غزلیں ۔۔۔ سید کاشف

حسین پھول خطا کے، ندامتوں کی چبھن !

تمام عمر کی مِحنت ہے ، یہ مہکتا چمن!​

 

یہ ہے سیاستِ دوراں، یہاں وہ رہبر ہے

کہ جس کو جانتے ہیں سب، کہ ہے کھلا رہزن!

 

میں بچ کے شہرِ فِتَن سے تو آ گیا، لیکن

گنوا کے خواب، کرا کے لہو لہان بدن!

 

یہ جانتے ہیں، مگر سب قدم بڑھائے چلیں

کہ منزلوں پہ ملے گا ، رسن کے ساتھ کفن!​

 

وہ بے بسی ہے کہ دیکھے بھی اب نہیں جاتے

صَلِیبِ عمر پہ ، پامال خواہشوں کے بدن!

 

ق

میں اس کی ایک ہنسی پر، نثار کر ڈالوں

وہ پھول، جن سے مہکتا ہے دامنِ گلشن!​

 

خَموش راگ ہیں جتنے رَباب میں پِنہاں

جو منتظر ہیں ، لِباسِ حدیثِ فِکر و سُخن!

——————

ترا وجود، کدُورت کی اِن فَضاؤں میں

مُخالفت میں اندھیروں کے، اک دَمَکتی کِرن!

 

تمام رات خیالوں میں روشنی کی طرح

تمھاری یاد ستارا تھی، یا چمکتا رتن!​

 

فریبِ ہی تو ہے احساسِ قرب کا عالم

یہ رات ہجر کی، آنگن میں سرسراتی پَوَن !

 

اک اُس کی یاد، کہ تنہائی میں پکارا جب

سمٹ کے آ گئی، بانہوں میں جیسے ایک دلھن!

 

حریمِ غم کے اندھیرے ،اجالنے کے لئے

چراغ ذہن کے ، کاشف جلے پہن کے کفن!

٭٭٭

 

 

 

اس کی آنکھوں میں مچلتی، بے زبانی، ان کہی

لب، دعا، مّنت، ادھوری سی کہانی ،ان کہی​

 

دل، دیا، دہلیز، عفّت، چنریوں کے نم سرے

اشک حسرت، پیار کی سچّی کہانی ،ان کہی​

 

ایک کاغذ پر لکیریں آڑی ترچھی کھینچ کر

کیا دلِ مضطر لکھیں اپنی کہانی ،ان کہی

 

پا لیا جب اشک نے اذن تکلم بزم میں

ہنس کے اس کم گو نے کر دی، ترجمانی، ان کہی

 

شمع محفل ہو کے بھی، تھا لن ترانی کا بیاں

تب کھلی بند قبا، کی ضو فشانی ،ان کہی

 

لفظِ الفت دل پہ لکھ کر، کی شرارت اس نے یوں

دو شرائط اس پہ رکھ دیں، غیر فانی، ان کہی

 

جو چرا لائے صبا، ملبوس کی خوشبو ترے

تشنگی میں بھی نہاں ہو شادمانی ،ان کہی

 

سیل غم کی موج کاشف دل سے یوں نکلا کرے

دور ہوں شکوے بھی اور کچھ بد گمانی ،ان کہی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے