ہندی نعت ۔۔۔ ستیہ پال آنند

 

یہ نعت پچھلے برس عید میلاد النبی پر لکھی گئی۔ کسی برس بھی میں یہ نہیں بھولتا کہ کس دن حضور ﷺ، شہ مرسلین، خاتم الانبیا ﷺ اس کرۂ ارض پر وارد ہوئے۔ ہندی میں نعت کا ذائقہ اتنا شیریں ہے کہ نعت لکھتے ہوئے بھی اور اسے پڑھتے ہوئے بھی وجدان کا احساس ہوتا ہے۔ اس نعت میں برج بھاشا کے گیتوں کی اس تکنیک سے کام لیا گیا ہے جس میں عابد تمنا کرتا ہے کہ اگر وہ معبود کے سامنے حاضر ہوتا تو کیا کرتا۔ یعنی پھول کی طرح یا ایک پنچھی کی طرح یا ہوا کی طرح یا بادل کی طرح ۔۔۔ مناظر قدرت کی مدد سے اپنے معبود کی "اُستتی” (تعریف) کیسے کرتا۔(س ۔ پ ۔ آ)

 

میں تو اک جاہل، ان پڑھ مانس ہوں، آقاؐ

مجھ میں اتنی سکت کہاں ہے

جو میں آپؐ کے گُن گاؤں، پرشنساکی کوتائیں لکھوں

گیانی کا سا گیان بھی میرے پاس نہیں ہے

جس سے ، آقاؐ، آپ کے بارے میں مِنبر سے میں بولوں

آپؐ کے” اتّم مانو جاتی کے کلیان” کے شبدوں کو

اپنے جیسے ان پڑھ لوگوں تک پہنچاؤں

اک ادنیٰ، انجان قلم مزدور ہوں، آقاؐ

شبد بھی میرےسب سادہ ہیں

اُپمائیں بھی سیدھی سادی

پرکرتی سے مانگ کے یہ کویتا لکھی ہے

تارا ہوتا

تو اپنی سج دھج سے، چمک دمک سے

اپنے شبدوں کو روشن کر دیتا

نعتیں لکھتا

چاند اگر ہوتا

تو اپنی چاندی سے اُپمائیں گھڑ کر

گھنگھرو گھنگھرو شبد پرو کر

آپؐ کی برکت والی ذات کی روشن روشن باتیں کرتا

پھول نہیں ہوں

پھول اگر ہوتا، تو اپنی

خوشبو، اپنا رنگ، مبارک قدموں پر بکھراتا، آقاؐ

اور اگر میں پنچھی ہوتا

تو اپنے سنگیت کی سنگت میں نعتوں کے

گیتوں کی برکھا کر دیتا!

کچھ بھی نہیں ہوں، سرور عالمؐ

اک معمولی سا شاعر ہوں

سادہ سے، بے رنگ سے میرے شبد ہیں

ان سے آپ کا ابھینندن کرتا ہوں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے