جمیل الدین عالی۔۔۔ محمد طارق غازی

چھوٹا شاعر مشاعروں میں شرکت کے سبب سے اور بڑا شاعر اپنے فکر کی بنا پر معروف ہوتا ہے۔ جمیل، الدین عالی مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں، مگر ان کا تعارف مشاعرہ نہیں ان کا شعری فکر ہے۔ میں نے انہیں کبھی کسی مشاعرہ میں نہیں سنا تھا۔ مگر میں ان سے واقف ضرور تھا۔ باوجودیکہ کہ جدہ کے ادبی ریگزار میں ادبی مجلات تک رسائی اتفاقی شے تھی، مگر کبھی کوئی رسالہ مل جاتا تو اس میں گاہے گاہے عالی، پیرزادہ قاسم، سحر انصاری، محسن بھوپالی، حمایت علی شاعر، محسن احسان وغیرہ کی تخلیقات نظر سے گزرتی تھیں۔ ان جیسے اہل فن مشاعروں شرکت نہ بھی کریں تو ان کے فن پر آنچ آتی ہے نہ ان کی پہچان متاثر ہوتی ہے۔ چنانچہ عالی بہرحال ایک بڑے شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور جانے جاتے رہیں گے۔ انہوں نے شاعری میں تجربات بھی کئے ہیں۔ ہندی سے کچھ زیادہ واقفیت نہ ہونے کے باوجود دوہے کہے۔ اقتصادیات اور ادبیات اور لسانیات سب سے قریب و بعید تعلق کی اساس پر انہوں نے ایک طویل نظم انسان کہی جو دس ہزار مصرعے اور سطریں کہے جانے کے بعد بھی ان کے بیان کے مطابق نہ مکمل ہے اور نہ کبھی مکمل ہوسکتی ہے۔ جب تک انسان کا وجود باقی ہے نظم جاری رہے گی!

جس زمانہ میں ان کا تعلق پاکستان کے بنکوں اور اقتصادیات سے تھا عالی صاحب اکثر جدہ آتے رہتے تھے اور جب جدہ میں رسول احمد کلیمی مرحوم سعودی مملکت میں بنک الجزیرہ کے سربراہ تھے، تو عالی صاحب وہاں ایک درجہ میں کلیمی کے منصبی مہمان ہوا کرتے تھے۔

ایک بار کلیمی نے جب اطلاع دی کہ عالی جدہ آئے ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنے گھر پر ان سے ہماری ایک ملاقات کا اہتمام کیا ہے تو اس دن کلیمی کی دوستی کے نتیجہ میں خود پر کچھ اعتبار بڑھ گیا۔ انہوں نے مجھے فون کیا۔

آج شام کو میرے گھر آ جایئے۔ چائے ساتھ پی لیجئے۔

کوئی خاص سبب؟

ہاں۔ بہت خاص۔ جمیل الدین عالی آئے ہوئے ہیں۔ کہہ رہے تھے کہ جدہ کے لوگوں سے ملاقات کرواؤ۔ میں نے آپ کا اور سعدی صاحب کا نام لیا کہ جدہ میں کہ ان دو سے مل لو تو کافی ہے۔

میں ؟ شاعر نہ ادیب۔ ہاں سعدی صاحب کی بات الگ ہے۔

اس کی فکر نہ کیجئے۔ یہ مجھ پر چھو ڑیئے۔ بس آپ آ جایئے۔

کلیمی نے دوستی کی ایک مختلف قسم سے ہونے کا ثبوت دیا تھا۔ آدمی جو کچھ نہ ہو محبت کے مارے اسے وہ سب کچھ بنا دو۔ اپنا حال یہ کہ زندگی میں کوئی ڈھنگ کا کام نہ کیا۔ صحافی بنے وہ بھی والد کی نافرمانی کر کے تو بھلا وہاں کون سا اعزاز ہونا تھا۔ لکھنے پڑھنے کا شوق تو تھا مگر کیا مجال جو کچھ لکھ پڑھ کے دیا ہو۔ ملک و ملت کی خدمت کا بھی بڑا زعم تھا، لیکن یہ زعم دل و دماغ میں لے کر ملک بھی چھوڑ دیا اور ملت کو بھی نظر انداز کر دیا ان لاکھوں لوگوں کی طرح جن کے نزدیک اپنی پُر آسائش زندگی کو دنیا کی ہر شے اور زندگی کے ہر مقصد پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ لوگوں نے اصلاح و تعلیم کے بیڑے اٹھائے اور کیا کیا کارنامے صفحہ ارض پرنہ چھوڑ دئے اور کیسے کسی ادارے بنا کے دنیا کو وراثت میں دے کر نہ چلے گئے۔ ہم اسی خوش گمانی میں رہے کہ ہم خود ہی کوئی ادارہ ہیں۔ پھر کلیمی پر اب کیا چھوڑ دیں۔

مگر دوست کی بات ٹالی نہ گئی۔ شام سے پہلے سعدی صاحب خود گھر پر آ گئے۔

چلئے۔ کلیمی نے بلایا ہے۔ عالی صاحب سے ملاقات کرنی ہے۔

سعدی صاحب بھی کبھی پہلے عالی صاحب سے نہ ملے تھے۔ مگر ان کے لئے بھی عالی غیر معروف نہیں تھے۔ ہم نے ٹیکسی پکڑی اور جامعہ جدہ کے نواح میں کلیمی کے گھر پہنچ گئے۔ ٹیکسی اس لئے پکڑی کی ہم دونوں اس جدہ میں بے کار تھے جہاں کار رکھنا لوگوں کے لئے سانس لینے سے زیادہ ضروری تھا۔ جوں جوں مغرب کی طرف بڑھتے جایئے یہ ضرورت ہر ضرورت سے زیادہ بنتی جاتی۔ اور اب تو خیر سے ہندستان میں بھی یہی حال ہے کہ کار رکھنے والے مردوں اور عورتوں کو ہر شہر میں صرف اپنی صحت برقرار رکھنے کے سڑکوں اور ویرانوں میں یوں دیوانہ وار بھاگتے دیکھا جا سکتا ہے جیسے کسی کی جیب کاٹی ہو یا کتا پیچھے پڑا ہوا ہو۔ ۔

کلیمی ہمارے منتظر تھے۔ عالی ان سے زیادہ مشتاق تھے۔ مگر اس سے پہلے وہ خود کوئی بات کریں سعدی صاحب نے ان کی شاعری پر گفتگو شروع کی۔ عالی ہمہ تن گوش ہو گئے۔ سعدی صاحب نے ان کی شاعری پر ایک اجمالی تبصرہ کے بعد ان کی ایک چھوٹی سی نظم کا حوالہ دیا اور لمحوں میں اس کا تجزیہ کر دیا۔ عالی صاحب کے لئے یہ کچھ نیا سا تجربہ تھا۔ شائد اس طرح کسی نے ان سے پہلی ملاقات نہیں کی تھی۔ وہ چھوٹے موٹے شاعر نہیں تھے۔ لوگ پہلی بار ان سے بڑی نیاز مندی سے ملتے ہوں تو کچھ عجب نہیں۔ مگر وہاں تو ایک مختلف شخص ان سے مخاطب تھا۔ چند جملوں میں عالی تو سعدی صاحب کے قتیل ہو گئے۔ یہ تو منٹوں کی بات تھی۔ ادھر سعدی صاحب نے اپنا چمتکار دکھایا ادھر عالی صاحب ان کے گرویدہ ہوئے۔

میرے پاس ایسا کوئی چمتکار نہیں تھا۔ بس آنکھیں تھیں اور دور کے جلوے تھے۔ عالی صاحب اپنی جلالت ادب کے باوجود بڑے انکسار سے ملے تھے۔ ان کے مزاج میں دہلی کے قدیم شرفا ء کی مغل تہذیب کی خوبوایسی رچی بسی ہوئی تھی کہ ان کی کسر نفسی ہمیں شرمندہ کرتی تھی۔ غالب کے خانوادہ سے نسبی تعلق اور لوہارو سے ماضی کی وطنی نسبت نے ان کی شخصیت میں ایک عجب بوستانی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ غالب ہزار شوخی پسنداور ظریف طبع ہوں، مگر تھے تو ایک تہذیب شرافت ہی کے نمائندہ۔ وہی عالی صاحب کی میراث تھی۔ میں انہیں دیکھ رہا تھا۔ نظم کے حوالہ سے سعدی صاحب کے ہر جملہ پر ان کی آنکھوں میں اترتی روشنی کی تحریریں، ان کے بشرہ پر ابھرتے تاثرات، ان کے لبوں پرسرگوشیاں کرتی ہوئی شکر گزاریاں ایک فرد کے بجائے ایک زمانہ کا تعارف کروا رہی تھیں۔ کچھ دیر کو ایسا لگا جیسے اس بزم میں بس وہی دو شخص ہوں۔ ہر تیسرے کا وجود مبہم ہو گیا تھا۔ اور یہ تیسرے کئی افراد تھے۔

نظم کا تجزیہ مکمل ہوا تو عالی صاحب اس بزم میں واپس آ گئے۔ ان کے سامنے کئی سوالات تھے۔ وہ اپنی معرکۃ الآرا نظم ’انسان‘ کے سلسلہ میں کچھ بات کرنا چاہتے تھے۔

انسان!

آدم۔

ابن آدم۔

بنی آدم۔

بنی نوع انسان۔

انسان۔ جو اجتماعیت سے انس رکھتا ہے۔ آدم جو تنہا پیدا ہوا مگر تنہائی کا خوگر نہیں تھا۔ ابھی اکیلا ہی تھا کہ اسے سکونت اور سکینت کے لئے ایک ہم جنس کی فطری ضرورت محسوس ہوئی۔ وہ ایک سے دو ہوا۔ جوڑا مہیا ہوا تووہ آدم سے انسان بن گیا۔ انسان دو ہوئے تو ان کے درمیان ایک تیسرا آ دھمکا اور زندگی کا پہلا بحران پیدا ہوا۔ اس بحران کی کوکھ سے دنیا بنی اور اس دنیا میں آدم انسانوں میں تقسیم ہو کر دو سے تین، تین سے تین ہزار، لاکھ، کروڑ، ارب ہوتا چلا گیا۔

انسان اسی بکھرتے ہوئے انسان کی منظوم کہانی تھی۔ اس طویل کہانی میں بے شمار پہلو تھے۔ برسوں سے ان پہلوؤں پر عالی صاحب مصرعے اور سطریں اور بند کہتے چلے آرہے تھے۔ وہ ایک ایسی نظم کہہ رہے تھے جس کی رہنمائی کے لئے فقط وجدان کافی نہیں تھا۔ صرف افکار و اشعار کی آمد پر انحصار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس مقصد کے لئے عالی صاحب مطالعہ کر رہے تھے۔ دنیا کے ایسے ہر موضوع کا جو انسان کا ساختہ پرداختہ تھا یا انسان کے وجود سے اس کا سوتا پھوٹتا تھا۔ نفسیات، فلسفہ، تاریخ، اقالیم، زمین، آسمان، تہذیبیں، تمدن، فساد، عناد کون سا شعبہ تھا جس پر مطالعہ کے بغیر اس نظم کو آگے بڑھایا جا سکتا تھا۔ عالی صاحب شہر شہر، ملک ملک شائد اسی لئے دوڑ دوڑ کر جاتے تھے کہ شائد کہیں خضر سے ملاقات ہو اور ہر ملاقات میں وہ تین سوالوں کے جواب مہیا کر دے۔

میں نہیں جانتا اس طویل سفرمیں کتنی بار کسی ایسے استاذ سے ان کی ملاقات ہوئی جس نے مسئلے مشخص کر کے سوالوں کو شرح و جواب میں بدل دیا ہو۔ اس شام یہ موضوع بھی نہ تھا۔ وہ شام عالی کو دریافت کرنے کی تھی۔ عالی نے اپنے خیال کے سر عنوان سے ردائے اخفا کو سرکایا۔

یہ دوام کیا ہے؟

انسان دوامی ہے۔ انسان دوامی نہیں ہے۔ شائد یوم آخرت میں انسان سمٹ کر پھر آدم کی شخصیت میں مجتمع ہو جائے۔ تو دوام آدم کا ہوا۔ تو پھر انسان کیا ہے؟

سوالات کئی تھے اور اہم تھے۔ وہ طالب علمانہ سوالات نہیں تھے۔ ایک ذی علم شخص کی کھوج کے نشانات تھے۔ وہ بسیط و عمیق مطالعات کے آفاق تھے۔

سعدی صاحب انہیں تصوف اور سلوک کی گزر گاہوں پر چہل قدمی کے لئے لے گئے۔ عالی اس راہ کے مسافر تو نہ تھے مگر ان راستوں سے بے خبر بھی نہ تھے۔ امام غزالی اور غوث اعظم سے شیخ ہجویری اورسید بندہ نواز تک سارے ہی بزرگ صوفیا کی کتابیں وہ دیکھ چکے تھے۔ نکات کی تشریحات نے انہیں اپنے مقصود سے بے شک قریب تر کیا۔

میرے پیش نظرمسئلہ کا عمرانی پہلو تھا۔ آدمی پیدا ہوتا ہے پھر جہاں سے گزر جاتا ہے، مگر جسد کے خاتمہ سے وہ خود ختم نہیں ہو جاتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے وجود میں عدم کا ایک اشارہ پایا جاتا ہے جو دوام کا نقیض ہے۔ مگر اس کے باوجود کچھ آدمی مرنے کے بعد بھی باقی رہتے ہیں۔ قدیم میخی حروف میں لکھی جانے والی اکادی زبان میں دنیا کی پہلی داستانی تحریر جلجا مِش اسی نام کے بادشاہ کی کہانی ہے جو کم و بیش ۴۵۰۰ سال پہلے اکادی عراق میں اورک کا حکمراں تھا۔ گارے کی اینٹوں پر کھودی ہوئی اس داستان کی ’’کتاب‘‘ ۱۸۵۳ میں دوبارہ دریافت ہوئی۔ تو جلجامش کے عدم سے دوسری بار دوام کا دور ابھر کر آیا۔ خود جلجامش کو بھی، عالی صاحب کی طرح، خلود ہی کی جستجو تھی۔ یعنی دوام کا مسئلہ نیا نہیں تھا۔ وہ سارے انسان جو پروہتوں کے روپ یا بادشاہوں کی شکل میں خدائی صفات کے دعویدار ہوئے وہ سب دوامیت ہی کے خواہشمند تھے۔

میں نے عالی صاحب سے کہا کہ غالب کا انتقال۱۸۶۹ میں ہوا مگر ان کا دیوان اس کے بعد بھی ساری مدت میں پڑھا جا رہا ہے۔ چنانچہ غالب کا دوام برقرار ہے۔ اگر وہ بھی معدوم ہو جائے تو ممکن ہے داستان جلجامش کی طرح صدیوں بعد اس کی بازیافت بھی ہو جائے۔ اس بازیافت کے نقطہ سے غالب کے دوام کا دوسرا دور جلجامش کی مانند شروع ہو جائے گا۔

عالی صاحب اقتصادیات کے آدمی بھی تھے۔ وہاں بھی ایک سوال ان کے ذہن کو مضطرب کئے ہوئے تھا۔

اسلامی اقتصادیات پر بیسویں صدی میں لوگوں نے خصوصی توجہ کی ہے۔ ویسے درحقیقت آٹھویں صدی میں امام ابویوسف نے اس علم کو اسلامی اساس پر کتاب الخراج میں مدون کر دیا تھا۔ جدید تحقیق کا آغاز مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی نے کیا تھا۔ ان کی کتاب اسلام کا معاشی نظام چوتھی دہائی کے آخر یا پانچویں دہائی کے آغاز میں منظر عام پر آ گئی تھی۔ اس کے بعد جدید مغربی معاشیات کے خطوط پر کچھ دیگر لوگوں نے اس میدان میں کام کیا۔ مگر عالی صاحب کے سوال کا جواب کہیں نہیں تھا۔

ان کا نکتہ العفو کے بارے میں تھا۔ سورہ البقرہ (آیت ۲۱۹) میں آتا ہے کہ رسول ؐاللہ سے لوگ پوچھتے ہیں اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں تو ربانی جواب تھا کہ ’’کہہ دو کہ جو تمہارے اخراجات سے سوا ہو‘‘۔ سوال یہ تھا کہ اخراجات کے بعد بھی کا فی بچت ہوسکتی ہے تو کیا وہ سب خیرات کر دی جائے؟

یہ معاملہ دو گونہ تھا۔ ایک کا تعلق ذاتی اخراجات کی شرح سے تھا اور دوسرے کا معاشرہ کی ضروریات اور اپنے حوصلہ اور صدق نیت سے۔ اس سلسلہ میں کوئی ایک ہمہ گیر قانون نہیں بن سکتا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے نصاب میں جو کچھ تھا سبھی معاشرہ کی نذر تھا، حضرت عمر ؓ کے خزانہ میں نصف اپنی ضروریات کے لئے تھا اور باقی نصف ملت کے واسطے وقف تھا، حضرت عثمان غنیؓ کے حساب میں کبھی ۲۰ ہزار درہم کا کنواں اور کبھی ۳۰ ہزار سے زائد کے جیش عسرت میں سے ایک تہائی افواج کی مکمل لام بندی العفو کی تعریف میں آتی تھی۔ علماء تفسیر اس آیت کو ایک اور آیت(القصص ۲۸:۷۷)کے تناظر میں دیکھتے ہیں جہاں حکم دیا گیا ہے دنیا میں اپنے حصہ کو نظر انداز مت کرو، البتہ اپنی کمائی میں سے اپنا حصہ لینے کے بعد اپنے مال کو آخرت کا گھر بنانے کے خیال سے بھی خرچ کرو۔

یہ گفتگو دیر تک رہی اور اس دوران کسی کو چائے پینے کا خیال نہ آیا۔ مجلس برخاست ہوئی تو ایک سرور کی کیفیت تھی۔ بہت مدت بعد کسی ذی علم شخص کے ساتھ علمی بات چیت ہوئی تھی۔

مجھے ان لوگوں کی مجلسوں میں کچھ تکدر سا ہوتا تھا جہاں ایک شاعر کو دیکھتے ہی شعر سننے اور اور اس سے زیادہ اپنے شعر سنانے سے دلچسپی ہوتی تھی۔ بہت بعد کی بات ہے۔ ایک نشست میں ڈاکٹر ابن فرید ایک ایسی شخصیت کا ذکر کر رہے تھے جس نے ہندستان کی تاریخ کے ایک سنگین دور میں ذہن سازی کا زبردست کام کیا تھا کہ پیچھے سے کسی من چلے نے آواز لگائی کہ مشاعرہ شروع کرو۔ ڈاکٹر ابن فرید نے بڑی ناگواری سے ان کو ڈانٹا تھا کہ زندگی گل و بلبل اور لیلی مجنوں کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ ٹھیک ہے۔ ایک ایسا شاعر آیا ہوا ہو جس نے شعر کہنے کے علاوہ دنیا میں کوئی اور کام کیا ہی نہ ہو تو بات الگ ہے۔ سن لو اس سے شعر اور سنالو اس کو اپنا کلام۔ لیکن شعر کے پردہ میں فکر بھی ہو وہاں پہلا کام تو اس فکر کی خوشہ چینی ہی ہوتا ہے اور اس شاعر کو بھی اسی میں زیادہ لطف آتا ہے۔

چہ بہ از دولت لطف سخن و طبع سلیم

اس دن کے بعد جب بھی عالی صاحب جدہ آتے ملنے کے لئے بے چین ہوتے۔ ایک روز میرے دفتر میں ان کا فون آیا۔ میں نے کہا شام کو کلیمی کے گھر ملاقات ہو گی۔ کہنے لگے، کلیمی کی کیا شرط ہے۔ میں ابھی دفتر آپ کے دفتر پہنچ رہا ہوں۔ وہیں ملاقات کروں گا۔ اور وہ آ گئے۔ کچھ دیر بیٹھے۔ پھر شام کو ملاقات کا وعدہ لے کر رخصت ہوئے۔ شام کو اول وقت کلیمی کے گھر پر ملاقات رہی۔ وہاں سے اٹھے تو قریب ہی اپنے ایک عزیز کے گھر ان کا قیام تھا۔ مجھے وہاں لے گئے اور پھر دیر گئے تک ان کے گھر پر بیٹھے رہے۔

عالی صاحب کے پاس بہت موضوعات تھے۔ اپنی شاعری سنانے سے انہیں دلچسپی نہیں تھی۔ ہاں مگر ایک بار سید محمد امین صاحب نے ایرپورٹ کی خصوصی کالونی میں ایک پاک ہند مشاعرہ کیا تو وہاں اپنی غزلیں خوب خوب متوجہ کر کے سنائیں اور میری درخواست پر نظم انسان کا ایک بند بھی عنایت کیا۔ وہ الگ قسم کی محفل تھی۔ وہاں یہی کام درست تھا اور حسب حال تھا۔

ہر دوچار مہینہ بعد کار منصبی کی خاطر عالی صاحب کا جدہ آنا ہوتا تھا۔ اس بار آئے تو صدر ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے بعد پاکستان کا الیکشن ہو چکا تھا اور حیرت انگیز طور پر بے نظیر بھٹو کی پارٹی کو پارلیمان میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہو گئی تھیں۔ البتہ نئی حکومت ابھی نہیں بنی تھی۔ پاکستانی سیاست دانوں اور اخباروں میں عورت کی پارٹی کے جیتنے کے بعد یہ بحث چھڑی ہوئی تھی کہ ایک مسلم ملک میں عورت کی قیادت درست ہے یا غلط۔

اس رات حئی العزیزیہ میں کلیمی کے گھر پر عالی صاحب سے ملنے کے لئے میں اور سعدی صاحب پہنچے۔ عالی صاحب پاکستان کی طرف سے خاصے فکر مند تھے۔ ملک کے مستقبل کے بارے میں کچھ بہت پر امید نہیں تھے۔ ضیاء الحق کی اچانک موت نے ساری بازی پلٹ دی تھی۔ ملک کسی سمت جا رہا تھا اور پھر دوسری طرف کو نکل کھڑا ہوا تھا۔ راستہ ہی نہیں منزل بھی بدل گئی تھی۔ ارادوں ہی میں نہیں، نگاہوں میں فتور آ گیا تھا۔ مگر عالی صاحب کی فراست بہت دور تک دیکھ سکتی تھی۔ ان کے روابط بہت اونچے حلقوں تک میں استوار تھے۔ ان کی رائے سطحی یا خامکارانہ نہیں تھی۔ انہوں نے راست مجھ سے پوچھا:

آپ پاکستانی نہیں ہیں۔ باہر کے آدمی ہیں۔ میں جو کچھ پاکستان میں دیکھ رہا ہوں وہ معروضی نہیں ہے۔ پاکستان کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟

میری رائے!

پہلی بار کسی سچے کھرے پاکستانی نے پاکستان کے بارے میں میری رائے پوچھی تھی۔ ہندستانی اور پاکستانی دوستوں میں بیٹھ کر پاکستانی سیاست پر تبصرے تو گویا ہمارا روز کا معمول تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ وہ تبصرے بھی معروضی اور حقیقت پسندانہ ہی ہوتے تھے۔ مگر اس دن میری ذمہ داری بہت بڑھ گئی تھی۔ میں ۱۹۴۶ کے ابوالکلام آزاد کے افکار سے بھی اپنی رائے دے سکتا تھا اور۱۹۴۷کے ابوالکلام آزاد کی زبان میں سے بھی۔ مگر وہ لاحاصل ہوتا۔ اکتالیس سال میں ہماری اپنی کہکشاں کے مرکز کے گرد گھومتے ہوئے سورج اور نظام شمسی۱۴ اگست ۱۹۴۷ کے نقطہ سے ۱۸ کھرب میل کا فاصلہ طے کر چکا تھا۔ کائناتی وقت میں وہ کہانی بہت، بہت بوسیدہ ہو چکی تھی۔ اس کا تذکرہ ان کے لئے بھی بے سود تھا جو اس واقعہ کے غم میں اپنی جانیں گھلائے دے رہے تھے اور ان کے لئے بھی کشش کھو چکا تھا جن کے نوشتوں میں وہ جشن مرگ انبوہ کے سوا کچھ نہ رہ گیا تھا۔

عالی صاحب خود پیپلز پارٹی سے وابستہ رہ چکے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ نئی حکومت پیپلز پارٹی ہی کو بنانی ہے۔ مگر وہ حالات سے غیر مطمئن تھے۔ الیکشن کے نتائج پر خوشی بچوں کو ہوتی ہے یا انہیں جن کو وزارت ملنے کا ارمان یا امکان ہو۔ عالی صاحب ان دونوں میں سے کسی گروہ میں نہیں تھے۔

میں نے ان کے چہرے پر تشویش کے سائے دیکھے تھے۔ تشویش خطرناک حالات کی غمازی کرتی ہے۔ یہ تشویش جب جب کسی ایسے شخص کے چہرے کا بادل بن جائے جو غلام گردشوں میں ہونے والی سرگوشیوں کو بھی لفظوں کے ہیولوں میں دیکھ سکتا ہو تو وہ ہاتھوں کے کٹوروں میں دعا کے اترنے کا لمحہ ہوتا ہے۔

میں نے نظر بھر کر عالی صاحب کو دیکھا۔

ہندستان میں جمہوریت کے تجربہ کو ۳۶ سال ہو چکے ہیں۔ وہاں جمہوریت ابھی دور طفلی میں ہے اور اب گھٹنوں کے بل چلنے کے قابل ہوئی ہے مگر ابھی اسے منزل کا عرفان نہیں ہے۔ کوئی حادثہ نہ ہوا ا ور قیادت اپنی ذمہ داری پوری کرتی رہی تو نصف صدی بعد ہندستان اپنی منزل کا نشان دیکھ سکے گا۔ پاکستان میں گزشتہ الیکشن کے نتیجہ کو پارلیمان میں تجربہ کی راہ سے گزرنے دیا جائے تو پانچ سال بعد وہاں جمہوریت سیدھی بیٹھنے کے قا بل ہوسکتی ہے۔

عالی صاحب کے لئے میرا تاثر زیادہ ہی رجائی تھا۔ انہوں نے کہا ابھی تو ملک میں یہی طے نہیں ہوا کہ عورت کی حکمرانی جائز ہے یا نہیں، تو مستقبل، کی بات اتنے وثوق سے کیسے کہی جا سکتی ہے؟

میرے خیال میں یہ سوال پاکستان میں تب بعید از وقت تھا۔

عورت کی حکمرانی کا مسئلہ تو ۱۴۰۰ سال پہلے طے ہو گیا تھا۔ آپ کی قوم نے تازہ الیکشن میں اس تاریخی اعلان کو رد کر دیا۔ اس سے پہلے بھی آپ کی قوم۱۹۶۵ میں یہی کام کر چکی تھی۔ پھر بحث کس بات پر اور کیوں ؟ میں نے عالی صاحب سے کہا کہ میں اگر پاکستانی ہوتا اور وہاں ووٹ دینے کا اختیار رکھتا تو بے نظیر بھٹو میری ترجیحات میں آخری بھی نہ ہوتی۔ لیکن ووٹ دینے کے بعد آج کی صورت حال کی دہلیز پر پہنچ کر میں بے نظیر کی حکمرانی کے جواز یا عدم جواز کی بات نہ اٹھاتا کیونکہ یہ تو الیکشن سے پہلے ایک بچہ کو بھی پتہ تھا کہ پیپلز پارٹی جیتی تو وزیر اعظم بے نظیر ہی کو بننا ہے۔ پاکستان میں جاری اس بحث سے قطع نظر میرے نزدیک مسئلہ یہ نہیں ہے کہ پاکستان میں عورت حاکم اعلیٰ بنے یا نہ بنے۔ مسئلہ جمہوریت اور اس کے تسلسل کا ہے۔ میں بہت اطمینان سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر بے نظیر کو بلا رکاوٹ پانچ سال حکمرانی کرنے دی گئی تو یہ ان کی سیاست کی آخری مدت ہو گی۔ اس کے بعد وہ یا ان کی پارٹی پاکستان میں کبھی دوبارہ اقتدار پر نہیں آ سکے گی۔ لیکن اگر درمیان مدت بے نظیر کو برطرف کر دیا گیا تووہ اور ان کی پارٹی بار بار اس ملک پر حکومت کرے گی اور تکلیف و غم کے باوجود اس کا کوئی علاج نہیں ہو گا۔

میں جانتا تھا کہ پاکستان کا مسئلہ پاکستان بننے سے پہلے بھی منزل ہی کا تھا۔ میرا ذاتی خیال تھا کہ ضیاء الحق کے۱۱ سال ایک ماہ کی مدت میں پاکستان پہلی بار منزل شناس ہوا تھا۔ اس شخص کے پاس ایک تصور تھا۔ ایک حکمت عملی تھی۔ ایک اقدامی قوت تھی۔ اس کے ختم ہوتے ہی یہ سب کچھ ختم ہو گیا۔ اسی لئے ضیاء الحق کی موت کے فوراً بعد بے نظیر کے انتخاب پر مجھے حیرت ہوئی تھی۔ کوئی زندہ قوم اس طرح ہیجانی طور پر راستہ اور منزل نہیں بدل دیا کرتی۔ مگر بے نظیر کے دل میں ضیا الحق کے لئے جو زہر بھرا ہوا تھا اس کو پاکستانیوں نے جاننے کی زحمت بھی نہ کی اور ملک کو وہاں لے آئے جہاں اسے دیکھ کراب روتے ہیں۔ خیر یہ تو بہت بعد کی بات ہے۔ حالات ۱۹۸۸ میں اتنے خراب نہیں تھے۔ وہ بعد میں ہونے تھے اور ا نہیں خراب کرنے کی ذمہ دار بھی صرف بے نظیر اور پیپلز پارٹی نہیں تھی۔ اس تماشہ میں بہت سے کھلاڑی تھے اور ہیں۔ ان کا ذکر اب میرا منصب نہیں۔

عالی صاحب کے ساتھ ان سہ ماہی اور ششماہی ملاقاتوں کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ ان میں کسی ایک ہی موضوع پر بات ہوا کرتی تھی، خواہ ملاقات عشا ء کے بعد سے قُبیل فجر تک جاری رہے۔ دوسرے ان ملاقاتوں میں شعر شاعری کبھی نہیں ہوئی۔ ہاں ادبی موضوعات چھڑ جاتے تھے۔ وہ بابائے اردو مولوی عبد الحق، انجمن ترقی اردو پاکستان، مقتدرہ قومی زبان اردو کالج اور اردو یونیورسٹی کے بارے میں معلومات فراہم کرتے تھے۔ پاکستان کی ادبی صورت حال کے بارے میں ان کی رائے مثبت اور امید افزا تھی۔ اس میں شک بھی نہیں کہ پاکستان میں بھی اگرچہ اردو کو ہموار زمین نہیں ملی تھی اس کے باوجود آزادی کے بعد اس زبان میں جس قدر توانا ادب پاکستان میں لکھا گیا ہے وہ ہندستان کے اردو والے تخلیق نہیں کرسکے۔ بات سردار جعفری اور احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا اور شمس الرحمٰن فاروقی کے موازنہ کی نہیں ہے۔ فرق یہ ہے کہ پاکستان سیاسی سطح پر اگرچہ ایک نظریہ ہی کا عملی وجود تھا، لیکن ادب میں نظریوں کا ویسا غلام نہ بنا جیسا ہندستان کا اردو ادیب و شاعر ہو گیا تھا۔ غالباً سیاسی نظریہ کی ناکامی نے پاکستانیوں کو مزید کوئی ایسا تجربہ کرنے سے باز رکھا۔ شائد یہی وجہ ہو کہ عالی صاحب جب اردو کی بات کرتے تھے تو ان کے لہجہ میں وہ تشویش یا اندیشے نہیں ہوتے تھے جو سیاسی معاملات میں ان کے قومی اخلاص کو آزماتے تھے۔

کلیمی کے گھر پر ایک ملاقات میں بشمول سعدی صاحب حسب روایت ہم وہی چار افراد تھے کہ عالی صاحب نے اچانک ہندستانی مسلمانوں کے احوال کے بارے میں سوال کر دیا۔ میں اس سوال پر حیران ہوا۔

عالی صاحب، آپ پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے مجھ سے اس معاملہ میں کوئی سوال کیا ہے۔ ہم اور سعدی صاحب اپنے دوستوں کی محفلوں میں ساری دنیا کے مسائل پر باتیں کرتے ہیں اورپاکستان کے حالات کے مطالعہ کے بعد ان پر آزادانہ رائے رکھتے ہیں اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ لیکن یہ حسرت ہی رہی کہ کوئی پاکستانی دوست کبھی ہندستان یا ہندستانی مسلمان پر مطالعاتی رائے دینے کا اہل ہو یا اس پر معلومات آفریں گفتگو کی زحمت اٹھائے۔

عالی صاحب نے سنجیدگی سے کہا، بھئی میں تو ہندستانی مسلمانوں کے معاملات اور ان کے مستقبل سے دلچسپی رکھتا ہوں اور وہاں کے حالات پر جگن ناتھ آزاد اور گلزار دہلوی وغیرہ سب ہی سے بات بھی کرتا ہوں۔ قرۃ العین سے بھی میں نے اس موضوع پر تفصیل سے بات کی تھی۔

ہاں۔ جگن ناتھ آزاد اور آنند موہن گلزار دہلوی تو اپنے ہی لوگ تھے۔ ان کے خلوص کا ایک زمانہ معترف تھا۔ ان کے سینوں میں انسانوں کے دل دھڑکتے تھے۔ عالی صاحب ان سے بات نہ کرتے تب بھی وہ دونوں سچ کو سچ ہی کہتے تھے۔ ان کی نسل کے بعد خود ہندستان کا نیا شاعر ہنگامی کے بعد اب ہذیانی موضوعات پر شاعری کرنے لگا تھا اور مشاعروں میں زخموں کو کرید کرید کر چیخ پکار کو ادب سمجھ بیٹھا تھا۔ اس نسل تک عالی صاحب پہنچے نہ ان کا درد۔

عالی صاحب سے آخری ملاقات میرے گھر پر ہوئی تھی۔ وہ تھے۔ سعدی صاحب، کلیمی اور دو چار اور لوگ تھے۔ وہاں ہم نے عالی صاحب سے ان کی نظم ’انسان‘ کے کئی بند سنے تھے۔ ہر بند اپنے ثقافتی پس منظر میں وہ الگ الگ لہجوں میں سناتے تھے۔ کبھی ترنم سے کبھی تحت اللفظ۔ ہر بند کی اپنی صوتیات تھیں۔ اپنی محاکات تھیں۔ اپنا پس منظر تھا۔ اپنے کردار تھے۔ اپنے مکالمے تھے۔ اپنی جدا زبان تھی۔ اپنا لطف تھا۔ اپنا مزہ تھا۔

اس نظم میں راوی کا کردار ادا کرنے والے شخص نام جمالی ہے۔

میں نے عالی صاحب سے کہا

عالی صاحب، جمالی تو لگتا ہے جمیل الدین عالی کا مخفف ہے۔

عالی صاحب مسکرا دئے۔ پھر سنجیدہ ہو گئے۔

اس شاہکار نظم کے مرکزی کرداروں کا عارف جمیل الدین عالی جیسا انسان ہے۔ جس انسان کو انسان کا عرفان ہوا وہی اس منصب کا حق دار تھا۔

٭٭٭

۲۰ نومبر ۲۰۱۱ کی تحریر شدہ

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے