میراجی کی نظم’’سمندر کا بلاوا‘‘ اور اس کے رنگ ۔۔۔ سید اختر علی

میراجی کی شخصیت نابغۂ روزگار تو تھی ہی روایتی علوم اور مغربی علوم سے واقفیت نے ان کی شخصیت کو مزید جلا بخشی۔ نیز حلقۂ اربابِ ذوق سے وابستگی نے حلقہ کو اور ان کو چار چاند لگائے۔ سو یہ چاند اپنی چاندنی بکھیرنے لگا۔ اور وہ ثنا ء اللہ ثانی ڈار سے ’’میراجی‘‘ ہوا۔ اور پھر اسی نام سے جگ میں مشہور۔ میراجی نے لکھا بہت اونچا لکھا۔ لیکن آزادیِ اظہار کے نام پر وہ بھی لکھا جو ایک بولنے والا بولتے وقت بھی سو بار سوچے۔ انھوں نے سات پردے کی باتوں کو ایک سفید کاغذ کے پردے پر اجاگر کیا۔ پھر بھی عزّ و شرف ان کے حصہ میں آئی۔ اور ایک زمانہ آج بھی ان کے فکر و فن کا معترف ہے۔

میراجی علامت اور آواز کے شاعر ہیں۔ شخصیت بھی پر اسرار پائی ہے۔ آپ کو جہاں علامات اور استعارے کے پنکھ لگا کر معنیِ مضمون کی اونچی اڑان بھرنے میں مزہ آتا ہے تو وہیں دوسری طرف پھیکے اور گہرے یا شوخ و چنچل رنگوں سے بنے کیفیات کے پرچم لہرا کر الفاظ کے ذریعہ جذبات اوراحساست کے طبل پر تھاپ مار کر کائنات کی لونی و صوتی دنیا میں ہلچل پیدا کرنے میں لطف آتا ہے۔ ۔ میراجی کے یہاں لفظ کی بڑی اہمیت ہے۔ آپ نے ایک جگہ لکھا ہے :

’’ہر لفظ ایک تصور یا خیال کا حاصل ہے اور تصور یا خیال کے ساتھ ساتھ ہی اس کے لوازم بھی ایک ہالے کی مانند موجود ہوتے ہیں۔ لوازم کا یہ ہالہ انفرادی انداز نظر کا پابند ہے، یعنی ایک ہی لفظ زید کے لیے اور تلازمِ خیال ہے اور بکر کے لیے اور۔ لیکن ایک ہی زبان سے بہت سے افراد کا مانوس ہونا مختلف افراد کے لیے الفاظ میں قریباً قریباً یکساں تلازمِ خیال پیدا کر دیتا ہے۔ جب کوئی لفظ ہمارے فہم و ادراک میں آتا ہے تو یہ تلازمِ خیال کا ذہن میں ایک خاص ہیئت اختیار کرتا ہے اور جب اس سے پہلے لفظ کے ساتھ کوئی دوسرا لفظ ملایا جائے تو ہالہ اپنی ہئیت کو دوسرے لفظ کی مناسبت سے تبدیل کر لیتا ہے۔ ‘‘

(بحوالہ مضمون :’’میراجی شخصیت اور فن‘‘ (ڈاکٹر رشید امجد کا پی ایچ ڈی کا مقالہ)از حیدر قریشی)

سو اس اقتباس کی روشنی میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میراجی کی منفرد اور دلپذیر نظم’’سمندر کا بلاوا‘‘ کا تجزیہ کیا جائے۔ اور دیکھا جائے کہ اس میں کن کن الفاظ میں تصور یا خیال کے کون کون سے رنگ بھرے گئے ہیں اور لوازم کے کون سے ہالے اس میں پائے جاتے ہیں۔

میراجی کی یہ نظم پہلی قرأت میں سیدھی سادھی لگتی ہے لیکن ہے بڑی پیچیدہ۔ سمندر میں پیدا ہونے والی لہروں کی طرح نظم کے سمندر میں معنوں کی کئی زیریں اور بر آب لہریں ساتھ ساتھ چلتی دکھائی دیتی ہیں۔ میراجی کے لفظ، الفاظ اور جملے بولتے ہیں۔ تنکے کی طرح وہیں نہیں نہیں ڈولتے۔ اگر ڈولتے بھی ہیں تو تنکے کا ڈولنا توانائی کی ترسیل کی پہچان بھی ہے۔ اور یہیں سے ابلاغ کا عمل شروع ہوتا ہے۔

نظم کا لب و لہجہ دھیما اور مزاج ٹہراؤ والا ہے۔ الفاظ سیدھے سادھے ہیں۔ شاعر کے جذبات و احساسات کے رنگ بھی پاکیزہ ہیں۔ اس سے نظم کی فضا پر ایک عجیب سا پر وقار سحرطاری ہو گیا ہے۔ اور اس سحر طرازی سے سارا ماحول پر اسرار ہو گیا ہے۔ اس نظم کے کئی رخ ہیں۔ اس میں خیالات کا بہاؤ ایک عجیب رنگ لیے ہوئے ہے۔ اس کے شیڈس ہر مقام پر بدلتے رہتے ہیں۔ حسرت و یاس دکھ درد تکلیف و غم، رنج و الم اور کیا نہیں ہے شاعر کے سرمایۂ حیات میں !اس اعتبار سے یہ نظم داخلی جذبات و احسات اور شاعر کے وسعتِ مطالعہ کاعجیب و غریب ماورائی سنگم ہے

یہ دلپذیر اور غیر معمولی نظم ان کے مجموعۂ کلام ’’تین رنگ‘‘ میں شامل ہے۔ اس مجموعہ میں نظمیں، گیت اور غزلیں شامل ہیں۔ شاید اسی لیے اس مجموعہ کا نام بھی ’’تین رنگ‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس نظم کا شمار ان کی ان نظموں میں ہوتا ہے جس میں ان کی سو کالڈ ’’بیمار ذہنیت‘‘ کا شائبہ تک نہیں ہے۔ اسے حسنِ اتفاق کہیے یا میراجی کی شعوری کوشش کہ اس نظم کی ہر سطر میں بھی تین تین رنگ پائے جاتے ہیں۔ لیکن نظم کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کی یہ سجاوٹ غیر شعوری ہے۔ بلکہ یہ نظم ایک وجدانی کیفیت میں لکھی گئی ہے۔

نظم میں الفاظ کے یہ تین رنگ دراصل ایک دوسرے سے علاقہ رکھنے والے تین الفاظ کا ایک گروپ ہے۔ ہر گروپ کا ہر لفظ اسی گروپ سے تعلق رکھنے والے مخصوص رنگ کا ایک شیڈ ہے۔ یہ شیڈس فکر کے کینواس پر خیال کی پتیوں کو ایک پر ایک جمائے گلِ تخیل کی تشکیل کرتی ہیں۔ اور ریاضی کی زبان میں اس گروپ کا ہر لفظ فکر کی ترسیم پر مرتسم ایک ایسا نقطہ ہے جس سے گزرنے والے خیال کے خط سے شاعر کے تخیل کے گراف کا اندازہ ہوتا ہے۔

چنانچہ الفاظ کے انہی ’’تین رنگوں ‘‘ کے حوالے سے کوشش کی جائے گی کہ میراجی نے اس نظم میں اپنے تصور و خیال کے ایک ایک دھاگے کو کن کن رنگوں سے رنگا ہے اور پھر فکر و فن کی چادر کو بن کرکس طرح سجایا اور سنوارا ہے۔

نظم میں اس کی تصویر کچھ اس طرح سے بنتی ہے :

۱) [سرگوشی۔ صدا۔ ندا]

(آواز کے تین رنگ۔ ایک آواز پر دوسری آواز کے غالب ہونے کا رنگ)

۲)[ایک پل۔ ایک عرصہ۔ ․․․․] (وقت کے تین رنگ۔ وقت کے ان تین رنگوں میں سرگوشی اور صدا کے عرصۂ وقت کی تو وضاحت ہے لیکن ندا کے عرصۂ وقت کی وضاحت نہیں )

۳) [انوکھا بلانے والا۔ انوکھی ندا۔ گہری تھکن](پکارنے والے کی انفرادیت کے تین رنگ۔ شاعر کی زندگی کے سب سے متحیّر کن لمحات کے تین رنگ)

۴)[میرے پیارے بچے۔ مجھے تم سے کتنی محبت ہے۔ برا مجھ سے بڑھ کر نہ کوئی بھی ہو گا]

(ماں کی ممتا کے تین رنگ۔ ماں کے چمکار و پچکار کے رنگ)

۵)[’’خدایا، خدایا‘‘، ․․․․․․]

(ایک ماں کی فکر اور بچے کو ڈرانے کے بعد اپنا جی چھوٹا کرنے یعنی پچھتاوے اور افسوس رنگ۔ پھر ایک دم خاموشی کا رنگ )

۶) [بچپن۔ جوانی۔ بڑھاپا] ( نظم میں شاعر کے نہیں دکھائی دینے والے موسمِ عمر کے تین رنگ۔ بے فکر عمر، لا ابالی عمر، فکروں سے بھری عمر)

۷) [سسکی-تبسم-تیوری]

( زندگی کے تین رنگ۔ بچپن کاہنسنا رونا، عالمِ شباب کا خوابوں میں گزرنا، بڑھاپے میں بچپنے کا عود کرآنا۔ )

۸) [ایک سسکی-اک تبسم-صرف تیوری ]

( کشمکشِ حیات کے ہالے۔ زندگی کے ہالے۔ شاید شاعر کی ماں کے لمحاتِ روز و شب کا بیان)

۹) [نہ آنکھوں میں جنبش۔ نہ چہرے پہ تبسم۔ نہ تیوری]

(بے رنگ بڑھاپے کے تین رنگ)

۱۰)[کان۔ سننا۔ اور صرف سننا]

(مجبور زندگی کے تین رنگ)

۱۱)[گلستاں۔ پربت-صحرا ]

( دنیا کے تین رنگ۔ حالتِ سکون کے تین رنگ۔ زندگی کے challengesکے رنگ۔ زندگی کی متغیر خوشیوں کے رنگ۔ کائنات کی بوقلمونی کی داستان )

۱۲) [کلی۔ غنچہ۔ پھول ]

(ایک پھول کی زندگی کے رنگ۔ شبابِ گلستاں کے تین رنگ)

۱۳)[کھلنا۔ مرجھانا۔ مرجھا کر گرنا](گلستاں کے بہار و خزاں کے تین رنگ۔ زندگی کے اتار چڑھاؤ کے تین رنگ)

۱۴)[نکھرنا۔ سنورنا، سنور کر بکھرنا ] (آئینۂ زندگی کے رنگ۔ حقیقی آئینہ کے سامنے انسانی نفسیات کے رنگ)

۱۵)[شکل کا مٹنا۔ مٹ ہی جانا۔ پھر نہ ابھرنا ]

(زوالِ زیست کے تین رنگ، کسی کاز کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دینے کے رنگ)

۱۶)[خاموش۔ ساکن۔ چشمہ]

(پربت کی بولتی خاموشیوں کے رنگ)

۱۷)[ وادی۔ ندی۔ ناؤ]

( پربت کے دامن کے چہکتے رنگ۔ اسبابِ زندگی کے تین رنگ۔ زندگیوں کے قافلوں کے رنگ، کاروانِ حیات کے رنگ)

۱۸)[پھیلا ہوا۔ خشک۔ بے برگ صحرا]

(صحرائی زندگی کے تین رنگ۔ زندگی کی بے سروسامانی کے رنگ)

۱۹)[بگولے۔ بھوت۔ عکس مجسم ](صحرائی زندگی کے تار وپود۔ زندگی کی پریشانیوں کے رنگ)

۲۰)[ میں ( شاعر)۔ پیڑوں کا جھرمٹ۔ اور نگاہیں ]

(یاس و امید کے رنگ۔ وحدت کے رنگ)

۲۱)[سمندر ․․․․․(مانند ایک نقطہ، خط اور سطح )]

(ِ زندگی کے منبع کا رنگ۔ حیاتِ ارضی کے ہئیت کا رنگ۔

تجسیم کائنات کا رنگ۔ وقت کا رنگ)

۲ ۲) [ماضی۔ حال۔ ․․․․․․․․]․

( زمانہ کے رنگ۔ اس نظم میں زمانۂ ماضی اور زمانۂ حال کا رنگ تو ہے لیکن زمانۂ مستقبل کا رنگ غائب ہے )

۲۳) [حسرت۔ یاس۔ مجبوری]

(نظم کا غیر مرئی کلیدی رنگ)

۲۴)[مرئی اور غیر مرئی چیزوں کی مرحلہ وار منتقلی کے رنگ]

اس اکیس سطری نظم میں درج بالا تقریباً چوبیس رنگ ہیں۔ آئیے ان رنگوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

شاعر کہتا ہے کہ اس نے بچپن سے لے کر اب تک بہت سی آوازیں سنی ہیں۔ کبھی ایک پل کے لیے تو کبھی ایک عرصہ نیٖز ایک عرصے سے۔ مگر اب اسے ایسی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں جو اس نے ابھی تک نہیں سنی تھی۔ شاعر نے اس سرگوشی نما پکار کو ’’انوکھی ندا‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ کب سے یہ ندا آ رہی ہے اس کے بارے میں شاعر کچھ نہیں کہتا، خاموش ہے !جس میں اسے بتایا جا رہا ہے کہ اس کا اپنا کوئی ہے جو اسے بلا رہا ہے۔ ساتھ ہی اسے یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ بلانے والا اسے بلاتے بلاتے اب تھکنے لگا ہے۔ لیکن کیا بات ہے کہ اس کی توجہ اس ندا (پکار)کی طرف نہیں ہے !اس لیے شاعر حیرت سے کہتا ہے :

’’بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ آئندہ شاید تھکے گا‘‘

پھر بلانے والا کیا ’’ندا‘‘ لگا رہا ہے اس کی وضاحت کرتا ہے :

’’میرے پیارے بچے ‘‘–’’مجھے تم سے کتنی محبت ہے ‘‘–’’دیکھو، اگر یوں کیا تو برا مجھ سے

بڑھ کر نہ کوئی بھی ہو گا۔ ‘‘ ’’خدایا، خدایا!‘‘

نظم کی ان پہلی پانچ سطروں میں شاعر نے الفاظ کے تقریباً پانچ رنگ استعمال کیے ہیں۔ پہلا رنگ آواز کا رنگ ہے۔ اس کے شیڈس ’’سرگوشی۔ صدا۔ ندا‘ ‘‘ہیں۔ سرگوشی علامت ہے نزدیکی اور راز داری کی۔ اس کا علاقہ قربت کے ذیل میں آتا ہے۔ یہ آواز دوسروں کو سنائی نہیں دیتی ا ور دوسروں کے لیے ہوتی بھی نہیں۔ صدا کا تعلق سماعت کے عام زمرہ سے ہے۔ راز داری اس کی شرط نہیں۔ اس کا علاقہ قرب و جوار کے ذیل میں آتا ہے۔ ندا کا تعلق سماعت کے خاص زمرہ سے ہے۔ اس کا علاقہ بُعد کے ذیل میں آتا ہے۔ لیکن شاعر نے اس ندا کو انوکھی ندا کہا ہے کیونکہ یہ صرف اسے ہی بصورتِ سرگوشی سنائی دے رہی ہے۔

لیکن یہ آوازیں ایک آواز پر دوسری آواز کے اغلبیت کا رنگ بھی ہیں۔ ’سرگوشی ‘پر صدا بھاری ہے تو’ صدا ‘پر ’ندا ‘کا زور ہے۔ یہاں سرگوشی اور صدا مختصر اور طویل زندگی کی علامت ہیں تو ندا خاتمہ کا اعلان۔

دوسرا رنگ وقت کا رنگ ہے۔ اس کے شیڈس ’’ایک پل۔ ایک عرصہ۔ ․․․․ ‘‘ہیں۔ پہلے دو شیڈس شاعر کو سنائی دینے والی مختلف آوازوں کے عرصۂ وقت کی وضاحت کرتے ہیں۔ لیکن یہاں شاعر کمالِ ہوشیاری سے وقت کے تیسرے شیڈ کو منظر سے ہٹا دیتا ہے۔ جو کہ اس انوکھی ندا کا وقت ہے۔ شاعر کا یہی کمال اس کی اس نظم کی جان ہے۔

وقت کے ان رنگوں سے نسبت رکھنے والا اور ایک رنگ نظم میں موجود ہے جو دکھائی نہیں دیتا محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اور وہ ہے شاعر کی عمر کا رنگ: ’’بچپن۔ جوانی۔ بڑھاپا ‘‘جس طرح کل نگار (ہولوگرام)کو زاویہ بدل کر دیکھنے پر مختلف شیڈس اور تصویریں نظر آتی ہیں اسی طرح وقت کے ان رنگوں سے عمر کے یہ رنگ سایہ کی طرح چپکے ہوئے ہیں۔ وقت کی ڈور سے بندھی شاعر کے عرصۂ حیات کی کبھی سیدھا اڑتی اور کبھی غوطے کھاتی یہ پتنگ اس کی بے فکر عمر، لا ابالی عمر اور فکروں سے بھری عمر کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

اب شاعر کی زندگی میں حیرت و استعجاب کا سب سے انوکھا خاص رنگ ظاہر ہوتا ہے اور وہ ہے : ’’انوکھا بلانے والا۔ انوکھی ندا۔ گہری تھکن‘‘۔ یہ رنگ شاعر کو آواز دینے والے کا بھی رنگ ہے۔ یہ اس کی انفرادیت اور اس کے بہت خاص ہونے کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ بلانے والا شاعر سے بہت اچھی طرح سے واقف ہے۔ اور ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا اس سے بہت قریبی تعلق ہے اور مضبوط رشتہ بھی۔ لیکن کسی وجہ سے وہ سامنے نہیں آتا۔ کہہ رہا ہے کہ میں تمھیں کب سے بلا رہا ہوں۔ بلاتے بلاتے اب تھکنے بھی لگا ہوں۔ تم کب آؤ گے۔ بس چلے آؤ! حساس شاعر کے ذہن میں یہ سوال کلبلاتا ہے :

’’بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ آئندہ شاید تھکے گا، ‘‘

اسی اثناء شاعر کو پھر سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں :

’’میرے پیارے بچے۔ مجھے تم سے کتنی محبت ہے۔ برا مجھ سے بڑھ کر نہ کوئی بھی ہو گا‘‘

اب شاعر چونک جاتا ہے۔ اسے یہ آواز جانی پہچانی لگتی ہے۔ اور پھر وہ اس پیار بھرے دلار و چمکار کے رنگوں کو پہچاننے کی سعی کرتا ہے۔ اک لمحہ بعداس کو اپنے سامنے پھر اسی انوکھی آواز کے افسوس اور پچھتاوے کا پرچم ’’خدایا، خدایا‘‘ کر کے لہراتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جیسے کہہ رہا ہو’ صد حیف!یہ میں نے کیا کر دیا‘۔ پھر اس کے بعد اک لمحے کے لیے خاموشی کا رنگ چھا جاتا ہے۔ گو کہ اس سکوت کے رنگ کا اثر فقط چند لمحوں کے لیے ہے لیکن ایسا لگتا ہے جیسے صدیاں بیت گئیں ہوں۔

شاعر حیران پریشان ہے کہ اس ’’انوکھی ندا‘‘ تک کس طرح پہنچے۔ اسے علم نہیں کہ اپنے آپ کو کس طرح ریمیائے یا teleportکرے یاِ ہیمیا سے کام چلا کر اس ندا تک پہنچے۔ بلانے والا بھی نظروں سے اوجھل ہے۔ لیکن زود حس شاعر ہمت نہیں ہارتا۔ اپنے محسوسات اور تخیلات کی دنیا کو جگاتا ہے۔ پھر اسے اپنی نظروں کے سامنے رہ رہ کر ’’سسکنے ‘‘والی وہ آواز سنائی دیتی ہے تو کبھی بلانے والے کے چہرے پر ہلکا سا ’’تبسم‘‘ دکھائی دیتا ہے تو کبھی اس کے ماتھے پر ’’تیوری‘‘ پڑتے ہوئے دیکھتا ہے۔

’’کبھی ایک سسکی، کبھی اک تبسم، کبھی صرف تیوری‘‘

نظم کی اس ایک سطر سے شاعر نے ’زندگی تیرے کتنے روپ‘ کے مانند زندگی کے کئی تین رنگ ایک ہی رنگ’’ سسکی۔ تبسم۔ تیوری‘‘ سے تیار کیے ہیں۔

قصہ یہ ہے کہ میراجی اپنی ماں سے ملنے لاہور جانا چاہتے تھے۔ لیکن بعض مجبوریاں آڑے آئیں اور تا دمِ آخر وہ اپنی ماں سے نہیں مل سکے۔ انھیں یہ قلق ہمیشہ رہا کہ ان کا وجود ماں سے ہے جیسا ازل سے ہوتا آیا ہے اور ابد تک ہر ایک کا ہو گا، لیکن وہ اپنی ماں سے نہیں مل سکے۔ قیاساًیہ کہا جا سکتا ہے کہ میراجی سمندر کے کنارے کھڑے ہیں۔ سمندر ی لہریں آ آ کر ساحل سے ٹکراتی ہیں۔ ایک شور بپا ہے۔ ان کے دل و دماغ میں بھی یادوں کا ایک دریا موجزن ہو گیا ہے۔ وہ اس سحر آگیں کیفیت میں گرفتار ہونے سے اپنے آپ کو کس طرح بچا پاتے ؟ لیکن مجبور ہیں۔ ماں سے ملنا نصیب میں نہیں۔ سو عالمِ تخیل میں ماں کے پاس پہنچتے ہیں اور ماں سے کہتے ہیں کہ میری ماں مجھے سمندر میں ہوا کے ساتھ پیدا ہونے والی یہ منہ زور لہریں کبھی تیرا دکھ لگے ہے تو کبھی اٹھلاتی بل کھاتی یہ لہریں تیری ایک پل کی خوشی۔ اور ساحل سے لپٹ کر دم بھر میں دم توڑتی یہ بپھری ہوئی موجیں تیرا پل بھر کا غصہ لگے ہے۔ ماں !تیرے بھی عجیب دھنک رنگ ہیں :

سمندر میں ہوا کے ساتھ پیدا ہونے والی یہ منہ زور لہریں کبھی تیرا دکھ لگے ہے تو کبھی اٹھلاتی بل کھاتی یہ لہریں تیری ایک پل کی خوشی۔ اور ساحل سے لپٹ کر دم بھر میں دم توڑتی یہ بپھری ہوئی موجیں تیرا پل بھر کا غصہ لگے ہے۔ ماں !تیرے بھی عجیب دھنک رنگ ہیں :

’’کبھی ایک سسکی، کبھی اک تبسم، کبھی صرف تیوری‘‘

’’مگر یہ صدائیں تو آ رہی ہیں

شاعر آگے کہتا ہے کہ اس کو کچھ ایسی ’’صدائیں ‘‘ بھی مسلسل سنائی دے رہی ہیں جو اسے جتلا رہی ہیں کہ

’’انہی سے حیاتِ دو روزہ ابد سے ملی ہے ‘‘

اب شاعر نے ماں اور ماں کی ممتا کو سامنے موجود بے کنار گہرے سمندر کے روپ میں دیکھا اور پھر اس نے ان ’’صداؤں ‘‘کے اشارے کو سمجھا جو اسے سمجھا رہی ہیں یہ کہہ کر کہ

’’انہی سے حیاتِ دو روزہ ابد سے ملی ہے ‘‘

پھرتو اپنی ماں سے ملنے کیوں نہیں جاتا؟سفینے سامنے کھڑے ہیں۔ پھر کیا مجبوری ہے ؟

شاعر آگے کہتا ہے کہ ان آوازوں کو سنتے سنتے اب اس کا یہ حال ہو گیا ہے اور وہ عمر کے اس حصہ کو پہنچ گیا ہے کہ اب نہ اس کی آنکھوں کے تارے جاگتے ہیں، نہ ہی اس کی بانچھیں کھلتی ہیں اور نہ ہی اس کے ماتھے پر کسی بات یا آواز سے بل پڑتا ہے۔ فقط کان ہی اب اس کا ساتھدے رہے ہیں۔ ان آوازوں کو فقط سننا اب اس کی مجبوری ہو گئی ہے (سائنسی اعتبار سے بڑھاپے میں ہلکی آواز زیاد ہ واضح سنائی دیتی ہے اور اونچی آواز کم )

’’اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم نہ تیوری

فقط کان سنتے چلے جا رہے ہیں۔ ‘‘

نظم کے اس وسطی حصہ میں شاعر نے زندگی کے جو رنگ چنے ہیں وہ یہ ہیں۔ ’’نہ آنکھوں میں جنبش۔ نہ چہرے پہ تبسم۔ نہ تیوری ‘‘، ’’کان۔ سننا۔ اور صرف سننا‘‘یہ عمر کے اس حصہ کے رنگ ہیں جسے بڑھاپا کہا جاتا ہے۔ عموماً یہ بے بسی، بے کسی اور مجبوری سے عبارت ہے۔ اس حصہ کا رنگ بڑا گنجلک اور کائی زدہ ہوتا ہے۔ صرف ایک ہی کام رہ جاتا ہے۔ سننا، دیکھنا اور کڑھتے رہنا:

’’سب ہیں گھر میں لیکن

گھر میں کوئی نہیں

چارپائی پر بیٹھا بوڑھا سوچ رہا ہے

سب ہیں میرے لیکن

میرا کوئی نہیں !

(عمر کے سائے، اخترؔ صادق)

کان کیا سنتے جا رہے ہیں ؟اور اس سے شاعر نے کیا نتیجہ اخذ کیا ؟اس نے اس کو نظم کے اگلے حصہ میں بیان کیا ہے۔

شاعر فقط اب سننے کے موڈ میں ہے۔ وہی سرگوشیاں اس سے مخاطب ہیں :

’’یہ گلستاں ہے۔ ‘‘

’’یہ پربت ہے۔ ‘‘

’’یہ صحرا ہے۔ ‘‘

سرگوشی پہلے گلستاں کی داستان سناتی ہے :

’’یہ اک گلستاں ہے، ہوا لہلہاتی ہے، کلیاں چٹکتی ہیں، غنچے مہکتے ہیں اور پھول

کھلتے ہیں، کھل کھل کے مرجھا کے گرتے ہیں، اک فرش مخمل بناتے ہیں جس پر

مری آرزوؤں کی پریاں عجب آن سے یوں رواں ہیں کہ جیسے گلستاں ہی اک آئینہ ہے،

اسی آئینے میں ہر اک شکل نکھری، سنور کر مٹی اور مٹ ہی گئی، پھر نہ ابھری۔ ‘‘

سرگوشی کہہ رہی ہے دیکھو اس گلستاں کو کہ کیسا اس میں اس کی زندگی ہو اکے مانند جھوم رہی ہے۔ اس کے بھی تین رنگ ہیں :کلی، غنچہ اور پھول۔ جیساکہ اس سے پہلے بیان کیا گیا ہے یہاں بھی شاعر نے کلی اور غنچہ میں بہت ہی لطیف فرق کو ملحوظ رکھا ہے۔ شاعر نے بند کلی سے پھول بننے کے تین مدارج بتائے ہیں۔ پہلے کلی بنتی ہے۔ پھر وہ چٹکتی ہے، یہ ادھ کھُلی کلی غنچہ ہے جو مہکنے لگتا ہے۔ پھر پھول بن کر وہ گلستاں کی رونق بڑھاتا ہے۔

شاعر نے گلستاں کو زندگی کا آئینہ قرار دیا اور آئینہ کی مناسبت سے پھر تین رنگ بیان کیے ہیں۔ نکھرنا، سنورنا اور پھر جھنجھلا کرسنگھار کو بگاڑ دینا۔ ایک انسان بھی اپنی زندگی میں انہی کیفیات سے گذرتا ہے۔ اور بالآخر مٹی میں مل کر حیاتِ جاوداں کی طرف کوچ کر جاتا ہے۔ اب وہی سرگوشی شاعر کو پربت کی کہانی سناتی ہے :

’’یہ پربت ہے خاموش، ساکن،

کبھی کوئی چشمہ ابلتے ہوئے پوچھتا ہے کہ اس کی چٹانوں کے اس پار کیا ہے ؟

مگر مجھ کو پربت کا دامن ہی کافی ہے، دامن میں وادی ہے، وادی میں ندی ہے، ندی میں

بہتی ہوئی ناؤ ہی آئینہ ہے،

اسی آئینے میں ہر اک شکل نکھری، مگر ایک پل میں جو مٹنے لگی ہے تو پھر وہ نہ ابھری۔ ‘‘

سرگوشی کہانی کچھ یوں شروع کرتی ہے۔ پربت دنیا کا دوسرا رنگ ہے۔ پربت جتنا بڑا ہے اتنا ہی خاموش اور ساکن ہے۔ کیا یہ اس کی ساکت جامد صفات کے مخصوص تین رنگ نہیں ہیں ؟

شاعر نے بہتی ہوئی ناؤ کو اس فانی زندگی کا آئینہ قرار دیا ہے۔ شاید شاعر کا اشارہ کشتیِ نوحؑ کی طرف بھی ہے جہاں سے اس فانی زندگی کا احیا ہوا۔ اور کئی کاروانِ حیات یہیں سے نکل کر ساری دنیا میں پھیلے۔ اور پھر زندگی کا کاروبار کبھی چلنے لگا تو کبھی ڈھلنے لگا۔ جو آج بھی جاری و ساری ہے۔ ا سی لیے شاعر کہتا ہے :

’’اسی آئینہ میں ہر ایک شکل نکھری، مگر اک پل میں جو مٹنے لگی ہے تو پھر نہ ابھری‘‘

’’یہ صحرا ہے __پھیلا ہوا، خشک، بے برگ صحرا،

بگولے یہاں تند بھوتوں کا عکسِ مجسم بنے ہیں ‘‘

یہ صحرا اس جہاں کا تیسرا رنگ ہے۔ یہ محتاجی اور بے سروسامانی کا رنگ ہے۔ یہ چلچلاتی دھوپ میں ہوا کو بھی ننگا کرنے والا رنگ ہے۔ اس کے بھی تین رنگ ہیں۔ یہ پھیلا ہوا ہے۔ خشک ہے۔ بے برگ ہے۔ صحرا کی زندگی کے رنگ بھی ہماری زندگی کے رنگوں کا ایک حصہ ہے۔ یہاں کا ہر پل ایک سراب ہے۔ دھوکا ہے۔ بعینہٖ دنیا کی زندگی کا ہر پل بھی ایک رنگین سراب ہے۔ آخرِ کار شاعر ان سرگوشیوں سے اپنا دامن چھڑاتا ہے اور کہتا ہے :

’’مگر میں تو دور__ایک پیڑوں کے جھرمٹ پر اپنی نگاہیں جمائے ہوئے ہوں۔ ‘‘

میراجی کہتے ہیں کہ میری آرزوؤں کی پریاں نہ تو اب گلستاں میں بسیرا لینا چاہتی ہیں اور نہ ہی اونچے پربتوں کی جویائی کرنا چاہتی ہیں۔ اور نہ ہی یہ دشتِ سواراں سے ہیں۔ و ہ تو بس اب میری نظروں کی ڈوری تھامے اس راستے پر سفر کرنے کی تمنائی ہیں جہاں میری نگاہیں ٹکتی ہیں۔ میری نگاہیں پیڑوں کے ایک جھرمٹ پر ہیں۔ یہ ہے تو دور لیکن اب یہی میری جاد ۂ منزل ہے۔ کیونکہ یہ کثرت میں وحدت کا رنگ ہے۔ اس لیے یہی میری زندگی ہے۔ یہی میری زندگی کا چھوٹا ساآئینہ ہے۔

اب شاعر اپنے ذہنی سفر کے آخری پڑاؤ پر ہے۔ وہ کہتا ہے ’’تو پھر یہ ندا آئینہ ہے، فقط میں تھکا ہوں ‘ ‘ تو اس پر آئینہ کا سحر ختم ہوتا ہے۔ اور وہ ندا کے درپن میں اپنے خد و خال کا جائزہ لینے لگتا ہے۔ جائزہ لیتے لیتے اس پر منکشف ہوتا ہے کہ بصورتِ سرگوشیاں یہ جو ندائیں اسے دی جا رہی ہیں دراصل یہ آئینہ تمثال آئینہ کا جوہر ہیں۔ پھر یہ کیسے تھکیں گی۔ کہیں آئینہ بھی تھکا ہے ! فقط میں ہی اپنا عکس دیکھتے دیکھتے تھکا ہوں۔

’’ نہ اب کوئی صحرا، نہ پربت، نہ کوئی گلستاں،

اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم نہ تیوری

فقط ایک انوکھی صدا کہہ رہی ہے کہ تم کو بلاتے بلاتے مرے دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے،

بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ شاید تھکے گا

تو پھر یہ ندا آئینہ ہے، فقط میں تھکا ہوں ؛

نہ صحرا نہ پربت، نہ کوئی گلستاں، فقط اب سمندر بلاتا ہے مجکو

کہ ہر شے سمندر سے آئی، سمندر میں جا کر ملے گی۔ ‘‘

شاعر کو سرگوشی نے پہلے گلستان کی داستان سنائی۔ پھر پربت کی۔ پھر صحرا کی۔ شاعر کہتا ہے مجھے لگتا تھا کہ صحرا، پربت اور گلستاں زندگی کا آئینہ ہیں۔ انہی آئینوں سے زندگی کے عکس نکل نکل کر ادھر ادھر پھیلے۔ زندگی کی ابتدا انہیں سے ہوئی۔ زندگی کا منبع یہی ہیں۔ لیکن اس پر جب یہ بھید کھلتا ہے کہ ’پانی تمام زندہ چیزوں کی بنیاد ہے ‘تو وہ اس انوکھی سرگوشی کی سنائی گئی داستان کی پر زور مخالفت کرنے کے لیے داستان کی ترتیب کو الٹ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے دامنِ دل کو اب صحرا، پربت اور نہ ہی گلستاں کے آئینے کھینچتے ہیں۔ فقط اب آئینہ تمثال سمندرمیرے لیے پر کشش کرتا ہے۔ کیونکہ اب میں جان چکا ہوں کہ ہر ذی روح کی ابتدا پانی سے ہوئی ہے۔ اور ایک دن اسے پانی ہی بن کر پاتال کو پہنچنا ہے۔ میری ماں اور میرا وجود بھی اسی پانی سے ہے۔ سو اب قیامت کا انتظار ہے اسی دن میں اپنی ماں سے مل سکوں گا۔ یہاں شاعر نے ’’ہر شے سمندر سے آئی‘‘ کا اشارہ سورۂ نور کی اس آیت کی طرف دیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’اور اللہ نے ہر جاندار کو پانی سے خلق کیا‘‘۔ اور نظم کی آخری سطر کے دوسرے ٹکڑے ’’سمندر میں جا کر ملے گی ‘‘کا مطلب شاعر نے شاید یہ لیا ہے کہ جو شے جس چیز سے بنی ہے آخر کو اسے اسی میں مل کر فنا کو پہنچنا ہے۔

’’نہ صحرا نہ پربت، نہ کوئی گلستاں، فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو

’’کہ ہر شے سمندر سے آئی، سمندر میں جا کر ملے گی۔ ‘‘

درج بالا رنگوں کی فہرست سے واضح ہوتا ہے کہ شاعر نے اپنی اس نظم میں خصوصیت سے چیزوں اور جمالیاتی کیفیات کی مرحلہ وار منتقلی کے مدارج بیان کیے ہیں۔ یہ قانونِ فطرت ہے کہ ہر شے کو مرحلہ وار ایک طے شدہ راستے سے گزرنا ہے۔ یہ خالقِ کائنات کے طے شدہ رنگ ہیں۔ لہٰذا شاعر بھی انھیں اسی رنگ میں رنگنا اور دیکھنا چاہتا ہے۔ نظم کے کینواس پر مدارج کے انہی رنگوں سے میراجی کے خیال و خوابوں کے بھید کھلتے ہیں۔

گو کہ اس اکیس سطری نظم میں درج بالا تقریباً چوبیس رنگ ہیں لیکن ان سب رنگوں پرمحیط سمندر کا رنگ ہے۔ سمندر کو اوپر سے دیکھیں تو نقطہ لگے، سامنے سے دیکھیں تو خط اور اس کی پہنائیوں میں پہنچ جائیں تو سطح۔ نقطہ ابتدائے وجود ہے۔ اس وجودی نقطہ سے خط بنا اور اس خط سے سطح وجود میں آئی۔ اور ان تینوں کے اشتراک سے کائنات کے اجسام کی تجسیم ہوئی۔ سو سمندر تینوں رنگوں پر محیط تجسیمِ کائنات کا رنگ ہے۔ یعنی جس طرح ایک مصور فن پارہ کی تخلیق کے بعد اس پر کہیں کونے میں بالکل رمزیہ انداز میں اپنی شناختی دستخط ثبت کرتا ہے جس کا ڈھونڈ پانا عام آدمی کے بس کا روگ نہیں، بالکل اسی طرح شاعر کا سمندررنگ ان رنگوں پر ایک دستخط کی طرح وقت کے کاغذ پر ثبت ہے۔

اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ میراجی کی نظموں کا منظر نامہ سمندر اور اس کائنات کی طرح وسیع اور گہرا ہے۔ سمندر کا سا شور اور سکوت اور کائنات کی بو قلمونی کی طرح کا خاصہ ان کی نظموں کا خاصہ ہے۔

یہی ان کی اس نظم کے رنگ ہیں اور شاید دیگر نظموں کے بھی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھُول گیا

کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھُول گیا

٭٭٭

 

 

One thought on “میراجی کی نظم’’سمندر کا بلاوا‘‘ اور اس کے رنگ ۔۔۔ سید اختر علی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے