مجھے کہنا ہے کچھ ۔۔۔۔

نیا سال مبارک، پچھلے سال کے ختم ہوتے ہوتے جن آفات کا ہم نے سامنا کیا، اس کے ساتھ ہی امید کی کرنیں بھی نظر آئیں۔ تامل ناڈو کے سیلاب کی بہیمت کے ساتھ انسان دوستی کے مناظر جا بجا نظر آئے۔ عدم روا داری کی جو ہوا چلی تھی، اس کا سامنا کرنے کے لئے کتنے ہی اس طبقے کے افراد سامنے آئے جن میں سے کچھ افراد نے اس رجحان کو جنم دیا تھا۔ مصر ، شام وغیرہ کے حالات اور وہاں سے نجات حاصل کرنے کے لئے وطن چھوڑنے والوں کے مسائل ، جس کی علامت آئلان کردی کی ترکی کے ساحل پر بہہ آنے والی میت کی تصویر نے ظاہر کی تھی، وہیں کنیڈا اور کچھ یوروپی ممالک نے بانہیں پھیلا کر ان مہاجروں اور پناہ گزینوں کا استقبال کیا۔ یقین ہے کہ ہمارے ساتھ آپ بھی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں گے کہ یہ کرنیں نئے سال میں فزوں تر اور جاں گسل حالات کی سنگینی کم سے کم ہوتی جائے گی۔ آمین۔

یہ سال جاتے جاتے ایک اور دکھ دے گیا۔ اردو کا ایک بڑا ستون جمیل الدین عالی کی شکل میں ڈھہہ گیا۔ اس میں تو شک ہے کہ ان کی خالی جگہ کو کوئی پُر کر سکے گا، بس دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس کے اعلیٰ درجوں میں رکھے اور اردو والوں کو اس نقصان عظیم کو سہارنے کی طاقت ادا کرے۔

ا۔ ع

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے