چُونے والی بھٹیاں ۔۔۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا

شہر سدا رنگ جھنگ بھی عجیب ہو رہا ہے جو سیل زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آنے کے بعد رفتہ رفتہ کُوفے کے قریب ہو رہا ہے۔ اس شہر کی کچھ عمارات تو ایسی ہیں جنھیں طوفان نوح ؑ کی باقیات قرار یا جاتا ہے۔ نوآبادیاتی دور میں جھنگ سے ملتان جانے والی سڑک شیر شاہ سوری کی جرنیلی سڑک کی یاد دلاتی ہے۔ اس قدیم سڑک کے مشرق میں نظام سقہ کے زمانے سے شہر بھر سے از خود بہہ کر آنے والا عفونت زدہ غلیظ پانی ایک جوہڑ میں اکٹھا ہو جاتا تھا جو ’’گندا ٹوڑا‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ اِبن کھوتا نے اپنے سفر خامے ’’جو سوتا ہے وہی کھوتا ہے‘‘ میں لکھا ہے کہ گندا ٹوڑا سے مشرق کی جانب ایک چوک ہے جہاں سکندر اعظم کے زمانے سے ٹوبہ ٹیک سنگھ اور گوجرہ جانے والی سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں رہتی ہے۔ گندا ٹوڑا کے اطراف میں کُوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے رہتے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ ہر ڈھیر کے نیچے سے کوئی بھڑوا، مسخرا، چربہ ساز، سارق، کفن دُزد، جعل ساز، پینترے باز یا حیلہ ساز نکلے گا۔ اسی چوک کے قریب عمارتوں اور دیواروں پر سفیدی کرنے والے بوسیدہ لباس پہنے خستہ حال محنت کش زمین پر بیٹھے اپنے اُن متوقع آجروں کے منتظر رہتے تھے جو اُنھیں یومیہ مزدوری پر اپنے ساتھ لے جانے کے لیے وہاں پہنچتے تھے۔ سڑک پر چند دُکانیں تھیں جہاں کُوزہ گر اپنے ہاتھ کے بنے ہوئے مٹی کے برتن، کتبے، دیواروں پر سفیدی کرنے والے رنگ اور چُونا فروخت کرتے تھے۔ اِن دکانوں سے کچھ دُور چُونا بجھانے اور چُونا لگانے والے سرِ شام ایک کھنڈر نما عمارت کے سامنے اکٹھے ہوتے۔ اسی مناسبت سے یہ چوک چُونا بھٹیاں چوک کے نام سے مشہور ہو گیا۔ یہیں پر شہر بھر کے طوطا چشم شعبدہ باز، چرب زبان سفہا، کینہ پرور اجلاف و ارذال اور بازی گر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے اور سادہ لوح لوگوں کو چُونا لگا کر اپنی تجوری بھرتے تھے۔ پس نو آبادیاتی دور میں سیلِ زماں کے تھپیڑے سب کچھ بہا لے گئے اَب یہاں نہ تو چُونے کی کوئی دکان ہے، نہ چُونے کی قدیم بھٹیوں کا کہیں سراغ مِلتا ہے مگر یہ جگہ آج بھی چُونے والی بھٹیاں کے نام سے مشہور ہے اور اس جگہ پر چُونا لگانے والے مختلف سوانگ رچا کر اور بھیس بنا کر آج بھی ہنہناتے پھرتے ہیں۔

پس نو آبادیاتی دور میں جب چُونے والی بھٹیاں کے نواح میں ایسے لُچے اور ٹُچے اکٹھے ہوتے جن کی منافقت کی کثافت کے باعث یہاں ہر طرف کراہت، ذلت، تخریب، نحوست، بے برکتی، بے توفیقی، بے حیائی، بے غیرتی اور بے ضمیری کے کتبے آویزاں ہو جاتے۔ بہرام ٹھگ کی سر پرستی میں کام کرنے والے ٹچگانِ حرص و ہوس کے اِس گڑھ سے جرائم کی متعدد دل دہلا دینے والی کہانیاں وابستہ ہیں۔ داستان گو بتاتے ہیں کہ سال 1958ء میں دسمبر کا مہینا تھا تُلا جاروب کش کو گندے پانی کے جوہڑ کے کنارے ایک نو مولود بچی ملی جس کے منھ میں دانت تھے اور زبان کالی تھی۔ گمان ہے کہ توہم پرست والدین نے اس بچی کو منحوس سمجھ کر اِسے بر وقت ٹھکانے لگانے ہی میں عافیت سمجھی۔ منشیات سے کالا دھن کمانے والے سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور ٹھگوں کے کھُسے چاٹنے والے خسیس تشفی مَل کُنجڑے نے اِس عجیب الخلقت بچی کو گود لیا اور مشکوک نسب کی اِس نو مولود بچی کی منحوس بقا پر کمر بستہ ہو گیا۔ دُنیا جہان کی لعنت و ملامت سہنے والی اس بچی کا نام تف سہہ رکھا گیا۔ مہم جوئی، ابن الوقتی اور طالع آزمائی کو منافقانہ مہارت سے برتنے میں لحیم و شحیم تشفی مَل کُنجڑے کا کوئی شریک و سہیم نہ تھا۔ تشفی مَل کُنجڑے کی شخصیت کی خِست و خجالت اور عفونت اس قدر بڑھ گئی کہ وہ جس طرف سے گزرتا نفرتوں کا سیلِ رواں اُس کی طرف اُمڈ آتا۔ اِس عادی دروغ گو کے سیاہ دِل کا کینہ سادیت پسندانہ حسد کا دفینہ اور معاندانہ ہوس کا سفینہ بن چکا تھا۔ اِس پیشہ ور ٹھگ، اُجرتی بد معاش، رہزن اور کرائے کے تسمہ کش نے اپنی شقاوت آمیز نا انصافیوں، عیارانہ قلا بازیوں اور منافقانہ سفلگی کی مظہر سادیت پسندی کی قبیح شعبدہ بازیوں سے شرافت، انسانیت اور زندگی کی اقدار عالیہ کے تصور کو اپنے خبط کی بھینٹ چڑھا دیا۔

پر زمانہ کی برق رفتاریوں کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کی رفتار تو پروازِ نور سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ جب تف سہہ نے جوانی کی حدود میں اپنا سبز قدم رکھا تو تشفی مل کنجڑے نے اِس کی شادی بہرام ٹھگ کے بیٹے رمزی ٹھگ سے کر دی۔ رمزی کے بارے میں یہ بات سب کو معلوم تھی کہ اِس نے جھنگ کی نواحی بستی ’’قلی فقیر‘‘ میں کچھ عرصہ تپسیا کی اور سیال کوٹ میں پورن بھگت کے کنویں سے بھی سیراب ہوا۔ اپنی ریا کاری اور منافقت کی وجہ سے رمزی پورے علاقے میں بدنام تھا۔ اُس کا بیٹا پنوار شکھنڈی اور اُس کا شریک جرم ساتھ پتوار پکھنڈی دونوں علاقے کے بدنام ڈاکو تھے۔ ایثار و وفا اور خلوص و مروّت کے ریاکار، جعل ساز اور عیار نقیب کی حیثیت سے رمزی اور تف سہہ نے ٹھگی کی انتہا کر دی۔ پنوار شکھنڈی کی بہن مصبہو بنو بھی اپنے بھائی جیسی ہی تھی اور در پردہ وہ پتوار پکھنڈی کے دام اُلفت کی اسیر تھی۔ واقف حال لوگوں کا کہنا تھا کہ اِس خاندان کے سب درندوں کی آنکھ میں خنزیر کا بال تھا۔ بھڑوا پنوار شکھنڈی اپنے گھر کے بھیدی پتوار پکھنڈی کے ساتھ مِل کر اپنے بہنو ئیوں کی کمائی پر گُل چھرے اُڑاتا پھرتا تھا۔ پریم بھگتی کے قلزم میں غرق ہونے والی عیار دوشیزہ مصبہو بنو اپنے گھناونے قبیح دھندے کے باعث دغا و دُزدی، پیمان شکنی، کینہ پروری، بغض و حسد اور محسن کشی کا ایسا منحوس استعارہ تھی جسے شہر کے سب لوگ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وہ پتوار پکھنڈی کے ساتھ مِل کر شہر کے باغات میں گھومتی اور نئے پنچھی اپنے جال میں پھانس لیتی تھی۔ تشفی کنجڑے، رمزی تلنگے اور بہرام ٹھگ کی اولاد مصبہو بنو اور پنوار شکھنڈی کو ذہنی افلاس کے مظہر جنسی جنون اور اخلاقی پستی کی ایک کریہہ علامت، کردار کی عفونت و سڑاند کی قبیح مثال اور جور و ستم کی لرزہ خیز داستان قرار دیا جاتا تھا۔

مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کے زمانے میں بد نام طوائف لال کنور اور اس کی ہم پیشہ وہم مشرب و ہم راز سہیلی زہرہ کنجڑن نے غربت کی ایذا رسانی سے بو کھلا کر جس طرح لُوٹ مار کی اسی طرح مصبہو بنوا ور اس کی رذیل جرائم پیشہ سہیلیوں نے اپنے قحبہ خانے اور پورے علاقے میں منشیات اور جنس و جنوں کے تباہ کن دھندے میں ایسے خطرناک پھندے لگائے کہ اکثر نوجوان اِن رسوائے زمانہ طوائفوں کے عشوہ و غمزہ و ادا کے اسیر ہو گئے۔ مشکوک نسب کے ان سفاک سفہا کے بارے میں واقف حال لوگوں کا کہنا تھا کہ عیاش حسینہ مصبہو بنو نے جن رسوائے زمانہ آدم خور یورپی ڈائنوں اور چڑیلوں کی نامرادانہ اور بد بختانہ زیست کی تقلید کی اُن میں بیلے سٹار ( Belle Starr )، مول کٹ پرس ( Moll Cutpurse)، اینے بونی (Anne Bonny)، شارلٹ کورڈے (Charlotte Corday)، میری صورت( Mary Surratt)، ما بارکر (Ma Barker)، بونی واکر(Bonnie Parker) شامل تھیں۔ مصبہو بنو نے کئی سادہ لوح نو جوانوں کو منگنی کے سبز باغ دکھا کر انھیں مفلس و قلاش کر دیا۔ رمزی کے باپ بہرام ٹھگ کی بھی بے شمار پیاریاں تھیں جو اکثر اس کے ساتھ شریک جرم رہتی تھیں۔ اپنے باپ رمزی کا حوالہ دے کر مصبہو بنو یہ بات بر ملا کہتی کہ قلی قطب شاہ کی بارہ پیاریاں جن میں ننھی، سانولی، پیاری، لالن، موہن،، گوری، چھبیلی، لالہ، مشتری، محبوب، مرغوب اور حیدر محل شامل ہیں وہ سب کی سب ہمارے خاندان کے آبائی قحبہ خانوں میں پروان چڑھیں۔ مصبہو بنو جیسی جعل ساز کا دیا سلائی کی ڈبیہ پر تن کر کھڑے ہونا اور ہمالہ کو ہیچ سمجھنا اُس کے احساسِ کم تری کی قابلِ رحم کیفیت سامنے لاتا ہے۔ اس کی شہرت تو محض ایسے بادل کا سایہ ہے جو کسی بھی وقت وسعت افلاک میں کھو جائے گا اور اس کے بعد اِسے معلوم ہو گا کہ کڑی دھُوپ کا سفر کیسے کٹے گا؟

سال 2020 کا آغاز ہوا تو کورونا کی عالمی وبا نے اپنے مسموم اثرات سے نظام کائنات اور معمولات زندگی کو درہم برہم کر دیا۔ سال 2020ء کے اختتام تک دنیا بھر میں اس مہلک وائرس نے لاکھوں گھر بے چراغ کر دئیے اور پندرہ لاکھ پینتیس ہزار ایک سو ( 1535100) افراد کی زندگی کی شمع گُل کر دی۔ اس خطرناک وائرس کے مسموم اثرات سے عالمی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور معمولات زندگی درہم بر ہم ہو گئے۔ عشرت کدوں، قحبہ خانوں اور چنڈو خانوں میں ہر طرف اُلّو بولنے لگے۔ سیاہی وال میں واقع تف سہہ اور مصبہو بنو کا قحبہ خانہ جہاں ہر وقت عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پورے عیاش مے خواروں کا تانتا بندھا رہتا تھا، ویرانی کی حسرت ناک تصویر پیش کرنے لگا۔ اپنی تنہائیوں کو دیکھ کر تف سہہ اور مصبہو بنو تڑپ اُٹھتیں اور پرانے آشنا چہروں کو یاد کر کے کہتیں کہ وہ کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے کہ بھری دنیا ان کا جی ہی نہیں لگتا اور تنہائیوں کو زہر رگ و پے میں سرایت کرنے لگا ہے۔ مصبہو بنو نے آہ بھر کر کہا:

’’ہم جیسی پیشہ ور جنسی کارکنوں کی زندگی کی تمام رُتیں کورونا وائرس کے باعث بے ثمر ہو گئی ہیں۔ اس جان لیوا وائرس کے خوف سے عشرت کدے سنسان ہو گئے ہیں جس کے نتیجے میں ہم قحبہ خانوں کی کارکنوں کو مفلسی نے دبوچ لیا ہے۔ تانیثیت کی رمز آشناڈیانا پئیرس (Diana Pearce) نے سال 1978ء اپنی کتاب میں غربت کی نسواں کاری ( The Feminization of poverty) کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔ ڈیانا پئیرس نے اپنی کتاب جو کچھ کہا اُس میں قحبہ خانوں کی زندگی کے شب و روز کے بارے میں کم کم لکھا گیا ہے۔ حسین و جمیل عورت عالمِ شباب میں غربت کا عذاب کبھی نہیں سہہ سکتی۔ کورونا وائرس کی وبا سے پہلے خرچی کے ذریعے میں اپنے بھائی پنوار شکھنڈی سے زیادہ کما لیتی تھی مگر اب میرا بھائی ٹھگی کی وارداتوں میں مجھ سے آ گے نکل گیا ہے۔ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کروں گی کہ ڈیانا پئیرس نے عورتوں کی غربت کے بارے میں جو مفروضے پیش کیے ہیں وہ درست نہیں۔‘‘

’’اونہہ! یہ منھ اور مسُور کی دال۔‘‘ نائکہ تفسہ نے اپنی کالی زبان نکالی اور غرانے لگی ’’میں نے سنا ہے کہ وسکانسن یونیورسٹی امریکہ کی پروفیسر ڈیانا پئیرس نے امریکی عورتوں کی غربت کے بارے میں یہ کتاب لکھی ہے لیکن اُسے کیا معلوم کہ پس نو آبادیاتی دور میں ایشیائی عورتوں پر کیا صدمے گزرتے ہیں۔ اس خطے کے کلاسیکی ادب کی داستانوں کو کھنگال کر دیکھ لے لیں اس میں طوائفوں کی زندگی کے کرب کے سوا کیا رکھا ہے؟ گزشتہ نصف صدی سے میں دیکھ رہی ہوں کہ بھیڑئیے، خنزیر اور سگانِ آوارہ نے قحبہ خانوں میں کام کرنے والی مجھ جیسی جنسی کارکن عورتوں کا جینا دشوار کر رکھا ہے۔ ہم ان درندوں کو اپنے حُسن و جمال کے جال میں پھانس کر انھیں اس طرح درماندہ کریں گے کہ یہ کوڑی کوڑی کے محتاج ہو جائیں گے اور سسک سسک کر ہلاک ہوں گے۔‘‘

’’یہ تمھاری غلط فہمی ہے کہ تم اپنے حسن و جمال کے جال میں سرمایہ داروں کو پھانس سکتی ہو۔‘‘ پنوار شکھنڈی نے اپنی بہن کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھا اور کہا ’’کالا دھن کمانے والوں کی تجوری خالی کرنے کے لیے صرف جنس و جنون کے ہتھکنڈوں سے منھ کالا کرنا ہی کافی نہیں بل کہ اس کے اور بھی کئی طریقے ہیں۔ میں نے سٹے بازی، ٹھگی، چوری، ڈاکے اور فریب سے زر و مال سمیٹنے کے سیکڑوں طریقے اپنائے تب مجھے اس قدر مال و دولت حاصل ہوئی۔ جب سے کورونا کی عالمی وبا کے باعث قحبہ خانے بند ہوئے ہیں تب سے تم جیسی بیسیوں حسینائیں خوار و زبوں ہیں کوئی بھول کر بھی تمھارے قحبہ خانے کا رُخ نہیں کرتا۔‘‘

بُوڑھی نائکہ تف سہہ نے اپنے بیٹے پنوار شکھنڈی اور بیٹی مصبہو بنو کی باتیں سُن کر ٹسوے بہاتے ہوئے کہا:

’’میں ایک کہنہ مشق اور آزمودہ کار نائکہ ہوں اور زمانے کے کئی نشیب و فراز میرے سامنے ہوئے مگر اپنی زندگی میں حسین و جمیل عورتوں کی اتنی غربت میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ آہ! کورونا کی عالمی وبا نے تو قحبہ خانوں سے وابستہ ہم جنسی کارکنوں کے لیے ایک جان لیوا عذاب کی صورت اختیار کر لی ہے۔ عشرت کدوں، چنڈو خانوں اور قحبہ خانوں سے ہمارے پرستار کیا گئے کہ فصلِ گُل بھی رخصت ہو گئی۔ اب تو خزاں کے سیکڑوں لرزہ خیز مناظر دیکھنے کے سوا باقی کچھ باقی نہیں رہا۔ عالمی وبا کورونا کے بعد تیزی سے بدلتے ہوئے حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ اب صرف جسم فروشی ہی کافی نہیں اب مُحسن کُشی، پیمان شکنی، ضمیر فروشی اور ٹھگی کا دور آ گیا ہے۔‘‘

نیم عریاں لباس پہن کر سر عام دعوت گناہ دینے والی پینترے باز طوائف مصبہو بنونے سدا لال کنور، ادھم بائی، نور بائی، جاوید خواجہ سرا، اور ماہ لقا بائی چندا کی تقلید کو اپنا وتیرہ بنایا۔ اس چالاک اور سفاک طوائف نے اپنی نیم عریاں کلائیوں کو پھیلاتے ہوئے اور آسیبی آنکھوں کو مٹکاتے ہوئے کہا:

’’میری نانی کی دادی اُدھم بائی جو اپنے عہد کی بد نام طوائف تھی، اس نے اپنے جسم و جاں کے وسیلے سے بے پناہ کالا دھن کمایا۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ چمگادڑ جب محمد شاہ رنگیلے کے دور میں ملکۂ ہند بن کر قصر شاہی میں پہنچی تو سلطنت کے سب خزانے اس کے قبضے میں تھے۔ اس کی جوہڑ دِلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سال 1754ء میں اپنی سال گرہ کی تقریب پر اُس نے دو کروڑ روپے خرچ کیے۔ مجھے معلوم ہے کہ شہد کی مکھی کس طرح پھولوں سے مٹھاس کشید کر لیتی ہے اور اپنے چھتے کو شہد سے بھر لیتی ہے۔ میں عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پُورے عیاشوں کو فریب دینے کے نئے انداز تلاش کرنے کی کوشش کروں گی۔ میں اپنی زندگی کی بتیس خزائیں دیکھ چُکی ہوں اَب میں اُن بُوڑھوں کو اپنے جال میں پھانسوں گی جو چراغ سحری ہیں۔ موجودہ دور کے نوجوان لڑکے رومان کے ہیجان میں مبتلا ہو کر جی کا زیان کرنے میں لگے ہیں۔ اُن کی جیب تو خالی ہے مگر دِل میں وصل کی ہزاروں خواہشیں لیے ہیں۔ ان کے دردِ فرقت کا علاج یہی ہے کہ اِن کے ضعیف والدین کی میراث اور زندگی بھر کی جمع پُونجی پر ہاتھ صاف کیا جائے۔ میں ہاتھ کی صفائی دِکھا کر نوجوان لڑکوں کے ضعیف والدین کے گھروں کا صفایا کرتی رہتی ہوں۔‘‘

’’اَب حیلے بہانے چھوڑو اور محمد شاہ رنگیلے کی داستان محبت کو بھُول جاؤ۔ جہاں تک لُوٹ مار کا تعلق ہے تُو اُدھم بائی کی گرد کو بھی نہیں سکتی۔ ہوا میں گرہ لگانے اور خیالی پلاؤ پکانے کی بات بھی اچھی رہی! وہ ضعیف لوگ جو کمر باندھے ہوئے عدم کے کُوچ کی فکر میں ہیں وہ تمھاری فکر کیسے کریں گے؟‘‘ پنوار شکھنڈی نے اپنی طوائف بہن کو غصے سے دیکھا اور نفرت سے کہا ’’بوڑھے لوگ زندگی کے دُکھ بھوگ کر تھک جاتے ہیں اور وہ کسی مہم جوئی کے قابل نہیں رہتے۔ تم ٹھگی کے بارے میں مت سوچنا تمھارے پاس اب کچھ باقی نہیں تمھارے حسن و شباب کا چمن اب وقف خزاں ہو چُکا ہے۔‘‘

شہر کا بدنام تسمہ کش اور مے کش گنوار گھمنڈی جو نائکہ تفسہ کے قحبہ خانے میں جاروب کش کی حیثیت سے بلا معاوضہ خدمات انجام دیتا تھا پیہم ستم کشِ سفر رہنے کے باعث سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا ہو گیا تھا۔ بائکہ تفسہ کے بیٹے پنوار شکھنڈی کے ساتھ اُس کی گاڑھی چھنتی تھی۔ وہ یہ سب باتیں سُن کر تلملانے لگا اور بولا:

ابتدائے قحط ہے روتا ہے کیا

کورنا کے بعد دیکھو ہوتا ہے کیا

سال 2020ء کے آخری مہینا اپنی آخری ہچکیاں لے رہا تھا۔ سہ پہر کا وقت تھا نائکہ تف سہہ نے اپنے قحبہ خانے میں سسلین مافیا سے تعلق رکھنے والے اُس گروہ کو جو اُس کے اشاروں پر کام کرتا تھا اپنے قحبہ خانے میں طلب کیا۔ زد خورو لُدھڑ، ناصف بقال، کرموں بھٹیارا، پنوار شکھنڈی، گنوار گھمنڈی اور پتوار پکھنڈی سب کچے دھاگے سے کھنچے چلے آئے۔ نائکہ تف سہہ نے آہ بھر کر کہا:

’’کورونا وائرس کی عالمی وبا کے نتیجے میں زمانے کے سب انداز بدل گئے ہیں۔ ہمارے قحبہ خانے میں جہاں کبھی شِپر، کرگس، چُغد اور اُلّو کے پٹھوں کا جمگھٹا ہوتا تھا اَب وہاں اُلّو بولتے ہیں۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں ہمیں زر و مال بٹورنے کے نئے طریقے تلاش کرنے پڑیں گے۔ وہ لوگ جو میری جوانی کے دنوں میں مجھے سر آنکھوں پر جگہ دیتے تھے اب وہی لوگ مجھے ضعفِ پیری سے نڈھال بازاری شفتل سمجھ کر منھ پھیر لیتے ہیں۔ میں نے آزمودہ کار چِڑی ماروں سے سُنا ہے آزمائش اور اِبتلا کی گھڑی میں پرانے شکاری نئے جال لاتے ہیں، ضعیف گلوکار نئے ساز آزماتے ہیں اور نئے گیت سنا کر لوگوں کو مسحور کرتے ہیں۔ آؤ کورونا کی عالمی وبا کے بعد ہمارے دھندے میں بڑھتے ہوئے مَندے کا کوئی حل تلاش کریں۔‘‘

’’ہم کوہِ دغا و دُزدی اور مکر و فریب کی موری میں لگی سب اینٹوں کے راز جانتے ہیں۔ سال 2020ء میں ہمارے ساتھ کام کرنے والے ٹھگوں کے ٹولے نے عام ڈگر سے ہٹ کر اور پامال راہوں سے بچ کر لُوٹ مار کی ہے۔‘‘ مصبہو بنو نے اپنی کالی زبان اپنے کریہہ ہونٹوں پر پھیرتے ہوئے کہا ’’میں نے بہو کی اداکاری کر کے ایک سو ریٹائرڈ بوڑھے سرکاری ملازموں کو لُوٹا ہے۔ اُن بُوڑھوں کو مِلنے والی جی پی فنڈ اور بیمہ کی رقم میں نے جھٹ منگنی کی صورت میں اُن کی بہو کا بھیس بنا کر اُن سے بٹور لی۔‘‘

یہ سنتے ہی سب ٹھگوں کی باچھیں کھِل گئیں اور اُنھوں نے اس بتیس سالہ طوائف کی ٹھگی کی بہت تعریف کی۔ سفاک ٹھگ پتوار پکھنڈی نے کہا:

ہم سے کیا ہو سکا ہے ٹھگی میں

تم نے تو خوب بے حیائی کی

اپنی بہن مصبہو بنو کی خود ستائی کو سُن کر گنوار انتھک پیچ و تاب کھانے لگا اور یوں ہرزہ سرا ہوا:

’’مصبہو بنو کی ٹھگی کے اس کھیل کا پُورا منصوبہ تو میں بناتا ہوں۔ مصبہو بنو کی فریب کاری کے ڈرامے کے سب مکالمے میں نے لکھے۔ بندریا کے رقص کو دیکھ کر تماشائی ہمیشہ مداری کی تعریف کرتے ہیں جس نے بندریا کو رقص مے اور ساز کی لے کے سب انداز سکھائے ہوتے ہیں۔ نائکہ تف سہہ جو نو سو چوہے ڈکارنے کے بعد اب گنگا کی یاترا کرنے کی فکر میں ہے اُس نے ہماری کبھی تعریف ہی نہیں کی۔ ہم جان جوکھوں میں ڈال کر زر و مال لُوٹتے ہیں مگر یہاں نائکہ تفسہہ کے قحبہ خانے میں جھابو جھبیل، ایاز و کڑما، نازو مسخرا، زد خورو لُدھڑ، ناصف بقال، کرموں بھٹیارا، پنوار شکھنڈی، گنوار گھمنڈی اور پتوار پکھنڈی جیسے نکھٹو بھڑوے گُل چھرے اُڑاتے پھرتے ہیں۔ یہ نو مفت خور لیموں نچوڑ اَب اپنا کہیں اور ٹھکانہ کر لیں ورنہ اِنھیں عدم کی بے کراں وادیوں میں پہنچا دیا جائے گا۔‘‘

‘‘گنوار انتھک تم تو میری تجوری کے وارث ہو، مجھے سب معلوم ہے کہ تم نے اور مصبہو بنو نے مِل کر درد مندوں اور ضعیفوں کو مکمل طور پر منہدم کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔‘‘ نائکہ تفسہہ نے کھسیانی بِلّی کی طرح کھمبا نوچتے ہوئے کہا ’’لیکن یاد رکھو جن نو ٹھگوں کا تم نے ابھی ذکر کیا ہے یہ پچاس سال تک چُونے والی بھٹیوں کے پورے علاقے میں خوف اور دہشت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ اپنی جوانی کے زمانے میں ان سفاک ٹھگوں نے قتل و غارت گری کی لرزہ خیز مثالیں پیش کیں۔ ان کی نو جوان بیویوں شباہت، ظلی، پونم، روبی، شعاع، سمن، شگن، ساحری اور شمی نے عشوہ و غمزہ و ادا کے تیر چلا کر ہزاروں نوجوانوں کو گھائل کیا اور لُوٹ مار سے سیکڑوں گھر ویران کر دئیے۔ آج یہ نو بوڑھے نا ہنجار بھڑوے بلا شبہ ناکارہ اور خستہ حال ہیں اور پریشاں حالی و درماندگی کے عالم میں ان کی بیویاں اور بیٹیاں بھی انھیں چھوڑ کر اپنے قحبہ خانے چلا رہی ہیں۔ میں نے کئی بار اِن کو چلتا کرنے کی کوشش کی ہے مگر یہ چکنے گھڑے اس قدر ڈھیٹ ہیں کہ دائم یہاں ہمارے قحبہ خانے میں پڑے ہیں۔ اب میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ عالمی وبا کورونا کے بعد بڑھتی ہوئی گرانی کے اس دور میں یہ مفت کی روٹیاں توڑنے کے بجائے اپنے آبائی پیشے گداگری میں لگ جائیں۔ صرف اسی صورت میں یہ بوڑھے بھڑوے فاقہ کشی سے بچ سکتے ہیں۔ اِن میں سے ہر بھڑوا کل کاسۂ گدائی تھام کر شہر کے ہر چوک، مصروف گزر گاہوں اور بازاروں میں گھومے گا اور اِس طرح نہ صرف وہ اپنے لیے رزقِ حرام کا بندوبست کر سکیں گے بل کہ ہمارے لیے بھی مفت خوری کی ایک صورت نکل آئے گی۔ یہ اگر کچھ خست و خجالت کریں تو جیب تراشی اور نوسر بازی کا شغل بھی کر سکتے ہیں۔ کورونا کے بعد چُونے والی بھٹیاں کا ماحول جو سُونا سُونا سا ہے اب ان کے سبز قدم پڑنے سے وہاں ہر طرف پھر چُونا لگنا شروع ہو جائے گا۔‘‘

رسوائے زمانہ ٹھگ اور پیشہ ور نائکہ تف سہہ کی حقارت آمیز باتیں سُن کر سب بھڑوے اپنے دِل پر ہاتھ رکھ کر زار قطار رونے لگے اور آپس میں مشورے کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد پتوار پکھنڈی نے سب بھڑووں کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا:

’’آج نو دولتیے نو جوانوں کی بے وفائی اور کج ادائی دیکھ کر گردہ مع کلیجہ اور پھیپھڑا ہمارے منھ کو آتا ہے۔ ہمارے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ ہماری جوانی میں تم نے ہمیں چُلّو میں اُلّو بنائے رکھا۔ اب تو ہم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چُکے ہیں اور کوئی کام کرنے کی سکت ہم میں موجود نہیں۔ اس حال میں تم نے ہماری پریشاں حالی، درماندگی، بے بسی اور لاچارگی کا صحیح حل نکالا ہے۔ جب مرگ نا گہانی پر ہی ہماری ہر توقع رہ گئی ہو تو ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ہمارے بارے میں سچ تو یہی ہے کہ:

بھڑووں کے ساتھ لوگ کہاں تک نباہ کریں

لیکن نہ موت آئے تو بھڑوے بھی کیا کریں

نائکہ تف سہہ کے قحبہ خانے سے بے نیلِ مرام نکالے جانے کے بعد نو ضعیف بھڑووں کے ناکام و نامراد ٹولے نے بھکاری کا بھیس بنا کر چُونے والی بھٹیوں کے چوک اور اس سے ملحقہ سڑکوں کے کناروں پر ڈیرے ڈال دئیے۔ شام تک ہر بھڑوے کے کشکول میں ایک ہزار روپیہ اکٹھا ہو گیا تھا۔ اپنے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز بھڑووں کو ساتھ لے کر پتوار پکھنڈی سرِ شام نائکہ تف سہہ کے قحبہ خانے میں جا پہنچا۔ جب اِس رذیل نائکہ نے دیکھا کہ بھکاریوں نے محض ایک دِن میں دس ہزار روپے کما لیے ہیں تو اُس کی عفونت زدہ باچھیں کھِل گئیں۔ اس نے غراتے ہوئے کہا:

’’تم سب کوہِ دغا کے صیاد ہو اپنے پیشے میں گریہ و زاری کرو اور مسلسل یہی کام جاری رکھو۔ کھانا مانگ کر کھاؤ اور ہمارے لیے بھی لے کر آؤ جو کماؤ وہ مجھ تک پہنچاؤ۔ رات کو یہاں سو جاؤ اورا ختر شماری کرو اگر کبھی غداری کی تو تریموں ہیڈ ورکس پر دریائے چناب کی طوفانی موجوں کے نہنگ تمھارے منتظر ہیں۔‘‘

چُونے والی بھٹیوں کے پاس ہی بشیر نامی ایک ضعیف معلم کے بارے میں نائکہ تف سہہ نے ساری معلومات اکٹھی کر لیں۔ اس نے اپنے لے پالک بیٹی مصبہو بنو اور بیٹے پنوار شکھنڈی اور گنوار انتھک کو اپنے پاس بُلایا اور ان کو ضعیف معلم بشیر کی ساری جمع پُونجی اور جائیداد بٹورنے کی مہم کے بارے میں ہدایت دیں۔

’’ریٹائرمنٹ کے وقت اس ضعیف معلم کو تیس لاکھ روپے ملے ہیں۔ یہ اپنے دس مرلے کے رہائشی مکان میں رہتا ہے اور اِس کے پاس پانچ تولے سونا بھی ہے۔ اس کے گھر میں گرم بستر، کمبل اور قیمتی برتن بھی ہیں۔ اس کے گھر کا سامان اور زیورات تو گنوار انتھک نقب لگا کر لُوٹ لے گا۔ اب رہ گیا مکان اور تیس لاکھ روپے تو وہ مصبہو بنو اس ضعیف معلم کی بہو کی ادا کاری کر کے اینٹھ لے گی۔ ہم کل ہی اس کے بیٹے کے ساتھ مصبہو بنو کی منگنی کریں گے۔ چونے والی بھٹیاں کے مکینوں اور اُن کے ہم پیشہ کمینوں کے لیے گانٹھ کے پُورے لوگوں کو چُونا لگانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔‘‘

عادی دروغ گو، سفاک قاتل اور پیشہ ور ٹھگ گنوار انتھک آج اپنی ساٹھویں ڈکیتی کی واردات پر نکلا تھا۔ اُس نے نقب زنی کے لیے درکار سامان نکالا اور اسلحہ بھی ساتھ لے لیا۔ وہ اپنے مسلح ساتھیوں کو کہہ رہا تھا کہ چُونے والی بھٹیاں کے مکین بے خبر سو رہے ہیں۔ دُور کسی اُجڑے کھنڈر اور سنسان ویرانے میں غول در غول شِپر اور چُغد شہر نا پرساں اور چُونا بھٹیاں کے بارے میں چیخ چیخ کر کچھ کہہ رہے تھے۔ ان طیورِ بد نوا کی آواز سُن کر اُس نے کہا اے طیورِ آوارہ، ناکارہ اور منحوس میرا یہ پیغام اِن غافل لوگوں تک پہنچا دو جو خچر اور استر بیچ کر اور مُردوں سے شرط باندھ کر سو رہے ہیں:

آج کی رات نہ رونا لوگو

آج ہم ساٹھواں گھر لُوٹیں گے

رات کا پچھلا پہر تھا گنوار انتھک اپنے دو جرائم پیشہ ساتھیوں کے ساتھ ضعیف معلم بشیر کے کمرے میں نقب لگا کر داخل ہوا۔ نقب زنی کی واردات کو مکمل کرنے کے بعد مسلح ڈاکو سر پر گٹھڑیاں اُٹھائے باہر نکلے اور سیدھے نائکہ تف سہہ کے قحبہ خانے میں داخل ہو گئے۔ ضعیف معلم بشیر چند روز تو پریشان رہا مگر جلد ہی وہ اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ چُونا لگانے والے احتساب سے بالاتر ہیں اور بھیڑوں کی حفاظت کی خاطر پالی جانے والی گلے کی باڑ کے گرد لیٹی کتیا نے بھیڑیوں سے ساز باز کر لی ہے۔

اِس بار مصبہو بنو نے اِس بار بھی ایک ریٹائرڈ معلم بشیر کو نشانہ بنایا۔ ضعیف معلم بشیر کا نوجوان بیٹا ساجد کمپیوٹر کا ماہر تھا، ساجد نے اپنے باپ کی تحقیقی تحریریں جن میں ضعیف معلم بشیر کا لکھا ہوا ’’دکنی اور موجودہ اُردو زبان کے افعال کا تقابلی جائزہ‘‘ کا پورا مقالہ شامل تھا اپنے قیمتی لیپ ٹاپ کمپیوٹر، یو ایس بی میں محفوظ کر لی تھیں۔ مصبہو بنو کو اپنی سندی تحقیق کے لیے ساجد کی کمپوز کی ہوئی تحریریں درکار تھیں مگر ان تک رسائی ممکن نہ تھی۔ ریٹائرڈ معلم بشیر کے ساتھ مقدر نے عجب کھیل کھیلا کہ اسے دنیا کے میلے راس ہی نہ آئے۔ چھ جولائی دو ہزار سترہ کو اجل کے ہاتھ میں جو پروانہ تھا اُس میں ساجد کا نام بھی رقم تھا۔ گُل چین اجل نے ضعیف معلم بشیر کے دِل کے گلشن کا یہ حسین اور نو شگفتہ پھول توڑا تو اِس کا دِل ہی ٹُوٹ گیا۔ الم نصیب، جگر فگار اور تقدیر کا مارا ضعیف معلم بشیر، اُس کی اہلیہ، بیٹی اور چھوٹا بیٹا احسن جو لاہور میں ویٹرنری ڈاکٹر کی تعلیم حاصل کر رہا تھا سب غرقابِ غم اور نڈھال تھے۔ ایسے میں مصبہو بنو اپنی ماں اور باپ کے ساتھ مرہم بہ دست پہنچی اور ساجد کے جسد خاکی کے سرہانے بیٹھ کر مگر مچھ کے آنسو بہانے لگی۔ اس اثنا میں ساجد کے کمرے سے اُس کا جو سامان پر اسرار طور پر غائب ہوا اُس میں دو قیمتی لیپ ٹاپ، پانچ یو ایس بی، دو ڈیجیٹل کیمرے، موبائل فون، گھڑی اور رقم والا پرس شامل ہیں۔ یہ سب چیزیں ساجد نے ٹیوشن پڑھا کر خریدی تھیں۔

نو جوان بیٹے کی دائمی مفارقت کے صدمے کے بعد ضعیف معلم بشیر اور اُس کی اہلیہ کی حالت بگڑنے لگی۔ ماہرین امراض قلب نے مشورہ دیا کہ سمے کے سم کے مسموم ثمر سے بچنے کے لیے ان کی توجہ کسی خوشی کی جانب مبذول کرانا ضروری ہے۔ مصبہو بنو اور اُس ماں نے چارہ گری کی آڑ میں اس کی منگنی ضعیف معلم کے بیٹے احسن سے کر دی۔ بہو کی اداکاری کرنے میں مصبہو بنو اپنی مثال آپ تھی وہ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ضعیف معلم کو مائل بہ کرم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ ضعیف معلم کے گھر کے آنگن سے قزاق اجل نے سب کچھ لُوٹ کر اُسے راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا تھا۔ ضعیف معلم کے گھر سے اپنا مطلوبہ مقالہ لُوٹنے کے بعد مصبہو بنو نے ایک جامعہ میں جمع کرا دیا۔ سرقہ شدہ مقالہ کی بنا پر ایم فل کی ڈگری ہتھیانے کے بعد وہ کسی جامعہ میں تدریس اُردو پر مامور ہو گئی۔ وقت کے اس المیے کو کس نام سے تعبیر کیا جائے کے اس بے حس معاشرے میں جاہل اپنی جہالت کا انعام ہتھیا کر ہنہناتے پھرتے ہیں اور بونے اپنے تئیں باون گزے بن کر اہلِ کمال کی توہین، تذلیل اور تضحیک کر کے آسمان پر تھُوکتے رہتے ہیں۔ عقابوں کے نشیمن میں زاغ و زغن اور بُوم و شِپر گھُس گئے ہیں اور کوئی اِنھیں تیر احتساب سے چھلنی کرنے والا موجود نہیں۔ ضعیف معلم بشیر کے بیٹے احسن کے ساتھ جعلی منگنی کے بعد مصبہو بنو نے اپنی بڑی بہن کی دوسری شادی، بہنوں کی اولاد کی پیدائش کے وقت سرجری کے اخراجات، اپنے والد کے علاج اور اپنی شادی کی تیاری کے اخراجات کے لیے ضعیف معلم سے جی پی فنڈ سے ملنے والی ساری رقم بٹور لی اور ساتھ ہی، انعامی بانڈ اور مکان بھی ہتھیا لیا۔ بتیس سال کی عمر میں پہنچتے پہنچتے مصبہو بنو وہ متمول گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کو چُونا لگا چُکی تھی۔ پر اسرار انداز میں منگنیاں کرنے کے بعد اُن رشتوں میں مینگنیاں ڈالنے اور ہر قسم کے عہد و پیمان کی دھجیاں اُڑانے میں مشکوک نسب کے اِن درندوں کا کوئی ہم سر نہ تھا۔ سفاک ٹھگوں نے ایک اور بے بس انسان کا گھر لُوٹ لیا اور اُسے در بہ در اور خاک بہ سر کر دیا۔ سب حقائق خیال و خواب ہونے کے بعد اب ضعیف معلم بشیر اپنی حسرتوں پر آ نسو بہانے کے لیے زندگی کے دِن گِنتا رہتا۔

چُونے والی بھٹیاں سے تعلق رکھنے والے پرانے شکاری نیا جال لے کر شکار کی تلاش میں نکل پڑے۔ اس بار چُونا بھٹیاں سے کچھ دُور سیاہی وال کا ایک کھرب پتی بزاز اُن کے نشانے پر تھا۔ بہو کی اداکاری کرنے والی مصبہو بنو نے سال دو ہزار اکیس کے آغاز میں اپنی جعلی منگنیوں کی ڈبل سنچری پوری کر لی۔ تف سہہ اور اس کی اولاد نے برج الضعیفہ میں اپنا وسیع فلیٹ خرید لیا۔ ہر بڑے شہر کے نواح میں ان کے فارم ہاؤس موجود تھے۔ سال دو ہزار بیس بیت گیا اس کے بعد نیا سال اپنے ساتھ کورونا کی دوسری لہر کی صورت میں ہلاکت خیزیوں کی منحوس خبریں لایا۔ چُونا بھٹیاں کے مکین شدت سے اُس روز کے منتظر تھے جب کورونا وائرس سے کہیں بڑھ کر خطرناک تف سہہ اور مصبہو بنو کے زینۂ ہستی سے اُترنے اور زمین کے بوجھ کے نہ ہونے کی ہونی کی اطلاع سُنیں۔

چُونا بھٹیاں کے اطراف و جوانب میں بھیک مانگنے والے نوبھڑوے بھکاریوں کا ٹولہ اپنی دُکھ بھری داستان کس سے کہتا؟ ایک شام پتوار پکھنڈی نے آٹھ آ ٹھ آنسو روتے ہوئے اپنے آٹھ ساتھی بھکاریوں سے کہا:

’’ان تین پانچ کرنے والی طوائفوں اور اُن کے پروردہ سازشی درندوں نے ہمیں بر باد کر دیا، اب ہماری حسرتوں کا شمار کون کرے گا؟ آج چُونے والی بھٹیوں کی سڑکوں پر ہم ناشاد و ناکارہ پھرتے ہیں اور کوئی ہمیں منھ نہیں لگاتا۔ اگر چُونا بھٹیاں کے گردو نواح میں بیٹھ کر بھیک مانگ کر ہی گزر اوقات کرنا ٹھہرا ہے تو اِس شہر کے فٹ پاتھ کسی کے باپ کی جاگیر نہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ چُونے والی بھٹیاں بہت مہمان نواز ہیں ہم سب رات کو کسی دکان یا سرائے کے تھڑے کے نیچے سگانِ راہ کے مانند لیٹ جائیں گے۔ آج سے ہم تف سہہ کے عقوبت خانے، قحبہ خانے اور چنڈو خانے کا رُخ نہیں کریں گے۔‘‘

چُونا بھٹیاں چوک میں بھیک مانگنے والے سب بھکاریوں نے اس بوڑھے رہزن، سفاک ڈاکو اور جلاد منش تسمہ کش کے خیالات سے اتفاق کیا اور نائکہ تف سہہ سے ترک تعلق کی ٹھان لی۔ نائکہ تف سہہ کی فرمائش پر پتوار پکھنڈی نے قحبہ خانے میں خدمت کے لیے شام کے وقت کچھ دیر وہیں رکنے پر رضا مندی ظاہر کر دی مگر رات گئے وہ اپنے ساتھی بھکاریوں کے پاس چلا جاتا تھا اور سب بھڑووں کی سری کھُرا واڑہ سرائے کے تھڑے کے نیچے رات بسر ہوتی۔ چُونا بھٹیاں کے جرائم پیشہ گروہ کے مقبول ڈیرے ’’پوٹلی پٹھورا ہوٹل‘‘سے نائکہ تف سہہ اور اس کے قحبہ خانے کی طوائفوں اور نوجوان بھڑووں کے لیے رات کا کھانا اور مے عنابی لانا پتوار پکھنڈی کے ذمے تھا۔

ایک شام تف سہہ نے اپنے جرائم پیشہ بیٹوں پنوار شکھنڈی اور گنوار انتھک کو سمجھاتے ہوئے کہا:

’’پتوار پکھنڈی جو میرے خاندان کا شریک جُرم ساتھی رہا ہے، بدلتے ہوئے حالات میں وہ اور اس کے ساتھی بھڑوے ہم سے الگ ہو گئے ہیں۔ یہ بھڑوے جب سے ہمیں چھوڑ کر گئے ہیں انھوں نے سری کھُراواڑہ سرائے کے تھڑے کے نیچے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ عورتوں کی فروخت، سمگلنگ اور منشیات فروشی کے سلسلے میں ہمارے دھندے سے متعلق اِن کے پاس ہمارے بہت سے راز ہیں۔ اِن کو ٹھکانے لگانا بہت ضروری ہے۔ یہ بھڑوے جانتے ہیں کہ ہم نے اپنا سونا، چاندی اور ہیرے جواہرات کہاں چھُپا رکھے ہیں۔ اس لیے جلد از جلد اِن کی نیست و نابود کر دینا چاہیے۔‘‘

’’میں کل آدھی رات کے بعد سری کھرا واڑہ سرائے کے تھڑے کے نیچے جہاں یہ سب بھڑوے سوتے ہیں پٹرول چھڑک کر آگ لگا دوں گا۔‘‘ پنوار شکھنڈی نے غراتے ہوئے کہا ’’ہماری بِلّی اور ہمیں میاؤں۔ یہ بات اب برداشت نہیں ہو سکتی۔ میں نے دنیا دیکھی ہے، کل جو رات آئے گی یہ سب بھڑوے اُس کی صبح کبھی نہ دیکھ سکیں گے۔‘‘

’’یہ ضروری کام راز داری سے کرنا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو ورنہ بھڑوے بچ نکلیں گے۔ اِن کو ملیا میٹ کر دو اور انھیں عبرت کا نشان بنا دو۔‘‘ تف سہہ نے اپنے بیٹوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا ’’پتوار پکھنڈی اور اُس کے ساتھی بُڈھے کھوسٹ بھڑوے طویل عرصہ تک جنسی جنوں میں مبتلا رہے اور عزتوں کے لٹیروں کے آلۂ کار بنے رہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ میں بھی جوانی کے زمانے میں ان کی دہشت، جنسی جنون اور ہوس کے شر سے محفوظ نہ رہ سکی اَب پتوار پکھنڈی اور اُس کے ہم نوالہ و ہم پیالہ بھڑووں کی بیٹیاں حیلے بہانے سے یہاں لاؤ اور اِس قحبہ خانے کی رونق بڑھاؤ۔‘‘

یہ سب باتیں پتوار پکھنڈی سُن چُکا تھا مگر اُس نے یہ تاثر دیا کہ وہ اِن کے قتل کی سازش سے لاعلم ہے۔ اگلی شام رات کی تاریکی بڑھ رہی تھی اسی دوران میں پتوار پکھنڈی تف سہہ کے قحبہ خانے میں داخل ہوا۔ پتوار پکھنڈی حسب معمول پوٹلی پٹھورا ہوٹل سے کھانا لے کر تف سہہ کے قحبہ خانے میں داخل ہوا۔ اُس نے معمول کے مطابق ایک کلو مرغ اور دو کلو بکرے کے گوشت سے تیار کیے گئے کڑاہی گوشت سے بھرا پلاسٹک کا ڈبہ اور گرما گرم روٹیوں کا لفافہ نائکہ تف سہہ کے سامنے میز پر رکھا اور خاموشی سے قحبہ خانے سے باہر نکل آیا۔ قحبہ خانے سے بلند ہونے والے طوائفوں اور عیاش نوجوانوں کے قہقہوں کی گونج دُور تک پتوار پکھنڈی کا تعاقب کرتی رہی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ رات نائکہ تف سہہ کے قحبہ خانے میں خوشیوں کا پیغام لائی ہے۔ قحبہ خانے میں موجود سب لوگ کھانے پر ٹُوٹ پڑے اور جی بھر کر شراب پی۔ کھانا کھاتے ہی تف سہہ کے قحبہ خانے میں موجود سب ٹھگوں اور طوائفوں کی طبیعت خراب ہونے لگی اور وہ منھ کے بَل زمیں پر جا گرے اور زمین پر ایڑیاں رگڑنے لگے۔ سب کے منھ سے جھاگ بہنے لگا اور آنکھیں باہر نکل آئیں۔ جب رات ڈھلی تو قحبہ خانے کے سب مکین اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے۔ صبح ہوئی سُورج کی پہلی کِرن سری کھرا واڑہ سرائے پر پڑی تو سب بھڑوے مسکراتے ہوئے تھڑے سے مطمئن و مسرور باہر نکلے اور نئی صبح کے ماحول کا جائزہ لینے لگے۔ فضا میں طائران خوش نوا چہچہانے لگے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ جرائم پیشہ ٹھگوں کی مرگ انبوہ پر اظہار اطمینان کر رہے ہیں۔ چُونے والی بھٹیاں کے چوک سے ایک برات گزری سازندے نے ڈھول کی تھاپ پر یہ گیت الاپا:

جگ والا میلا یارو تھوڑی دیر دا

ہنسدیاں رات لنگھے پتا نہیں سویر دا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے