گیان چند جین کی مکتوب نگاری ۔۔۔ پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ

مکتوباتی ادب غیر افسانوی ادب میں ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔  ہندوستان میں فارسی کے زوال کے بعد اردو میں خطوط لکھنے کا رواج عام ہوا، اور مشاہیرِ ادب کے خطوط کے مجموعے بھی شائع ہونا شروع ہوئے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اردو میں مکتوباتی ادب کی تاریخ تقریباً دو سو سال پرانی ہے۔  اب تک اردو کے تمام معروف ادیبوں، شاعروں، دانشوروں، عالموں اور صحافیوں کے خطوط کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن سے اردو کے مکتوباتی ادبی سرمایے میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے۔  راقم السطور کے نام گیان چند جین (1923-2007ء) کے خطوط کی تدوین و اشاعت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

گیان چند جین خطوط نویسی کے معاملے میں نہایت زود نویس واقع ہوئے تھے۔  ان کے پاس ڈاک سے کثیر تعداد میں خطوط اور رسائل آتے تھے۔  ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ان خطوط کے جوابات لکھ کر جلد از جلد گلو خلاصی کر لی جائے۔  انھوں نے تا حینِ حیات اپنے دوستوں، ہم عصروں اور شناساؤں کو ہزاروں خطوط لکھے ہوں گے۔  ان میں سے 63 خطوط راقم کے حصے میں آئے جو دستاویزی اہمیت کے حامل ہیں۔ آئندہ سطور میں انہی خطوط کے حوالے سے گیان چند جین کی مکتوبات نگاری سے بحث کی جائے گی۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مکتوب نگاری ایک نوع کا ذاتی ذریعۂ اظہار ہے جس میں مکتوب نگار کی شخصیت کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔  اسے شخصی بیانیہ بھی کہہ سکتے ہیں۔  مکتوب نگاری کے عمل میں مکتوب نگار کی حیثیت مرکزی ہوتی ہے۔  اس کا مخاطَب مکتوب الیہ ہوتا ہے، لیکن وہ غیر فعال (Passive) ہوتا ہے۔  مکتوب نگار اپنے خطوط کے حوالے سے مکتوب الیہ کو بہت کچھ بتانا اور Communicate کرنا چاہتا ہے۔

جہاں تک کہ بہ حیثیتِ مکتوب نگار گیان چند جین کا تعلق ہے تو وہ چھوٹی سے چھوٹی باتوں کا بھی ذکر کرنے سے گریز نہیں کرتے۔  ان کے خطوں میں سیاسی باتیں نہیں ملتیں، کیونکہ وہ سیاسی آدمی نہ تھے۔  ان کا خاص علمی میدان تحقیق اور کلاسیکی اردو ادب تھا۔  ان کے خطوط بالعموم تفصیلی ہوتے ہیں جن میں تکرار بھی پائی جاتی ہے۔  وہ اکثر بھول جاتے ہیں کہ یہی بات وہ اپنے پچھلے خط میں بھی لکھ چکے ہیں۔  وہ اگر کہیں سفر میں بھی جاتے ہیں تو روانگی کی تاریخ اور پھر وہاں سے واپس آنے کی تاریخ درج کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور اکثر یہ بھی لکھتے ہیں وہ کس مقصد سے سفر پر نکلے تھے اور کہاں گئے تھے۔  سفر سے واپسی پر ان کے گھر میں خطوط کا ڈھیر لگ جاتا تھا اور ان کے جوابات لکھنے میں کئی دن گذر جاتے تھے۔ وہ جلسے جلوس اور نام و نمود سے دور رہتے تھے۔  اگر کوئی ان کے لیے ’ارمغان‘ نکالنا چاہتا تھا یا کسی رسالے کا مدیر ان کا ’گوشہ‘ یا خاص نمبر چھاپنا چاہتا تھا تو اسے منع کر دیتے تھے۔  وہ خاصے کفایت شعار، بلکہ بخیل واقع ہوئے تھے۔  ڈاک کا محصول اگر زیادہ لگ جاتا تھا تو ان پر گراں گذرتا تھا۔  ایک خط میں انھوں نے خود کو ’’قوم کا بنیا‘‘ تک لکھ ڈالا ہے۔  اپنے خطوں میں وہ اپنی کتابوں کی طباعت و اشاعت کا اکثر ذکر کرتے ہیں اور ناشر کی عدم توجہی اور بے التفاتی کا بھی شکوہ کرتے ہیں۔  علمی اختلافات کو وہ برا نہیں سمجھتے تھے۔  کوئی شخص خواہ کتنا ہی ذی علم اور با اثر کیوں نہ ہو اس سے علمی معاملات میں اختلاف کرنے میں انھیں ذرا بھی تامل نہیں ہوتا تھا۔  علمی اختلاف کی وجہ سے وہ ذاتی تعلقات میں کوئی فرق پیدا نہیں ہونے دیتے تھے۔  وہ ایک مخلص انسان تھے۔  ان کے خطوط میں خلوص کی آمیزش اور انکساری بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔

سطورِ زیریں میں راقم السطور کے نام گیان چند جین کے مکاتیب سے چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں جن سے ان کی شخصیت، مزاج، افتادِ طبع، نقطۂ نظر، طرزِ فکر اور علمی سرگرمیوں کا پتا چلتا ہے:

ہندی کے اسکالرز جن میں شری رام شرما پیش پیش رہے ہیں، دکنی اردو کو ’دکھنی ہندی‘ کہتے ہیں۔  اس ضمن میں گیان چند جین کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ’’دکن کی زبان کو دکنی ہندی کہنا جائز نہیں۔  یہ دکنی اردو ہے۔‘‘ (مکتوب [آئندہ م] 2، ص 10)

گیان چند جین بنیادی طور پر ادبی محقق تھے، اور تحقیق کا فن اور کلاسیکی اردو ادب ان کی دلچسپی کے خاص موضوعات تھے، لیکن انھوں نے لسانیات کی تربیت بھی حاصل کی تھی اور لسانیات کے کئی سَمر اسکولوں میں شرکت کی تھی، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’میں نے ۶۱ء میں ساگر [یونیورسٹی] میں سَمر اسکول میں شرکت کی۔  ۶۲ء میں دھارواڑ میں Advanced course کیا، لیکن میں اپنی تحریروں میں کئی جگہ لکھ چکا ہوں کہ میرا لسانیات کا علم نہایت محدود ہے۔‘‘ (م 4، ص 14)

گیان چند جین پر اردو والوں کی جانب سے اکثر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ ہندی کے معروف ادیب اور اسکالر، اور منشی پریم چند کے بیٹے امرت رائے (1921-1996ء) نے اردو کے خلاف جو کتاب A House Divided:  The Origin and Development of Hindi/Hindavi (1984) کے نام سے لکھی ہے اس کا سارا مواد گیان چند جین نے انھیں فراہم کیا تھا۔  یہ بات بڑی حد تک صحیح ہے، کیونکہ گیان چند جین نے راقم السطور کے نام اپنے خط مرقومہ 25 جون 1987ء میں خود ہی اس امر کا اعتراف کر لیا ہے۔  وہ لکھتے ہیں:

’’امرت رائے کی کتاب کی یہ کیفیت ہے کہ جب مَیں الٰہ آباد میں تھا (۷۶ء تا مارچ ۷۹ء)، وہ میرے پاس آ کر اس سلسلے کا مواد حاصل کرتے تھے۔  ایک Teacher ہونے کے ناتے سے مَیں انھیں جملہ مواد دیتا تھا۔  اپنی کتابیں اور مضامین بھی، نیز دوسروں کے بھی …انھوں نے اردو فارسی کے تعلق سے جو کچھ مواد حاصل کیا ہے شاید اس کا ایک تہائی میرا دیا ہوا ہے۔‘‘ (م 12، ص 25)

گیان چند جین اپنے اِسی خط میں امرت رائے کا پوری طرح دفاع کرتے ہوئے مجھے یہ بھی لکھتے ہیں کہ:

’’آپ ان کی کتاب کو اردو دشمن کہتے ہیں، ضرور ہو گی۔  وہ آپ کی اور ابو محمد کی تحریروں کو ہندی دشمن کہتے ہوں گے۔ میری رائے میں ہر شخص کو اپنے دِلی عقیدے کے اظہار کا حق ہے۔  میں دیکھ رہا ہوں کہ چند برسوں سے اردو والوں میں Intolerance بہت بڑھ رہی ہے۔‘‘ (م 12، ص 26)

ایک اور خط میں وہ امرت رائے کی متذکرہ کتاب کی تعریف و تحسین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اس کتاب میں جو Erodite scholarship ہے وہ اہلِ اردو کے یہاں کم ملتی ہے۔  ایک ہندی والے کے نقطۂ نظر سے اس میں کافی وسیع النظری بھی ہے۔‘‘ (م 13، ص 29)

گیان چند جین کا 25 جون 1987ء کا خط کافی طویل ہے جس میں انھوں نے اردو کے حوالے سے بابائے اردو مولوی عبد الحق (1870-1961ء) کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’یہ عجیب بات ہے کہ مولوی عبدالحق ۴۷ء سے پہلے ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ اردو، ہندو مسلمانوں کا مشترکہ ورثہ ہے۔  پاکستان جا کر وہ اور ان کے حوارین کہتے ہیں کہ اردو محض مسلمانوں کی زبان ہے۔  اِس میں ہندوؤں کا کوئی ہاتھ نہیں۔  وہ اصرار کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اردو تحریک کا مقصد پاکستان کا قیام تھا۔‘‘ (م 12، ص 27)

گیان چند جین شاعر بھی تھے۔  انھوں نے اپنی شاعری اور شعری مجموعے کا ذکر اپنے خطوں میں اکثر کیا ہے۔  ایک خط مرقومہ 7 فروری 1992ء میں انھوں نے راقم السطور کو یہ اطلاع دی:

’’میرا مجموعۂ کلام سراپا خام ’کچے بول‘ کے نام سے شائع ہو گیا۔‘‘ (م 37، ص 66)

گیان چند جین کو پاکستان دیکھنے کی بہت خواہش تھی، چنانچہ اس کا انتظام بھی ہو گیا تھا۔  انجمن ترقیِ اردو (پاکستان) نے انھیں بابائے اردو لکچر دینے کے لیے کراچی مدعو کیا تھا، لیکن ویزا کی دشواری کی وجہ سے معاملہ ٹلتا رہا تھا۔  وہ اپنے خط مرقومہ 17 نومبر 1992ء میں لکھتے ہیں:

’’اب میں جلسے جلوس کی گوں کا نہیں رہا۔  ہاں، ایک بار پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں۔  انجمن ترقیِ اردو (پاکستان) نے بابائے اردو لکچر کے لیے مدعو کیا ہے۔  مَیں نے اپنا ضخیم لکچر انھیں بھیج دیا ہے۔ تاریخ ۲۲؍ نومبر ۹۲ء تھی، لیکن وہ ملتوی کرنی ہو گی۔  ویزا ملنے میں دِقت اور دیری ہو رہی ہے۔‘‘ (م 41، ص 71)

گیان چند جین ایک ایسے عالم تھے جو ہمہ وقت اپنے علمی و تحقیقی کاموں میں منہمک رہتے تھے۔  اس کے علاوہ انھیں دوسری سرگرمیوں سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔  اربابِ حل و عقد نے جب انھیں ملک کی اردو یونیورسٹی کی کمیٹی کا ایک رکن بنانا چاہا تو انھوں نے اپنی رکنیت کی رضا مندی نہیں دی، لیکن اس خواہش کا اظہار ضرور کیا کہ ’’اردو یونیورسٹی بنائی جائے تو اس کے لیے محض حیدرآباد موزوں مقام ہے اور کوئی نہیں۔‘‘ (م 41، ص 71)

گیان چند جین غیر مسلم ہونے کے باوجود مردم شماری میں اپنی مادری زبان ہمیشہ ’اردو‘ لکھواتے تھے۔  وہ اپنے خط مرقومہ 20 دسمبر 1992ء میں اس سے متعلق ایک واقعے کا یوں ذکر کرتے ہیں:

’’۱۹۹۱ء میں لکھنؤ میں مردم شماری کرنے کے لیے ایک لڑکا میرے گھر آیا۔  انٹر میڈیٹ کا طالب علم تھا اور جز وقتی عارضی طور پر مردم شماری کا کارکن تھا۔  اس نے مجھ سے پوچھ کر میرے کوائف بھر لیے، لیکن زبان کے بارے میں نہ پوچھا۔  میں نے کہا کہ فارم میں زبان کا کالم بھی ہوتا تھا، کیا اب کی بار نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ’’ہے، مَیں نے آپ کی زبان ہندی لکھ لی ہے۔‘‘ مَیں نے کہا:  ’’ایسا کیوں، اسے کاٹ کر اردو لکھو۔‘‘ اور میں نے بچشمِ خود اسے کٹوا کر اردو لکھایا۔‘‘(م 42، ص 72)

گیان چند جین اپنے سفر کے احوال اور جانے آنے کی تاریخوں سے بھی راقم السطور کو مطلع کرتے رہتے تھے۔  انھوں نے امریکہ کے کئی اسفار کیے۔  وہاں کے احوال خود انہی کی زبانی سنیے:

’’میں ابھی تک چار مرتبہ [امریکہ] گیا ہوں اور تقریباً دو دو مہینے ٹھہرا ہوں۔ ۸۳ء میں پہلی بار گیا، امریکہ بہت اچھا لگا۔ کیلی فورنیا کے علاوہ نیویارک، شکاگو وغیرہ اور کناڈا میں ٹورنٹو گیا۔  دوسری بار امریکہ کی دلکشی میں قدرے کمی محسوس ہوئی۔  تیسری بار اور کم دلکش لگا اور چوتھی بار ۹۳ء میں جی چاہا کہ یہاں سے جلد بھاگو، وطن چلو۔  حالانکہ میری ایک لڑکی اور لڑکا لاس اینجلز اور اس کے قرب کے ایک شہر میں ہیں۔‘‘ (م 48، ص 81)

گیان چند جین ہر چند کہ ایک محقق تھے، لیکن بعض دوسرے محققوں کی طرح وہ خشک مزاج نہ تھے اور نہ ہی ان کے چہرے پر روکھا پن تھا۔  ان کی حسِ مزاح بہت تیز تھی۔  وہ اپنے خطوں میں اکثر شگفتگی اور خوش کلامی کا مظاہرہ کرتے تھے۔  ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ میری آنکھیں دُکھنے آ گئی تھیں۔  یہ بات میں نے جین صاحب کو اپنے ایک خط میں لکھ دی۔  انھوں نے فوراً جواب میں لکھا:

’’اگر آنکھ اب بھی دکھتی ہو تو اچھی صورتوں کو دیکھا کیجیے، فرحت ملے گی۔‘‘ (م 53، ص 90)

گیان چند جین کا یہ جملہ پڑھ کر مجھے علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آ گیا:

چشم را بینائی افزاید سہ چیز

سبزہ و آبِ روان و روئے خوش

گیان چند جین اپنے خطوں میں اکثر اپنی بیماری کا ذکر کیا کرتے تھے۔ اپنے خط مرقومہ 7 فروری 1988ء میں وہ لکھتے ہیں:

’’اِدھر ۲۳ جنوری سے مَیں گاہ گاہ بخار میں مبتلا رہا۔  دو دن سے بخار صاف ہے، لیکن کھانسی کو کوئی افاقہ نہیں ہو رہا …وزن کم ہوتا جا رہا ہے۔  بدن کاہیدہ ہو رہا ہے۔  بھوک پہلے سے کم ہے۔  ہو سکتا ہے کہیں اندر کینسر چھپا بیٹھا ہو۔‘‘ (م 15، ص 33)

وہ اپنی بیماری کا حال قدرے تفصیل سے اپنے خط مرقومہ 27 ستمبر 2004ء میں یوں بیان کرتے ہیں:

’’کتنا جی چاہتا ہے آپ کی مزید صحبت کو، لیکن وہ میرا مقسوم نہیں۔  میں اس بیماری کا مریض ہوں جس کا نام ہے Multiple System Atrophy اس بیماری کے بارے میں سائنس کچھ نہیں جانتی۔  اس کا علاج موت کے سوا کچھ نہیں۔ … میں جسم کا توازن کھو چکا ہوں۔  گھر میں واکر سے چلتا ہوں، باہر Wheel Chair سے جسے کوئی اور دھکیلتا ہے۔  اس کے باوجود بار بار گرتا ہوں۔ دماغ پر اندرونی چوٹیں لگتی رہتی ہیں۔  50% مفلوج ہوں۔  سفر نہیں کر سکتا۔‘‘ (م 62، ص 100-101)

گیان چند جین اپنی علمی سرگرمیوں کے بارے میں مجھے برابر مطلع کرتے رہتے تھے، چنانچہ اپنے خط مرقومہ 27 ستمبر 2004ء میں انھوں نے اپنی متنازع فیہ کتاب ’ایک بھاشا:  دو لکھاوٹ، دو ادب‘ کی اشاعت کے بارے میں یہ اطلاع بہم پہنچائی:

’’میری ایک لسانی کتاب ’ایک بھاشا، دو لکھاوٹ، دو ادب‘ ساہتیہ اکادمی شائع کر رہی ہے۔  امید ہے اکتوبر میں آ جائے۔  ڈاکٹر نارنگ سے پوچھیے۔‘‘ (م 62، ص 101)

اسی خط میں انھوں نے مجھے ایک اور اطلاع بھی دی، وہ یہ کہ انھوں نے اپنے لسانی مضامین کے مجموعے ’لسانی رشتے‘ کا انتساب مجھ ناچیز کے نام کیا ہے۔  وہ لکھتے ہیں:

’’کئی سال پہلے میں نے طے کیا کہ اگر ممکن ہو تو میں اپنے متفرق مضامین کی موضوعی ترتیب دوں اور انھیں کئی جلدوں میں پاکستان میں چھپوا دوں۔  مشفق خواجہ نے مدد دینے کا وعدہ کیا۔  اب تک اس سلسلے کی محض چند ہی کتابیں چھپ سکی ہیں۔  لسانیاتی مضامین کو دو جلدیں دی گئیں۔  ایک جلد کا نام ’لسانی رشتے‘ رکھا ہے …اس کا انتساب یوں ہے:

’’ماہرِ علم زبان، شیریں کلام، کرم فرما

ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ کے نام‘‘

گیان چند جین نے اپنے خط مرقومہ 27 ستمبر 2004ء میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ ان کی کتاب ’ایک بھاشا، دو لکھاوٹ، دو ادب‘ ساہتیہ اکادمی شائع کر رہی ہے، لیکن یہ کتاب بوجوہ ساہتیہ اکادمی کے بجائے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے 2005ء میں شائع ہوئی۔  یہ اردو زبان و ادب اور اردو بولنے والوں کے حوالے سے ایک نہایت متنازع فیہ کتاب تھی جس سے جین صاحب کی فرقہ وارانہ ذہنیت اور منفی طرزِ فکر کا پتا چلتا تھا۔  اردو والوں میں اس کا شدید ردِ عمل ہوا اور اس کتاب پر ایک لا متناہی بحث چھڑ گئی۔  میں نے متوازن لہجے اور غیر جذباتی اسلوب میں ایک مدلل و مفصل مضمون لکھ کر متذکرہ کتاب کا رَد پیش کیا۔  یہ مضمون روزنامہ ’قومی آواز‘ (نئی دہلی) میں ’’اردو زبان فرقہ پرستی کے تناظر میں‘‘ کے عنوان سے سلسلہ وار آٹھ قسطوں میں (26 ستمبر تا 5 اکتوبر 2006ء) میں شائع ہوا۔  یہی مضمون میں نے برائے ملاحظہ گیان چند جین کو امریکہ بھیجا جس کے جواب میں انھوں نے 31 جنوری 2007ء کو مجھے خط لکھا جو میرے نام ان کا آخری خط تھا۔  اس کی عبارت یہ تھی:

’’آپ کا مضمون مجھے مل گیا ہے، لیکن اس پر کچھ نہیں لکھ سکتا…اردو ہندی وغیرہ سب کو بھول گیا ہوں۔‘‘ (م 63، ص 102)

اِسی مضمون کو بنیاد بنا کر مَیں نے ایک مختصر کتاب ’ایک بھاشا جو مسترد کر دی گئی‘ تصنیف کی جو ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ سے 2007ء میں شائع ہوئی۔

’ایک بھاشا جو مسترد کر دی گئی‘ کی تقریبِ رونمائی 22 جولائی 2007ء کو ابنِ سینا اکیڈمی، علی گڑھ کے زیر اہتمام منعقد ہوئی جس کے آخر میں مَیں نے اپنے خطاب میں کہا کہ گیان چند جین نے یہ کتاب یک طرفہ اور یک رخے انداز سے لکھی ہے اور اس میں حد درجہ جانب داری سے کام لیا گیا ہے، نیز فرقہ وارانہ خیالات اور منفی طرزِ فکر کو بھی اس میں جگہ دی گئی ہے، مزید یہ کہ یہ کتاب صریحاً اردو زبان اور مسلمانوں (بالخصوص اردو گو مسلمانوں) کے خلاف لکھی گئی ہے۔  میں نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ تحقیقی نقطۂ نظر سے بھی یہ ایک کمزور کتاب ہے، اور تضادات سے بھی پُر ہے۔  اگر میں یہ کتاب نہ لکھتا تو اپنے فرض سے کوتاہی کرتا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے