کہیں جو غالب آشفتہ سرملے ۔۔۔ محمد جمیل اختر

’’ وہ اپنی تیسویں سالگرہ کے دن پاگل ہو گیا‘‘

’’کیا مطلب وہ تو بالکل ٹھیک تھا پھر پاگل کیسے ہو گیا میں سمجھانہیں۔‘‘

’’بس میرے دوست آجکل پاگل ہونے میں دیر تھوڑی لگتی ہے۔۔۔۔وہ تو مجھے اس روز بھی پاگل ہی لگا جس روز میں نے اسے بڑی نہر کے کنارے ، برف سے ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈبوئے بیٹھے دیکھا۔۔۔‘‘

’’ارے دوست اس سردی میں پاوں لٹکائے بیٹھے ہو ، بیمار ہو جاؤ گے نمونیا ہو جائے گا‘‘ میں نے اس سے کہا اور وہ جذباتی ہو کر کہنے لگا

’’ ہاں ہو جاؤں بیمار تو ۔۔۔۔تمہیں کیا مسئلہ ہے ، میں چاہے یہاں چھلانگ لگا دوں اور وہ جہاں سورج ڈوب رہا ہے وہاں سے میری لاش نکلے یا لوگ مجھے تلاش کرتے کرتے تھک جائیں اور میں نہ ملوں۔۔۔۔ تمہیں کوئی مسئلہ ہے‘‘۔۔۔

معلوم نہیں اس نے اور کیا کیا کہا ہو گا میں تو جلدی جلدی وہاں سے آگے بڑھ گیا تھا۔۔۔۔

’’کسی لڑکی کا چکرتو نہیں تھا ؟‘‘

’’نہیں نہیں اس کی تو بچپن میں منگنی ہو گئی تھی۔ ہاں لیکن اس لڑکی نے بعد میں اس سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا ، اس کا خیال تھا کہ وہ ایک ناکام شخص ہے جو بی اے کرنے کے بعد فارغ پھرتا ہے۔۔۔۔‘‘

’’تو اسے نوکری کرنی چاہیئے تھی نا۔‘‘

’’اس نے کبھی کام کرنے سے انکار نہیں کیا تھا اور سچ تو یہ ہے کہ آجکل بی اے پاس کو کون پوچھتا ہے۔۔۔۔ ‘‘

’’میں نے سنا ہے وہ گاؤں کے پرائمری سکول میں استاد تھا؟‘‘

’’نہیں نہیں وہ قصہ یوں نہیں ہے۔ بی اے کرنے کے کئی سال تک وہ دفتروں میں جوتیاں چٹخاتا رہا لیکن نوکری نہیں ملی ، گاوں کے سکول میں جب مالی اور چوکیدار کی جگہ خالی ہوئی تو اس نے وہاں درخواست دی اور قسمت اچھی تھی کہ چوکیدار بھرتی ہو گیا۔۔۔ جس روز وہ چوکیدار بھرتی ہوا، اسی روز اس لڑکی نے اس سے شادی کرنے سے انکار کر دیا ۔۔۔۔اب بھلا چوکیدار سے وہ کیسے شادی کر لیتی۔۔۔‘‘

’’بیچارہ شاید اس لیئے پاگل ہو گیا؟‘‘

’’نہیں میرا نہیں خیال ، کیوں کہ چوکیدار بھرتی ہونے کے بعد کئی بار میری اس سے ملاقات ہوئی وہ بہت خوش تھا کہ بیروزگار رہنے سے تو یہ بہتر ہے‘‘

’’ اور یہ جیل کا کیا قصہ ہے؟‘‘

’’ہو ا یہ کہ ایک روز رات کو کوئی سکول کے سارے کمروں کے پنکھے اتار کر لے گیاپولیس نے شک کی بنیاد پر اسے ہی جیل میں بند کر دیا ، مقدمہ چلا اور عدالت نے دفعہ ۳۷۹ کے تحت ۳ سال کی قید با مشقت سنا دی۔۔۔ میں ایک بار جیل میں اس سے ملنے گیا تھا ۔۔۔بیچارہ بہت اداس تھا۔۔۔ وہ روتا جاتا تھا اور کہتا تھا ، میرا یقین کرو ، خدا کی قسم میں نے چوری نہیں کی۔۔۔۔اس کی آنکھیں رو رو کے ایسی سوجی ہوئی تھیں کہ میں پھر کبھی اس سے جیل ملنے نہ گیا۔۔۔۔وہ کوئی آنکھیں تھیں ، کئی روز تک مجھ سے وہ آنکھیں نہ بھولتی تھیں۔

جب وہ تین سال بعد جیل سے رہا ہو کے آیا تو لوگوں کا اس کے ساتھ رویہ یکسر بدل گیا تھا۔۔۔ لوگ اسے ایک چور سمجھتے تھے۔۔۔ بیچارہ کسی دکان پر جاتا تو دکاندار مشکوک نظروں سے دیکھتا کہ اس کے ہاتھ کہاں ہیں ،آنکھیں کہاں ہیں ۔ نوٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھتے کہ اصل ہے کہ نقل۔۔۔دو بار تو کسی کی بھینس چوری ہوئی تو شک کے الزام میں اس بیچارے کو وہ مار پڑی کہ کچھ نہ پوچھو حالانکہ کے بعد میں وہ جانور کچے کے علاقے سے ملے تھے۔۔۔لیکن اسے خوب مار پڑی۔۔۔

جب انسان کو شک کا چشمہ لگا کر دیکھا جائے تو اس کا اچھا عمل بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا ، ایک بار نمبردار صاحب کا پرس کہیں گر گیا جو بدقسمتی سے اس کے ہاتھ لگا اس نے شناختی کارڈ دیکھا اور امانت لوٹانے نمبردار کے گھر گیا ، نمبردار صاحب نے بغیر تحقیق کیئے اس پر الزام لگا دیا کہ پر س اس نے ہی چرایا تھا اور جیل جانے کے ڈر سے اب واپس دینے چلا آیا ہے ، اس نے کچھ نہ کہا اور چپ چاپ واپس چلا آیا۔۔۔

’’ لیکن میں نے تو سنا ہے جیل میں جو چھوٹے مجرم جاتے ہیں وہ بڑے مجرم بن کر آتے ہیں تو وہ کیونکر ایسا تھا؟‘‘

’’جی بالکل آپ نے ٹھیک سنا ہے لیکن وہ کوئی مجرم نہیں تھا۔۔ یقین مانیں وہ ایک انتہائی شریف آدمی تھا جسے لوگ مجرم سمجھتے تھے۔ حتی کہ اس کا باپ بھی اسے ایک چور سمجھتاتھا۔۔۔اب ایک چور کا گھر میں کیا کام ۔۔ ۔ سو گھر سے نکالے جانے کے بعداس کا ریلوے سٹیشن پر بسیرا تھا۔لیکن انسان نے صرف رہنا ہی تو نہیں ہوتا نا ، پیٹ کی آگ بھرنے کو کام بھی کرنا پڑتا ہے وہ گاوں کا سب سے سستا مزدور تھا جہاں مزدور پانچ سو دیہاڑی لیتے ہوں وہاں لوگ اسے ڈھائی سو روپے اجرت دیتے‘‘

’’ وہ کام کم کرتا ہو گا نا‘‘

’’نہیں نہیں بالکل نہیں ۔ وہ چور نہیں تھا حتی کہ وہ کام چور بھی نہیں تھا۔ وہ لگاتار اندھا دھند کام کرتا اور شام کو آدھی مزدوری چپ چاپ لے کر ریلوے سٹیشن چلا جاتا کہ اب وہی اس کا گھر تھا۔‘‘

جیل سے آنے کے بعد اس کا لوگوں سے ملنا جلنا تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا۔۔۔۔میں کبھی کبھار اتوار کی شام ریلوے سٹیشن جاتا تو اس سے ملاقات ہو جاتی، ایک بار میں ایک مہینہ لاہور رہنے کے بعد واپس لوٹا اور ایک شام ریلوے سٹیشن پر چہل قدمی کرنے گیا تو اس نے مجھے دور سے دیکھا اور بھاگ کر آیا۔۔

’’ تم ٹھیک تو ہو ، تم کہاں تھے ؟ عرصہ ہو گیا تم ملنے نہیں آئے میں نے ہر اتوار تمہارا انتظار کیا‘‘

میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی ہر اتوار میرا انتظار کرتا ہے فقط پانچ منٹ کی ملاقات کے لیئے۔۔۔

ایک دسمبر کی یخ بستہ شام سگریٹ سلگائے چہل قدمی کرتے ہوئے میں ریلوے سٹیشن گیا تو وہ ایک بنچ پر اکڑوں بیٹھا سردی سے کانپ رہا تھا وہ میرا بچپن کا دوست تھامیں واپس آیا اور ایک کمبل لا کر اسے دے دیا۔

’’دوست یہ کمبل لے لو‘‘ میں نے کہا

"”شکریہ۔۔۔۔وہ ، وہ ۔۔۔‘‘

’’ہاں ہاں بتاؤ دوست‘‘

’’وہ کچھ دن سے کام نہیں ملا میں دو دن سے بھوکا ہوں‘‘ ۔۔۔وہ رو رہا تھا۔۔۔۔ کسی خوددار آدمی کے لیئے مانگنا کس قدر مشکل ہوتا ہے یہ مجھے اس روز معلوم ہوا۔۔۔

اس کے بال بڑھ گئے تھے وہ بالکل بھی اپنا خیال نہیں رکھتا تھا۔۔۔ایک وقت آیا کہ سارا گاؤں ہی اسے چور سمجھتا تھا، لوگ کہتے تھے اس نے چوروں کی طرح بال بڑھا رکھے ہیں ، حالانکہ میں جب بھی اس سے ملنے ریلوے سٹیشن گیا مجھے وہ ایسامسافر لگا جو سب کچھ راہ میں لٹا چکا ہو۔۔۔۔

اتفاق سے اس کی اور میری سالگرہ ایک ہی دن ہوتی ہے ہم جب میٹرک میں تھے تو ایک بار سب دوستوں نے مل کے ہم دونوں کے لیئے کیک کا انتظام کیا تھا۔۔۔ میں نے سوچا آج ریلوے سٹیشن جانا چاہیئے سو جب میں وہاں پہنچا تو وہ زمین پر بیٹھا تھا۔۔۔

’’دوست کیا کر رہے ہو ‘‘ میں نے کہا

’’پکڑ لو ‘‘

’’کسے؟‘‘

’’اس چیونٹی کو۔۔۔۔‘‘

’’چیونٹی کو کیوں؟‘‘

’’بس پکڑ لو‘‘

’’لیکن چیونٹی نے کیا کیا ہے؟‘‘

’’ٹھہرو میں اس چڑیا کو پکڑ کر لاتا ہوں وہ جو ، اڑی جا رہی ہے۔۔۔‘‘

’’لیکن کیوں؟‘‘

اور و ہ اٹھا اور جس سمت چڑیا اڑی جا رہی تھی ، بھاگنے لگا۔

’’پکڑ لو ۔۔۔پکڑ لو۔۔۔۔‘‘

دور افق میں سورج ڈوب رہا تھا اور وہ بھاگے جا رہا تھا۔۔۔۔

اس کے بعد میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے