عالی جی کے دوہے

 

دوہے کبت کہہ کہہ کر عالی من کی آگ بجھائے

من کی آگ بجھی نہ کسی سے، اسے یہ کون بتائے

——–

 

لئے پھریں دُکھ اپنے اپنے، راجہ میر فقیر

کڑیاں لاکھ ہیں رنگ برنگی، ایک مگر زنجیر

——–

 

عمر گنوا کر پیت میں ہم کو اتنی ہوئی پہچان

چڑھی ندی اور اُتر گئی، پر گھر ہو گئے ویران

——–

 

نا مرے سر کوئی طُرہ کلغی، نا کیسے میں چھدام

ساتھ میں ہے اک ناری سانوری اور اللہ کا نام

——–

 

بیتے دنوں کی یاد ہے کیسی ناگن کی پھنکار

پہلا وار ہے زہر بھرا اور دُوجا امرت دھار

——–

 

تہ میں بھی ہے حال وہی جو تہ کے اوپر حال

مچھلی بچ کر جائے کہاں جب جَل ہی سارا جال

——–

 

عالی اب کے کٹھن پڑا دیوالی کا تیوہار

ہم تو گئے تھے چھیلا بن کر، بھیّا کہہ گئی نار

——–

 

حیدر آباد کا شہر تھا بھیّا، اِندَر کا دربار

ایک ایک گھر میں سو سو کمرے، ہر کمرے میں نار

——–

 

اُودا اُودا بادل، گہری کالی گھٹا بن جائے

اس کے دھرم میں فرق ہے، جو اس موسم کو ٹھکرائے

——–

 

کوئی کہے مجھے نانک پنتھی کوئی کبیر کا داس

یہ بھی ہے میرا مان بڑھانا، ہے کیا میرے پاس

——–

 

اردو والے، ہندی والے، دونوں ہنسی اڑائیں

ہم دل والے اپنی بھاشا کس کس کو سکھلائیں

——–

 

دھیرے دھیرے کمر کی سختی، کُرسی نے لی چاٹ

چپکے چپکے من کی شکتی، افسر نے دی کاٹ

——–

 

کیا جانے یہ پیٹ کی آگ بھی کیا کیا اور جلائے

عالی جیسے مہا کَوی بھی ’’بابو جی‘‘ کہلائے

——– انتخاب: محمد وارث

 

گھنی گھنی پلکیں تیری یہ گرماتا روپ

تو ہی بتا او نار میں تجھ کو چھاؤں کہوں یا دھوپ

——–

 

بابو گیری کرتے ہو گئے عالی کو دو سال

مرجھایا وہ پھول سا چہرہ بھورے پڑ گئے بال

——–

 

اے بھین یہ بابو گیری کیا کیا کھیل کھلائے

یوں تنخواہ کی راہ تکیں کہ سجنی یاد آئے

——–

 

کہو چندرما آج کدھر سے آئے ہو جوت بڑھائے

میں جانوں کہیں رستے میں مری ناری کو دیکھ آئے

——–

 

کدھر ہیں وہ متوارے نیناں کدھر ہیں وہ رتنار

نس نس کھنچے ہے من کی جیسے مدرا کرے اتار

——–

 

ساجن ہم سے ملے بھی لیکن ایسے ملے کہ ہائے

جیسے سوکھے کھیت سے بادل بن برسے اڑ جائے

——–

 

روپ بھرا مرے سپنوں نے یا آیا میرا میت

آج کی چاندنی ایسی جس کی کرن کرن سنگیت

——–

 

چال پہ تری گج جھومیں اور نیناں مرگ رجھائے

پر گوری وہ روپ ہی کیا جو اپنے کام نہ آئے

——–

 

گھنی گھنی یہ پلکیں تری یہ گرماتا روپ

تو ہی بتا او نار میں تجھ کو چھاؤں کہوں یا دھوپ

——–

 

عالی اب کے کٹھن پڑا ہولی کا تہوار

ہم تو گئے تھے چھیلا بن کر بھیا کہہ گئی نار

——–

 

میں نے کہا کبھی سپنوں میں بھی شکل نہ مجھ کو دکھائی

اس نے کہا بھلا مجھ بن تجھ کو نیند ہی کیسے آئی

——–

 

چھنن چھنن خود باجے مجیرا آپ مر لیا گائے

ہائے یہ کیا سنگیت ہے جو بن گائک ابھرا جائے

——–

 

مجھ میں کچھ سر کھوئے ہوئے ہیں وہی لگائیں آگ

نا یہ پہاڑی نا بھٹیالی یہ ہے دوہا راگ

——–

 

سر اور شبد اور دھیان کی اگنی شعلے جن کے لاکھ

خسرو پر جو جلیں پتنگے عالی ان کی راکھ

——–

 

چھم چھم چھم چھم برسیں کرنیں پون پکھا وج تھاپ

تم ہی کہو اب ایسے سمے میں کیا پن اور کیا پاپ

——–

 

ایک ہی دھن یوں تھرائی ہے سوتے دکھ گئے جاگ

ایک ہی لے یوں لہرائی ہے جیسے ناچیں ناگ

——–

 

دھندلی دھندلی کہر کے پیچھے کرنوں کی جھنکار

اتھلا جل اور گہری کائی ناچیں ہار سنگھار

——–

 

ایک ایک تال کھرچ لے من کو اک اک سر پر پیاس

اک اک مر کی بدن جلائے جیسے آگ پہ گھاس

——–

 

گت میں چندن باس کا جھونکا توڑ میں کندن روپ

نیچے سر میں چھاؤں بھری ہے اونچے سر میں دھوپ

——–

 

سات سروں کے سات ستارے سات ہی جن کے رنگ

سب جھلکیں اک سرگم میں پر اپنے اپنے ڈھنگ

——–

 

جا کوئی کہہ دے عالی سے بس گائے جی بہلائے

جو سنگیت کا بھید کریدے خود بے سر ہو جائے

——–

 

آلہا او دل گانے والے پیادے سے کترائیں

ہل کا بوجھ اٹھانے والے ڈنڈے سے دب جائیں

——–

 

بھوکی آنکھ سے بیٹا دیکھے خالی پیٹ ہو باپ

ساوتری ماں بیٹی لاج سے روز کرائے پاپ

——–

 

کھیت کٹا تو لے گئے ٹھاکر، منشی، ساہوکار

گھر پہنچے تو بھوکی بہو اک برچھی سی دے مار

——–

 

اے بھین اس دھرتی ماں کی کوکھ میں سب کا ناج

اے بھین اس دھرتی ماں پر ایک کرے کیوں راج

——–

 

اے بھین ترا جھلسا چہرہ ان کے رنگ بڑھائے

اے بھین تری اپنی عورت دوجے کے گھر جائے

——–

 

کس کس ماں کی کوکھ جلے کس کس دلہن کا سہاگ

ایک پرانی چنگاری سے کب تک جلے گی آگ

——–

 

جنتا راج بھی راجہ جیسا اصل سمجھ نہ پائے

جو آنکھوں کی سوئیاں نکالے وہی رانی بن جائے

——–

 

سینے کھولیں رگ رگ چھیڑیں لاکھوں ماہر وید

من کیا کہوے اور کیوں کہوے کھلتا نہیں یہ بھید

——–

 

تم مجبور نہ تھے اچھا تھی جیون دکھ میں اٹھاؤں

یہ اچھا بھی تو ہو سکتی تھی جگ میں ہی نہ آؤں

——–

 

اپنی مرضی بنا عالی یوں جیون بن میں آئے

جیسے کوئی جگنو ابھر کر بن چمکے بجھ جائے

——–

 

قلم کو دیکھو جب مرے دل میں اس کی شکایت آئی

تڑخ کے بولا ہم نہ لکھیں گے اس کی کوئی برائی

——–

 

ہاں یہ کہانی ہوئی پرانی مری جوانی جائے

اتنے دن تو جیوں کہ گوری تجھ پہ جوانی آئے

——–انتخاب بیگم رعنا اقبال

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے