہاری تو بس ببن کے ہوٹل ہی کی مزا دیتی ہے‘‘

میں زچ ہو کے بولا ’’بھئی کڑھی پکانے میں تو کوئی حرج نہیں‘‘

ابھی ڈیڑھ ماہ میں دوسری بار 2 ہفتہ پہلے ہی بنائی تھی تو بچے بسور رہے تھے کہ کیا ابا کی جیب کٹ گئی ہے۔۔‘‘

’’کیا تم نے بچوں کو ایسا بے لگام کر دیا ہے بیگم۔ ایسی زبان درازی!۔ میرا تو دل جل کے کباب ہو گیا ہے۔‘‘

’’ہاں یہ صحیح اشارہ دیا آپ نے، آج کباب بناتی ہوں۔ بہت دن بھی ہو گئے ہیں۔‘‘

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے